2009/06/17

ابن صفی - علی سفیان آفاقی

ابن صفی
تحریر : علی سفیان آفاقی


اب تو پڑھنے کا شوق بہت کم ہوگیا ہے خصو صاً نئی نسل میں۔ لیکن ایک زمانے میں مطالعہ ہی اوّلین شوق اور مشغلہ تھا۔
ہمارے بچپن میں ہر محلے میں آنہ لائبریریاں ہو کرتی تھیں جن میں ہر ذوق کے لوگوں کے لیے کتابیں ملا کرتیں تھیں۔ ہم بھی ان لائبریریوں کے شیدائی تھے۔
تاریخی اور جاسوسی ناولوں کے ساتھ افسانے ، کہانیاں ، شعرو شاعری کی کتابیں لے کر آتے تھے۔ گھر والے ہمارے شوق کے مخالف نہ تھے لیکن ایک خاص حد تک ۔
یہ نہیں کہ ہر وقت ناول ہیں اور ہم ہیں۔ اس کا توڑ ہم نے یہ نکالا تھا کہ نصاب کی کتابوں کے درمیان میں ناول اور افسانے کی کتابیں رکھ کر چوری چوری پڑھا کرتے تھے۔ اگر کبھی پکڑے گئے تو شامت آجاتی تھی۔
دراصل عمر کے ہر مرحلے میں مطالعے کا معیار بدلتا رہتا ہے۔ ہم نے بھی تیرتھ رام فیروز پوری کے تراجم، منشی صادق حسین سردھنوی کے اسلامی ناول ، ایم ۔اسلم کے ناولٹ سے آغاز کیا تھا۔ جاسوسی ناول بہت پسندیدہ تھے پھر اسلامی تاریخی ناول ۔ اس کے بعد دوسرے ناول اور افسانے مرغوب رہے۔

نو عمری میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے اِبن صفی کے ناول نہ پڑھے ہوں۔ اِبن صفی اپنے ساتھ ایک نیا انداز اور نئے کردار و اسلوب لے کر آئے تھے۔ نو جوان اور نو عمر لوگ ان کے دلدادہ تھے۔ اِبن صفی کو کو جاسوسی ناول نگاروں میں وہی درجہ حاصل تھا جو اسلامی تاریخی ناولوں میں نسیم حجازی کو حاصل رہا۔ یہ لوگ تیرتھ رام فیروزی اور صادق حسین سر دھنوی کے جانشین تھے اور نئے زمانے کے تقاضوں کو پورا کرنے کی پوری صلاحیت و اہلیت رکھتے تھے۔ کسی نے سچ ہی کہا تھا کہ اگر صاف ستھری نثر لکھنے کاشعور حاصل کرنا ہے تو اِبن صفی کا مطالعہ کرنا چاہئے۔

اللہ اللہ اِبن صفی کے پڑھنے والوں کی دیوانگی اور شوق کا بھی کیا عالم تھا ، بقول شاعر۔
یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے
ہر نو جوان کے ہاتھ میں اِبن صفی کے ناول نظر آتے تھے ۔ انہوں نے انوکھے اور نت نئے کردار تخلیق کئے تھے۔ ایک نئی دنیا پڑھنے والوں سے متعارف کرائی تھی۔ انہیں اپنے انداز کے لکھنے والوں میں ایک ممتاز اور منفرد مقام حاصل تھا۔ انہوں نے ہلکے پھلکے ادب سے پڑھنے والوں کا تعارف کرایا اور ساتھ ہی نئے نئے دلچسپ اور منفرد کردار بھی تراشے جن کے شیدائیوں کی کمی نہ تھی۔
وہ وقت اور زمانے کے مطابق تحریروں کے خالق تھے۔ ان کا انداز ان ہی پر ختم ہو گیا لیکن اس زمانے کے مقبول لکھنے والوں میں ان کا مقام کوئی دوسرا حاصل نہ کر سکا اور نہ کر سکے گا۔
انہوں نے جاسوسی ادب میں بلکل نیا انداز پیش کیا تھا۔ وہ صاحِب طرز ادیب بھی تھے اور شاعر بھی۔ ان کے قارئین کی تعداد لاکھوں کروڑوں میں تھی۔

آج ہیری پوٹر جیسے کرداروں کا چرچا ہے ، ابن صفی کے زمانے میں عمران ، کرنل فریدی ، کیپٹن حمید ، قاسم کا چرچا تھا۔ یہ کردار بے انتہا مقبول اور پسندیدہ تھے۔ یہ سب ان کے اپنے تخلیق کئے ہوئے دلچسپ زندگی سے بھر پور مہم جو کردارتھے جو ہنستے ہنساتے بھی تھے۔اور حیران بھی کردیا کرتے تھے۔
عمران سیریز اپنی طرز کی ایک نئی سیریز تھی۔ جس کے شائقین ہرماہ بے چینی سے انتظار کرتے تھے۔ اِبن صفی نے ساری زندگی اپنی توجہ جاسوسی ناولوں پر مرکوز رکھی تھی۔ جاسوسی دنیا نے قیام پاکستان سے پہلے ہی بے پناہ مقبولیت حاصل کر لی تھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہیری پوٹر کی مصنف نے کروڑوں ڈالرز کمائے ۔ اِبن صفی کے حصے میں لاکھوں روپے بھی نہ آئے!

ہیری پوٹر کی خالق جے۔کے۔رولنگ ، پانچ ناول لکھ کر امیر ترین افراد کی فہرست میں شامل ہو گئیں۔
اِبن صفی کے ناول بلیک میں فروخت ہوتے تھے۔ ان کے ناولوں کا بھی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ نقال اور جعلی اِبن صفی بھی پیدا ہوگئے جو کہ ان کی مقبولیت اور انفرادیت کا ثبوت ہے۔
سارجنٹ حمید، عمران ، کرنل فریدی نے ایسی مقبولیت حاصل کی کہ باید و شاید۔ ان کے پہلے ناول نے ہی پڑھنے والوں کو چونکا دیا تھا۔ اور ان کی توجّہ اپنی جانب مرکوز کر لی تھی۔ لوگ انکے دیوانے تھے۔ انہوں نے کبھی یہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ ان کے کردار کس ملک اور کس جگہ سے تعلق رکھتے ہیں مگر ان کی سحر انگیزی میں کوئی کمی نہیں آئی ۔ پڑھنے والے انہیں حقیقی کردار اور حقیقی دنیا سمجھتے تھے۔ کون تھا جس نے نو عمری اور زمانہ طالب علمی میں ان کا مطالعہ نہ کیا ہو۔

ان کا ہر کردار مختلف اور منفرد تھا۔ وہ حیران بھی کرتا تھا اور ہنساتا بھی تھا۔ انکی ہر سیریز کے کردار مختلف اور انوکھے تھے۔ ان کے عادات واطوار بھی یکسر مختلف اور نرالے تھے۔ اردو کے جاسوسی ادب میں کوئی دوسرا ان کا ثانی اور حریف پیدا نہ ہوا ۔ چالیس کی دہائی سے ستر اور اسی کی دہائی تک انہیں جو ممتاز مقام اور حیثیت حاصل تھی وہ کسی دوسرے کو نصیب نہ ہوئی۔
ادیب ، نقاد اور بڑے بڑے نامور لکھنے والے بھی ان کے قائل اور قاری تھے۔ ان کا کمال یہ تھا کہ وہ ہر ماہ جاسوسی دنیا اور عمران سیریز کے دو ناول لکھتے تھے پڑھنے والے ان کے منتظر رہا کرتے تھے۔ اور ہاتھو ں ہاتھ گرما گرم کیک کی طرح وہ فروخت ہو جاتے تھے۔ سلسلہ سالہا سال تک جاری رہا۔ نہ اِبن صفی کی تخلیقی صلاحیتوں میں کمی آئی نہ انکے پڑھنے والوں اور ان کے ذوق و شوق میں ۔ وہ ساری عمر ادبی مشقت کرتے رہے مگر حق تو یہ ہے کہ اس کے عشرِ عشیر بھی نہ کمایا۔

اِبن صفی کا اصلی نام اسرار احمد تھا۔ ان کا تعلق ایک ممتاز ادبی گھرانے سے تھا۔ ان کا خاندان نارا کے راجا ویشر ادیال سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ لوگ بعد میں ''ناروی '' کے نام سے معروف ہوئے۔ اِبن صفی کے والد کا نام صفی اللہ اور والد ہ کا نام نذیرہ بی بی تھا۔ ان کے والد ایک جاگیر دار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ۔ ان کے دادا تقسیم ہند سے قبل ایک اسکول ٹیچر تھے۔ والدہ کا خاندان حکیموں کا خاندان کہلاتا تھا جن کی کتابیں آج بھی طبّی مدرسوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔

اِبن صفی 26 جولائی 1928ء کو الہ آباد کے ایک گاؤں "نارا" میں پیدا ہوئے اور 26 جولائی 1980ء کو کراچی میں انتقال کر گئے۔ وہ بچپن ہی سے لکھنے لکھانے کا شوق رکھتے تھے۔ وہ ساتویں جماعت میں تھے جب ان کی پہلی کہانی شائع ہوئی تھی۔ انہوں نے الہ آباد یونیورسٹی سے انٹر اور آگرہ یونیورسٹی سے بی۔اے کیا تھا۔ نارا سے ان کا خاندان الہ آباد منتقل ہو گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی عملی زنگی کا آغاز ایک اسکول ٹیچر کی حثیت سے کیا تھا مگر پھر ناول نگاری کی طرف متوجّہ ہوگئے۔ انہوں نے ڈھائی سو سے زائد ناول تحریر کیے جن کا ہندوستان کی بہت سی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا تھا۔ اِبن صفی نے اردو کے جاسوسی ناولوں میں ایک نیا اسلوب اپنایا تھا۔ جو اس سے پہلے اردو میں کبھی کسی نے نہیں اپنایا۔

اِبن صفی کو بچپن ہی سے ادب اور شعر و شا عری سے دلچسپی تھی۔ لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی نو عمری میں ہی شروع کیا تھا۔ اس زمانے میں بھی اردو میں جاسوسی ناولوں کا رواج نہ ہونے کے برابر تھا۔ انگریزی ناولوں کا ترجمہ یا تلخیص ہی شائع ہوتی تھی جو ایک خاص طبقے میں بے حد پسند کی جاتی تھی۔ اِبن صفی کا خیال یہ تھا کہ اردو میں بھی ہلکا پھلکا شگفتہ ادب تخلیق کیا جاسکتا ہے۔ اس نظریے کو ثابت کرنے کے لیے انہوں نے الہ آباد میں "جاسوسی دنیا" کے نام سے ناولوں کا ایک سلسلہ شروع کیا جس میں انہوں نے انسپکٹر فریدی اور سارجنٹ حمید کے کردار پہلی بار قطعی انوکھے اور شگفتہ انداز میں پیش کیے۔
ان کا پہلی جاسوسی ناول "دلیر مجرم" تھا۔ یہ اردو ادب میں ایک نئے تخلیق کار کا پہلا قدم تھا جس نے اس صنف میں نت نئے تجرنبے کیے، نئی زمین اور نئے کردار تخلیق کیے، انوکھے اور دلچسپ واقعات کے تانے بانے پن کر پڑھنے والوں کو مسحور کردیا۔

اِبن صفی اور ان کے ہم مذاق دوستوں نے الہ آباد میں ایک ادبی رسالہ "نکہت" کی اشاعت کا آغاز بھی کیا تھا۔ یہ رسالہ بے حد پسند کیا گیا۔ اس طرح اِبن صفی نے کامیابیوں اور کامرانیوں کے ساتھ اردو ادب میں قدم رکھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اپنا لوہا منوالیا۔ ایک زمانہ ان کا گرویدہ ہوگیا۔ ہلکے پھلکے ادب میں انہیں ایک ممتاز مقام حاصل ہوگیا۔
اِبن صفی نے آغاز میں اسرار احمد کے نام سے لکھا پھر اسرار ناروی کا قلمی نام اختیار کیا۔ انہوں نے فکاہیہ مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ ان کے کردار بھر پور اور مزاحیہ ہوتے تھے ۔ سنکی سپاہی اور تغرل خان کے کردار ان کی ابتدائی تخلیق ہیں۔

ان کے ناولوں کے سلسلے "جاسوسی دنیا" نے قیام ِ پاکستان سے قبل ہی مقبولیت حاصل کر لی تھی ۔ پاکستان آنے کے بعد انہوں نے ایک نیا سلسلہ "عمران سیریز" کے نام سے شروع کر دیا جس کا مرکزی کردار عمران تھا۔ عمران نے اِبن صفی کے کرداروں میں غالباً سب سے زیادہ مقبولیت حاصل کی۔ دوسرے کردار بھی کافی مقبول ہوئے۔
نو عمر ، نو جوان، بوڑھے، خواتین ، سبھی ان ناولوں اور کرداروں کے سحر میں گرفتار ہو گئے ۔ اردو ادب میں اِبن صفی کے ناولوں اور کرداروں سے زیادہ کسی کو ایسی شہرت اور مقبولیت حاصل نہیں ہوئی۔ یہ نام ضرب المثل کی حثیت اختیار کرگئے تھے۔ ان کی مقبولیت اور مانگ نے کئی جعل ساز بھی پیدا کردئے جو اِبن صفی کے نام سے ناول شائع کر کے پیسہ کمایا کرتے تھے۔

اِبن صفی ایک زرخیز ذہن کے مالک تھے۔ ان کے ناولوں اور کرداروں میں ہمیشہ کرئی انوکھی اور چونکا دینے والی بات نظر آتی تھی۔ ہر ماہ دو ناول لکھنا کوئی مذاق نہیں ہے۔ دنیا میں اس کی کوئی دوسری مثال موجود نہیں ہے۔ اِبن صفی کے ناولوں کی اشاعت میں کبھی تاخیر ہوئی نہ ہی ناغہ۔ یہ بھی ایک ریکارڈ سمجھ لیجئے۔
اِبن صفی کے پاکستان آنے سے پہلے حکومت نے انہیں ترقی پسند قرار دے کے ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کردیے تھے حالانکہ اِبن صفی کبھی سکہ بند ترقی پسند ادیب نہیں رہے۔

پاکستان آنے کے بعد انہوں نے پہلے لیاقت آباد اور پھر فردوس کالونی میں اپنا ٹھکانہ بنایا۔ اسی گھر میں ان کا دفتر بھی تھا۔ اپنے تمام جاسوسی ناول انہوں نے اپنے گھر کے اند ر بیٹھ کر ہی تحریر کئے تھے۔
انہوں نے ا سرار پبلیکیشنز کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ بھی قائم کیا تھا۔ اس ادارے کے واحد مصنف اور روح رواں وہ خود تھے۔ "عمران سیریز" اور "جاسوسی دنیا" اس ادارے ہی کی تخلیقات تھیں۔
ابن صفی کی شادی 1952ء میں ہوئی تھی ان کی بیگم کا نام سلمیٰ خاتون تھا۔

ہر ماہ باقاعدگی اور تسلسل کے ساتھ دو ناول لکھنا کوئی آسان کام نہ تھا لیکن اِبن صفی نے بہت پابندی سے اس کو نبھایا یہاں تک کی وہ بیمار پڑ گئے۔ ان کی صحت بہت خراب ہو گئی تھی لیکن ایک حکیم اقبال حسین کے علاج سے وہ صحت یاب ہوگئے اور اردو کے اس منفرد ناول نگار کو اللہ نے ایک نئی زندگی دے دی۔ بیماری سے صحت یاب ہونے کے کچھ عرصے بعد وہی اِبن صفی تھے اور وہی ان کے مہینے میں دو ناول ۔ اِبن صفی کو قدرت نے فطری طور پر ایسا ذہن دیا تھا جس کا رحجان سائنسی تجربات اور پراسرار واقعات کی جانب تھا۔ وہ ایک قدرتی حس رکھتے تھے۔ ان کی ا س صلاحیت سے متاثر ہو کر ایک خفیہ ادارے کے لئے بھی ان کی خدمات حاصل کی گئیں جہاں وہ نوجوانوں کو جاسوسی کے طریقوں کے بارے میں لیکچر دیا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ان کی ناول نگاری کا سلسلہ بھی جاری رہا۔

اِبن صفی کے ناولوں کی اپج اور مقبولیت سے متاثر ہوکر کراچی میں مولانا ہپی نامی ایک فلم ساز نے عمران سیریز کے ایک ناول پر مبنی فلم بھی بنائی تھی جس میں جاوید شیخ اور شبنم نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ فلمساز کا اصل نام محمد حسین تالپور تھا لیکن مولانا ہپی کے نام سے مشہور تھے۔ یہ جاوید شیخ کی پہلی فلم تھی۔
کہانی کے ساتھ انصاف نہ ہونے اور ناقص تکنیکی کمزوریوں کے باعث یہ فلم جس کا نام "دھماکا" رکھا گیا تھا بری طرح فلاپ ہوگئی۔ جاوید شیخ نے ٹی وی ڈراموں میں بہت کامیابی حاصل کی اور بلآخر نذر شباب کی فلم "کبھی الودع نہ کہنا" میں جب دوبارہ شبنم اور سری لنکا کی اداکارہ سبیتا کے ساتھ پیش کئے گئے تو صحیح معنوں میں ان کا دوسرا فلمی جنم تھا۔ یہ فلم سپر ہٹ ثابت ہوئی جس نے جاوید شیخ کو راتوں رات اسٹا ر بنا دیا۔
اِبن صفی کے ایک ناول کو پاکستان ٹیلی ویژ ن نے بھی بنایا تھا لیکن یہ سیریل نمائش کے لیے پیش نہیں کی جا سکی۔ قوی نے ا س سریل میں عمران کا کردار ادا کیا تھا۔

اِبن صفی ساری زنگی قلمی مشقت کرتےرہے تھے۔ 1979ء میں وہ کینسر میں مبتلا ہو گئے اور ایک سال بعد انتقال کر گئے۔ بیماری کے دنوں میں بھی وہ ناول لکھتے رہے ۔ ان کا آخری ناول "آخری آدمی" تھا۔ آخری ناول کا یہ نام محض اتفاق تھا یا انہوں نے جان بوجھ کر رکھا تھا؟ اس بارے میں شاید کوئی نہیں جانتا۔

1980ء میں البیلا ، ذہین اور اپنی طرز کا انوکھا ناول نگار اللہ کو پیارا ہوگیا۔
چند سال تک ان سے ناولوں کو بہت مقبولیت اور پذیرائی حاصل رہی لیکن پھر زمانے کے دستور کے مطابق زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں اور رحجانات کے باعث رفتہ رفتہ اِبن صفی کے ناولوں کی مانگ اور دلکشی میں کمی واقع ہونے لگی۔ اب تو نئی نسل ان کے نام سے بھی واقف نہیں ہے۔ مطالعے کے شوق میں کمی اور ٹی وی کمپیوٹر اور دوسری جدید ایجادات کی جانب رحجان بھی اس کا ایک سبب قراردیا جاسکتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اِبن صفی کو ان کی شان شایان مرتبہ نہ ملا ۔ نہ ہی اس مشقت کا معقول معاوضہ حاصل ہوا۔

اِبن صفی کے ناولوں میں پر اسراریت اور جاسوسی کے عناصر کےساتھ ساتھ انسانی نفسیات سے بھی مدد لی جا تی تھی ۔ انہوں نے بعض ایسے واقعات اور ایجادات کا بھی ذکر کیا ہے جو کہ اس زمانے میں ناپید اورخواب خیال تھے۔ دہشت گردوں کے گروہ جو انہوں نے اپنے ناولوں میں پیش کیے تھے آنے والے زمانے میں حقیقت بن گئے ۔
انہیں انوکھے کردار تخلیق کرنے میں بھی ملکہ حاصل تھا۔ ویسے کردار نہ تو اس سے پہلے کسی نے پیش کیے اور نہ ہی بعد میں ناولوں میںنظر آئے۔ ان کے ناول ہلکے پھلکے ، شوخ و شنگ واقعات ، پر اسرار پیچیدگیوں اور انوکھے کرداروں سے آرستہ ہوتے اور اپنی مخصوص عادات اور خوبیوں یا خامیوں کے باعث فوراً مقبول اور معروف ہوجاتے تھے۔ ان کے ناولوں میں ایک نئی اور انجانی دنیا اور عام انسانوں سے مختلف کردار نظر آتے تھے۔

ادب کے نک چڑھے ٹھیکے داروں اور نقادوں نے اِبن صفی کو کبھی کوئی اہمیت نہیں دی حالانکہ وہ اردو ادب میں ایک نیا اور چونکا دینے والا اضافہ تھے مگر ہم نہ ہی کسی فنکار اور تخلیق ساز کی قدر کرتے ہیں اور نہ انہیں سر آنکھوں ہر بٹھاتے۔
انہیں کڑی محنت کا معقول صلہ بھی نہ مل سکا لیکن جو قبول ِ عام حاصل ہوا وہی ان کا سرمایہ ہے۔ یہ سرمایہ انہیں زندگی میں بھی حاصل رہا اور وفات کے بعد بھی کوئی اس کو چھین نہ سکا۔

اِبن صفی (اسرار احمد) شاید اپنے نام کے اثر کے تحت پراسرار اور جاسوسی ذہن اور سوچ کے حامل تھے اسی لیے اس ذریعے سے انہوں نے شہرت اور عزت حاصل کی ۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ "ناموں میں کیا رکھا ہے" شاید غلط کہتے ہیں۔ ہم نے ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے جو اسمِ بامسمیٰ تھے۔ اپنے ناموں کی مناسبت سے انہوں نے بڑے بڑے کام کیے اور نمایاں حیثیت حاصل کی ۔ یقین نہ ہو تو اسرار احمد ہی کو دیکھ لیجئے۔

کئی بار خیال آتا ہے کہ اگر وہ کسی ترقی یافتہ ملک میں پیدا ہوتے اور وہاں رہتے تو کیا ہوتے؟
بہت بڑا نام !!
کروڑوں میں کھیلتے۔ ان کا نام ہمیشہ کے لیے کتابوں اور لائبریر یوں میں زندہ رہتا لیکن پاکستان جیسے ملک میں رہ کر بھی انہوں نے غیر یقینی حد تک کامیابی ، شہرت اور دولت حاصل کی ۔
یہی بات کیا کم ہے کہی وہ ساری زنگی صرف قلم کے سہارے ہی زندہ رہے۔ یہ اور بات ہے کہ انہوں نے اس کے لیے شب و روز محنت کی۔ محض قلم کے سہارے زندگی گزارنے والے اگر سفید پوشی کا بھرم بھی قائم ر کھ لیں تو یہی بہت بڑی بات ہے۔

سعادت حسن منٹو کی مثال دیکھ لیجئے۔ انہوں نے اتنا لکھا جتنا ایک عام ادیب پڑھتا بھی نہ ہوگا ۔ وہ اردو ادب کے منفرد افسانہ نگار اور لاثانی شخصیت تصور کیے جاتے ہیں مگر وہ کس طرح جئے، عرصہ حیات قائم رکھنے کےلیے انہیں کیا کچھ کرنا پڑا۔ کتنے دکھ سہنے پڑھے۔ کتنے صدمے اٹھانے پڑے۔ یہ کون نہیں جانتا؟
اِبن صفی اور سعادت حسن منٹو کا آپس میں موازنہ نہیں کیا جاسکتا لیکن قلم کی مزدوری اور مشقت کی حد تک وہ کتنے یکساں تھے؟ اس غم بھری داستان کو نہ چھیڑنا ہی بہتر ہوگا۔


کمپوزنگ بشکریہ : بلیک کوئن / لزا خان
پروف ریڈنگ : باذوق

0 تبصرے:

تبصرہ کریں ۔۔۔