tag:blogger.com,1999:blog-52573495127644477612024-03-14T06:33:35.203+03:00ابن صفیایشیا کے عظیم اردو جاسوسی ناول نگار کے فن و شخصیت پر مبنی بلاگباذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.comBlogger35125tag:blogger.com,1999:blog-5257349512764447761.post-13297827493713397142010-09-21T12:01:00.000+03:002010-09-21T12:01:10.666+03:00زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا27 جولائی سن 1980 کی صبح ابن صفی اپنے گھر سے قریبی واقع آفس کی جانب روانہ ہوتے نظر نہیں آئے۔ 26 جولائی کی صبح ان کے اہل خانہ ان کے پرستاروں کی موجودگی مٹی کا حق مٹی کے سپرد کر آئے تھے۔ وہ 25 اور 26 جولائی کی درمیانی صبح اپنے خالق حقیقی سے جاملے تھے۔ وہ ناظم آباد میں واقع اپنے مکان کو چھوڑ گئے اور اپنے نئے مکان کا پتہ بھی کسی کو دے کر نہیں گئے۔<br />
<br />
اب تو یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی<br />
یاروں نے بہت دور بسائی ہیں بستیاں<br />
<br />
26 جولائی کی صبح وہ ہاتھ تہہ خاک ہوئے جو 28 برس اپنے پڑھنے والوں کو نت نئے جہانوں کی سیر کراتے رہے۔ وہ ہاتھ جن کی جنبش میں ترنم تھا اور خاموشی میں شاعری۔ جن کی انگلیوں سے تخلیق کی گنگا بہا کرتی تھی۔ بقول سردار جعفری "" انسان کے تسلسل میں حیاتیاتی عمل کارفرما ہے جو باپ سے بیٹے کی شکل اختیار کرتا ہے۔ لیکن انسانیت کا تسلسل ہاتھوں کی تخلیق کا رہین منت ہے۔ یہ تخلیق بظاہر بے جان ہوتی ہے لیکن جانداروں سے زیادہ جاندار ہوتی ہے۔ ہاتھوں کے بغیر نہ جنگ ممکن ہے نہ امن، محبت ممکن ہے نہ نفرت۔ یہی ہاتھ گلے میں حمائل ہوتے ہیں اور یہی ایک دوسرے کو چھوڑ کر دل کی دھڑکنیں تیز کردیتے ہیں۔ ساز میں سوئے ہوئے نغمے انہی ہاتھوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ ہم آغوشی کے لیے یہی سب سے پہلے آگے بڑھتے ہیں اور رخصت کے وقت یہی سب کے بعد پیچھے ہٹتے ہیں۔ جس طرح ذہن اپنے آپ کو خیال میں تبدیل کرکے اس کو اپنے وجود سے الگ کردیتا ہے اسی طرح ہاتھ اپنے آپ کو قلم اور تلوار، مشین اور اوزار میں تبدیل کرکے انہیں اپنے وجود سے الگ کردیتے ہیں اور وہ چیزیں ہاتھوں سے بھی زیادہ طاقتور بن جاتی ہیں۔"" <br />
<br />
لیکن سری ادب کے موجد ابن صفی کی موت کے ساتھ ان کا دور ختم نہیں ہوتا، شروع ہوتا ہے۔ بڑے ادیب کی زندگی اس کی آنکھیں بند ہونے کے بعد شروع ہوتی ہے۔<br />
<br />
چشم خود بربست و چشم ماکُشاد<br />
<br />
کم و بیش 28 برس پیشتر ابن صفی کے فرزند احمد صفی نے کہا تھا کہ کبھی کھبی یہ غم حافظے کا سہارا لے کر لاشعور کی گہرائیوں سے نکلتا ہے اور آنکھوں کے راستے بہہ جاتا ہے۔ ٹھیک ہی تو کہا تھا، اس لیے کہ اب سے چند روز قبل میں ابن صفی کی بڑی صاحبزادی کو اپنے چہیتے ابو کی یادیں تازہ کرتے دیکھ رہا تھا، ساتھ میں احمد صفی بیٹھے تھے، ان کی ہمشیرہ کی بات کتم ہوئی تو احمد صفی کی آنکھیں ایک بار پھر نم ہوچکی تھیں۔ <br />
<br />
احمد صفی اس جانکاہ سانحے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:<br />
<br />
" 24 جولائی کو ابو کی طبیعت معمول سے زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ معمول سے زیادہ اس لیے کہ اس بیماری کو تقریبا دس ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا تھا۔ ابو پر درد کا پہلہ اور شدید حملہ 17 ستمبر 1979 کی رات کو ہوا تھا اور اس کے بعد صحت مسلسل خراب ہی رہی۔ نومبر 1979 میں بیماری شدت اختیار کرگئی۔ ڈاکٹروں نے طویل معائنوں اور تکلیف دہ ٹیسٹوں کے بعد ایک خطرناک بیماری کا اندیشہ ظاہر کردیا۔ دسمبر 1979 میں ابو کو کراچی کے جناح اسپتال میں داخل کر دیا گیا۔ مزید معائنوں اور ٹیسٹوں نے لبلبہ میں کینسر کی تصدیق کردی۔ اس بات کو ابو سمیت تمام لوگوں سے پوشیدہ رکھا گیا۔ اسپتال میں بہترین علاج اور توجہ سے بظاہر ابو کی بیماری میں کمی ہوگئی۔ اسپتال سے گھر آنے کے بعد علاج جاری رہا لیکن بیماری کی وجہ سے ان کے جسم میں متواتر خون کی کمی واقع ہونے لگی۔ جمعرات 24 جولائی 1980 کو ابو کو بخار آگیا جو اس وقت غیر معمولی بات نہیں تھی لیکن رات ہوتے ہوتے بخار بہت تیز ہوگیا۔ دوسرے دن طبیعت میں خرابی کی وجہ سے میں (احمد صفی) دیر سے سو کر اٹھا۔ امی نے بتایا کہ رات بھر ابو کی طبیعت بہت خراب رہی۔ ابو کو اس وقت بھی خاصا بخار تھا۔ جمعہ کا دن تھا، چھٹی ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر کا ملنا بھی مشکل تھا۔ امی کے مشورے سے میں اور بھیا (ابرار صفی) رحمن بھائی کو لینے چلے گئے۔ ڈاکٹر رحمن آئے تو ابو کا بخار تیز ہوچکا تھا۔ ان کی سانس اس قدر تیز تیز چل رہی تھی کہ بولنا دشوار تھا۔ ڈاکٹر رحمن نے فورا انجکشن منگوائے، جب انہوں نے انجکشن لگانے کے لیے ابو کی آستین سرکائی تو ابو نے منع کیا " میرے بازو اب مزید مت چھیدو" ۔۔ رحمن بھائی نے پاؤں کی رگ میں انجکشن لگایا۔ انجکشن لگنے اور دوا ملنے کے بعد ابو کی طبیعت بہتر ہوگئی اور انہوں نے عادتا طبیعت سنبھلتے ہی باتیں شروع کردیں۔ شام کے وقت افطار کے بعد عیادت کے لیے حسب معمول لوگوں نے آنا شروع کردیا۔ ابو کو کافی تیز بخار تھا، اس کے باوجود آنے جانے والوں سے تھوڑی بہت بات چیت کررہے تھے۔ رحمن بھائی نے جاتے وقت بھیا سے کہا کہ اس وقت تو حالت قدرے بہتر ہے، انشااللہ صبح سب سے پہلے خون چڑھانے کا انتظام کریں گے۔ یہ ایک ایسی صبح کا ذکر تھا جو کبھی نہ آئی۔ اس رات مجھے (احمد) بھی کافی تیز بخار تھا، میں ابو کے پاس سے اٹھتے ہی بڑے کمرے میں چلا گیا اور جاتے ہی سو گیا۔ رات کو ڈیڑھ بجے کا عمل تھا۔ گھڑیاں دیر ہوئے 26 تاریخ کا اعلان کرچکی تھیں۔ ابو نے سارے دن کے بعد بیت الخلا جانے کو کہا۔ سارا دن اس قدر کمزوری رہی تھی کہ ہاتھ نہ اٹھتا تھا لیکن اس وقت خود اٹھے اور سہارا لے کر کمرے سے متصل باتھ روم گئے۔ وہاں سے واپس آئے تو سانس نہایت تیزی سے چلا رہا تھا۔ بھیا کو بلایا کہ پیٹھ سہلا دیں۔ امی نے فورا بھیا کو جگایا۔ جب بھیا پیٹھ سہلا رہے تھے تو ابو نے کہا " ناحق تم لوگوں کو آدھی رات تنگ کررہا ہوں، میری وجہ سے تم لوگوں کو بہت پریشانی ہوتی ہے"۔۔۔۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔۔۔ تھوڑی دیر میں اچانک تکلیف میں اضافہ ہوگیا۔ کراہنے کی آواز سن کر میں فورا کمرے میں پہنچا، اس وقت تک ابو لیٹ چکے تھے۔ ان کی آنکھیں چھت میں گڑی ہوئی تھیں اور سانس چلنے کی وجہ سے پورا پلنگ ہل رہا تھا۔ ہم سب پریشان ہوگئے، امی اور بہنیں گھبرا کر رونے اور دعائیں مانگنے لگیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ میں اور بھیا ابو کے ہاتھ پاؤں سہلانے لگے، ابو کی حالت دیکھ کر سب کی حالت غیر ہو رہی تھی، بھیا روتے جاتے تھے اور ابو کو جھنجھوڑتے جاتے تھے۔ افتخار (بھائی) فورا گاڑی لے کر ڈاکٹر کی طرف دوڑ گیا۔ بھیا اور مجھ میں ابو کے پاس سے ہٹنے کی ہمت نہ تھی۔ امی اور بہنیں پاگلوں کی طرح ادھر سے ادھر دوڑ رہی تھیں۔ اچانک ابو نے زور سے سانس لی اور ان کے چہرے کا کرب یکسر دور ہوگیا۔۔۔۔ وہ بالکل پرسکون ہوگئے۔" <br />
<br />
ابن صفی پر آفیشل ویب سائٹ ابن صفی ڈاٹ انفو کے نگراں کار اور ہمارے کرم فرما جناب محمد حنیف نے مجھے احمد صفی کا مندرجہ بالا مضمون ارسال کرتے وقت تبصرہ کیا کہ "جب بھی میں اسے پڑھتا ہوں، میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں۔" <br />
<br />
ابن صفی کی موت پر ان کی کہانیوں کی مستقل فضائیں بھی مغموم و سوگوار لگتی ہیں۔ عمران کے قہقہ بار فیلٹ ہر اداسی چھائی ہوئی ہے۔ صفدر، جولیا، خاور، نعمانی، چوہان، ظفرالمک، جمن، سلیمان، جوزف، اور یہاں تک کہ عمران جس نے کبھی مایوس ہونا نہ سیکھا تھا۔ سب کے سب غم و اندوہ میں ڈوبی ہوئی اداس تصویریں بنے بیٹھے ہیں۔ ادھر کرنل فریدی کی کوٹھی پر بھی سوگوار فضا طاری ہے۔ کیپٹن حمید واقعی مغموم ہوگیا ہے اور اپنے خالی پائپ کو گھور رہا ہے۔ اور کرنل فریدی۔۔۔ وہ فریدی جس نے کبھی حمید کے اس اظہار خیال پر کہ اب آپ بوڑھے ہوگئے ہیں، کہا تھا کہ "لغو خیال ہے، میں کبھی بوڑھا نہیں ہو سکتا"۔ جس کی ڈکشنری میں مایوسی اور ناکامی جیسے الفاظ نہیں ملتے، وہ فریدی بھی آج افسردگی کے عالم میں بجھے ہوئے سگار کو یوں تک رہا ہے جیسے سگار کی آگ نہ ہو بلکہ ایک تابناک اور بھٹرکتا ہوا شعلہ ہو یکایک سرد ہوگیا ہے۔ غم انگیز پرچھائیوں نے فریدی کے چہرے کو جھریا دیا ہے۔ پہلی بار اس کے چہرے ہر مایوسی کے آثار نظر آئے ہیں اور اس اندوہناک خیال سے اور زیادہ وحشت ہوتی ہے کہ اب کون آئے گا جو ان کے کرداروں میں روح پھونک سکے گا، ان میں جان ڈال کر فریدی کو واقعی فریدی اور عمران کو واقعی عمران بنا کر پیش کرسکے گا۔ حقیقت تو یہ ہے ان دونوں کرداروں کی ہمہ گیریت اور ان کی کردار سازی کے فن سے جتنا ابن صفی واقف تھے کسی دوسرے کا اس کی گرد تک کو پہنچنا بعید از قیاس ہے۔ <br />
<br />
مدتوں ذہن میں گونجوں گا سوالوں کی طرح<br />
تجھ کو یار آؤں گا گزرے ہوئے سالوں کی طرح<br />
ڈوب جائے جو کسی روز خورشید انا<br />
مجھ کو دوہراؤ گے محفلوں میں مثالوں کی طرح<br />
<br />
اپنے چہیتے ‘ابو‘ کے گزر جانے کے بعد محض وہ ساتوں بہن بھائی ہی یتیم نہ ہوئے بلکہ ادرو زبان کا سری ادب بھی یتیم ہوگیا۔<br />
<br />
ابن صفی 26 جولائی 1928 کو الہ آباد کے ایک گاؤں نارا میں صفی اللہ اور نُذیرا بی بی کے گھر پیدا ہوئے۔ زبان کے شاعر نوح ناروی رشتے میں ابن صفی کے ماموں لگتے تھے۔ ابن صفی کا اصل نام اسرار احمد تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم نارا کے پرائمری اسکول میں حاصل کی۔ میٹرک ڈی اے وی اسکول الہ آباد سے کیا جبکہ انٹرمیڈیٹ کی تعلیم الہ آباد کے ایونگ کرسچن کالج سے مکمل کی۔ 1947 میں الہ آباد یونیورسٹی میں بی اے میں داخلہ لیا۔ اسی اثنا میں برصغیر میں تقسیم کے ہنگامے شروع ہوگئے۔ ہنگامے فرو ہوئے تو تعلیم کا ایک سال ضائع ہوچکا تھا لہذا بی اے کی ڈگری آگرہ یونیورسٹی سے یہ شرط پوری کرنے پر ملی کہ امیدوار کا عرصہ دو برس کا تدریسی تجربہ ہو۔ سن 1948 میں عباس حسینی نے ماہنامہ نکہت کا آغاز کیا۔ شعبہ نثر کے نگران ابن سعید (پروفیسر مجاور حسین رضوی جو حیات ہیں اور الہ آباد میں مقیم ہیں ۔ راقم کی ان سے فروری 2010 میں گفتگو ہوئی تھی) تھے جبکہ ابن صفی شعبہ شاعری کے نگران مقرر ہوئے۔ رفتہ رفتہ وہ مختلف قلمی ناموں سے طنز و مزاح اور مختصر کہانیاں لکھنے لگے۔ ان قلمی ناموں میں طغرل فرغان اور سنکی سولجر جیسے اچھوتے نام شامل تھے۔ سن 1948 میں نکہت سے ان کی پہلی کہانی فرار شائع ہوئی۔ 1951 کے اواخر میں بے تکلف دوستوں کی محفل میں کسی نے کہا تھا کہ اردو میں صرف فحش نگاری ہی مقبولیت حاصل کرسکتی ہے۔ ابن صفی نے اس بات سے اختلاف کیا اور کہا کہ کسی بھی لکھنے والے نے فحش نگاری کے اس سیلاب کو اپنی تحریر کے ذریعے روکنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے۔ اس پر دوستوں کا موقف تھا کہ جب تک بازار میں اس کا متبادل دستیاب نہیں ہوگا، لوگ یہی کچھ پڑھتے رہیں گے۔ یہی وہ تاریخ ساز لمحہ تھا جب ابن صفی نے ایسا ادب تخلیق کرنے کی ٹھانی جو بہت جلد لاکھوں پڑھنے والوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ عباس حسینی کے مشورے سے اس کا نام جاسوسی دنیا قرار پایا اور ابن صفی کے قلمی نام سے انسپکٹر فریدی اور سرجنٹ حمید کے کرداروں پر مشتمل سلسلے کا آغاز ہوا جس کا پہلا ناول ‘دلیر مجرم‘ مارچ 1952 میں شائع ہوا۔ 1949 سے 1952 کے عرصے میں ابن صفی پہلے اسلامیہ اسکول اور بعد میں یادگار حسینی اسکول میں ٹیچر کی حیثیت سے خدمات سرانجام سیتے رہے تھے۔ اگست 1952 میں ابن صفی اپنی والدہ اور بہن کے ہمراہ پاکستان آگئے جہاں انہوں نے کراچی کے علاقے لالو کھیت کے سی ون میں 1953 سے 1958 تک رہائش اختیار کی۔ ان کے والد 1947 میں کراچی آچکے تھے۔ واقم نے 1956 میں شائع ہوئے عمران سیریز کے ناول بھیانک آدمی پر درج پتے کی مدد سے مذکورہ مکان ڈھونڈ نکالا جس کی تصاویر وادی اردو ڈاٹ کام پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ اگست 1955 میں ابن صفی نے خوفناک عمارت کے عنوان سے عمران سیریز کا پہلا ناول لکھا اور عمران کے کردار کو راتوں رات مقبولیت حاصل ہوئی۔ بھیانک آدمی، اسرار پبلیکیشنز، 130 حسن علی آفندی روڈ، کراچی سے شائع ہوا تھا۔ مذکورہ ناول کو ماہانہ جاسوسی دنیا نے نومبر 1955 میں کراچی کے ساتھ ساتھ الہ آباد سے بیک وقت شائع کیا تھا۔ اکتوبر 1957 میں ابن صفی نے اسرار پبلیکیشنز کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کے تحت جاسوسی دنیا کا پہلا ناول ٹھنڈی آگ شائع ہوا۔ 1958 میں ابن صفی، لالو کھیت سے کراچی کے علاقے ناظم آباد منتقل ہوگئے۔ جنوری 1959 میں ابن صفی اسرار پبلیکیشنز کو فردوس کالونی، کراچی-18 کے پتے پر منتقل کرچکے تھے اور یوں انہیں اپنی تخلیقات کو پروان چڑھانے کے لیے ایک آرام دہ ماحول میسر آگیا۔ ناظم آباد کے اس گھر میں وہ 1980 میں اپنے انتقال تک مقیم رہے۔ راقم کی ویب سائٹ وادی اردو پر اس مکان کی تصاویر دیکھی جاسکتی ہیں۔ خاص کر اس کمرے کی تصویر بھی موجود ہے جس میں وہ اپنی لازوال کہانیاں تخلیق کیا کرتے تھے، اس کے علاوہ بوگن ویلیا کے اس پودے کی تصویر بھی شامل ہے جسے انہوں نے اپنے ہاتھ سے لگایا تھا۔ <br />
<br />
یہاں اس بات کا ذکر اہم ہے کہ ترقی کے اس موجودہ دور میں جہاں کمپیوٹر اور بالخصوص انٹرنیٹ کا استعمال گھر گھر ہونے لگا ہے اور انٹرنیٹ تیز تر معلومات کے حصول کا ایک اہم ذریعہ بن چکا ہے، ابن صفی کے متعلق بھی خاصی معلومات دستیاب ہیں۔ اس ضمن میں ابن صفی ڈاٹ انفو کا ذکر اوپر کیا جاچکا ہے۔ علاوہ ازیں، راقم کی ویب سائٹ وادی اردو ڈاٹ کام، (جس کا اجرا جولائی 2009 میں کیا گیا) پر بھی ابن صفی کے حوالے سے کئی اہم معلومات، تصاویر اور ویڈیوز دستیاب ہیں۔ وادی اردو پر ابن صفی کی کہانیوں کے حقیقی و لازوال کردار استاد محبوب نرالے عالم کے بارے میں ایک طویل تحقیقی مضمون بمعہ استاد کی نایاب تصاویر، شامل ہے۔ اس کے علاوہ ابن صفی پر اگست 2009 میں کراچی آرٹس کونسل میں ہونے والی پہلی سرکاری تقریب ‘ابن صفی-ایک مکالمہ‘ کی روداد و تصاویر، آج ٹی وی پر 2009 جولائی میں ابن صفی کی برسی پر نشر ہونے والی خبر کی مکمل تصاویر، ابن صفی پر پی ایچ ڈی کی گائڈ لائنز، سن 1972 کے الف لیلہ ڈائجسٹ کے ابن صفی نمبر کا مکمل ریکارڈ، اور اس نوعیت کی بے شمار دلچسپیاں شامل ہیں جنہیں متعلقین کی مکمل اجازت کے بعد شامل کیا گیا ہے۔ یہ تمام معلومات، ابن صفی ڈاٹ انفو پر بھی جناب محمد حنیف کے خصوصی تعاون سے بیک وقت شامل کی جاتی ہیں۔ فرزند ابن صفی، جناب احمد صفی نے 2009 میں مشہور زمانہ ویب سائٹ فیس بک پر ابن صفی کے خصوصی صفحے کا آغاز کیا تھا جسے ابن صفی کے چاہنے والوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ تادم تحریر مذکورہ صفحے کے ممبران کی تعداد تقریبا" 1000 تک جاپہنچی ہے۔ راقم الحروف نے ابن صفی کے دیرینہ دوستوں اور ایسی شخصیات جو ابن صفی کے بارے میں مستند رائے رکھتی ہیں، سے ملاقات کرکے ان کے خیالات کو ویڈیو کی شکل میں ریکارڈ کیا اور یہ تمام ویڈیو کلپس مشہور ویب سائٹ یوٹیوب پر ابن صفی لکھ کر دیکھی جاسکتی ہیں۔ ان شخصیات میں عبید اللہ بیگ اور کمال احمد رضوی جیسے نابغہ روزگار اشخاص شامل ہیں، ان کے علاوہ شاہد منصور، جان عالم، شکیل صدیقی، انوار صدیقی (انکا، اقابلا اور سونا گھاٹ کا پجاری کے مصنف) اور فلمی اداکار و پروڈیوسر جاوید شیخ نے بھی اپنے تاثرات ریکارڈ کروائے۔ یاد رہے کہ جاوید شیخ کو ابن صفی نے فلم "دھماکہ" میں ماضی کی اداکارہ شبنم کے بالمقابل متعارف کروایا تھا۔ اس فلم کے مصنف ابن صفی تھے، ڈائرکٹر قمر زیدی جبکہ پروڈیوسر محمد حسین تالپور عرف مولانا ہپی تھے۔ فلم دھماکہ 29 دسمبر 1974 کو نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ بدقسمتی سے فلم خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر پائی اور مولانا ہپی دلبرداشتہ ہوکر اندرون سندھ واپس چلے گئے جہاں سے وہ کراچی کی فلمی دنیا میں قدم رکھنے کی خاطر آئے تھے۔ وہ دن اور آج کا دن، مولانا کبھی میڈیا کے سامنے نہیں آئے اور نہ ہی ان کی کوئی تصویر یا انٹرویو کہیں شائع ہوا۔یہاں اس بات کا ذکر اہم ہے کہ راقم الحروف ایک عرصے سے اس تگ و دو میں تھا کہ کسی طرح مولانا ہپی سے رابطہ ہوپائے۔ حال ہی میں یہ کوشش بارآور ثابت ہوئی اور ایک مہربان (میجر امین) کے ذریعے مولانا ہپی سے رابطہ ممکن ہوا۔ لیکن تا حال مولانا ہپی کی مصروفیات کی بنا پر ان سے ملاقات ممکن نہیں ہو پائی ہے۔ <br />
<br />
ابن صفی ایک بلند پایہ شاعر بھی تھے۔ احمد صفی سے روایت ہے کہ ابن صفی کے الہ آباد یونیورسٹی میں استاد ڈاکٹر اعجاز حسین نے اپنے ہونہار شاگردوں کے تذکرے ‘ملک ادب کے شہزادے‘ میں ان کا تذکرہ ایک شاعر کی حیثیت سے کیا ہے۔ ڈاکٹر اعجاز، ابن صفی سے ہمیشہ اس بات پر خفا رہے کہ اس نے اسرار ناروی کو قتل کردیا تھا۔ ابن صفی کا نمونہ کلام ملاحظہ ہو:<br />
<br />
راہ طلب میں کون کسی کا، اپنے بھی بیگانے ہیں<br />
چاند سے مکھڑے رشک غزالاں سب جانے پہچانے ہیں<br />
<br />
مے خانے سے دار تلک اپنی ہی کہانی بکھری ہے<br />
رند بنے سرمستی میں کچھ اور بڑھے منصور ہوئے<br />
<br />
بلآخرتھک ہار کے یارو ہم نے یہ تسلیم کیا <br />
اپنی ذات سے عشق ہے سچا باقی سب افسانے ہیں <br />
<br />
لکھنے کو لکھ رہے ہیں غضب کی کہانیاں <br />
لیکن نہ لکھ سکے کبھی اپنی ہی داستاں<br />
<br />
دل فسردہ ہی سہی، چہرے پہ تابانی ہو <br />
ورنہ خوداری احساس پہ حرف آتا ہے<br />
<br />
غم حیات کی دریا دلی نہ پوچھ اسرار<br />
یہ لہلہاتی بہاریں اسی سحاب کی ہیں<br />
<br />
اور اس شعر کی داد تو ابن صفی شاید مرزا نوشہ سے بھی لے لیتے:<br />
<br />
گھٹ کے رہ جاتی ہے رسوائی تھ<br />
کیا کسی پردہ نشیں سے ملیے<br />
<br />
ابن صفی کی شاعری میں اگر سادگی و پرکاری کی کیفیات کا اندازہ لگانا ہو تو یہ اشعار ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں:<br />
<br />
مرے لبوں پہ یہ مسکراہٹ<br />
مگر جو سینے میں درد سا ہے<br />
<br />
اسی جگہ کیوں بھٹک رہا ہوں<br />
اگر یہی گھر کا راستہ ہے<br />
<br />
اور ان نے مندرجہ ژیل شعر کو ان کی ناگہانی وفات کے پس منظر میں دیکھیے تو دل دکھ سے بھر آتا ہے:<br />
<br />
ابھی سے کیوں شام ہورہی ہے<br />
ابھی تو جینے کا حوصلہ ہے<br />
<br />
جناب احمد صفی کی فراہم کردہ، ابن صفی کی ایک نظم دیکھیے:<br />
<br />
محترم دوستو<br />
وہ جو خاموش ہیں جانے کب بول اٹھیں<br />
اس لیے چند چاندی کے چمچے منگاؤ<br />
اور نگراں رہو<br />
جیسے ہی لب کشا ہو کوئی<br />
ایک چاندی کا چمچہ۔۔۔۔۔<br />
اب تمہیں کیا بتانا کہ تم<br />
خود ہی دانا ہو صدیوں سے <br />
چاندی کے اوصاف سے باخبر ہو<br />
عقل و دانش کے پیکر ہو تم<br />
دیدہ ور اور طباع ہو<br />
تیغ اٹھاؤ گے تو تیغ ہی پر اسے <br />
روک لے گا کوئی <br />
دیدہ ور دوستو<br />
صرف چاندی کا چمچہ<br />
تمہارے مسائل کا حل ہے اسے یاد رکھنا<br />
<br />
شاعر لکھنوی نے ابن صفی کو بحیثیت شاعر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا:<br />
<br />
"شاید عام ذہنوں میں یہ تاثر ہو کہ ابن صفی کی شاعری کا معیار غالبا وہ نہ ہوگا جو ان کے جاسوسی ذہن کا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ لوگ ان کے پٹری بدل لینے کو اسی کا نتیجہ سمجھتے ہوں۔ لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ ان کی نظموں کی رنگا رنگی، غزلوں کی جذباتی اور فنی آرائش اس تاثر کی نفی کرتی ہے بلکہ ہمیں اس بات کا یقین کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ ان کی جاسوسی تحریروں کی کشش، خوبصورتی اور سحر انگیزی میں ان کے شاعرانہ مزاج کی کارفرمائی بڑی حد تک موجود ہے۔ اگر وہ شعر و ادب کی راہ سے ہو کر اس منزل پر نہ آتے تو شاید ان کی تحریروں میں سحریت اور اثر انگیزی کی وہ گھلاوٹ کبھی نظر نہ آتی۔ شعر سب سے بڑا جادو ہے اور غزل سب سے بڑی جادوگر۔ ان کی جاسوسی تحریریں پڑھنے والوں پر جو سحر کاری کرتی ہیں وہ وہ ان کے غزل شناس مزاج ہی کی مرہون منت ہے اسی لیے ان میں پڑھنے والوں پر جادو کردینے کی غیر معمولی صلاحیت ملتی ہے۔ ایک جاسوسی ناول نگار اور ناول نویس کی حیثیت سے وہ میرے ایک شناسا کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن ان کی غزلوں اور نظموں کے عمیق مطالعے کے بعد مجھے یہ تمنا ہے کہ کاش وہ میرے دوست ہوتے۔ جہاں تک غزل میں فنی رکھ رکھاؤ، خیال کی ترتیب و تہذیب، الفاظ کر دروبست و معانی کی بزم آرائی کا تعلق ہے، اسرار ناروی کے یہاں یہ خصوصیات اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ موجود ملتی ہیں"" <br />
<br />
شاعری میں ابن صفی کے منفرد اسلوب کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایونگ کرسجین کالج الہ آباد میں ابن صفی کے استاد پروفیسر انوار الحق نے ٹھیک ہی تو کہا تھا کہ ""اسرار جو شاعری کے میدان میں ابھرنے والا تھا، جاسوسی ناول نگار کیسے بن گیا ?"" ۔۔۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ابن صفی کے تخلیق کردی 245 ادب پاروں کا جائزہ لینے سے ہمیں ان میں ابن صفی کا ادبی و شاعرانہ تخیل بطریق احسن نظر آتا ہے۔ <br />
<br />
جون 1960 میں ابن صفی جاسوسی دنیا کا 88 واں ناول پرنس وحشی اور عمران سیریز کا 41 واں ناول بے آواز سیارہ لکھ چکے تھے کہ ان پر شیزوفرینیا نامی بیماری کا شدید حملہ ہوا۔ 1960 سے 1963 تک وہ مکمل طور پر صاحب فراش رہے۔ اس دوران بازار میں طرح طرح کے جعلی صفیوں کی بھرمار ہوگئی۔ (راقم نے ایسے چند جعلی لکھنے والوں کے نام اور ان کی تحریروں کے نمونے وادی اردو پر شامل کیے ہیں)۔ ان میں نجمہ صفی (جس کے باے میں ابن صفی نے بعد میں کہا تھا کہ میرے نام کے قافیے والی ایک صاحبہ بہت عرصے سے غلط فہمی پھیلا رہی ہیں جبکہ میرے والد صاحب بھی ان کے جغرافیے پر روشنی ڈالنے سے قاصر ہیں)، این صفی، ابْن صفی، ایس قریشی، ابن صقی اور اس قبیل کے بہت سے دوسرے شامل تھے۔<br />
<br />
ابن صفی کی بیماری سے متعلق ان کے فرزند احمد صفی اپنے مضمون ‘ابن صفی-چند حقائق‘ میں بیان کرتے ہیں:<br />
<br />
" اس بیماری میں ڈیپریشن اور اختلاج بنیادی اثرات ہوتے ہیں۔ ایک ماہر نفسیات نے نیویارک میں اس پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بہت سے تخلیق کار اس درجہ پر پہنچ جاتے ہیں کہ ان کے ذہن کی کارکردگی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ کہ وہ بہت تیزی سے بہت عمدہ تخلیقات کے ڈھیر لگا دیتے ہیں (جیسا کہ ابن صفی کے قارئین نے دیکھا کہ ایک مہینے میں چار چار ناول تیار ہوجاتے تھے)۔ اس درجہ پر پہنچنے کے بعد ذہن اچانک اپنے آپ کو بند کرلیتا ہپے اور نہ صرف تخلیقی صلاحیتیں منقود ہوجاتی ہیں بلکہ ایک مسلسل ڈپریشن اور اختلاجی کیفت اس پر طاری ہوجاتی ہے جس کے زیر اثر وہ کچھ بھی کر گزر سکتا ہے۔ انہی ماہر نفسیات کے مطابق جس طرح یہ بیماری آتی ہے اسی طرح اچانک پیچھا چھوڑ بھی سکتی ہے۔ اور ابن صفی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ 1963 میں حکیم اقبال حسین کے علاج کے دوران وہ اچانک نارمل ہوگئے۔"<br />
<br />
ابن صفی نارمل کیا ہوئے، ان کے نقالوں کی تو گویا موت واقع ہوگئی۔ وہ جاسوسی ادب کے میدان میں واپس آئے تو اس شان سے کہ عمران سیریز کا ناول ڈیڑھ متوالے لکھا جو ایک انتہائی دلچسپ ناول ہے، ناول کیا ہے لکھا لکھایا اسکرپٹ ہے کہ فلم بنانے کے لیے لوکیشنز منتخب کی جائیں اور بلا تامل فلم بندی کا آغاز ہوجائے۔ ابن صفی کے کئی ناولز پر جاسوسی، نفسیاتی، مہماتی اور آرٹ فلمیں بنائی جاسکتی ہیں کہ حیات و کائنات کا کونسا ایسا مسْلہ ہے جسے انہوں نے اپنی تحریروں میں نہ چھیڑا ہو۔ ان میں محدود پیمانے پر موروثی ہوس، موت کی آندھی، گیارہواں زینہ، وبائی ہیجان، پتھر کی چیخ، گارڈ کا اغوا، شاہی نقارہ، سائے کی لاش جیسے شاہکاروں کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ ابن صفی کی شخصیت ایک ہمہ گیر شخصیت تھی۔ بنیادی طور پر چونکہ وہ ایک اعلی پائے کے شاعر تھے، اسی لیے ان کے ناولوں کے نام بھی ان کے ادبی و شاعرانہ ذوق کے عکاس ہوتے تھے۔ ٹھنڈی آگ، سہمی ہوئی لڑکی، تاریک سائے، سبز لہو، لاش گاتی رہی، آوارہ شہزادہ، چاندنی کا دھواں، چمکیلا غبار، چیختے دریچے، ٹھنڈا سورج، خوشبو کا حملہ وغیرہ۔ <br />
<br />
ابن صفی نجی زندگی میں ایک ہمدردانہ دل رکھنے والے انسان تھے۔ ان کے برادر نسبتی مبین احسن سے روایت ہے کہ "ایک بار اسرار بھائی (ابن صفی) نے میرے محکمے کے ایک ملازم کی ترقی کے بارے میں مجھ سے کہا اور ان صاحب کی ترقی اتفاقا" میرے ہی دستخط سے ہوئی، یہ الگ بات ہے کہ یہ صاحب انہی (ابن صفی) کے لیے مار آستین ثابت ہوئے۔ مرزا حیدر عباس بیان کرتے ہیں کہ "ایک آدمی نے ابن صفی کے ساتھ فراڈ کیا۔ ابن صفی نے مقدمہ کردیا، اس آدمی کو سزا ہوگئی۔ جب معلوم ہوا کہ اس کے بیوی بچوں کا کوئی سہارا نہیں ہے تو انہیں اپنے پاس سے وظیفہ دینا شروع کردیا۔"<br />
<br />
ابن صفی نے اپنے ناولوں میں مستقل کرداروں سے قطع نظر چند ایسے کردار تخلیق کیے جو ذہنوں سے چپک کر رہ جاتے ہیں اور خیر و شر کے جیتے جاگتے نمونے بن کر سامنے آتے ہیں۔ ایسا ہی ایک کردار ان کے ناول "لاشوں کا آبشار" کا مسٹر کیو ہے جو کسی شخص کی ناجائز اولاد ہوتا ہے۔ درجنوں انسانوں کے قاتلوں کی حیثیت سے وہ عدالت میں اپنا بیان دیتا ہے اور جو کچھ ابن صفی اپنے اس کردار کی کہہ گئے ہیں وہ قابل غور ہے۔ ایک ایسا نازک و حساس موضوع ہے جس پر قلم اٹھانے کی جرات بڑے بڑوں کو نہ ہوئی۔ مذکورہ ناول کے اختتام پر، مسٹر کیو قانون کی حراست میں ہوتا ہے اور بھری عدالت میں چند لمحے وہاں موجود مجمع کو گھورتا ہے اور پھر گرج کر کہتا ہے:<br />
<br />
""میں ایک شخص کی ناجائز اولاد ہوں۔۔۔مجھے بتاؤ میں کیا کرتا ? مجھے جواب دو۔۔۔مادر زاد اندھر ہندؤں میں سورداس اور مسلمانوں میں حافظ جی کہلاتے ہیں لیکن میں۔۔ میں کیا بذات خود ایک بہت بڑی مجبوری نہیں تھا ? ۔۔۔۔میں کیا ایک بیماری کی طرح پیدا نہیں ہوا تھا ? ۔۔۔۔ اگر میں شاستر پڑھ لیتا، تب بھی ناجائز ہی رہتا۔۔ اگر قران بھی حفظ کرلیتا تو بھی لوگ مجھے حافظ کہتے ہوئے ہچکچاتے۔۔ آخر کیوں۔۔۔کیا میں بھی ایک اندھے اور لنگڑے کی اپنی پیدائش کے معاملے میں بے بس نہیں تھا ? ۔۔۔۔ میں تمہارے خدا سے پوچھتا ہوں کہ اس نے ناجائز کو کیوں اپنے بندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے ?۔۔۔۔۔ وہ سج کا میں نظفہ ہوں، اگر تائب ہوکر مولوی یا پنڈت ہوگیا ہو تو لوگ اس کے قدم چوم رہے ہوں گے اور وہ بہشت یا سورگ کی آس لگائے بیٹھا ہوگا۔ لیکن میں۔۔۔۔۔ میں کس طرح خود کو بدل سکتا ہوں۔۔۔۔۔میں ناجائز ہوں ۔۔ کوئی عادت نہیں کہ بدل جاؤں۔۔۔۔۔۔۔میں ماضی، حال اور مستقبل، تینوں سے محروم ہوں ۔۔۔۔۔ حال میں اس لیے کامیاب رہا کہ میں خود کو چھپانے میں کامیاب ہوگیا۔۔۔ اگر واقعی کوئی دوسری زندگی بھی ہے تو میں اس بھی مایوس ہوں اس لیے کہ کیونکہ بعض مذہب ناجائز کو بہرحال جہنمی قرار دیتے ہیں، کہتے ہیں کہ ناجائز ہر حال میں مرنے سے قبل خود کو جہنم کا مستحق بنا لیتا ہے۔۔۔۔ چلیے! ناجائز کو راہ مستقیم سے بھی محروم کردیا گیا۔۔۔۔۔پھر آخر کیا کرے۔۔۔کہاں جائے۔۔۔بتاؤ نا! بولو۔۔ جواب دو۔۔۔۔"" <br />
<br />
ابن صفی اپنے ذاتی نظریے میں صرف اور صرف اللہ کی ڈکٹیٹر شپ کے قائل تھے جیسا کہ انہوں نے اپنی ایک کتاب کے پیشرس میں کہا تھا کہ "" میں معاشرے میں صرف اللہ کی ڈکٹیٹر شپ چاہتا ہوں۔ تم انفرادی طور پر اپنی حالت سدھارتے جاؤ، پھر دیکھو کتنی جلدی ایسا معاشرہ بن جاتا ہے جس پر اللہ کی حاکمیت ہو۔ <br />
<br />
ناول "پاگلوں کی انجمن"" سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:<br />
<br />
"" تمہارا ظاہر کچھ بھی ہو لیکن مسلمان ہونا چاہیے۔ کچھ نیکیاں سچے دل سے اپنا کر دیکھو۔ آہستہ آہستہ تم خود ہی کسی جبر و کراہ کے بغیر اپنا ظاہر بھی اللہ کے احکامات کے مطابق بنالو گے۔ قرآن کو پڑھو، اسی پر عمل کرو، اسے علم الکلام کا اکھاڑا نہ بناؤ۔""<br />
<br />
اسی طرح ایک اور سوال کے جواب میں کہ "آپ سیاست میں کس ازم کے قائل ہیں""، ان کا کہنا تھا:<br />
<br />
"" میں تو اللہ کی ڈکٹیٹر شپ کا قائل ہوں۔ اس میں اس کی گنجائش نہیں ہوتی کہ جتنے پگ کا نشہ ہو، ویسا ہی بیان داغ دیا۔ آپ بھی کسی ازم میں پڑنے کے بجائے اسلام کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ سارے ازم محض وقتی حالات کی پیداوار ہیں اور کسی ایک ازم کی دشواری زمانے میں دوسرے ازم کی پیدائش کا سبب بنتی رہتی ہے۔ اسلام کے علاوہ کوئی بھی ازم حرف آخر ہونے کا دعوی نہیں کرسکتا۔ اسلامی نظام حیات آج بھی قابل عمل ہے لیکن اس کے لیے انفرادی طور پر ایماندار بننا پڑے گا اور یہ بےحد مشکل کام ہے۔ پس میرا سیاسی رجحان اللہ کی ڈکٹیٹر شپ کا قیام اور اور میرا فن سکھاتا ہے قانون کا احترام۔""<br />
<br />
اسی مذہبی پس منظر میں دیکھیے تو ابن صفی کی شخصیت کا ایک اور دلنواز پہلو سامنے آتا ہے۔ پروفیسر مجنوں گورکھپوری سن 1972 میں ابن صفی پر اپنے مضمون "اردو میں جاسوسی افسانہ" میں ایک جگہ تحریر کرتے ہیں "" ایک جگہ ابن صفی نے صلواتیں کا لفظ استعمال کیا ہے جو طباعت میں "ص" سے ہے مگر ذیلی حاشیے میں مصنف نے یہ نوٹ لگایا ہے کہ کاتب کی غلطی ہے اور وہ خود "س" سے "سلواتیں" لکھتے ہیں اور اس کو جائز سمجھتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ ایسا کیوں لکھتے ہیں۔ "صلواتیں" گالیوں کے معنوں میں نثر و نظم کے اساتذہ استعمال کرتے آئے ہیں لیکن انہوں نے ہمیشہ اس لفظ کو "س" سے لکھا ہے۔"" <br />
<br />
مجنوں صاحب کے مذکورہ مضمون کے حاشیے میں ایچ اقبال صاحب کا نوٹ ملاحظہ ہو جو انہوں نے پروفیسر صاحب کے ابن صفی پر متذکرہ اعتراض کے جواب میں تحریر کیا: <br />
<br />
"" میں نے ابن صفی صاحب سے اس موضوع پر گفتگو کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ "صلوات" کا ربط خاص ""صلوات بر محمد صلی اللہ و علیہ وسلم"" سے ہے اس لیے وہ احتراما اس لفظ کو برا بھلا کہنے کے معنوں میں استعمال نہیں کرتے اور جب اس کا استعمال ناگزیر ہوجاتا ہے تو اسے "س" سے لکھتے ہیں۔""<br />
<br />
عالمی افق کی ہمہ وقت بدلتی صورتحال پر ابن صفی کی ہمیشہ گہری نظر رہی۔ ترقی پسند تحریک ہو یا پھر وطن عزیز کے لیے ایٹمی پراسسنگ پلانٹ کا حصول، ان کی تحریروں میں جابجا ان معاملات کا ذکر ملتا ہے۔ ان کے دیرینہ دوست اور شاعر و ادیب، جناب شاہد منصور نے اسی موضوع ہر اپنے ایک مضمون میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، وہ لکھتے ہیں:<br />
<br />
"" ہمارے ملک پر بھی ایک ایسا وقت آن پڑا تھا کہ یار لوگوں نے سبز پاکستان کو سرخ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی۔ اس گھبیر وقت کا سامنا کرنے میں بھی ابن صفی صف اول میں سینہ سپر تھے۔ انہوں نے پے درپے اپنے کئی ناولوں میں نہ صرف اس مسئلے کو اٹھایا بلکہ ان ریشہ دوانیوں کا بھی بڑی چابکدستی سے پردہ فاش کیا جو سفارتی ہتھکنڈوں سے ثقافتی سرگرمیوں کے پردے میں کی جارہی تھیں۔ یہاں میں (شاہد منصور) آپ کی خدمت میں ابن صفی کی ایک دھماکہ خیر غزل پیش کررہا ہوں جو ان کی کتاب پاگلوں کی انجمن (سن اشاعت: سن 1970 - راقم) میں استاد محبوب نرالے عالم کی زبانی پیش کی گئی۔ ذرا اس کے پرمعنی طنز اور اس کی تشبیہوں اور استعاروں پر غور کیجیے اور دیکھیے کہ ابن صفی کا سینہ کیسے دینی جوش سے پر تھا اور اپنے قلم کو ہتھیار بنا کر کس طرح انہوں نے اپنے عہد کی خوفناک زہرناکی کا مقابلہ کیا:<br />
<br />
اک دن جلال جبہ و دستار دیکھنا<br />
ارباب مکر و فن کو سر دار دیکھنا<br />
سنتے رہیں کسی بھی دریدہ دہن کی بات <br />
ہم بھی کھلے تو جوش گفتار دیکھنا<br />
قرآن میں ڈھونڈتے ہیں مساوات احمریں <br />
یارو! نیا یہ فتنہ اغیار دیکھنا <br />
ورد زباں ہیں خیر سے آیات پاک بھی <br />
ہے ہرمن یہ خرقہ و پندار دیکھنا<br />
کل تک جو بتکدے کی اڑاتا تھا دھجیاں <br />
اس کے گلے میں حلقہ زنار دیکھنا<br />
لائی گئی ہے لال پری سبزہ زار میں <br />
ہوتے ہیں کتنے لوگ گناہ گار دیکھنا<br />
فرصت ملے جو لال حویلی کے درس سے <br />
اک بوریہ نشیں کے بھی افکار دیکھنا<br />
<br />
ابن صفی ایک اعلی درجے کے مزاح نگار تھے۔ مزاح لکھنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ اسٹیفن لیکاک مزاح کی تعریف کچھ اس طرح بیان کرتا ہے کہ "یہ زندگی کی ناہمواریوں کی اس ہمدردانہ شعور کا نام ہے جس کا فنکارانہ اظہار ہوجائے۔" ۔۔ ابن صفی نے اس فنکارانہ اظہار میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ جاسوسی دنیا کا کردار قاسم اور استاد محبوب نرالے عالم اس کی چند پہترین مثالیں ہے۔ قاسم کا کردار ایک دبیل اور عقل سے پیدل کردار ہے جو کیپٹن حمید کے ساتھ ساتھ نظر آتا ہے اور مختلف موقعوں پر حمید اور کرنل فریدی کےلیے جہاں مشکلات پیدا کرتا ہے وہاں کئی مہمات میں ان کے لیے سہولت کار کا کام بھی انجام دیتا ہے۔ ابن صفی اپنے ناولوں میں ایسی پرلطف صورتحال پیدا کرتے تھے کہ ان کے قارئین بے چینی سے کہانی میں ان کرداروں کی آمد کے منتظر رہا کرتے تھے۔ سیچویشنل کامیڈی کی ایک بہترین مثال عمران سیریز کا ناول ‘چار لکیریں‘ ہے جس کا ابتدائی جملہ پڑھ کر بے اختیار حلق سے قہقہ ابل ہڑتا ہے۔ کہانی میں کچھ یوں ہوتا ہے کہ کیپٹن فیاض اپنی ایک جاگیردار دوست کے یہاں بسلسلہ پارٹی مدعو کیے گئے۔ وہ جاگیردار صاحب عمران کے ساتھ آکسفورڈ میں اکھٹے پڑھتے رہے تھے۔ کیپٹن فیاض کی جو شامت آئی تو اس نے عمران کے دعوت نامے پر مسٹر اینڈ مسز عمران لکھ دیا۔ کچھ تو تفریح کی خاطر اور کچھ یہ سوچ کر بھی کہ شاید عمران روشی (ایک طرحدار عورت) کو بھی ساتھ لیتا آئے گا جس کی خوش مزاجی کیپٹن فیاض کو بیحد پسند تھی۔ اب ناول کا ابتدائی جملہ ملاحظہ ہو:<br />
<br />
" اس وقت کیپٹن فیاض کی کھوپڑی ہوا میں اڑ گئی جب اس نے عمران کے ساتھ شہر کی ایک طوائف دیکھی۔"<br />
<br />
بقیہ صورتحال کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ معززین اور شرفا کی اس تقریب میں عمران صاحب جس طوائف کو اپنے ہمراہ لے گئے تھے وہاں اس کی وجہ سے کیا کیا نہ حماقتیں پھیلی ہوں گی۔<br />
<br />
اسی طرح عمران سیریز کے ایک ناول ‘بحری یتیم خانہ‘ کی ابتدا ایک نائٹ کلب میں کلاسیکی موسیقی کے پروگرام سے ہوئی۔ عمران صاحب وہاں موجود تھے۔ استاد لفگار ٹھمری کا آغاز کرتے ہیں اور ‘نندیا کاہے مارے بول‘ کی جو تکرار شروع کرتے ہیں تو عمران سات منٹ کے انتظار کے بعد استاد لفگار کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوجاتا ہے ۔ "حضور! اب آپ کی تکلیف نہیں دیکھی جاتی، آپ مجھے اپنی نندیا کا پتہ بتائیں، ابھی دوڑ کر پوچھ آتا ہوں کہ کاہے مارے بول۔" ۔۔۔ استاد کی تنک مزاجی مشہور تھی۔ انہوں نے پیلے تو عمران کو حیرت سے دیکھا اور پھر ُسر منڈل پھینک کر انہوں نے عمران کا گریبان پکڑنے کی کوشش کی۔ ہنگامہ ہوگیا۔ کسی نے پوچھا کہ یہ کیا بے ہودگی ہے تو عمران صاحب غصیلے لہجے میں بولے " ان کی نندیا میری بھی رشتے دار ہیں، میں ان کو اس کی اجازت نہیں دے سکتا کہ پیبلک مقامات پر ان کی توہین کرتے پھریں"۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنے میں مینیجر بھی آپہنچا۔ اس نے عمران کی شکل دیکھی تو بری طرح گڑبڑا گیا۔ ""کیا بات ہے جناب عالی"" وہ گڑگڑایا۔۔۔۔عمران استاد کی طرف ہاتھ اٹھا کر بولا "" باجہ بجا کر میری عزیزہ کی توہین کررہے ہیں جناب"" ۔۔۔۔ ادھر استاد لفگار دھاڑے "ارے یہ بہرام خان حرام خان کا کوئی گُرگا ہے حرامی" ۔۔۔ " آپ غلط کہہ رہے ہیں جناب " عمران ادب سے بولا "میں آپ کی نندیا کا سالا ہوں۔" <br />
<br />
ابن صفی کے ناولوں کے پیشرس بھی اپنی جگہ کلاسیکی درجہ رکھتے ہیں۔ اکثر و بیشتر تو وہ اپنے قارئین سے نوک جھونک کے موڈ میں رہا کرتے تھے۔ بعض پڑھنے والے ان کو کس کس طرح کے سوالات کرکے بور کیا کرتے تھے اور وہ ان کو ایسے جوابات دیا کرتے تھے کہ بیجا اور نامنسب تنقید کرنے والے کٹ کر رہ جائیں۔ جاسوسی دنیا کے ایک ناول کے پیشرس میں ٹنڈو آدم کی ایک ٹیلیفون آپریٹر ابن صفی کے سابقہ ناول کو محض بکواس قرار دیتے ہیں، ان کی دانست میں ناول کے نام سے اس کے پلاٹ کا کوئی میل نہ تھا۔ ابن صفی لکھتے ہیں کہ ٹیلیفون آپریٹر صاحب نے آتشی بادل کا اشتہار دیکھ کر اس کے بارے میں کچھ اس قسم کی کہانی خود بنائی ہوگی کہ آگ برساتا ہوا ایک بادل ہے جو تمام شہر پر مسلط ہوگیا ہے، عمارتیں دھڑا دھڑ جل رہی ہیں، پھر عمران اخیر میں اپنی پناہگاہ سے قہقہے لگاتا ہوا برآمد ہوتا ہے اور اس سائنسدان کا ٹیٹوا دباتا ہے جو ایک مشین کے ذریعے آتشی بادل بنا بنا کر فضا کو سپلائی کررہا تھا۔<br />
<br />
آخیر میں ابن صفی ایک ایسی بات لکھتے ہیں کہ پڑھنے والا اچھل پڑے۔۔۔ " یار ٹنڈو آدمی صاحب، خود ہی لکھ کر پڑھ لیا کرو۔"<br />
<br />
غور فرمایا آپ نے ٹنڈو آدمی کی نادر ترکیب پر۔<br />
<br />
اسی طرح چاٹگام سے ایک صاحب ابن صفی کو کتابیں لکھنا ترک کر کے ترکاری بیچنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ابن صفی ان صاحب کو ایک طویل سنجیدہ جواب دیتے ہیں لیکن آخر میں چٹکی لینے سے باز نہیں آتے: " بھئی اپنا نام تو صاف لکھا کریں۔ پہلی نظر میں بدھو داس معلوم ہوتا ہے۔ غور کرو تو رولس رائس پڑھا جاتا ہے۔ ذرا ترچھا کرکے دیکھو تو چلو واپس گھسیٹا ہوا معلوم ہوتا ہے۔"<br />
<br />
ڈیڑھ متوالے کے پیشرس میں وہ اپنے پڑھنے والوں سے عرصہ تین برس کے بعد یوں مخاطب ہیں: " رہی مختلف قسموں کے ابنوں اور صفیوں کی بات تو یہ بیچارے سارے قافیے استعمال کرچکے ہیں لہذا اب مجھے کسی ‘ابن خصی‘ کا انتظار ہے، میری دانست میں تو اب یہی قافیہ بچا ہے۔<br />
<br />
ایک دوسری جگہ اسی ضمن میں شکوے کا دلنشیں و بذلہ سنج انداز ملاحظہ ہو، کہتے ہیں:<br />
<br />
"" مجھے ان کماؤ پوتوں پر ذرا غصہ نہیں آتا۔ بس صرف اتنی سی بات گراں گزرتی ہے کہ لکھنے والے اپنے باپ کا نام بتانے کے بجائے میرے ہی باپ کا نام بتانے لگتے ہیں۔ وہ بھی اس انداز میں کہ میں ہی معلوم ہوں اور وہ ایک آدھ نکتے کے فرق سے کتابیں خریدنے والوں کو دھوکا سے سکیں۔ ایسے آئیے آپ کو ایک راز کی بات بتاؤں۔۔۔۔ وہ یہ کہ باپ کا نام بتائے بغیر کوئی جاسوسی ناول نویس کامیاب ہو ہی نہیں سکتا۔ مگر شرط یہ ہے کہ نام میرے ہی باپ کا بتایا جائے۔"" <br />
<br />
ابن صفی کے ناولوں سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں کہ جن کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ کہیں غلطی سے وہ مروجہ ادب کے میدان میں باضابطہ قدم رکھ دیتے تو بڑے بڑوں کی چھٹی ہوجاتی اور اس لحاظ سے چار حرف لکھ کر اہل کمال ہوجانے والوں کو ابن صفی کا احسان مند ہونا چاہیے کہ انہوں نے ان کو کھل کھیلنے کا موقع فراہم کیا: <br />
<br />
(1)<br />
اگر خود غرضی اور جاہ پرستی سے منہ موڑ لیا جائے، ایک نئے انداز کی سرمایہ داری کی بنیاد ڈالنے کے بجائے خلوص نیت سے وہی کیا جو کہا جاتا رہا ہے تو عوام کی جھلاہٹ رفع ہوجائے گی۔ ضروت ہے کہ انہیں قناعت کا سبق پڑھانے کی بجائے ان کی خودی کو ابھارا جائے جیسا کہ بعض دوسرے ملکوں میں ہوا ہے۔ اللہ کبھی اس پر برہم نہیں ہوسکتا کہ کوئی قوم اپنے حالات کو مدنظر رکھ کر اپنے وسائل کی تقسیم کا مناسب انتظام کرلے۔<br />
<br />
(2)<br />
ان کا طرز حکومت جمہوری کہلاتا ہے۔ جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مغز چند آدمیوں کے حصے میں آئے اور ہڈیاں عوام کے سامنے ڈال دی جائیں۔ یہ اپنے مسائل طاقت ہی سے حل کرتے ہیں مگر اسے اشتراک باہمی کا نام دیتے ہیں۔ اس کے حاکم خود کو عوام کا نمائندہ کہتے ہیں۔ عوام ہی انہیں حکومت کے لیے منتخب کرتے ہیں لیکن یہ ان کی مالی قوت ہی ہوتی ہے جو انہیں اقتدار کی کرسی تک پہنچاتی ہے لیکن وہ اسے عوام کی قوت اور رائے عامہ کہتے ہیں۔ حالانکہ رائے عامہ مالی قوت ہی سے خریدی جاتی ہے۔ انہٰیں منتخب ہونے کے لیے اپنے مخالفوں کے خلاف بڑے بڑے محاذ قائم کرنے پڑتے ہیں۔ ایک خطرناک جنگ شروع ہوتی ہے اور اس جنگ کو رائے عامہ ہموار کرنا کہا جاتا ہے۔ اس میں بھی طاقت ہی کی کارفرمائی ہوتی ہے۔ آخر ایک آدمی مخالفوں کو کچلتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے۔<br />
<br />
(3) <br />
ہماری زمین کے سینے میں کیا نہیں ہے مگر ہم مفلس ہیں۔۔۔۔کاہل ہیں۔۔۔۔۔ہمیں باتیں بنانی آتی ہیں۔ ہم تقریر کرسکتے ہیں، ایک دوسرے پر اپنی ذہنی برتری کا رعب ڈال سکتے ہیں۔ ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے کے لیے اپنی بہترین صلاحیتیں ضائع کرسکتے ہیں۔ لیکن ہم سے تعمیری کام نہیں ہوسکتے۔<br />
<br />
(4)<br />
میں جانتا ہوں کہ حکومتوں سے سرزد ہونے والے جرائم، جرائم نہیں حکمت عملی کہلاتے ہیں۔ جرم تو صرف وہ ہے جو انفرادی حیثیت سے کیا جائے۔<br />
<br />
(5) <br />
تربیت ضروری چیز ہے، یہ کیا کہ ایک معمولی کلرک کو کلرکی کا امتحان دینا پڑے۔ ایک پولیس کانسٹیبل، رنگروٹی کا دور گزارے بغیر کام سے نہ لگایا جائے لیکن ترکاریوں کے آڑھتی، بے مروت جاگیردار اور گاؤدی قسم کے تاجر براہ راست اسمبلیوں میں جابیٹھیں اور قانون سازی فرمانے لگیں اور ان ہی میں سے کچھ کابینہ کے ارکان بن جائیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ نچلی سطح پر امتحانات اور ٹریننگ کا چکر چلتا رہے اور اوپر جس کا دل چاہے پہنچ جائے۔ بس جیب بھاری ہونی چاہیے، نہ کوئی امتحان اور نہ کوئی ٹریننگ۔ <br />
<br />
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ فن کردار نگاری جو کسی بھی کہانی، افسانے یا ناول کا بنیادی وصف ہوتا ہے، ابن صفی کے قلم کی بدولت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دوام حاحل کرچکا۔ اعلی و ارفع ادب کے ‘رہنماؤں‘ کو پتہ ہی نہ چلا کہ 26 جولائی 1980 کو ان کے درمیان سے کس بلا کا اورکس غضب کا کردار نگار اٹھ گیا۔ ادب کے ان رہنماؤں کی نظر میں جرم و سزا کی کوئی وقعت ہی نہیں۔ یہ لوگ نہیں جانتے کہ جرائم کس طرح سماج کو تنزلی کی جانب دھکیلتے ہیں۔ جرائم اور سماج کی مثال آندھی اور جھونپڑیوں کی سی ہے۔ ازل ہی سے جرائم انسانی زندگی اور سماج پر آندھیوں کی طرح جھپٹتے آئے اور ان کے تدارک کے لیے اچھے سے اچھا ادب پیدا کرنا ادیبوں کا فرض ہے۔ اسے تہسرے درجے کا ادب قرار دے کر اس کی طرف سے آنکھیں بند کرلینا ناانصافی ہے۔ انگریزی ادب میں جاسوسی کردار نگاری کی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ ایڈگر ایلن پو (1849-1809) زیڈگ از والئیٹیر (1778-1694)، تھری مسکیٹرز از الیگزنڈر ڈوما (1870-1802)، ہیومن کامیڈی از بالزاک (1850-1799)، مون اسٹون از وکی کولنز (1889-1834)، بلیک ہاؤس از چارلس ڈکنز (1870-1812)، گن فار سیل از گراہم گرین وغیرہ وغیرہ۔<br />
<br />
اردو ادب کی کئی نامور شخصیات ابن صفی کے فن کو سراہتی نظر آتی ہیں۔ جون ایلیا سے روایت ہے کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے ایک بار کہا تھا کہ اس شخص (ابن صفی) کا اردو پر بہت بڑا احسان ہے۔ ان کے علاوہ جن اشخاص نے ابن صفی کی برملا تعریف کی ہے ان میں پروفیسر حسن عسکری، پروفیسر مجنوں گورکھپوری، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، ابراہیم جلیس، سرشار صدیقی، شاعر لکھنوی، رئیس امروہوی، جون ایلیا، امجد اسلام امجد، کالم نگار حسن نثار، ہندوستانی شاعر و مکالمہ نویس جاوید اختر، عبید اللہ بیگ، پروفیسر گوپی چند نارنگ، بشری رحمان، قاضی اختر جونا گڑھی، ڈاکٹر خالد جاوید (جن کی نگرانی میں جامعہ ملیہ دہلی میں ابن صفی کے ناولوں کے حوالے سے عنقریب ایم فل اور ایک پی ایچ ڈی کی تھیسس جمع ہونے والی ہے)، شاہد منصور، صحافی و ادیب مشتاق احمد قریشی، پروفیسر انوار الحق، حریت کے کالم نگار و مشہور صحافی و ادیب نصر اللہ خان وغیرہ وغیرہ۔ اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ میں ڈاکٹر سلیم اختر نے ابن صفی کا ذکر کیا ہے۔ اسی طرح اردو کے ممتاز افسانہ نگار سید محمد اشرف نے ذہن جدید کے ادب پیما میں اردو کے دس بڑے لکھنے والوں میں ابن صفی کا ذکر کیا ہے۔ <br />
<br />
یہاں محترم رئیس امروہوی کا ابن صفی کے انتقال کے بعد مندرجہ ذیل بیان گویا اعترافی بیان سمجھا جانا چاہیے۔ ابن صفی پر اپنے مضمون "جوئے خوں بہتی ہے" میں رئیس صاحب لکھتے ہیں:<br />
<br />
"" جب تک ابن صفی زندہ تھے، ہم سمجھتے تھے کہ ہم ان سے بے نیاز ہیں لیکن اب ہمیں اپنی محرومی اور نیازمندی کا احساس ہوتا ہے۔ اب ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے کس بے شرمی اور سنگ دلی سے اپنے ایک باکمال ہم عصر کو نظر انداز کررکھا تھا۔ یہاں ‘ہم‘ سے مراد عام قاری نہیں کہ وہ تو ابن صفی کا عاشق تھا۔ ‘ہم‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جو ناول، افسانے اور داستاں سرائی کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔"" <br />
<br />
ڈاکٹر خالد جاوید نے ایک بار کہا تھا کہ "" ابن صفی اردو میں ایک روایت کا نام ہیں مگر یہ روایت ان کے ساتھ ہی ختم ہوگئی۔ ہماری تنقید نے ان کے ساتھ سگا یا سوتیلا، کسی قسم کا برتاؤ نہیں کیا۔ یہ اسی قسم کی صورتحال ہے جیسے اعلی قسم کا فلم بین طبقہ اور سنیما کے ناقدین نصیر الدین شاہ کے ساتھ دلیپ کمار کا نام لیتے ہوئے ہونٹ دبا لیتے ہیں یا موسیقی کا اعلی ذوق رکھنے والا طبقہ اشرافیہ بھیم سین جوشی کے ساتھ محمد رفیع کے بارے میں کچھ کہنے میں ہتک محسوس کرتا ہے۔ تو کیا "پاپولر" کو صرف اس لیے نکال باہر کیا جائے کہ عوام نے اسے پسند کیوں کیا۔ ترقی پسند حضرات کو اس پر اور بھی زیادہ غور و خوص کرنے کی ضرورت ہے۔"" <br />
<br />
کاش کوئی اس بارے میں سوچے کہ شہر کراچی کی، جہاں ابن صفی تمام عمر قیام پذیر رہے، کوئی سڑک، فلائی اوؤر یا کسی عمارت کا نام ان کے نام پر رکھ دیا جائے۔ اسی طرح کراچی یونیورسٹی کو چاہیے کہ ابن صفی پر بلاتاخیر تحقیقی کام شروع کرائے کہ اس سے فن جاسوسی ناول نگاری کے خد و خال ابھر کر سامنے آئیں گے۔ <br />
<br />
ابن صفی کی ادبی حیثیت کا تعین نہ ہوسکا۔۔۔۔۔ ابن صفی اور جاسوسی ادب سے ادب کے ٹھکیداروں کی الرجی ختم نہ ہوسکی۔ جدید جاسوسی ادب کی تاریخ ابن صفی کو کبھی فراموش نہ کرسکے گی اور اگر اس کی مرتکب ہوئی تو اس کا حشر بھی ان نقالوں کا سا ہوگا جو ابن صفی کے نام کے قافیے سے ملتے جلتے نام رکھ کر پڑھنے والوں کو دھوکا دیتے رہے ہیں۔ جب انسانوں کی کوئی جماعت اللہ تعالی کے احکام اور اس کی اطاعت سے مسلسل روگردانی کرتی ہے تو آخر کار غیرت الہی جوش میں آجاتی ہے اور طرح طرح کے عذاب نازل ہوتے ہیں لیکن جس قوم کو سب سے بڑھ کر عبرتناک سزا دینا مطلوب ہوتا ہے، اللہ تعالی اس کے چہرے کو مسخ کردیتا ہے اور ایسے لوگ اپنی شناخت گم کردیتے ہیں۔۔۔۔۔۔ادب کے ان نام نہاد ٹھکیداروں کا چہرہ بھی مسخ ہوگیا ہے۔۔۔۔ان کی شناخت گم ہوگئی ہے! جہاں قول فعل کو اپنے پیچھے ہانپتا چھوڑ آئے وہاں حرف اپنی حرمت و تاثیر کھو دیتا ہے۔<br />
<br />
ابن صفی ایک ایسا بت تھے جسے توڑنے کی، مایوس و پژمردہ کرنے کی، نیچا دکھنے کی اور اس کی نقالی میں قارئین کو گمراہ کرنے کی بڑے بڑے بت شکنوں نے تمام عمر سعی کی تھی۔ مگر جب ایسے لوگوں کے ہتھوڑے اور تیشے اس بت کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے سستانے لگتے تھے، وہ ٹکڑے ازسرنو اکھٹا ہوکر اس خوبصورت بت کی شکل اختیار کر لیتے تھے جس کا نام ابن صفی ہے اور جو اپنے تنقیص نگاروں کو مخاطب کرکے اپنی نرم ، شیریں اور مدھم آواز میں کہتا ہے:<br />
<br />
فہم و فراست خواب کی باتیں، جاگتی دنیا پاگل ہے<br />
عقل کا سورج ماند ہوا ہے، ذروں کی بن آئی <br />
<br />
ابن صفی نے جس مسلک کج کلاہی کی طرف سمت ایک دفعہ اپنا قبلہ راست کرلیا، پھر اسے تاعمر نہیں بدلا اور اپنے اسی عہد وفا میں علاج گردش لیل و نہار ڈھونڈا۔ اور یہ انہوں نے اس زمانے میں کیا جب اردو زبان کے سری ادب کو تازہ خون کی اشد ضرورت تھی۔ کتنے ایسے ہیں جو قریبا نصف صدی تک ایک ہی وضع پر قائم رہے ہوں ? جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں کہ ابن صفی کے چنے ہوئے راستے سے ادب کے رہنماؤں کو اختلاف رہا ہے لیکن اپنی تحریروں کے ذریعے اردو زبان کے پھیلاؤ، قانون کا احترام اور پڑھنے والوں کی ذہنی و فکری تربیت جیسے کام جس پامردی و استقامت سے انہوں نے کیے وہ لائق تحسین و تکریم ہیں۔ ابن صفی اس طرح جیے، جس طرح جینا چاہیے اور یوں شتابی سے رخصت ہوئے، جس طرح وہ رخصت ہونا چاہتے تھے:<br />
<br />
جس طرح آئے گی، جس روز قضا آئے گی<br />
خواہ قاتل کی طرح آئے کہ محبوب صفت<br />
دل سے بس ہوگی یہی حرف ودع کی صورت<br />
للہ الحمد! باانجام دل دل زدگان<br />
کلمہ شکر بنام لب شیریں دہناں <br />
<br />
ابن صفی کے ادبی مقام کا تعین کرنا ہماری سب سے بڑی اخلاقی ذمہ داری ہے<br />
<br />
تحریر: راشد اشرف<br />
ای میل: zest70pk@gmail.comRashidhttp://www.blogger.com/profile/05188816648792244637noreply@blogger.com3tag:blogger.com,1999:blog-5257349512764447761.post-21619730688510135592010-05-03T14:37:00.001+03:002010-05-03T14:37:36.091+03:00پیش رس - اُلٹی تصویر<div style="color: blue;">جاسوسی دنیا : 82 - الٹی تصویر (پیش رَس)</div><br />
۔۔۔۔۔۔۔۔ ویسے بعض خطوط کے جوابات اتنے ہی ضروری ہوتے ہیں کہ اُن کا تذکرہ پیش لفظ میں کرنا پڑتا ہے !<br />
مثال کے طور پر ایک صاحب نے میرے ناول "خون کا دریا" کے متعلق پوچھا ہے کہ وہ بھی اوریجنل ہے یا نہیں؟ کیونکہ ویسی ہی ایک کہانی گجراتی میں بھی اُن کی نظروں سے گزری ہے ۔۔۔<br />
گذارش ہے کہ "خون کا دریا" کی کہانی سو فیصدی میری ہی تخلیق ہے !<br />
یہ اور بات ہے کہ کسی گجراتی لکھنے والے بھائی نے میری گردن پر چھری پھیر دی ہو !<br />
اردو میں جو چھریاں پھیری جا رہی ہیں وہ تو آپ کی نظروں کے سامنے ہی ہیں ۔۔۔۔۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوا ہے کہ میری کتابوں کا ہندی میں ترجمہ ہوا اور ہندی سے وہ پھر اردو میں منتقل ہوئیں لیکن اس تیسری جُون میں مصنف کا نام تک بدلا ہوا نظر آیا۔<br />
اس قسم کی ایک کتاب "ربڑ کی عورت" کے متعلق ایک صاحب نے پوچھا ہے۔ "ربڑ کی عورت" میرے ناول "بیگناہ مجرم" کا ہندی ترجمہ ہے ! کسی صاحب نے اردو میں اس کا دوبارہ ترجمہ کر ڈالا۔ میرے ساتھ ایسے لطیفے ہوتے ہی رہتے ہیں اور میں ان سے کافی محظوظ ہوتا ہوں۔<br />
دیکھئے نا ، میرے پراسرار کرداروں ہی کی طرح بعض اوقات یہ کمبخت کتابیں بھی بھیس بدل کر سامنے آ کھڑی ہوتی ہیں اور میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں شرلاک ہومز کی طرح کوکین کا انجکشن لے لوں یا عمران کی طرح چیونگم سے شغل فرماؤں؟<br />
<br />
<div style="color: purple;">- ابن صفی</div><div style="color: purple;">21-مارچ-1959ء</div>باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5257349512764447761.post-57291352967377834682010-04-17T05:09:00.004+03:002010-04-17T05:15:57.198+03:00قلم کا قرض<a onblur="try {parent.deselectBloggerImageGracefully();} catch(e) {}" href="http://1.bp.blogspot.com/_SuLbH_RrPQo/S8kZo1siWdI/AAAAAAAAAEE/Pg56xRLPDcA/s1600/07.jpg"><img style="display:block; margin:0px auto 10px; text-align:center;cursor:pointer; cursor:hand;width: 247px; height: 320px;" src="http://1.bp.blogspot.com/_SuLbH_RrPQo/S8kZo1siWdI/AAAAAAAAAEE/Pg56xRLPDcA/s320/07.jpg" border="0" alt=""id="BLOGGER_PHOTO_ID_5460924212562778578" /></a><br /><br />راشد اشرف - نئے افق - اگست 1995<br /> <br /> <br />تم جانتے ہو جب مجھے ابن صفی سے عقیدت شروع ہوئی تو انہیں پورے ہوئے تیرہ برس ہوچکے تھے۔<br /> <br />اور سنو ۔ یہ عقیدت اب محبت میں بدل چکی ہے۔<br /> <br />میں قدرت اللہ شہاب نہیں ہوں اور نہ ہی ابن صفی کوئی چندراوتی۔ شہاب کو جب چندراوتی سے محبت شروع ہوئی تو اسے مرے ہوئے تیسرا دن تھا اور میں اگر تین میں تین میں نہ سہی پر تیرہ میں ضرور ہوں۔ <br /> <br />تم یقیننا" جاننا چاہو گے کہ اس کی ابتدا کہاں سے ہوئی ? تو سنو:<br /> <br />جولائی 27 سن 1980<br /> <br />میں غالبا پرائمری کا طالب علم تھا۔ اخبار میرے ہاتھ میں تھا اور میں ابن صفی کی موت کی خبر اٹک اٹک کر پڑھنے کی کوشش کررہا تھا۔ اس میں کامیابی کے بعد میں وہ اخبار تھامے اپنی آنٹی کے پاس چلا گیا کیونکہ اکثر انہی کے ہاتھ میں، میں نے اس نام کے مصنف کی کتابیں دیکھی تھیں۔ میں نے انہیں وہ خبر سنائی، اور بھی کچھ لوگ کمرے میں موجود تھے اور وہ بھی شاید ابن صفی کے پڑھنے والے تھے۔ کچھ دیر کے لیے وہاں سناٹا چھا گیا۔<br /> <br />"یہ مذاق کررہا ہے"۔۔ کوئی بولا ۔ پھر کسی نے اخبار میرے ہاتھ سے چھین لیا اور کمرے کا سناٹا گہرا ہوتا چلا گیا۔<br /> <br />God's Finger tounched him and he is slept <br /> <br />یہ ابن صفی کون تھا جس کی موت کی خبر ان لوگوں کے لیے اس قدر غیر متوقع تھی ? شاید اسی تجسس نے وقت سے کافی پیشتر مجھے اس کی کتابوں کو ہاتھ لگانے کا جواز فراہم کیا۔ اس وقت یہ حال تھا کہ ابن صفی کی کتابیں پڑھتے تھے اور خود کو بڑوں کی طرح ان کتابوں کے پڑھنے والوں میں شامل سمجھتے تھے لیکن ان فن پاروں میں چھپا ہوا اصل پیغام تیرہ برس بعد سمجھ میں آیا۔ اب دیکھو نا! کیا یہ بدقسمتی نہیں ہے کہ ان فن پاروں کو پڑھ کر ان کے مصنف سے ملنے کا، اس کے ہاتھ چومنے کو جی کرتا ہے لیکن وہ تو مٹی اوڑھ کر سویا ہوا ہے:<br /> <br />Is death the last sleep<br />No its is the final awakening<br /> <br />جیسا کہ مشتاق احمد قریشی کا جی کرتا ہے کہ "میں انہیں اپنی بانہوں میں سمیٹ لینے کے لیے بازو پھیلا کر آگے بڑھتا ہوں لیکن میرے بازو ہوا میں لہرا کر رہ گئے ہیں۔ میری آنکھیں دھندلا رہی ہیں۔ یہ ننھے ننھے ستارے جو میری پلکوں پر جھلملا رہے ہیں میں انہیں محفوظ کرنا چاہتا ہوں۔ یہ میرا سرمایہ ہیں، انہیں محفوظ، زندہ رہنا چاہیے۔"<br /> <br />"کیا کہا ?" یہ مشتاق قریشی کون ہیں۔"<br /> <br />تاکید کرنے والا چلا گیا اور وہ بھی نہ رہا کہ جس کا خیال رکھنے کی اس قدر تاکید کی گئی تھی۔ اپنے استاد کے احترام میں اس جہان خراب کو چھوڑ گیا لیکن اس کے یکایک اس طرح سے چلے جانے سے بہت ڈر لگتا ہے۔ مشتاق قریشی اب اکیلے ہو گئے ہیں۔ خدا انہیں سلامت رکھے۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ غلط مت سمجھو! قریشی صاحب کے لیے رطب للسان ہورہا ہوں تو اس کی یہ وجہ نہیں کہ اپنی یہ تحریر شائع کروانے کے لیے راہ ہموار کرہا ہوں۔ یہ تو قرض ہے اس شخص کا کہ جس کی تحریروں کے مطالعے کے بعد چار اشخاص کے درمیان بولنا سیکھا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اب تو وہ چار بھی نہیں پورے ہوتے کسی ایک جگہ۔ اسی بنا پر تو تم کو یہ سب سنا رہا ہوں کہ تم کو ابن صفی سے متعارف کراسکوں۔ کوئی دوسرا ملتا ہی نہیں کہ جس کے ساتھ ابن صفی کے بارے میں گفتگو کرکے سیر ہوسکوں۔ اب تو ڈش اینٹینا اور موبائل فون پر بات کرنے والے باآسانی دستیاب ہیں۔ وہ کہتے ہیں "فلاں فلم دیکھی، کیا اداکاری ہے خرگوش کمار کی، واہ۔ اور ہنٹر والی کے تو بس کیا ہی کہنے، کیا نام لیتے ہو ! ابن صفی ? اجی چھوڑیں، اس کی کتابوں میں تو رومانس ہی نہیں اور پھر ہم تو بس instant love کے قائل ہیں، وہ جیسا کہ اس فلم میں۔۔۔وہ۔"<br /> <br />اب تم ہی بتاؤ کوئی کیا کہے ان کے سامنے۔ تمہارے اندر کچھ چراثیم دیکھے تو ٹھان لی کہ تم کو ابن صفی سے متعارف کرائے بغیر نہ رہوں گا لیکن تم کو دلائل کے ساتھ قائل کرنا پڑے گا۔ یہ جانتا ہوں میں، تو سنو:<br /> <br />الہ آباد - سن 1952<br /> <br />چند حضرات ایک میز کے گرد بیٹھے ہیں اور موضوع گفتگو ہے اُس وقت کا سری ادب۔ یہ تقریبا تمام کے تمام اس زمانے کے قد آور لوگ ہیں جن میں ابن سعید (بعد میں پروفیسر مجاور حسین رضوی)، عباس حسینی، اسرار احمد (بعد میں ابن صفی)، شکیل جمالی، راہی معصوم رضا (بعد میں ڈاکٹر راہی معصوم رضا) اور آفاق حیدر وغیرہ شامل ہیں۔ حاضرین میں اسرار احمد شاعری کرتے ہیں۔ خوش گلو ہیں اس لیے دوست احباب ان سے مختلف شعرا حضرات کی غزلیں ترنم سے سنا کرتے ہیں۔ سن 1948 میں جب گاندھی جی کی موت ہوئی تو اس صبح اسرار احمد نے اس سانحے پر اپنی ایک نظم نیا دور کے دفتر کی جانب جاتے ہوئے ابن سعید کو تھما دی۔ اس نظم کا ایک شعر ملاحظہ ہو:<br /> <br />لویں اداس، چراغوں پہ سوگ طاری ہے<br />آج کی رات انسانیت پہ بھاری ہے<br /> <br />سن 1948 میں وہ محض سولہ برس کے تھے اور فراق، سلام مچھلی شہری اور وامق جونپوری کے سامنے بیٹھ کے نظمیں سناتے تھے۔ ہاں تو بات ہورہی تھی سن 1952 کے الہ آباد کی اور اس محفل کی۔ تو صاحب، حاضرین میں سے کسی نے ہانک لگائی کہ اردو میں صرف فحش کتابیں ہی زیادہ مقبول ہوسکتی ہیں۔<br /> <br />اسرار احمد نے شدومد سے اس بات کی مخالفت کی اور اپنی بات کے حق میں دلائل پیش کیے۔ بحث کا اختتام چاہے کچھ کیوں نہ رہا ہو لیکن ہر شخص اس بات پر متفق تھا کہ سکسٹین بلیک سیرز کی طرز پر اردو میں ایک جاسوسی ماہانہ نکالا جائے۔ دوستوں کا خیال تھا کہ راہی چونکہ گارڈنر، ایڈگر ویلس اور اگاتھا کرسٹی کو دوسرے شرکا کی بہ نسبت زیادہ پڑھے ہوئے ہیں لہذا وہ بہت اچھی جاسوسی کہانیاں لکھ سکتے ہیں لیکن ابن سعید نے راہی کو نظر انداز کرکے وکٹر گن کا ایک ناول بعنوان ‘آئرن سائیڈز لون ہینڈز‘ اسرار احمد کو تھما دیا کہ میاں اسی کو بنیاد بنا کر ایک کہانی لکھ لاؤ۔ اسرار احمد نے ایک ہفتے میں وہ ناول مکمل کر لیا۔<br /> <br />ناول کا نام تھا "دلیر مجرم"<br /> <br />قابل ذکر بات یہ ہے کہ راہی نے اس ناول کو پڑھنے کے بعد اس صنف میں طبع آزمائی کا ارادہ ترک کردیا۔ غالبا" انہوں نے اندازہ کرلیا تھا کہ آگے چل کر یہ اچھے اچھوں کو آؤٹ کلاس کردے گا۔<br /> <br />جنوری سن 1952 میں ناول نگار کا نام اس کے والد بزرگوار صفی اللہ کے حوالے سے ابن صفی تجویز ہوا اور یوں ایک ایسے نوآزمودہ لکھاری نے اس وادی بے مثال میں قدم رکھا جو بنیادی طور پر ایک شاعر تھا اور جس کی شاعری کی معترف تیغ الہ آبادی (بعد میں مصطفی زیدی) اور راہی معصوم رضا جیسی شخصیات تھیں اور کیوں نہ ہوتے جبکہ ایسے خوبصورت اشعار کی داد تو انہوں نے کئی جگہ سے پائی، نمونہ ملاحظہ ہو:<br /> <br />اُتر تو آئی ہے جاڑوں کی دھوپ آنگن میں<br />مگر پڑوسی کا دو منزلہ بھی گھات میں ہے<br /> <br />بلاآخر تھک ہار کے یارو ہم نے یہ تسلیم کیا<br />اپنی ذات سے عشق ہے سچا، باقی سب افسانے ہیں<br /> <br />تم کیا سمجھتے ہو کہ تختہ گل میرا جہاں<br />وہ گھٹن ہے کہ مجھے سانس بھی لینا ہے محال<br /> <br />بہرکیف دلیر مجرم کے بعد جو قلم رواں ہوا تو ناولوں کے ڈھیر لگتے چلے گئے اور ان کی فکر و فن جب قلم کے راہوں سے رنگا رنگ فن پاروں میں ڈھلا تو جاسوسی ادب کے میدان میں گویا بہار سی آگئی۔ ہر کہائی دوسری سے جدا، بالکل مختلف۔ عمران کا کردار تخلیق کیا تو لوگ اس کے دیوانے ہوگئے۔ فریدی اور حمید کو پسند کرنے والوں کا حلقہ الگ تھا۔ مگر دوست یہ دنیا جس میں ہم اور تم سانس لے رہے ہیں بڑی کمینی جگہ ہے۔ یہاں خوشامد پسندوں کو تو سر پر بٹھایا جاتا ہے اور جس کسی میں آگے بڑھنے کا حوصلہ ہو، ٹیلنٹ ہو، اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ تنقید بے جا کے پتھروں سے اس کو سنگسار کیا جاتا ہے اور یہ سب کچھ اس کی زندگی ہی میں کیا جاتا ہے، محض اس تخلیق کے شعلے کو سرد کرنے کی خاطر جس کی آنچ ایسے لوگ اپنے گرد محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ایسے ہی چند ادب کے "علمبرداروں" نے ابن صفی کی عظمت کا کبھی اعتراف نہ کیا۔ یہ لوگ جاسوسی ادب کو ادب شمار نہیں کرتے تھے۔ وہ شاعر کہتا ہے نا:<br /> <br />شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر ہے<br />اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے<br /> <br />انہی لوگوں کے بارے میں اپنے ایک انٹرویو میں اس عظیم مصنف کا لہجہ بہت دکھی دکھائی دیتا ہے:<br /> <br /> "تھکے ہوئے ذہنوں کے لیے تھوڑی سی تفریح مہیا کرنا ایک مقدس فریضہ ہے۔ جب آرٹ اور ادب کے علمبردار مجھ سے کہتے ہیں کہ میں ادب کی خدمت کروں تو مجھے بڑی ہنسی آتی ہے۔ تم ہی بتاؤ مشتاق میاں کہ کیا میں جھک مار رہا ہوں ? حیات و کائنات کا کون سا ایسا مسئلہ ہے جسے میں نے اپنی کسی نہ کسی کتاب میں نہ چھیڑا ہو۔ بس میرا طریقہ کار ہمیشہ عام روش سے الگ تھلگ رہا ہے۔ میں بہت اونچی بات کہہ کر محض چند لوگوں تک محدود ہونے کا قائل نہیں ہوں۔ دوسرے لوگ جو اعلی اور ارفع ادب تخلیق کر رہے ہیں وہ ادب کتنے ہاتھوں تک پہنچتا ہے اور انفرادی یا اجتماعی زندگی میں کیا انقلاب لاتا ہے ? افسانوی ادب خواہ وہ کسی بھی پائے کا ہو، اس کا مقصد محض ذہنی فرار اور کسی نہ کسی تفریح ہی فراہم کرنا ہوتا ہے لیکن اس سے گنے چنے لوگ ہی محظوظ ہوتے ہیں۔ میں ان گنے چنے لوگوں کے لیے ہی کیوں لکھوں ? میں وہ انداز کیوں نہ اپناؤں جسے لوگ زیادہ پسند کرتے ہیں۔"<br /> <br />دیکھا تم نے اس عظیم شخص کی گفتگو کا ڈھنگ ? اب مزید وضاحتیں دینے کے لیے وہ تو نہیں رہا لیکن اس کا چھوڑا ہوا کام دیکھو۔ اس کا مطالعہ کر تم کو اس انٹرویو کے مندرجات کی زیادہ بہتر طریقے سے آگاہی ہوسکے گی۔ یہاں پہلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ ادب کیا ہے ? ادب شرطیہ طور پر ہر دلچسپ اور زندگی سے قریب تحریر کا احاطہ کرتا ہے۔ ایسی تحریر جو تفریح بہم پہنچاتی ہو اور احساسات کو چھو لیتی ہو، ادب کے زمرے میں آئے گی تو اس حوالے سے کیا ابن صفی کی یہ کتابیں اردو میں ادب کا درجہ نہیں رکھتیں ? ذرا غور کرو۔<br /> <br />وہ کہتا ہے کہ " وہ لوگ جو اعلی اور ارفع ادب تخلیق کررہے ہیں وہ کتنے ہاتھوں میں پہنچتا ہے ?"<br /> <br />آگ کا دریا سے عام آدمی نے کتنا اثر لیا، نیز اس کو پڑھنے والوں کی تعداد اس ملک میں کتنی ہے۔ اور پھر پڑھ کر ‘سمجھنے‘ والے کتنے ہیں۔ واضح رہے کہ قرۃالعین کے اس ناول کو ادبی محفلوں، ادبی مقالوں، ادبی ‘ٹاکروں‘اور انٹرویوز میں عبدللہ حسین کے ناول ‘اداس نسلیں‘ پر فوقیت دی جاتی رہی ہے بلکہ اب تو یہ فیشن بنتا جارہا ہے بالکل اسی طرح سے کہ فلم کی میٹرک پاس ہیروئین سے جب اس کے پسندیدہ شاعر کا نام پوچھا جاتا ہے تو وہ کسی قدر اٹھلاتے ہوئے جواب میں فیض احمد فیض کا نام لیتی ہے لیکن وہ تو پھر بھی کسی حد تک درست ہے کیونکہ اس کو اور اس کے قبیلے کی اور دوسری اداکاراؤں کو بچپن ہی سے تماش بینوں کے سامنے فیض کی غزلوں پر ہی پرفارم کرنا پڑتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔<br /> <br />سن 1947 کے فسادات پر جو ادب تخلیق ہوا اس کی زندگی کتنی تھی ?<br /> <br />سن 1965 کی جنگ کے بعد اس سے متلعق افسانوی ادب کا سیلاب سا آگیا تھا۔ کیا اس کو بھی ہمیشہ زندہ رہنے والے ادب میں شمار کیا جائے گا ?<br /> <br />برطانوی فلسفی برکلے کا کہنا ہے کہ "ہم شے کا ادراک اس لیے نہیں کرتے کہ وہ پائی جاتی ہے، بلکہ وہ پائی ہی اس لیے جاتی ہے کہ ہم اس کا ادراک کرتے ہیں۔" -- یہ بڑی دلچسپ صورتحال ہے، مثال کے طور پر اگر ہم کسی کتاب کو پڑھنے کے بعد الماری میں بند کردیں اور وہ ہمارے ادراک کی توجہ کھو بیٹھے تو اس کائنات میں اس کا کہیں کوئی وجود باقی نہیں رہے گا لیکن ابن صفی کی تصنیفات اس کلیئے سے مستشنی ہیں کیونکہ وہ المارہ میں بند کیے جانے کے باوجود قارئین کے ذہنوں میں مقید رہتی ہیں۔<br /> <br />آگے چل کر اسی انٹرویو میں صفی صاحب مزید کہتے ہیں:<br /> <br />"یہ جو تم ادب عالیہ کہ بات کرتے ہو تو میں اس کو افورڈ نہیں کرسکتا۔ تم نے ادب تخلیق کرنے والوں کو دیکھا ہے ? کیا حلیہ ہوتا ہے ان کا ? جب وہ ادب کا شہ پارہ تخلیق کرکے ادب کے ٹھیکیداروں کو دیتے ہیں تو وہ جواب میں انہیں اس کا کیا معاوضہ دیتے ہیں ? صرف ستائشی لفظوں اور ستائشی جملوں سے نہ تو ادیب کا پیٹ بھرتا ہے اور نہ ہی اس کے بال بچوں کا۔ خیر، تم میری یہ بات نوٹ کرلو کہ ایک ایسا وقت آئے گا کہ لوگ اسی کو ادب تسلیم کرلیں گے۔"<br /> <br />جہاں تک ابن صفی کی شہرت کا سوال ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس شخص میں ایسی خداداد صلاحیتیں تھیں کہ جن کے بل بوتے پر اس نے اپنی منزل کا خود تعین کیا اور وہ جو اس نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ "میں گنے چنے لوگوں کے لیے کیوں لکھوں ?" تو جی کرتا ہے کہ اس کی مقبولیت سے متعلق چند حیران کن واقعات تمہارے گوش گزار کروں:<br /> <br />رضی اختر شوق اور حریت کے اے آر ممتاز کے حوالے سے سہیل اقبال سے روایت ہے کہ اگاتھا کرسٹی لندن جاتے ہوئے کراچی ائیرپورٹ پر آدھ گھنٹے قیام کے لیے رکیں۔ چند مداحوں نے ان سے دوران گفتگو پاکستانی جاسوسی ادب کا ذکر کیا تو انہوں نے جوابا" کہا "مجھے اردو نہیں آتی لیکن برصغیر کے جاسوسی ادب سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتی ہوں۔ ابن صفی جاسوسی ادب سے واحد خالق ہیں۔ کسی نے بھی ان سے ہٹ کر کوئی نئی راہ نہیں نکالی۔"<br /> <br />ضمیر اختر نقوی جنہوں نے ابن صفی کی ناول نگاری کے عنوان سے کتاب لکھی ہے، ایک جگہ لکھتے ہیں۔ " محکمہ انٹیلی جنس حکومت پاکستان کے اہم ترین آفیسرز کو جرائم کے کسی کیس میں مشکل درپیش ہوتی تھی تو وہ ابن صفی سے مشورہ کرنے ان کے پاس آیا کرتے تھے۔"<br /> <br />اس ضمن میں بدر منیر (پشتو فلموں والے نہیں) چند بڑے دلچسپ واقعات بیان کرتے ہیں۔ وب سے پہلے تو وہ اپنے بارے میں کہتے ہیں۔ " مجھے یاد ہے کہ شعلہ سیریز سے میں نے ابن صفی کا مطالعہ شروع کیا۔ ان دنوں میں زبردست ذہنی انتشار سے دوچار تھا اور مجھے ہر طرف تاریکی ہی تاریکی دکھائی دے رہی تھی۔ دوستوں نے آنکھیں پھیر لی تھیں اور زندگی کا کا اختتام قرب تر ہوتا دکھائی سے رہا تھا لیکن شعلہ سیریز نے میری امنگوں اور حوصلوں کو نئی توانائی دی اور میں جلد ہی انتشار کے اس ہولناک گرداب سے باہر نکل آیا۔ میں نے (بدر منیر) اپنے عہد کے نامور ، شریف، دیندار، دیانتدار، پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کی بک شیلف میں ابن صفی کی کتابیں دیکھیں۔ خواجہ صاحب اگاتھا کرسٹی، سر آرتھر کونن ڈائل اور پیری میسن سیریز کے مستقل قاری تھے لیکن ابن صفی کی آمد کے بعد انہوں نے انگریز مصنفوں سے کافی حد تک نجات حاصل کرلی تھی۔<br /> <br />اب ذرا خواجہ ناظم الدین کا ابن صفی کے بارے میں تبصرہ سنو:<br /> <br />"ابن صفی مجھے خاص طور سے اس لیے پسند ہے کہ وہ فی الواقع ایک شریف، دیانتدار، خوددار اور نیک نیت لکھنے والا ہے۔ مجھے اس لیے بھی ابن صفی پسند ہے کہ اس نے اردو ادب کو انگریزی ادب کے برابر لا کھڑا کیا ہے کہیں کہیں تو اس کا قد غیر ملکی لکھنے والوںکے مقابلے میں نکلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔"<br /> <br />محمد بدر منیر سقوط مشرقی پاکستان سے پیشتر ایک نوے سالہ ضعیف خاتون کو ان کی پسندیدہ اردو کی کتاب اسپتال جاکر پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ ایک عرصے تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ پھر مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد بھی نہایت ہی نامساعد حالات میں وہ ان کے پاس برابر جاتے رہے۔ وجہ حاضری بھی اس مرتبہ وہی ٹہری یعنی اردو کی کتب اور یہ کتب کسی اور کی نہیں، ابن صفی کی تھیں جن سے وہ خاتون گہری عقیدت رکھتی تھی اوہ وہ ضعیف خاتون بابائے بنگلہ دیش کی والدہ تھی۔<br /> <br /> ایک شاعر ہیں رؤف شیخ - ان سے سوال کیا گیا کہ اور کون کون سے ادیب ابن صفی کو پڑھتے ہیں۔ ان کا جواب تھا " یار پڑھتے تو سبھی ہیں۔ کوئی میری طرح اعتراف کرلیتا ہے اور کسی میں اعتراف کی ہمت نہیں۔ یہ لوگ احساس کمتری کے مارے ہوئے لکھاری ہیں، ادیب یا شاعر نہیں۔"<br /> <br />پیجاب کے کسی گاؤں میں بدر منیر کسی کے گھر مہمان کے حیثیت سے قیام پذیر ہیں۔ میزبان کے گھر لڑکے کی پیدائش ہوتی ہے۔ جب نام رکھنے کا مرحلہ آتا ہے تو طے یہ ہوتا ہے کہ اپنا اپنا پسندیدہ نام ایک پرچی پر لکھ کر تمام حضرات پیش کریں گے۔ پرجیوں کی پڑتال ہوتی ہے تو گیارہ پرچیوں میں سے آٹھ پر عمران چوہدری درج ہوتا ہے۔ بقیہ تین پرچیوں میں ایک پر حمید اور دو پر فریدی کے نام درج تھے۔<br /> <br />اور فراز چائییں کتنی محبتیں تجھے<br />ماؤں نے تیرے نام پہ بچوں کا نام رکھ دیا<br /> <br />بدر منیر ایک اور واقعہ سناتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کو لاہور سے کراچی بذریعہ ٹرین سفر درپیش ہوا۔ عین وقت پر ریزرویشن نہ مل سکی۔ کاؤنٹر پر ایک صاحب ابن صفی کے ناول میں غرق تھے اور ایک مرتبہ بدر صاحب کو ٹکٹ کی فراہمی کے سلسلے میں نفی میں جواب دے چکے تھے۔ بدر صاحب نے ان سے جھوٹ بولا کہ ایک صاحب ہیں ابن صفی ان کے لیے مجھے سیٹ درکار ہے۔ ان صاحب نے پانچ منٹ میں ٹکٹ بمہ ریزرویشن کے حوالہ راوی کیا اور بولے "میرے ایک عزیز کراچی جارہے ہیں، ان کو گھر جاکر منالوں گا۔ ابن صفی کے لیے تو پوری ٹرین حاضر ہے۔"<br /> <br />اب تم خود ہی اندازہ کرلو کہ یہ شخص کہاں کہاں اپنی تحریروں کے حوالے سے نہیں پوجا جاتا تھا۔ بقول مرزا حیدر عباس کہ سندھ، پنجاب، بلوچستان اور سرحد میں ہزاروں ایسے لوگ تھے جو ابن صفی کی تحریر کے سحر میں گرفتار تھے حالانکہ ان کو ٹھیک سے اردو پڑھنی بھی نہیں آتی تھی۔<br /> <br />بابائے اردو مولوی عبدالحق کے نام سے کون واقف نہیں۔ دیکھو تو وہ بھی ابن صفی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کچھ فرما رہے ہیں کہ " اس شخص کا اردو پر بہت بڑا احسان ہے۔" دنیا جانتی ہے کہ بابائے اردو نے اپنی تمام زندگی اردو کی تدوین و فروغ کی کوششوں میں گزار دی۔<br /> <br />اب وہ زمانہ آگیا تھا کہ دھیرے دھیرے اپنی تحریروں میں اپنا لہو نچوڑ دینے والے کا ذکر "ادبی" سطح پر کہیں کہیں نظر آنے لگا تھا۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر اعجاز حسین نے اپنی تصنیف ‘اردو ادب آزادی کے بعد‘ اور ڈاکٹر علی حیدر نے ‘اردو ناول- سمت و رفتار‘ میں ان کا ذکر کیا ہے۔<br /> <br />طبیعت کے ایسے درویش کہ لوگوں نے ان کے ناول مختلف ناموں سے چھاپنا شروع کردیے۔ گرچہ ان لوگوں کے خلاف صفی صاحب نے کاروائی کی لیکن کب تک ? آخر کار نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہوئے اور عرصہ تین برس تک صاحب فراش رہے لیکن مسجدوں، کلیساؤں میں کی گئی دعائیں رنگ لائیں اور اپنے ایک معرکتہ الارا ناول ڈیڑھ متوالے سے ان تمام بدخواہوں کو للکارا کہ:<br /> <br />کیا سمجھتے ہو جام خالی ہے<br />پھر چھلکنے لگے سبو آؤ<br /> <br /> دوران علالت ان پر اپنے دوستوں کی حقیقت آشکارا ہوئی۔ صفیہ صدیقی، کہ رشتے میں ان کی سالی ہوتی ہیں، سے روایت ہے کہ اسرار بھائی کہا کرتے تھے کہ بیماری کے دوران کم بخت کوئی پھٹکا نہیں۔ خیریت تک نہ دریافت کی۔ کتنے ہی ایسے لوگ تھے جو میرے قرضدار تھے، وہ بھی غائب ہوگئے۔<br /> <br />تجھے گلہ ہے کہ دنیا نے پھیر لیں آنکھیں<br />فراز یہ تو سدا سے رواج اس کا تھا<br /> <br />27 جولائی 1980 کو ہندوستان سے شائع ہونے والے اخبار انقلاب کا ایک اقتباس دیکھو، گرچہ بات کچھ تلخ سی ہے لیکن یہاں تذکرہ ضروری ٹھرا۔ اخبار لکھتا ہے۔ " ابن صفی ایشیا کے وہ واحد ناولسٹ تھے جنکے کرداروں پر ہر مہینے آٹھ تا دس ناول دوسرے کمرشل رائٹر لکھتے تھے اور ان کی روٹی روزی اسی بنیاد پر چل رہی ہے۔ ہندوستان میں ابن صفی کے پبلیشر عباس حسینی ابن صفی کے ناولوں کی بدولت آج لکھ پتی ہیں۔"<br /> <br />اور تم کیا توقع رکھتے ہو ? تمہیں اور کون کون سے زخم دکھاؤں۔۔۔سنو گے ? تو سنو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابن صفی کے ایک قریبی عزیز مبین احسن ایک واقعہ سناتے ہیں کہ ایک مرتبہ اسرار بھائی نے میرے محکمے کے ایک ملازم کی ترقی کے بارے میں مجھ سے کہا اور ان صاحب کی ترقی اتفاقا" میرے ہی دستخط سے ہوئی، یہ الگ بات ہے کہ یہ صاحب انہی کے لیے مار آستین ثابت ہوئے۔<br /> <br />مرزا حیدر عباس بتاتے ہیں۔ " ایک آدمی نے ان کے ساتھ فراڈ کیا۔ ابن صفی نے مقدمہ کردیا۔ اس آدمی کو سزا ہوگئی۔ جب معلوم ہوا کی اس کے بیوی بچوں کا کوئی سہارا نہیں ہے تو اس کو اپنے وظیفہ دینا شروع کردیا۔<br /> <br />غور کرو یہ دریا دلی کے قصے اسی شہر نگاراں کے ہیں جسے عروس البلاد کہا جاتا تھا کہ اب جس کی فضاؤں میں خون کی بو اس قدر رچ بس گئی ہے کہ ایسے واقعات سن کر ان پر محض ٹھنڈی آہیں ہی بھری جاسکتی ہیں کہ:<br /> <br />جو رد ہوئے تھے جہاں میں کئی صدی پہلے<br />وہ لوگ ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں<br /> <br />اب تو یہاں خدا کے گھر میں اعتکاف میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو بھی نہیں بخشا جاتا۔ کاش کہ کوئی وقت ایسا آئے کہ ہم کہہ سکیں:<br /> <br />سلام ہو تیری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں<br />یہ رسم عام ہے جو چاہے سر اٹھا کے چلے<br /> <br />سوچتا ہوں کہ وہ شخص چلا گیا تو اب سکون سے ہوگا۔ کم از کم ان حالات میں اس جیسا انتہائی حساس طبیعت کا مالک کیسے رہ سکتا تھا ? اس کا نروس بریک ڈاؤن تو بار بار ہوتا۔ اس موقع پر ایک نظم بعنوان ‘سیاست‘ کچھ اس طرح یاد آئی ہے کہ گویا قلم کا راستہ روک کر کھڑی ہوچلی ہے:<br /> <br />یہ سیاست بھی کیا عجب شے ہے<br />میں سمجھتا ہوں میں بھی حق پر ہوں<br />تم سمجھتے ہو تم بھی حق پر ہو<br />میں تمہیں مار دوں تو تم ہو شہید<br />تم مجھے مار دو تو میں ہوں شہید<br />تم ہو یا میں یہاں بفضل خدا<br />سب شہیدوں کی صف میں شامل ہیں <br />سب یزیدوں کی صف میں شامل ہیں <br /> <br /> <br />صفی صاحب کے ایک دوست کہ عزیز جبران انصاری کہلاتے ہیں، ان کے بارے میں بہت صحیح تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ " انتہائی مخدوش حالات اور پابندیوں کے دور میں جاسوسی ادب تخلیق کرنے والی ہستی جس کو اپنے جائز حق کا عشر عشیر بھی نہ مل سکا۔"<br /> <br />تم کو حیرت ہو گی کہ بشری رحمان جو رومانی ناولوں کے حوالے سے خاصی معتبر مانی جاتی ہیں، ابن صفی کی بہت بڑی پرستار ہیں۔ وہ اپنی ایک تحریر میں ابن صفی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتی ہیں۔ " ادیب دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک وہ جن کو نقاد ادیب مان لیتے ہیں اور ان کا ایک مخصوص حلقہ بن جاتا ہے، ان کی کتابیں ادب کے ذخائر میں اضافہ کرتی ہیں۔ دوسرے وہ ادیب نہیں نقاد ادیب ماننے پر تیار نہیں ہوتے مگر عوام انہیں ادیب مان لیتے ہیں۔ وہ گھر گھر میں پڑھے جاتے ہیں، ان کی رسائی ہر دل تک ہوتی ہے، وہ گلی کوچوں میں اتر جاتے ہیں، وہ جھونپڑیوں میں بھی دستک دیتے ہیں اور محلوں میں بھی۔ وہ ریلوے اسٹیشن اور ریل کے ڈبوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان کی کتابیں ہر بک اسٹال پر نظر آتی ہیں۔ ابن صفی دوسری قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر آج ان کے نقاد ان کو بڑا ادیب نہیں مانتے تو کل ان کو وہاں بھی اپنا مقام مل جائے گا۔"<br /> <br />کھبی کھبی میں سوچتا ہوں کہ اس شخص کو خدا تعالی نے کیسے بے مثال سنس آف ہیومر سے نوازا تھا۔ دلچسپ جملے۔ بذلہ سنجی کی اچھوتی مثال۔ قاسم کے کردار ہی کو لے لو۔ جب تم جاسوسی دنیا کا "فرہاد 59" پڑھو گے تو تو خود ہی اس کی سمجھ آجائے گی۔ مزید ہنسنا چاہو تو "چمکیلا غبار" پڑھ لو۔ "برف کے بھوت" سے تم کو قاسم کے پس منظر سے آگاہی حاصل ہوگی اور "سینکڑوں ہم شکل"، "چاندی کا دھواں"، "موت کی چٹان"، "زمین کے بادل" اور "طوفان کا اغوا" پڑھنے کے بعد تو تم قاسم کو بے چینی سے بقیہ ناولوں میں تلاش کرو گے۔<br /> <br />مزاح لکھنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ اسٹیفن لیکاک مزاح کی تعریف کچھ اس طرح سے بیان کرتا ہے۔ " یہ زندگی کی ناہمواریوں کے اس ہمدردانہ شعور کا نام ہے جس کا فنکارانہ اظہار ہوجائے۔"<br /> <br />اور تم محسوس کرو گے کہ ابن صفی نے اس فنکارانہ اظہار میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جاسوسی دنیا کا ایک خوبصورت، ایڈونچرس ناول "موروثی ہوس" ہے۔ یہ ایک ناقابل فراموش تحریر ہے۔ بس یوں سمجھ لو کہ لکھا لکھایا اسکرپٹ ہے۔ فلم بنانے والے کو محض لوکیشنز کا انتخاب کرکے شوٹنگ کرنی ہے۔ ان کے ایسے اور کئی ناولوں پر مہماتی، جاسوسی، نفسیاتی اور آرٹ فلمیں بنائی جاسکتی ہیں۔<br /> <br />"برف کے بھوت" کو موسم گرما میں پڑھو تو ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے۔ ظالم نے کچھ ایسی ہی فضا بنا دی ہے کہ جب بھی اس ناول کو پڑھا ہے، ایسا ہی احساس ہوا ہے۔ "شاہی نقارہ" کے مطالے کے ددوران پڑھنے والا گھنے جنگلوں میں شکار کا لطف اٹھاتا ہے اور کیپٹن حمید کی بدحواسیوں سے محظوظ ہوتا ہے۔ ایک بڑی دلچسپ بات کا ذکر کرتا چلوں۔ جاسوسی دنیا کی ایک ناول میں حمید، فریدی کو یہ شعر سناتا ہے:<br /> <br />پہلے ترساتی رہے، خاک میں آخر مل جائے<br />اور کس کام کی یہ گلبدنی ہوتی ہے<br /> <br />کرنل فریدی کہتا ہے " یہ تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی ندیدے بچے نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی ہو۔"<br /> <br />جواب میں حمید کہتا ہے " تمام اردو شاعری اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ اس ندیدے بچے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔"<br /> <br />دلچسپ بات یہ ہے کہ متذکرہ شعر ابن صفی کا اپنا ہے اور ان کی اس غزل کا مقطع ہے جس کا مطلع کچھ یوں ہے:<br /> <br />ان کی ہر رات ہی قسمت کی دھنی ہوتی ہے<br />اور ادھر نیند کی بھی بیخ کنی ہوتی ہے<br /> <br />بیچارہ/ری کا پیشرس بھی اپنی جگہ بجائے خود ایک فن پارہ ہے جس میں ابن صفی نے اپنے قارئین سے حد درجہ سنجیدہ گفتگو کی ہے۔ ان کے ہر چاہنے والے کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ متذکرہ ناول کے بارے میں ایک صاحب رائے کا تبصرہ ایک دوسرے ناول کے پیش رس میں یہ ہے کہ " اگر اس تھیم کا کوئی ناول انگریزی میں آیا ہوتا تو نجانے کتنے انگریزی کے کارنامے گرد ہوکر رہ گئے ہوتے۔" ۔۔۔۔۔۔ عمران کے کردار پر تو نجانے کتنی بحثیں ہوتی آئی ہیں لیکن عمران سیرز کو پڑھنے کے بعد تم ان کی کئی ہیروئنز کے بارے میں مغموم ہوجاؤ گے بالخصوص "بیباکوں کی تلاش" کی صبیحہ، "گیت اور خون" کی فریدہ وغیرہ۔ لیکن عمران سیریز کے جس سلسلے کی طرف میں اب آرہا ہوں وہ بلاشبہ ابن صفی کے لازوال قلم کا ناقابل فراموش کہلائے جانے کا حقیقتا" مستحق ہے۔ یہ "ایڈلاوا" سیریز کا تذکرہ ہے۔ یہاں اس کا ذکر کرتے ہوئے مجھے کچھ جذباتی ہوجانے دو۔ یقین نہیں آتا کہ ہزاروں میل کا فاصلہ ہونے کے باوجود ابن صفی نے اٹلی کی رنگین و رومانی فضاؤں میں یہ ایڈونچرس سلسلہ کیسے تحریر کیا ? یہ وصف تو رائیڈر ہیگرڈ میں بھی نہ تھا کہ ایسے معرکتہ آرا ناول لکھ سکے۔ اور پھر ایڈلاوا کا دلدوز انجام ۔۔۔۔ ناول کی ہیروئن کی موت کے حوالے سے اس سلسلے کے آخری ناول ایڈلاوا کا اختتامیہ حد درجے بوجھل ہے اور قاری کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔<br /> <br />عمران سیریز کے ایک ناول "چار لکیریں" کا ابتدائی جملہ پڑھنے کے بعد بے اختیار حلق سے قہقہ ابل پڑتا ہے۔ پڑھنے والا آنکھیں بند کرکے ایک لمحے صورتحال کا تصور کرتا ہے اور پھر مزید قہقہے۔۔۔۔۔ ہوا یہ کہ کیپٹن فیاض اپنے ایک جاگیردار دوست بسلسلہ پارٹی مدعو کیے گئے۔ وہ جاگیردار صاحب عمران کے ساتھ آکسفورڈ میں اکھٹے پڑھتے رہے تھے۔ پارٹی کے انعقاد کے سلسلے میں دعوت ناموں کا انتظام تھا۔ کیپٹن فیاض کی جو شامت آئی تو اس نے عمران کے دعوت نامے پر مسٹر اینڈ مسز عمران لکھ دیا۔ کچھ تو تفریح کی خاطر اور کچھ یہ سوچ کر کہ شاید عمران روشی کو بھی ساتھ لیتا آئے جس کی خوش مزاجی فیاض کو پسند تھی۔ اب ناول کا پہلا جملہ ملاحظہ ہو:<br /> <br />"اس وقت کیپٹن فیاض کی کھوپڑی ہوا میں اڑ گئی جب اس نے عمران کے ساتھ شہر کی ایک طوائف دیکھی۔" <br /> <br />بقیہ صورتحال کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ معززین اور شرفا کی اس تقریب میں عمران صاحب جس طوائف کو اپنے ہمراہ لے گئے تھے اس کی وجہ سے وہاں کیا کیا نہ حماقتیں بھیلی ہوں گی۔<br /> <br />اور پھر امام الجاہلین، قتیل ادب استاد محبوب نرالے عالم۔ دیکھو اس کردار کا انہوں نے کیا خوب نقشہ کھینچا ہے:<br /> <br />"بسر اوقات کے لیے پھیری لگا کر مصالحے دار سوندھے چنے بیچتے تھے۔ اکثر استاد کے جسم میں بعض مشور مقتدین (مثلا" غالب وغیرہ) کی روحیں بھی حلول کرجاتی ہیں۔ کاندھے سے چنوں کا تھیلا لٹکتا ہوا اور ہاتھ میں ٹین کا بھونپو جس میں منہ ڈال کے "چنا کڑک" کی آوازیں لگاتے تھے۔ ایک روز عمران کو اپنی تخلیق سنا رہے تھے:<br /> <br />تم بھلا باز آؤ گے غالب<br />رستے میں چڑھاؤ گے غالب <br />کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب<br />شرم تم کو مگر نہیں آتی<br /> <br />ایک اور بہت ہی دلچسپ کردار ہد ہد کا ہے جو کہ عمران سیریز کے ایک ابتدائی ناول میں نظر آتا ہے لیکن پھر "شفق کے پجاری" میں آخری بار رنگ جما کر پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ اس درجے کا احمق اور ناکارہ تھا کہ عمران کے ساتھ ساتھ ابن صفی بھی اس کو "افورڈ" نہ کرپائے۔<br /> <br />"بحری یتیم خانہ" کی ابتدا ایک نائٹ کلب میں کلاسیکی موسیقی کے پروگرام سے ہوتی ہے (یہاں ابن صفی اہنے مخصوص ہلکے پھلکے انداز میں چوٹ کرتے نظر آتے ہیں)۔۔۔ عمران صاحب وہاں موجود تھے۔ استاد لفگار ٹھمری شروع کرتے ہیں اور ‘نندیا کاہے مارے بول‘ کی جو تکرار شروع کرتے ہیں تو عمران سات منٹ کے انتظار کے بعد استاد کے سامنے ہاتھ جوڑ کے کھڑا ہوجاتا ہے "حضور اب آپ کی تکلیف نہیں دیکھی جاتی، آپ مجھے اپنی نندیا کا پتہ بتائیں، ابھی دوڑ کر پوچھ آتا ہوں کہ ‘کاے مارے بول‘۔۔۔۔۔ استاد کی تنک مزاجی مشہور تھی۔ سُرمنڈل پھینک کر انہوں نے عمران کا گریبان پکڑنے کی کوشش کی۔ ہنگامہ ہوگیا ۔۔ کسی نے پوچھا کہ یہ کیا بے ہودگی ہے تو عمران صاحب غصیلے لہجے میں بولے " ان کی نندیا میری بھی رشتے دار ہیں"۔۔۔۔ اور استاد دھاڑے " ارے یہ بہرام خان حرام خان کا کوئی گرگا ہے حرامی" ---- " آپ غلط کہہ رہے ہیں جناب" عمران بڑے ادب سے بولا " میں آپ کی نندیا کا سالا ہوں۔"<br /> <br />ان کے چند ناولوں کے نام سنو کہ ایک ایسا ادیب جو بنیادی طور پر شاعر تھا، اپنے ناولوں کے نام اس قدر آرٹسٹک اور شاعرانہ تخیل سے بھرپور رکھ سکتا ہے:<br /> <br />ٹھنڈی آگ، سہمی ہوئی لڑکی، تاریک سائے، سبز لہو، لاش گاتی رہی، آوارہ شہزادہ، چاندنی کا دھواں، چمکیلا غبار، چیختے دریچے، ٹھنڈا سورج، خوشبو کا حملہ وغیرہ وغیرہ۔<br /> <br />ابن صفی کی کتابوں کے پیشرس کا مطالعہ کرنے کے بعد ان کا ایک نیا چہرہ سامنے اتا ہے۔ بعض فاتر العقل پڑھنے والے ان کو کس طرح کے سوالات کر کے بور کرتے ہیں اور ابن صفی ان کو ایسے جواب دیتی ہیں وہ بیجا اور نامناسب تنقید کرنے والے کٹ کر رہ جائیں۔ "سہمی ہوئی لڑکی" کے پیشرس میں ٹنڈو آدم کے ایک ٹیلیفون آپریٹر صاحب ابن صفی کے سابقہ ناول "آتشی بادل" کو محض بکواس قرار دیتے ہیں، ان کی دانست میں ناول کے نام سے اس کے میٹیریل کا کوئی میل نہ تھا۔ ابن صفی لکھتے ہیں کہ ٹیلیفون آپریٹر صاحب نے آتشی بادل کا اشتہار دیکھ کر اس کے بارے میں کچھ اس قسم کی کہانی خود بنائی ہوگی کہ آگ برساتا ہوا ایک بادل ہے جو تمام شہر ہر مسلط ہوگیا ہے، عمارتیں دھڑا دھڑ جل رہی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ پھر عمران اخیر میں اپنی پناہگاہ سے قہقہے لگاتا ہوا برآمد ہوتا ہے اور اس سائینسدان کا ٹیٹوا دباتا ہے جو ایک مشین کے ذریعے آتشی بادل بنا بنا کر فضا کو سپلائی کررہا تھا۔<br /> <br />جوابا ابن صفی اپنے مخصوص انداز میں ایک جملے میں ایسی بات کہتے ہیں کہ پڑھنے والا اچھل پڑے:<br /> <br />"یار ٹنڈو آدمی صاحب! خود ہی لکھ کر پڑھ لیا کرو"<br /> <br />غور کیا تم نے ٹنڈو آدمی کی نادر ترکیب پر ?<br /> <br />چاٹگام سے ایک اور صاحب ابن صفی کو کتابیں لکھنا ترک کرکے ترکاری بیچنے کا مشورہ دیتے نظر آتے ہیں۔ کتاب کا نام ہے "دھواں اٹھ رہا تھا"۔ ابن صفی ان صاحب کو سنجیدگی سے ایک طویل جواب دیتے ہیں لیکن آخر میں چٹکی لینے سے باز نہیں آتے:<br /> <br />"بھئی اپنا نام تو صاف لکھا کریں۔ پہلی نظر میں ‘بدھو داس‘ معلوم ہوتا ہے۔ غور کرو تو ‘رولس رائس‘ پڑھا جاتا ہے۔ ذرا ترچھا کرکے دیکھو تو ‘چلو واپس‘ گھسیٹا ہوا معلوم ہوتا ہے۔<br /> <br />ڈیڑھ متوالے کے پیشرس میں وہ اپنے پڑھنے والوں سے تین برس کے وقفے کے بعد مخاطب ہیں:<br /> <br />"رہی مختلف قسموں کے ابنوں اور صفیوں کے بات تو یہ بیچارے سارے قافیے استعمال کرچکے ہیں۔ لہذا اب مجھے کسی ‘ابن خصی‘ کا انتظار ہے۔ میری دانست میں تو اب یہی قافیہ بچا ہے۔"<br /> <br />یہاں ان کا اشارہ انہی لوگوں کی طرف تھا جو ان کے کرداروں پر غیر معیاری اور واہیات قسم کی کہانیاں لکھ کر پڑھنے والوں کو دھوکہ دیتے رہے تھے۔<br /> <br />فن کی نمود گاہ پر ایسے بھی خوش گماں ملے<br />چار حروف لکھ لیے اہل کمال ہوگئے<br /> <br />عمران سیریز نمبر 58 کا پیشرس ایک بہت ہی دلچسپ خط لیے سامنے آتا ہے:<br /> <br />"جناب ابن صفی<br />آپ کے ناول ایک عرصے سے زیر مطالعہ ہیں۔ ہمارا مسئلہ بے ڈھب ہے اور اسے مزید بے ڈھب آپ کے ناول بنا رہے ہیں جو ہماری چھوٹی بہن کے حافظے کی گرفت میں نہیں آتے۔ موصوفہ آپ کے ناولوں کی حافظہ ہیں۔ صفحہ نمبر، سطور کی تعداد، ہر صفحے کا پہلا جملہ، سچویشن، کرداروں کے مکالمے وغیرہ ازبر ہیں۔ خدشہ یہ ہے کہ یہ بار بار کا پڑھنا کہیں اس کے حواس معطل نہ کردے جس کے آثار پیدا ہوچلے ہیں۔ چھ مرتبہ فی ناول کی اوسط ہے۔ اگر نوبت یہیں تک رہتی تو پھر بھی خیر تھی لیکن اب تو پرانے ناولوں کو خریدنے اور جمع کرنے کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا ہے جس کا اختتام پاگل خانہ نظر آرہا ہے۔ آپ سے اتنی سی درخواست ہے کہ اس عجیب و غریب قاریہ سے ہماری جان چھڑائی جائے۔ پیشرس میں اپنی اس سنکی مداح کو اتنی سے نصیحت کردیں کہ ان ناولوں کو حفظ کرنے سے ثواب تو شاید ہی ملے، باقی دنیا سے بھی جائے گی۔"<br /> <br />ابن صفی جواب میں اپنے ایسے دیگر تمام پڑھنے والوں سے گزارش کرتے ہیں کہ تفریح کو تفریح کی حد سے نہ گزرنے دیجیے ورنہ وہ تفریح نہ رہے گی، لت بن جائے گی اور لت ہمیشہ بوریت کی طرف لے جاتی ہے۔ بوریت شروع - تفریح غائب - لہذا محتاط رہیے۔<br /> <br />ایک اور ناول "خطرناک ڈھلان" میں وہ قارئین سے نوک جھونک کے بہترین موڈ میں نظر آتے ہیں۔ اپنی اس کتاب کے پیشرس میں وہ ایک ایسے ہی صاحب کو، جو ان کے پچھلے ناول "ریشوں کی یلغار" سے کچھ مختلف قسم کی توقعات وابستہ کربیٹھے تھے، لال بجھکڑ قرار دیتے ہوئے ‘رجبان‘ کے بارھویں حجرے میں بند کردینے کی خواہش کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ (رجبان کے حجرے کا ذکر ریشوں کی یلغار میں ہے)۔ متذکرہ پیشرس کے ایک اور خط کے جواب میں انداز گفتگو ملاحظہ ہو:<br /> <br />" ایک مولوی صاحب کو ریشوں کی یلغار میں بھی عریانی نظر آئی ہے۔ غالبا" وہ یہ چاہتے ہیں کہ نروں کو ماداؤں کی خوشبو پر بے چین نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ڈی ڈی ٹی چھڑک کر بالکل ہی مار دیجیے کمبختوں کو۔"<br /> <br />ابن صفی جاسوسی دنیا کے 87 ویں ناول کو تحریر کرنے کے بعد اپنے اگلے ناول "پرنس وحشی" میں پڑھنے والوں کو اس وقت کے ماحول میں واپس لے جاتے ہیں جب فریدی انسپکٹر تھا اور حمید سارجنٹ۔ اس کے جواز میں وہ متذکرہ ناول کے پیشرس کا آغاز کچھ یوں کرتے ہیں:<br /> <br />"ایک بار کا ذکر ہے کہ انگریزی کے مشہور مصنف ایڈگر ویلس نے اپنے مداحوں کے ایک مجمع میں بڑے خلوص سے کہا۔ " پچاس ناول لکھنے کے بعد ہی مجھے ناول لکھنے کا سلیقہ ہوا ہے۔"<br /> <br />چھوٹتے ہی ایک صاحبزادی نے فرمایا " کاش ایسا نہ ہوا ہوتا! اب تو آپ بور کرنے لگے ہیں۔ شروع شروع کی کتابوں کا کیا کہنا۔ کاش آپ ماضی میں چھلانگ لگا سکیں۔"<br /> <br />نوجوان نسل کے مقبول شاعر امجد اسلام امجد کے سفرنامے ‘ریشم ریشم ‘کے آغاز ہی سے امجد کی ابن صفی سے عقیدت کا پتا چلتا ہے۔<br /> <br />ابن صفی نے اپنے ایک ناول "لاشوں کا آبشار" کے آخری چار صفحات میں ایک انتہائی حساس موضوع کو چھیڑا ہے۔ ناول کا ویلن مسٹر کیو کسی شخص کی ناجائز اولاد ہوتا ہے۔ وہ عدالت میں اپنا بیان دیتا ہے اور جو کچھ ابن صفی اس کردار کی زبانی کہ گئے ہیں وہ قابل غور ہے، لمحہ فکریہ ہے۔ ایک ایسا نازک و حساس موضوع ہے جس پر قلم اٹھانے کی اور اس خوبصورتی سے اٹھانے کی جرات بڑے بڑوں کو نہ ہوئی۔ مسٹر کیو کے دکھ کو تم اپنے دل میں محسوس کرو گے۔<br /> <br />ابن صفی پورے ہوگئے۔ سب کو مرنا ہے۔ کسی کو آج تو کسی کو کل مگر وہ اپنے پڑھنے والوں کے دل و دماغ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ جدید جاسوسی ادب کی تاریخ انہیں فراموش نہیں کرسکے گی اور اگر اس گناہ کی مرتکب ہوئی تو اس کا حشر بھی ان نقالوں کا سا ہوگا جو ان کے نام کے قافیے سے ملتے جلتے نام رکھ کر پڑھنے والوں کو دھوکا دیتے رہے تھے۔ جب انسانوں کی کوئی جماعت اللہ تعالی کے احکام اور اس کی اطاعت سے مسلسل روگردانی کرتی ہے تو آخر کار غیرت الہی جوش میں آجاتی ہے اور طرح طرح کے عذاب نازل ہوتے ہیں لیکن جس قوم کو سب سے بڑھ کر عبرتناک سزا دینا مطلوب ہوتا ہے، خدا تعالی اس کے چہرے کو مسخ کردیتا ہے اور ایسے لوگ اپنی شناخت گم کردیتے ہیں۔ ادب کے ان ٹھکیداروں کا چہرہ بھی مسخ ہوگیا ہے۔ ان کی شناخت گم ہوگئی ہے۔<br /> <br />فاعبتریا اولی الابصار (عبرت پکڑو اے عقل والو)<br /> <br />وہ ایک اداس صبح منہ لپیٹ کر رخصت ہوگئے۔ سب کو جانا ہے - کسی کو آج تو کسی کو کل۔ خلیل جبران نے کہا تھا کہ "روح تمہارے جسم میں ایک بربط کی مانند ہے، اب یہ تمہارے اوپر منحصر ہے کہ تم اس سے شیریں نغمے پیدا کرتے ہو یا بے ہنگم آوازیں۔"<br /> <br />ابن صفی نے اس بربط سے شیریں نغمے بکھیرے۔ ہنگم آوازیں بھی بازار میں دستیاب ہیں۔ ہر طرح کا مواد ہے۔ اب یہ نئے پڑھنے والے پر منحصر ہے کہ وہ کس کا انتخاب کرتا ہے۔<br /> <br />ابن صفی ہمارے درمیان سے اٹھ گئے، سب کو مرنا ہے، کسی کو آج تو کسی کو کل۔ وقفے وقفے کے ساتھ سب رخصت ہوجائیں گے۔ وہ ساری زندگی اپنی تحریروں کے ذریعے قانون کا احترام سکھاتا رہا۔ 1974 کے خونریز چشم دید فسادات نے اس کو ایسا کرے پر آمادہ کیا تھا کیونکہ وہ کہتا تھا کہ یہ افراتفری محض قانون کی دھجیاں اڑانے کی وجہ سے عمل پذیر ہوئی۔<br /> <br />آج حالات وہی رخ اختیار ہیں۔ قانون کی تذلیل ہر طرف دیکھنے میں آرہی ہے۔ فراق نے ایک بار کہا تھا کہ جو قوم چیخوں سے جگائی جاتی ہے، وہ جاگنے پر بھی وحشی رہتی ہے۔<br /> <br />میں ان لوگوں کے انتظار میں ہوں جو ابن صفی کو پڑھیں گے۔ اس کی باتیں مجھ سے کریں گے۔ اس کے پیغام کو سمجھیں گے۔ اس سے سبق حاصل کریں گے۔ میں ان کی راہ دیکھتا ہوں کہ جو ابھی ابن صفی سے ناواقف ہیں اور جنہیں کسی نہ کسی موڑ پر اس سے متعارف ہونا ہے۔<br /> <br />میں ان لوگوں کو دیکھ کر سکون محسوس کرنا چاہتا ہوں<br /> <br />وہ آرہے ہیں۔۔ وہ آگئے ہیں ۔۔ تم آگئے - تم نے بہر انتظار کرایا - میں راشد ہوں - اچھا اب میں چلتا ہوں<br /> <br />دسمبر 31، سن 2015<br /> <br />رات بہت سرد تھی لیکن گھر کا سنٹرل ہیٹنگ سسٹم اطمینان بخش کارکردگی کا مظاہرہ کررہا تھا۔ اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا ۔ شیشے پر بارش کی بوندیں لرز رہی تھیں۔<br /> <br />"ابھی بہت کام کرنا ہے" اس نے سوچا " اور ابھی تک آغاز بھی نہیں ہوا۔"<br /> <br />اسے امید تھی کہ وہ یہ ایک ہی نشست میں مکمل کرلے گا۔ اس کے لیے یہ بہت دلچسپ تھا۔ مضمون کا بنیادی خاکہ اس کے ذہن میں تھا۔ ۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔۔ "ابتدا کس طرح کروں"۔۔۔۔۔۔ قلم ہاتھ میں لے کر وہ کچھ دیر سوچتا رہا اور پھر کاغذ ہر جھک کر اس نے پہلا جملہ لکھا:<br /> <br />"جب مجھے ابن صفی سے محبت شروع ہوئی، انہیں انتقال کیے پورے 35 برس ہوچکے تھے۔"Rashidhttp://www.blogger.com/profile/05188816648792244637noreply@blogger.com4tag:blogger.com,1999:blog-5257349512764447761.post-16962321386750808802010-04-13T14:42:00.001+03:002010-04-13T14:42:32.426+03:00ابن صفی - پیدائشی ادیب :: ایچ اقبال<div style="color: purple;">ابن صفی صاحب پیدائشی ادیب ہیں !</div>میرے بعض دوستوں کو اس بات سے انکار ہے اور میں اس پر صرف حیرت ہی کا اظہار کر سکتا ہوں۔ اس بات کا اعتراف تو مجنوں گورکھپوری جیسے نقاد نے بھی کیا ہے کہ :<br />
<div style="color: blue;">ابن صفی صاحب کے جاسوسی ناولوں میں ادبی چاشنی بھی مل جاتی ہے۔</div>اگر ایسا نہ ہوتا تو پروفیسر ابوالخیر کشفی اور سرشار صدیقی جیسے علمی و ادبی ذوق رکھنے والے لوگ ان کے ناول ذوق و شوق سے ہرگز نہ پڑھتے۔<br />
<br />
ابن صفی صاحب نے اپنے جاسوسی ناولوں میں زندگی کے جتنے اہم پہلوؤں پر قلم اٹھایا ہے شائد ہی کسی اور ادیب نے اٹھایا ہو۔ انہوں نے معاشرے کے رستے ہوئے ناسوروں کی طرف اشارہ کیا ہے اور سماج کے زہریلے کیڑوں کو الفاظ کا جنم دے کر لوگوں کے سامنے پیش کر دیا ہے کہ ۔۔۔۔ دیکھو ! عبرت حاصل کرو ۔۔۔ اور ان سے بچو !<br />
کسی ادیب کا فرض اس سے زیادہ اور کیا ہوگا؟<br />
<br />
ابن صفی صاحب نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا تھا۔ اسرار ناروی نے ہندوستان میں بڑی دھومیں مچائی تھیں۔ پھر وہ طنزنگاری کے میدان میں آ گئے۔ اور اس میدان کے شہسواروں میں ہلچل سی مچ گئی۔ کچھ زمانہ اسی میدان میں دوڑتے ہوئے گزرا۔ لیکن ابن صفی صاحب کی سیمابی فطرت نے انہیں اکسایا کہ کہیں اور چلئے۔ خود ابن صفی کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ اب کدھر کا رُخ کیا جائے؟<br />
پھر ایک حادثہ ہوا۔ وہ جاسوسی ناول نگاری کے سمندر میں کود پڑے اور اس بحرِ اسرار کے بھی سب سے بڑے پیراک ثابت ہوئے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اسرار ناروی جیسے شاعر اور طغرل فرغان جیسے طنز نگار کے ناولوں میں ادبی چاشنی نہ ہو؟<br />
بات ادبی چاشنی کی آ گئی ہے تو میں ابن صفی کی تحریر کا ایک نمونہ پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا۔ دیکھئے کہ لکھنے کا انداز کتنا منفرد اور کتنا رومانٹک ہے ۔۔۔ یہ چند سطریں "خونخوار لڑکیاں" سے لی جا رہی ہیں ۔۔۔۔۔<br />
<br />
<blockquote>سلاخوں کے پیچھے لڑکی موجود تھی لیکن حمید اس کی شکل نہیں دیکھ سکا کیونکہ وہ گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھی اور پھر جیسے ہی اس نے سر اٹھایا حمید کی آنکھوں میں بجلی سی چمک گئی۔ پہلی نظر میں کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ کتنی حسین تھی۔ دوسری نظر بھی تفصیلی جائزے کے لیے ناکافی تھی اور تیسری نظر کو اتنا ہوش کہاں کہ وہ تفصیل میں جا سکتی۔ حمید اس کی اداس آنکھوں میں کھو گیا۔ اسے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے وہ کسی سنسان مقام پر کھڑا ہو۔ خاموشی سے پرواز کرنے والے پرندوں کی قطاریں افق کی سرخی میں لہرا رہی ہوں اور کسی پرسکون جھیل میں شفق کے رنگین لہرئیے آنکھ مچولی کھیل رہے ہوں ، لیکن ان سب پر ایک خواب آگیں سی اداسی مسلط ہو۔</blockquote><br />
ایسے ہی بےشمار ٹکڑے ابن صفی صاحب کے ناولوں میں بکھرے ہوئے ملتے ہیں۔ اگر انہیں یکجا کیا جائے تو سو سوا سو صفحے کی ایک کتاب ضرور بن جائے گی۔ بس ستم یہ ہوا کہ یہ ادب پارے جاسوسی ناولوں میں پیش کئے گئے ہیں اور جاسوسی ناولوں کو ہمارے یہاں صدقِ دل سے تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔<br />
<br />
ابن صفی صاحب کی کراہ سنئے :<br />
<div style="color: blue;">جو کہہ گئے وہی ٹھہرا ہمارا فن اسرار</div><div style="color: blue;">جو کہہ نہ پائے نہ جانے وہ چیز کیا ہوتی</div><br />
اور مجھے یقین ہے کہ وہ کوئی بہت ہی عجیب چیز ہوتی۔ کیونکہ میں نے خود بعض ادیبوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ ۔۔۔۔۔<br />
اگر ابن صفی نے جاسوسی ناول نگاری نہ کی ہوتی اور صرف طغرل فرغان ہی بنا رہتا تو آج کرشن چندر جیسے لوگوں کی صف میں کھڑا نظر آتا !<br />
<br />
ابن صفی صاحب کرشن چندر کی صف میں کھڑے ہو سکے یا نہیں ، اس بحث سے قطع نظر میں یہ ضرور کہوں گا کہ انہوں نے لوگوں کو اُردو بولنا اور پڑھنا سکھایا۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے ایک دفعہ ارشاد فرمایا تھا کہ :<br />
<div style="color: red;">اردو پر اس شخص کا بہت بڑا احسان ہے۔</div><br />
اس احسان کو آج کے لوگ مانیں یا نہ مانیں ، اس احسان کرنے والے کی ادبی حیثیت کو آج کے لوگ تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن مستقبل کا مورخ جب اردو ادب کی تاریخ لکھے گا تو ابن صفی صاحب کو تسلیم کئے بغیر نہ رہ سکے گا !!باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-5257349512764447761.post-85437185288008421712010-04-01T16:15:00.003+03:002010-04-01T16:20:12.802+03:00ابن صفی - یاد رکھے گا زمانہتحریر: راشد اشرف<br />مارچ سن 2010 <br /><br />کہنے والے نے کہا تھا کہ اس بزم ہستی سے کچھ ایسی ہستیاں بھی اٹھ جائیں گی کہ جب زمانہ ان کی تلاش میں نکلے گا تو ڈھونڈتا رہ جائے گا۔ یہ ہستیاں جنہیں شاعر حاصل زیست قرار دیتا ہے، جب زمین سے اٹھ جاتے ہیں تو حساس دل رکھنے والے غم و الم کی اتھاہ گہرایوں میں یوں ڈوب جاتے ہیں کہ پھر تمام عمر قدم قدم پر انہیں بے طرح سے یاد کیا جاتا ہے۔ اکثر یہ اخباری ترکیب پڑھتے و سنتے ہیں کہ فلاں کے چلے جانے سے ایک خلا پیدا ہوگیا ہے جو اب کبھی پر نہیں ہوگا ۔ یہ جملہ ہر کس و ناکس کے بارے میں سنتے سنتے کان پک گئے ہیں۔ ہر ایرے غیرے کے بارے میں اس کے بے دھڑک و بیجا استعمال نے اس کی معنویت کو اس بری طرح تاراج کردیا ہے کہ اب تو اسے پڑھ کر کوفت ہونے لگتی ہے۔ یاروں نے تنگ آکر کہا کہ کسی کے مرنے پر جو خلا پیدا ہوتا ہے وہ چند محض گھنٹوں پر محیط ہوتا ہے اور جو خود مرنے والے کے مردہ جسم سے پُر ہوجاتا ہے --- رہے نام اللہ کا ---- ہاں مگر یہ بھی سچ ہے کہ چند شخصیات کے بارے، اس ترکیب کا استعمال اس طرح موزوں نظر آتا ہے گویا یہ جملہ ان ہی کے لیے تخلیق کیا گیا ہو۔ ایسے لوگوں کا نعم البدل ملنا ناممکن ہوتا ہے۔ ایسی ہی نادر روزگار شخصیات میں ایک شخصیت خود ساز‘ عہد ساز‘ روایت شکن‘ روایت ساز جناب اسرار احمد المعروف ابن صفی تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج 30 برس گزر جانے کے بعد بھی مجال ہے کہ کوئی ان جیسا لکھ سکے۔ بہتوں نے بڑا زور مارا لیکن گرد کو بھی نہ چھو سکے۔ صفی صاحب کا 60 برس پہلے کا ناول اٹھا کر پڑھ لیں، اسی طرح ترتازہ معلوم ہوگا۔ لوگوں نے اس تازگی کی مختلف توجیہات پیش کیں لیکن ہماری سمجھ میں تو یہ آتا ہے کہ جرائم کی جانب حضرت انسان کا جھکاؤ ازل سے تھا اور ابد تک رہے گا۔ خیر و شر کے درمیان جنگ بھی اسی طرح جاری و ساری رہے گی، ہاں مگر ابن صفی صاحب نے اپنی کتابوں کے ذریعے قانون کا جو احترام سکھایا ہے اور جس انداز میں سکھایا ہے اس منفرد اسلوب کو اب سے 60 برس بعد بھی وہی پذیرائی ملتی نظر آئے گی کہ جس کے وہ حقدار تھے اور ہمیشہ رہیں گے۔<br /> <br />یوں تو ہم نے ایشیا کے سری ادب کے عظیم مصنف جناب ابن صفی پر اردو و انگریزی میں کئی مضامین تحریر کیے ہیں جن میں صفی صاحب کے فن اور ان کی شخصیت پر سیر حاصل روشنی ڈالی گئی ہے لیکن آج یہاں صفی صاحب کے چاہنے والوں کے لیے صفی صاحب کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ یاد آرہا ہے جو ہمارے احباب کے درمیان ہماری لاج رکھنے کا سبب بنا<br /> <br />پُرانی صحبتیں یاد آ رہی ہیں<br />چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے<br /> <br />یہ بات ہے سن 2001 کی جب ہم بسلسلہ روزگار، ضلع مظفر گڑھ، پنجاب میں مقیم تھے۔ اس روز آفس کی چھٹی تھی اور چند احباب کے ہمراہ ملتان کی سڑکوں پر آوارہ گردی کے دوران جاسوسی ادب پر بحث چل نکلی تھی، ہر شخص اپنی اپنی رائے دے رہا تھا۔ کہنے کو تو ہر کسی نے ابن صفی کو کبھی نہ کبھی پڑھا تھا لیکن ہماری صفی صاحب سے عقیدت اور ان پر لکھے گئے مضمون کے دعوے کو للکار کر ہمارے عزیز دوست بشیر صاحب (حال مقیم سعودی عرب) تشکیک کا شکار تھے اور دوسروں کو بھی اپنا ہم نوا کرچکے تھے۔ اکثر بے تکلف دوستوں کے درمیان اپنے کسی ایک ساتھی کی "ٹانگ کھینچنے" کا عمل بڑی مہارت اور یکجائی کے ساتھ سرانجام پاتا ہے اور اس دن تختہ مشق ہم تھے۔<br /> <br />یہاں ایک ذرا بشیر صاحب کا تعارف کراتے چلیں۔ ان کا تعلق کوٹ ادو کے علاقے سے تھا۔ پیشے کے لحاظ سے انجینیر تھے۔ اصولوں پر شمجھوتا نہ کرتے ہوئے دو نوکریاں چھوڑ چکے تھے -- دل کے کھرے، کردار کے بے داغ، انتہائی ذودرنج، جلد روٹھنے اور اتنی ہی جلدی مان جانے والے - سانولی رنگت، سر پر سیہہ کی طرح لہرے دار اور کھڑے بال، لامبا قد۔ رخساروں پر اوپر کی طرف جہاں عموما" داڑھی کے بالوں کا نام و نشان نہیں ہوتا، بال بے طرح سے اُگ آتے تھے اور اکثر ہم بشیر صاحب کے ساتھ نائی کی دکان پر جایا کرتے تھے جہاں نائی ایک دھاگہ ہاتھ میں لے کر بےدردی سے فالتو بالوں کی فصل کُھرچا کرتا تھا۔ بشیر صاحب اس تمام عمل کے دوران شرمندہ شرمندہ سے نظر آتے۔ سچ پوچھیے تو اس سے پہلے یہ منظر ہم نے نہ دیکھا تھا اور ہم اس تمام عرصے میں کچھ کچھ عبرت لیے، حیرت و دلچسپی سے نائی کی بےرحمی اور بشیر صاحب کا صبر دیکھا کرتے تھے- ایک روز جب نائی ان پر اپنی مہارت آزما رہا تھا تو یکایک وہ عبرت ناک منظر دیکھتے ہوئے، ہم جھک کر آہستہ سے بشیر صاحب کے کان میں کہا "حضور، بس یہ خیال رکھیے گا کہ کہیں انسداد بے رحمی حیوانات والوں کو اس عمل کی بھنک نہ پڑنے پائے اور پھر نائی کو بشیر صاحب کو کچھ وقت دینا پڑا کہ ہنسی کا دورہ تھم جائے تو وہ اپنا کام دوبارہ شروع کرے ۔<br /><br /> قہقہہ لگانے میں بشیر صاحب یدطولی رکھتے تھے۔ ایسا فلک شگاف قہقہہ کہ آسمان تھرا اٹھے اور قہقہے کے بعد پھیلا ہوا ہاتھ کہ آپ جوابا" ہاتھ پر ہاتھ نہ ماریں تو اسے سخت بداخلاقی تصور کرتے تھے۔ اپنی حد درجہ صاف گوئی کی بنا پر لوگوں میں غیر مقبول تھے اور اسی بنا پر ہمارے کمرے میں روز رات کے کھانے کے بعد پھیرا لگانا ان کا معمول بن گیا تھا۔ گرمی ہو یا سردی، ان کے معمول میں کھبی فرق نہ آتا۔ ہفتے اور اتوار کو آفس کی چھٹی ہوتی تھی اور وہ ان دو دنوں کے لیے کوٹ ادو اپنے گھر چلے جایا کرتے تھے۔ سچ پوچھیے تو ان کا جانا ہم پر گراں گزرتا تھا کہ ہم حیررآباد سے 800 کلومیٹر دور وہاں بشیر صاحب کی ہمنشینی کے عادی ہوچلے تھے۔ ہمارے چند جملوں پر پھڑک پھڑک اٹھتے تھے۔ آپ سے کیا پردہ، ہم بھی تو اکثر مشتاق یوسفی صاحب کا ہی سہارا لیا کرتے تھے۔<br /> <br />" بشیر صاحب، یاد رکھیں، زبان سے نکلا ہوا تیر اور بڑھا ہوا پیٹ کبھی واپس نہیں آتے" - یہ ہم نے شام کی چہل قدمی کے دوران اس موقع پر کہا کہ جب بشیر صاحب حسب عادت کوئی بےلاگ تبصرہ کربیٹھے تھے، بس پھر کیا تھا، بشیر صاحب چلتے چلتے رک گئے اور قہقہے لگانے لگے۔ ایک روز کسی بات پر ہم نے کہا کہ "یاد رکھیے کہ بیوی سے عشقیہ گفتگو کرنا ایسا ہی ہے جیسے انسان وہاں خارش کرے جہاں نہ ہورہی ہو" وہ بے انتہا محظوظ ہوئے اور پھر ہم نے یہ جملہ ان کو موقع بے موقع دوہراتے اکثر دیکھا۔<br /> <br />ایک روز ہم نے ابن صفی صاحب کا جملہ چلادیا - بات ہورہی تھی ہمارے کسی عزیز کی اور بشیر صاحب کو وہ پیچیدہ رشتہ سمجھانا مشکل ہورہا تھا کہ اچانک ہم نے کہا " یار یوں سمجھ لیں کہ وہ ہمارے "دادا زاد" بھائی ہیں" ۔ بشیر صاحب کے حلق سے توپ کے گولے کی مانند ایک قہقہہ نکلا۔<br /> <br />تو یہ تھے ہمارے بشیر صاحب۔<br /> <br />بات ہورہی تھی ملتان کی۔ گفتگو ایک ایسے موڑ پر آٹھہری تھی کہ جہاں "عزت سادات" بچانا مشکل ہوچلا تھا۔ دوستوں نے استہزایہ لہجے میں یہ کہنا شروع کردیا کہ صرف باتیں ہی باتیں ہیں، اب گھر جانا تو ثبوت لانا کہ بولنے اور لکھنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ہم احباب کی لاف گزاف کے سامنے ہتھیار ڈال چکے تھے۔ دوستوں کا ٹولہ آہستگی سے قدم اٹھاتا چلا جارہا تھا کہ فرمائش ہوئی کہ چائے پی جائے۔ ایک چھوٹے سے ہوٹل کی جانب قدم اٹھ گئے۔ اند داخل ہونے سے پہلے بشیر صاحب نے باہر کھڑے پرانی کتابوں کے ایک ٹھیلے کو ٹٹولنا شروع کردیا، ہمارے لیے تو کتابیں اوائل عمری ہی سے باعث مسرت رہی ہیں۔ ٹھیلے کے ایک کونے میں پرانے ڈائجسٹ نظر آئے اور ہم نے یونہی ان کو یکے بعد دیگرے دیکھنا شروع کردیا۔ ارے یہ کیا، یہ تو کوئی جانا پہجانا سرورق جان پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگست سن 1995 کا نئے افق ۔۔۔۔۔۔۔ آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا ----- یا اللہ، یہ تو نے کیسی لاج رکھی۔ جی ہاں، مذکورہ شمارہ وہی تو تھا جس میں سات برس قبل ابن صفی صاحب پر ہمارا طویل مضمون "قلم کا قرض" شائع ہوا تھا جسے مشتاق احمد قریشی صاحب نے مذکورہ شمارے کے اولین مضمون کے طور پر شائع کیا تھا۔ "قلم کا قرض" کا مسودہ ہم بغل میں دابے، انتہائی نامساعد حالات کے اور گھر والوں کی مخالفت کے باوجود حیدرآباد سے کراچی، نئے افق کے دفتر میں دے کے آئے تھے۔ یہ مضمون جناب محمد حنیف کی ابن صفی صاحب پر بنائی آفیشل ویب سائٹ ابن صفی ڈاٹ انفو پر موجود ہے۔<br />بس پھر کیا تھا- ہم نے ایک فاتحانہ انداز میں رسالہ اٹھایا، ٹھیلے والے کے ہاتھ پر مُنہ مانگے پیسے رکھے اور بشیر صاحب کی طرف نظر دوڑائی۔ وہ کتابیں دیکھنے میں مصروف تھے۔<br /> <br />"ہاں تو جناب والا، آپ کو ثبوت چاہیے تھا، اب ذرا ملاحظہ فرمائیے" یہ کہہ کر ہم نے ان کی آنکھوں کے سامنے رسالہ لہرایا۔<br /> <br />ارے کیا ملتان کی گرمی میں دیوانے ہوگئے ہیں آپ" وہ بولے<br /> <br />"دیوانہ ہونے کی باری اب آپ کی ہے ---- حضور، ہم رہنے والے حیدرآباد کے اور یہاں شہر ملتان کے اس ٹھیلے پر بھی ہم موجود ہیں، اب اس سے بڑا کیا ثبوت دیں، یہ دیکھیے ہمارا ابن صفی پر مضمون، مصنف یہ ناچیز یعنی راشد اشرف<br /> <br />بشیر صاحب کو گویا سانپ سونگھ گیا<br /> <br />اتنے میں دیگر احباب بھی ہوٹل سے آدھمکے - ایک جھمگٹا سا لگ گیا۔ ہمارے محبوب مصنف پر لکھی تحریر کو باری باری سب دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔ ایسا لگا جیسے ابن صفی صاحب نے خود اس نازک موقع پر ہماری مدد کی ہو۔<br /> <br />بشیر صاحب نے پھر کبھی جاسوسی ادب اور ہماری ابن صفی سے عقیدت کو چیلنج نہیں کیا۔Rashidhttp://www.blogger.com/profile/05188816648792244637noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5257349512764447761.post-82754472989659065042010-01-20T07:55:00.028+03:002010-02-20T08:42:22.684+03:00ابن صفی کے ناولوں سے کچھ انتخاب بمعہ تبصرہدوستو!<br />صفحہ مختصر ہے اور داستان طولانی ۔۔۔۔۔۔ باذوق بھائی کی حوصلہ افزائی کی بنا پر جناب ابن صفی کے ناولوں سے ‘کچھ انتخاب بمعہ تبصرہ‘ ہم یہاں شروع کررہے ہیں، یہ سلسلہ ہمیں امید ہے، صفی صاحب کے چاہنے والوں کو اپنی جانب ضرور متوجہ کرے گا...... گہرے یا بولڈ حروف میں درج عبارت صفی صاحب کے ناول سے لی گئی ہے جبکہ ابتدا میں سادہ حروف میں لکھی گئی رائے یا تہمید ہماری تک بندی ہے جسے آپ ایک طفل مکتب کی خوشہ چینی سمجھ کر برداشت کر لیجیے گا۔۔۔۔۔۔۔ آُپ کوئی حوالہ دینا چاہیں تو بسروچشم...... یہی سرخوشی و سرفرازی تو ایسے میں بھی زندہ و توانا رکھے ہوئے ہے......صفی صاحب سے لگاؤ کو ایک جگ پیت گیا۔ دوسرے جگ میں لازم نہیں ہے کہ موسم نہ بدلے، نیت اور ارادے کا صدق بھی کوئی چیز ہے اور سب سے بڑا کرشمہ تو شمولیت ہے، اسے شمولیت کہیے یا وابستگی، مگر پہلی شرط ہے۔ اس سے سونا کندن ہوتا ہے، اور سنا ہے، دیوانوں کو بخشش کا ایک گداز ہمیشہ ملتا ہے۔ <br /><br />خیر اندیش<br />راشد اشرف - جنوری 2010<br /><br />(1)<br /><br />جناب ابن صفی کے پیشرس سے ایک چشم کُشا اقتباس - دور ابتلا میں مبتلا عصر حاضر کے چاک گریبانوں و حرماں نصیبوں کو مصنف کا نیک مشورہ -- وہی سادہ اور دلنشیں انداز کہ جس کے لیے ہم سب صفی صاحب کے چاہنے والے سراپا رہن عشق ہیں: <br /><br /><span style="font-weight:bold;">"خالق کائنات، اشرف المخلوقات کو ہر آن سرگرم عمل دیکھنا چاہتا ہے اسی لیے انہیں یکسانیت کا شکار نہیں ہونے دیتا۔۔۔خوشی اور غم کے یہی وقفے ہمیں آگے بڑھتے رہنے کا حوصلہ بخشتے ہیں، کامرانی کی نئی منزلوں کی طرف ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔۔۔<br /><br />غموں کو آہ و زاری کے سپرد کرنے کے بجائے مستقبل کی سوچو کہ دوبارہ غم پلٹ کر تمہاری طرف نہ آنے پائے۔۔۔ مسرت کو قہقہوں کا نوالہ نہ بناؤ بلکہ اس انرجی کو اس تگ و دو میں صرف کردو کہ وہ مسرت اب تم سے چھننے نہ پائے۔۔۔"</span><br /><br />(2) <br /><br />صفحہ مختصر ہے اور داستان طولانی۔۔۔۔۔۔۔ آج بھی قوم مجموعی طور پر مایوسی کا شکار ہے۔۔۔۔۔ 1972 میں لکھے گئے، دور حاضر سے لگا کھاتے، ابن صفی صاحب کے یہ الفاظ، ہر آن چوکنا رہنے کا سبق دیتے ہیں۔۔۔۔۔ کہاں لغزش، ایسی کونسی چوک ہورہی ہے کہ رفتہ رفتہ ہم وہاں جارہے ہیں جہاں سے واپسی کے لیے شاید کوئی خون کا دریا عبور کرنا پڑے۔۔۔۔۔۔۔ کیا شاعر کا ایک بار یہ کہنا کافی نہ تھا:<br /><br /> کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار <br /> خون کے دھبے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد<br /><br /><span style="font-weight:bold;">"مایوسی کو پاس نہ پھٹکنے دیجیے۔ دنیا کی کئی قومیں اس وقت کڑے آزمائشی دور سے گزر رہی ہیں! ایسے حالات میں صرف ثابت قدمی اور قومی یک جہتی برقرار رکھنے کی کوشش ہی ہمیں سرخ رو کر سکتی ہے! دشمن ایک بار پھر ہماری صفوں میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرے گا! لہذا ہوشیار رہئیے! افواہوں پر کان نہ دھریے۔ قومی تعمیر نو میں پوری پوری ایمانداری سے حصہ لیجیے۔ اور اللہ سے دعا کرتے رہییے کہ وہ قوم کے معماروں کو فلاح کا راستہ دکھاتا رہے! <br /><br />ایک بار پھر گذارش کروں گا کہ دشمن کے ایجنٹوں کی پیشانیوں پر ان کے آقا کی مہر نہیں ہوتی۔ وہ صرف گفتار اور کردار ہی سے پہجانے جاسکتے ہیں۔ مایوسی پھیلانے والوں پر کڑی نظر رکھیے!"</span> <br /><br />(3)<br /><br />ابن صفی صاحب کو اکثر و بیشتر ایسے خطوط آتے تھے جن میں ان کے قارئین تازہ ناول پر بے لاگ تبصرہ کچھ اس طور سے کرڈالتے کہ گویا کہانی کا قاری کے سوچے ہوئے پسندیدہ انجام سے میل نہ کھانا بھی صفی صاحب ہی کا قصور ٹھہرا۔۔۔۔۔۔جاسوسی دنیا کے ایک ناول کے اس پیشرس میں ذرا دیکھیے تو سہی کہ صفی صاحب ایک موزوں و معقول جواب دینے کے بعد چٹکی لینے سے باز نہ آئے۔۔۔۔۔۔۔ٹنڈو آدمی کی نادر ترکیب پر ہم تو سر دُھنا ہی کیے، خود "ٹنڈو آدمی" صاحب بھی پھڑک اٹھے ہوں گے<br /><br /><br /><span style="font-weight:bold;">“ٹنڈو آدم کے ایک ٹیلیفون آپریٹر کا خیال ہے کہ میرا پچھلا ناول آتشی بادل محض پکواس تھا! ان کی دانست میں ناول کا نام تو شاندار تھا لیکن اس کے اعتبار سے کہانی پھسپھسی ہے۔۔۔۔ ٹیلیفون آپریٹر نے سہہ رنگا شعلہ میں آتشی بادل کا اشتہار دیکھ کر اس کے بارے میں کچھ اس قسم کی کہانی خود بنائی ہوگی جہ آگ برساتا ہوا ایک بادل پورے شہر پر مسلط ہوگیا۔۔عمارتیں دھڑا دھڑ جلنے لگیں۔۔۔۔۔جب سب جل کر خاک ہوگیا تو عمران شورنالہ و بکا پر قہقہے لگاتا ہوا اپنی پناہ گاہ سے برآمد ہوا اور ہزاروں میل دعر کے پہاڑوں میں فروکش اس سائنٹسٹ کا ٹیٹوا جا دبایا جو ایک بہت بڑی مشین کے ذریعے آتشی بادل بنا بنا کر فضا کو سبلائی کررہا تھا!"<br />" یار ٹنڈو آدمی صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔خود ہی لکھ کر پڑھ لیا کرو"</span><br /><br /><br />(4)<br /><br /><span style="font-weight:bold;">یادش بخیر، صفی صاحب سے کسی نے 1979 میں پوچھا " اگر آپ زیرو لینڈ کے سلسلے کی آخری کتاب لکھنے سے پہلے ہی اللہ کو پیارے ہوگئے تو کیا ہوگا ?" صفی صاحب نے جواب دیا:<br />"بہت اچھا ہوگا، بھائی! میں زیرو لینڈ کی تلاش سے بچ جاؤں گا۔ ہرگز یہ نہیں کہہ سکتا کہ:<br /><br /> آئے ہے بے کسی عشق پہ رونا غالب<br /> کس کے گھر جائے گا یہ سیلاب بلا میرے بعد<br /><br />کسی کے بھی گھر جائے، میری بلا سے۔۔۔۔۔۔۔۔ میری زندگی ہی میں کتنوں نے زیرو لینڈ کو تلاش کرکے تباہ بھی کردیا۔ پھر اس سے کیا فرق پڑا کہ میرے آخری کتاب نہ لکھ بانے سے پڑ جائے گا <br /></span><br /><br />(5)<br /><br />سن 1964 میں جاسوسی دنیا کے ایک ناول کے پیشرس میں ابن صفی صاحب نے اپنے ناولز کے انگریزی تراجم کا عندیہ دیا تھا۔ آج 46 برس بعد ان کی یہ خواہش پوری ہونے جارہی ہے۔<br /><br /><span style="font-weight:bold;">"ان صاحب سے ایک بار ضرور کہوں گا جنہوں نے مجھے انگریزی کے جاسوسی ناولوں کے تراجم پیش کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگر آپ ایسا کریں تو ہم تین کے بجائے تیس روپے میں وہ کتاب خریدیں گے۔<br /> <br />شکریہ جناب! لیکن صرف آپ ہی خرید سکیں گے، بقیہ پچاس پیسے فی سیر کے حساب سے فروخت کرنی پڑیں گی۔ تراجم کا حشر آئے دن پیش نظر رہتا ہے اور پھر میں کیوں کروں انگریزی ناولوں کا ترجمہ! کیوں نہ میرے ہی ناولوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا جائے۔ شاید جلد ہی آپ میرے ناولوں کے انگلش ایڈیشن بھی دیکھ سکیں<br /></span><br /><br />(6)<br /><br />یوں تو ابن صفی صاحب نے اپنے نقالوں کا نذکرہ دلچسپ پیرائے میں ڈیڑھ متوالے میں کیا تھا لیکن جاسوسی دنیا کے ایک ناول کے پیشرس میں وہ ایک مرتبہ پھر اس بارے میں گویا ہوئے۔<br /><br /><span style="font-weight:bold;">"ابھی حال ہی میں میرے ایک معزز ہمدرد نے مجھے مشورہ دیا ہے کہ میں کبھی کبھی ایک آدھ ناول اپنے لیے بھی لکھ لیا کروں، صرف ‘پبلک کے بے حد اصرار‘ ہی کا شکار ہو کر نہ رہ جاؤں۔ میرے لیے یہ مشورہ بہت وقیع ہے..... ویسے بھی ‘طلسم ہوشربا‘ قسم کی کہانیاں لکھنے میں میرا جی نہیں لگتا۔ اور یقین کیجیے میں وہی لکھوں گا جو میرا جی چاہے گا...پہلے بھی کبھی کسی کا مشورہ قبول کیے بغیر لکھتا رہا ہوں۔ لیکن آخر آپ یہ کیوں چاہتے ہیں کہ ہیں ویسی ہی کہانیاں لکھتا رہوں جیسی پہلے لکھ چکا ہوں۔۔۔ اب بھی جو کچھ لکھ رہا ہوں اگر اس میں نیا پن نہ ہو تو مجھے گولی مار دیجیے! اور اپنے ذوق کی تسکین کے لیے دوسروں کو پڑھیے۔ اب میں اکیلا تو نہیں۔۔۔۔ میرے بےشُمار "ناتحقیق بھائی" منظر عام پر آگئے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ وہ بھی "صفی" ہی کی چھاؤں میں پناہ لیتے ہوں۔<br /><br /><br />(7)<br />ابن صفی صاحب نے اپنے جاسوسی ناولوں میں زندگی کے جتنے اہم پہلوؤں پر قلم اٹھایا ہے، شاید ہی کسی اور ادیب نے اٹھایا ہو۔ انھوں نے معاشرے کے رستے ہوئے ناسوروں کی طرف اشارہ کیا ہے اور سماج کے زہریلے کیڑوں کو الفاظ کا جسم دے کر لوگوں کے سامنے پیش کردیا ہے کہ دیکھو! عبرت حاصل کرو......اور ان سے بجو! کسی ادیب کا فرض اس سے زیادہ اور کیا ہوگا۔<br /> گرچہ ان کی تحریروں نے سماج میں باوقار رجحان کے ارتقا میں اہم کردار ادا کیا لیکن ابن صفی صاحب، اردو ادب میں مقام حاصل کرنے کی مسابقت سے ہمیشہ کوسوں دور رہے تھے<br /><br /><br />"ہمیشہ زندہ رہنے والے ادب میں ایک کہانی کا مزید اضافہ ہوا۔ یہ ادب ہمیشہ اس لیے زندہ رہتا ہے کہ اس کا براہ راست تعلق تجسس کی جبلت سے ہے جو مرتے دم تک زندہ رہتی ہے۔ آدمی اس وقت بھی متجسس ریا ہے جب وہ غریب اپنی اس جبلت کو کوئی مخصوص نام دینے کا سلیقہ نہیں رکھتا تھا۔ اگر میں غلط نہیں کہہ رہا ہوں تو وہ پروفیسر صاحبان ہی اس کی تصدیق کردیں جو چھپا چھپا کر جاسوسی ناول پڑھا کرتے ہیں، لیکن اگر کسی نشست میں کسی کی زبان پر جاسوسی ناولوں کا نذکرہ بھی آجائے تو اس طرح ناک بھوں سکوڑتے ہیں جیسے اس نے خواتین کے مجمع میں مغلظات شروع کردی ہوں۔ ادب کی زندگی یا موت کا پیمانہ آدمی ہے لہذا آدمی کی مختلف قسم کی صلاحیتوں کے انحطاط کے ساتھ ہی مختلف قسم کے ادب کا بھی تیا پانجہ ہوتا رہتا ہے۔ بہتریے لوگوں کو جوانی کی بداعمالیوں کی یہ سزا ملتی ہے کہ وہ بڑھاپے میں صوفی ہو جاتے ہیں۔<br /><br />تجسس کی جبلت مرتے دم تک قائم رہتی ہے، کچھ نہیں تو مرنے والا یہی سوچنے لگتا ہے کہ دیکھیں اب دم نکلنے کے بعد کیا ہوتا ہے، اس لیے اس جبلت کی تسکین فراہم کرنے والا ادب بھی ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔<br /><br /><br />(8)<br />ابن صفی صاحب کی ادبی حیثیت و مقام کی بات آج تک کی جاتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اردو ادب میں ان کو جو مقام ادب کے نام نہاد ٹھیکیدار نہ دے پائے وہ ابن صفی کے لاکھوں مداحوں نے صفی صاحب کو اپنے دل میں بسا کر دیا۔ درحقیقت، صفی صاحب تمام عمر ادب سے زیادہ، ‘اردو‘ کی خدمت کرتے رہے.......جاسوسی دنیا کے ناولز کے پیشرس سے یہ اقتباسات ہمارے ہردلعزیز مصنف کی درویش صفت طبیعت کا عکاس ہیں۔<br /><br />part-1<br />اس بار ایک صاحب نے اپنی دلچسپ خواہش کا اظہار کیا ہے۔۔ فرماتے ہیں: " آپ جب اتنا اچھا لکھ سکتے ہیں تو ادبی انعام کے لیے کوشش کیوں نہیں کرتے۔ خاص طور پر ایک ناول اس کے لیے بھی لکھیے۔ میرا دعوی ہے کہ آپ کامیاب رہیں گے"<br />جناب عالی! میرا سب سے بڑا انعام یہی ہے کہ آپ میری کتابیں پسند کرتے ہیں۔، انہیں حرف بحرف اس طرح پڑھتے ہیں کہ بعض عبارتیں ازبر ہوجاتی ہیں اور آپ بےتکان ان کے حوالے اپنے خطوط میں دیتے ہیں۔ اور مجھے متعدد کتابیں اُلٹنی پڑتی ہیں کہ میں نے یہ چیز کب اور کہاں لکھی تھی۔ ویسے ایک بات ہے کہ آُپ کسی ‘پبلک چونی فنڈ‘ سے کوئی ایسا ادارہ قائم کیجیے جو اچھی ادبی تخلیقات پر انعام دے سکے تو میں اس کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دوں گا کیونکہ اس کی نوعیت قومی ہوگی لیکن شخصی انعام کا تصور بھی میرے لیے توہین آمیز ہے۔"</span> <br /><br />part-2<br /><span style="font-weight:bold;">اساطیری کہانیوں سے لے کر مجھ حقیر کی کہانیوں تک آپ کو ایک بھی ایسی کہانی نہ ملے گی جس میں جرائم نہ ہوں......اور آج بھی آپ جسے بہت اونچے قسم کے ادب کا درجہ دیتے ہیں اور جس کا ترجمہ دنیا کی دوسری زبانوں میں بھی آئے دن ہوتا رہتا کیا جرائم کے تذکروں سے پاک ہوتا ہے? کیا اس کے مضرت رساں پہلوؤں پر ہمارے نقاد کی نظر پڑتی ہے ? اگر نہیں....تو کیوں ? اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے لوگ کہانیوں میں بھی (جو دراصل ذہنی فرار کا ذریعہ ہوتی ہیں) پولیس یا جاسوس کا وجود نہیں برداشت کرسکتے۔ چلیے پولیس کو اس لیے برداشت کر لیں گے کہ وہ للکار کے سامنے آتی ہے لیکن جاسوس تو بےخبری میں پتہ نہیں کب گردن دبوچ لے۔۔ لہذا اگر مجھے ادب میں کوئی مقام پانے کی خواہش ہے تو جاسوس کو چھٹی دینی پڑے گی۔۔ لیکن میں اس پر تیار نہیں کیونکہ مجھے ہر حال میں شر پر خیر کی فتح کا پرچم لہرانا ہے۔۔ میں باطل کو حق کے سامنے سربلند نہیں دکھانا چاہتا۔ میں معاشرے میں مایوسی نہیں پھیلانا چاہتا...... ایسی مایوسی جو غلط راستوں پر لے جائے۔</span><br /><br />part-3<br />"<span style="font-weight:bold;">اس خیال کو دل سے نکال دیجیے کہ میں اپنے ہی جیسے کسی انسان سے انعام کا خواہاں ہوں، اس کا تصور بھی مجھے احساس کمتری کے گڑھے میں دھکیل دے گا۔ میرے لیے میرے اللہ کا یہی انعام کافی ہے کہ کتاب فروش میری کتابوں کو کرنسی نوٹ کہتے ہیں۔</span>"<br /><br />part-4<br /><span style="font-weight:bold;">جب کوئی میرا ناول بہت پسند کیا جاتا ہے تو مجھ سے ‘ادب‘ کی خدمت کی فرمائش کی جاتی ہے۔ بھائی، آپ تو صرف مجھے اردو کی خدمت کرنے دیجیے (اس کے باوجود کہ صرف ونحو کی غلطیاں مجھ سے بھی سرزد ہوتی ہوں گی)۔ آپ اس وقت میری خوشی کا اندازہ نہیں لگاسکتے جب مجھے کسی سندھی یا بنگالی بھائی کا خط بہ ایں مضمون ملتا ہے کہ محض آپ کی کتابیں پڑھنے کے شوق کی وجہ سے اردو پڑھ رہا ہوں۔ پڑھ کر سنانے والوں کا احسان کہاں تک لیا جائے۔۔۔۔ اب بتائیے میں ادب کی خدمت کروں یا میرے لیے ‘اردو ہی کی خدمت‘ مناسب رہے گی۔ ویسے اپنے نظریات کے مطابق ادب کی بھی خدمت کررہا ہوں، سوسائٹی کی بھی اور میری اس خدمت کا انداز نہ تو بدلتے ہوئے حالات سے متاثر ہوتا ہے اور وقتی مصلحتوں کے تحت کوئی دوسری شکل اختیار کرسکتا ہے۔۔ بہرحال میں قانون کا احترام کرنا سکھاتا ہوں۔</span>"Rashidhttp://www.blogger.com/profile/05188816648792244637noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5257349512764447761.post-47151010213146805562009-12-30T09:20:00.009+03:002010-01-08T18:54:39.442+03:00عہدٍ گم گشتہ ۔۔ استاد محبوب نرالے عالم - 2009 دسمبر میں کی گئی تحقیق کے حوالے سے چند انکشافات<div align="center">افسردگی سوختہ جاناں ہے قہر میر </div><div align="center">دامن کو ٹُک ہلا کہ دلوں کی بُجھی ہے آگ</div><div align="center"></div><div align="center"></div><div align="right">ہمارے سامنے ایک خاتون اپنی اشکبار آنکھیں لیے بیٹھی تھی، اس کی والدہ اور پڑی بہن افسردہ بیٹھے تھے، ذکر مرحوم استاد محبوب نرالے عالم کا تھا، کمرے کی فضا بوجھل ہوچلی تھی، دکھ، حیرت، رنج و غم، کتنے ایسے جذبے تھے جو ہمیں پوری طرح گرفت میں لے چکے تھے۔ یا خدا، کیا یہ اسی شہر نگاراں کا قصہ ہے کہ جہاں زیادہ تر نفع و نقصان کی بنیاد پر لوگوں سے تعلقات رکھے جاتے ہیں۔</div><div align="right"><br />ہم سوچتے ہیں اس مضمون کی ابتدا کیسے اور کہاں سے کریں۔ خیال آیا کہ یہی مناسب رہے گا کہ واقعات کو بلا کم و کاست بیان کرتے چلیں کہ ابن صفی صاحب کے پڑھنے والوں کی ذہنی و فکری تربیت تو صفی صاحب اپنی تحریروں کے ذریعے سے آج تک خود کرتے ہیں۔</div><div align="right"><br />دسمبر بیس 2009 کی صبح جب ہم محمد حنیف صاحب (ابن صفی ڈاٹ انفو) کی ارسال کی ہوئی لگ بھگ پانچ سال پرانی اخباری خبر پر درج کراچی کے علاقے اورنگی کے پتے کو اپنی والدہ کے ہمراہ (کہ جن کی برکت سے وادی اردو پر موجود ابن صفی صاحب سے تعلق رکھنے والی ان شخصیات کی کھوج ممکن ہوتی چلی گئی جن پر ماضی کی گرد پڑچکی تھی) اور ایک کرم فرما جناب امجد اسلام کی رفاقت میں ڈھونڈنے نکلے تو کامیابی کا امکان صرف ایک فیصد تھا۔ اورنگی کی گلیوں میں بھٹکتے، لوگوں سے رہنمائی کے خواستگار، بلاآخر ہم اس جگہ پہنچنے میں کامیاب ہوئے کہ جو اس خانماں برباد انسان کا عرصہ 15 سال تک آخری ٹھکانہ کہلایا جسے سری ادب کے بےتاج بادشاہ جناب ابن صفی نے دنیا کے روبرو استاد محبوب نرالے عالم کے نام سے روشناس کروایا۔ دروازے پر دھڑکتے دل کے ساتھ دستک دی تو ایک خاتون سامنے آئیں۔ یوں تو ہم منزل مراد پر پہنچ کر بھی ناکام لوٹ آتے کہ گھر کا مرد موجود نہ تھا لیکن ہماری والدہ کی موجودگی کی بنا پر گھر کے اندر رسائی ممکن ہوپائی اور یوں صفی صاحب کے حوالے سے ایک اور بند دروازہ ہم پر کھلا، برق رفتاری سے امتداد زمانہ کی نظر ہوتے ایک عہد کے مخفی گوشے آشکار ہوئے۔</div><div align="right"><br />بے نوا شاعر، ابن صفی صاحب کے قلم کی زبان میں "ادیف" (ادیب)، شریف النفس و درویش صفت انسان اور زمانے کی ناقدری کا شکار حرماں نصیب، استاد محبوب نرالے عالم کا پتہ ملا۔</div><div align="right"></div><div align="right"></div><div align="right">آگے بڑھنے سے قبل ایک ذرا یہاں ابن صفی صاحب ہی کے ناولز سے اس محبوب نرالے عالم کے کردار کا جائزہ لیں جسے صفی صاحب نے عمران سیریز میں امر کردیا۔ واضح ریے کہ درج ذیل اقتباسات استاد کی ابن صفی صاحب سے دوران ملاقات کہی ہوئی وہ باتیں ہیں جنہیں صفی صاحب نے تقریبا" من و عن عمران سیریز میں استعمال کیا ہے۔ ان میں سے کئی باتوں کی تصدیق استاد کے مرتب کردہ اس ذاتی رجسٹر سے ہوئی جو استاد کے وسیع القلب اہل خانہ (جنہوں نے استاد کو 15 برس اپنے گھر میں محبت و عقیدت کے ساتھ رکھا) نے ہمیں مرحمت کیا تھا</div><div align="center"><br /><span style="color: rgb(204, 102, 0);">ڈاکٹر دعاگو -1<br /></span></div><div align="center">یہ تھے استاد محبوب نرالے عالم۔ بے پناہ قسم کے شاعر۔شاعر کس پائے کے ہوں گے، یہ تو تخلص ہی سے ظاہر تھا۔ اتنا لمبا چوڑا </div><div align="center">تخلص شاید ہی کسی مائی کے لال کو نصیب ہوا ہو۔ استاد کا کہنا تھا کہ بڑا شاعر وہی ہے جس کے یہاں انفرادیت بے تحاشا پائی جاتی ہو، لہذا ان کا کہا ہوا شعر ہمیشہ بے وزن ہوتا تھا۔ بسر اوقات کے لیے پھیری لگا کر مسالے دار سوندھے چنے بیچتے تھے۔ مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ جو بھی پکڑ پاتا بری طرح جکڑ لیتا۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا کہ سننے سنانے کے چکر میں استاد ہفتوں دھندے سے دور رہتے۔ بڑے بڑے لوگوں سے یارانہ تھا، پھر عمران کیسے محروم رہتا۔"کوئی عمدہ سا شعر استاد" - عمران انہیں کی میز پر جمتا ہوا بولااستاد نے منہ اوپر اٹھایا۔ تھوڑی دیر ناک بھوں پر زور دیتے رہے پھر جھوم کر بولے "سنیے</div><div align="center"><br /><span style="color: rgb(51, 51, 0);">حسن کو آفتاب میں صنم ہوگیا ہے </span></div><div align="center"><span style="color: rgb(51, 51, 0);">عاشقی کو ضرور بے خودی کا غم ہوگیا ہے</span></div><div align="right"><br />پھر بولے۔ "پچھلی رات مچھ میں غالب کی روح حلول کرگئی تھی، سنو</div><div align="right"></div><div align="right"><span style="color: rgb(0, 51, 0);"></span></div><div align="center"><span style="color: rgb(0, 51, 0);">تم بھلا باز آؤ گے غالب راستے میں چڑھاؤ گے غالب </span></div><div align="center"><span style="color: rgb(0, 51, 0);">کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب شرم تم کو مگر نہیں آتی</span></div><div align="center"><br />"یہ تو وزن دار ہے استاد" - عمران حیرت سے بولا" میں نے بتانا نا غالب کی روح حلول کرگئی تھی، پھر وزن کیسے نہ ہوتا </div><div align="center"></div><div align="center"><span style="color: rgb(204, 102, 0);">ڈاکٹر دعاگو 2<br /></span></div><div align="right">اور جی یہ لوگ میری اردو شاعری کی قدر کرتے ہیں لیکن میں اسے کچھ بھی نہیں سمجھتا- میرا اصل رنگ دیکھنا ہو تو فارسا </div><div align="right">میں سنیے </div><div align="right">"فارسا" ۔ ڈاکٹر دعاگو نے حیرت سے کہیا"</div><div align="right">یہ بھی مصیبت ہے" ۔ عمران نے سر ہلا کر کہا ۔ " استاد کی شاعری میں نر ۔ مادہ ہو جاتا ہے اور مادہ - نر! اس لیے ان کی گرفت میں آتے ہی فارسی بھی فارسا ہوجاتی ہے۔ ہاں تو ہوجائے استاد فارسا میں کچھ"<br />استاد نے حسب عادت چھت کی طرف منہ اٹھا کر ناک بھوں پر زور دینا شروع کردیا۔ پھر بولے "سُنیے</div><div align="center"><br /><span style="color: rgb(51, 51, 0);">نظر خُمی خُمی، نظر گُمی گُمی، نظر سُمی سُمی</span></div><div align="center"><span style="color: rgb(51, 51, 0);">دھمک شک فزوں، فضا فسرونی، حیا لبم لبم </span></div><div align="center"><span style="color: rgb(51, 51, 0);">عشر خموشگی، خمو عشر فشاں، نمو زوم زوم</span></div><div align="center"><span style="color: rgb(51, 51, 0);">قلی و قل ونی، وقل، فنوقنی قنا قلم قلم </span></div><div align="center"><span style="color: rgb(51, 51, 0);">نظر خُمی خُمی، نظر گُمی گُمی، نظر سُمی سُمی</span></div><div align="right"><br />"بس بسں" ڈاکٹر دعاگو ہاتھ اٹھا کر ناخوشگوار لہجے میں بولا۔ " آپ سے ان کا کیا رشتہ ہے" ۔ اس نے عمران سے پوچھا۔قبل اس کے عمران کچھ کہتا، استاد نے اچھل کر ایک شعر عنایت کردیا</div><div align="center"><br /><span style="color: rgb(51, 51, 0);">پوچھو ہو رشتہ ہم سے فسردہ بہار دل </span></div><div align="center"><span style="color: rgb(51, 51, 0);">ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے مزار کے</span></div><div align="right"><br />"بس ۔۔ بس" ڈاکٹر دعاگو ہاتھ اٹھا کر ناخوشگوار لہجے میں بولا "مسٹر عمران، آپ میرا وقت برباد کررہے ہیں"<br />"اوہ ۔۔ جی ہاں ۔۔ ہپ" عمران تیزی سے اٹھا اور استاد کا ہاتھ پکڑ کر دروازے کی طرف کھینچتا چلا گیا<br />بہت حرامی معلوم ہوتا ہے" ۔ کمرے سے نکل کر استاد نے آہستہ سے کہا۔</div><div align="center"><br /></div><div align="center"><span style="color: rgb(204, 102, 0);">ڈاکٹر دعاگو 3</span><br /></div><div align="right"></div><div align="right">اچھا استاد" عمران جیب سے پانچ کا ایک نوٹ کھینچتا ہوا بولا " یہ لیجیے اور ٹیکسی سے واپس چلے جائیے"استاد نے دانت </div><div align="right">نکالے، تھوڑی دیر ہنستے رہے، پھر بولے "اب آپ اس زادیٰ شکر کے پاس تشریف لے جایئں گے""زادیٰ شکر" عمران حیرت سے بولا " میں نہیں سمجھا استاد""میں آپ کی محبوبہ پر بھی شاعری کروں گا""استاد" عمران ہاتھ جوڑ کر گھگھیایا۔ "ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے، اگر آپ کا عربا یا فارسا چل گیا تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہ جائے گی"۔</div><div align="center"><br /><span style="color: rgb(204, 102, 0);">ڈاکٹر دعاگو 4</span><br />کارڈ پر نظر پڑتے ہی اس نے ٹھنڈی سانس لی ۔ کارڈ پر تحریر تھا " امام الجاہلین، قتیل ادب، استاد محبوب نرالے عالم"</div><div align="right">"بلاؤ" - عمران کراہا<br />"تشریف رکھیے"<br />لیکن استاد تشریف کہاں رکھتے، وہ تو کنکھیوں سے نرس کو دیکھے چلے جارہے تھے۔"میں نے کہا استاد"<br />"جی۔ جی ہاں" استاد چونک کر بولے "آج میں ارتعاش سمیگاں کا مقیم مصلوب ہوں"عمران نے اس طرح سر ہلایا جیسے پوری بات سمجھ میں آگئی ہو۔<br />اکثر استاد پر بڑے بڑے نامانوس الفاظ بولنے کا دورہ پڑتا تھا۔ کبھی کبھی نئے الفاظ بھی ڈھالتے۔ اس قسم کے دورے عموما" اس وقت پڑتے جب آس پاس کوئی عورت بھی موجود ہو۔<br />نرس اٹھ کر چلی گئی اور استاد نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور پھر جھک کر آہستہ سے بولے "یہ دوسری کب آئی"<br />"آتی جاتی ہی رہتی ہیں" عمران لاپرواہی سے بولا " مگر آپ کیوں مغموم ہیں"<br />"نہیں جناب، یہ بے پردگی۔۔ یہ ٹڈے ٹڈیاں ۔۔ میں عنقریب حج کرنے چلا جاؤں گا"<br />" ہوا کیا ۔۔ کوئی خاص حادثہ"<br />"جی ہاں، کل رینو میں میٹنی شو دیکھنے چلا گیا تھا۔ دیر ہوگئی تھی۔ کھیل شروع ہو چکا تھا۔ ہائے کیا فلم ہے ڈاکٹر نو دیکھی ہے آپ نے ۔ سالے، لونڈیا کو چوڑی دار پاجامہ پہنا دیتے ہیں"<br />چوڑی دار پاجامہ نہیں استاد، اسے جین کہتے ہیں " عمران نے کہا</div><div align="center"><br /><span style="color: rgb(204, 102, 0);">ڈاکٹر دعاگو 5</span></div><div align="right"><br />اتنے میں نرس واپس آئی اور استاد بولے " انسانی تہذیب کی مہذباتی اور مسکونی مناکحت بہت ضروری ہے۔ غالب، ذوق، داغ وغیرہ نے مشروباتی انفجاریت کی تفتیل میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی لیکن تجریدی ضابطے کی اشتراقیت مشروتی اعراب کی سند نہیں۔"<br />"واللہ آپ نے تو نثر ہی میں صنعت مستول الجہاز پیدا کر دی استاد" عمران نے خوش ہو کر کہا۔<br />"میں غالب کو بھی للکار سکتا ہوں"<br />"بیشک ۔۔ بیشک ۔۔ استاد ذرا چنا کڑک تو سنا دو"<br />استاد نے بھونپو اٹھا کر منہ سے لگایا اور شروع ہو گئے</div><div align="center"><br /><span style="color: rgb(51, 51, 0);">پی۔ای۔سی۔ایچ کے حسین </span></div><div align="center"><span style="color: rgb(51, 51, 0);">میرے چنے سے نمکین </span></div><div align="center"><span style="color: rgb(51, 51, 0);">بولے بھائی خیر الدین </span></div><div align="center"><span style="color: rgb(51, 51, 0);">پاپڑ ایک آنے کے تین </span></div><div align="center"><span style="color: rgb(51, 51, 0);">چنا کڑک</span></div><div align="center"><br /><span style="color: rgb(204, 102, 0);">ڈاکٹر دعاگو 6</span></div><div align="right"><br />استاد ابھی تک چنے بیچ رہے تھے، بمشکل سلسلہ تمام ہوا، عمران خاموش کھڑا کچھ سوچ رہا تھا۔<br />دفعتا" اس نے استاد سے کہا " آپ ایک عمدہ سا گرم سوٹ سلوا لیجیے"<br />استاد نے دانت نکال دیے پھر کچھ سوچ کر گردن اکڑائی اور بولے "پانچ سوٹ کیڑے کھا گئے، دو ابھی کھا رہے ہیں ۔۔۔ میرے دادا جج تھے نکھلؤ کے"<br />"یہ نکھلؤ کہاں ہے جناب" نرس نے پوچھا<br />"لکھنؤ والے پیار سے لکھنؤ کو کہتے ہیں" عمران بولا<br />"میرے والد کرنل تھے" استاد ان کی گفتگو پر توجہ دیے بغیر بولے " عتیق بھائی سب جانتے ہیں"<br />" میں نے کہا تھا سوٹ سلوا لیجیے"<br />"مجھے کتنا ادا کرنا پڑے گا" استاد نے اکڑ کر پوچھا<br />"فکر نہ کرو، اس رقم کے چنے چبوا دینا مجھے"<br />"نہیں بھئی، پوچھنا میرا فرض تھا" استاد نے کہا " ایک بار جمیل صاحب نے کہا تھا کہ تم صرف بیالیس روپے جمع کرلو، میں تمہاری شادی کروا دوں گا</div><div align="center"><br /><span style="color: rgb(204, 102, 0);">زہریلی تصویر</span></div><div align="right"><br />استاد محبوب نرالے عالم جان کو آگئے تھے۔ عمران جیسا آدمی بھی ان کے مصافحوں سے بور ہو گیا تھا۔ جوزف جیسے آدمی کو بھی طوعا" و کرہا" مصافحہ کرنا پڑتا۔ سلیمان البتہ انہیں ہاتھوں ہاتھ لیتا تھا، اکثر کہتا مجھے بھی شاعر بنادو۔ اور استاد گردن اکڑا کر کہتے</div><div align="right"><br />" میاں یہ ساہری ہے، سکھائی نہیں جاتی، ایک چیز ہوتی ہے تخیل صرف ادیفوں (ادیبوں) کو نصیب ہوتی ہے۔ ساہری نہ سیکھی جاسکتی ہے، اور نہ ہی سکھائی جاسکتی ہے</div><div align="right"><br />آج بھی وہ اسی انداز سے آدھمکے تھے</div><div align="right"><br />عمران استاد سے مخاطب رہا ۔۔ " گلبدنی کے بعد کیا کہا تھا استاد""فُلبدنی ۔۔ فارسا میں ۔۔ جب سے جوش صاحب نے میری گلبدنی چرائی ہے، میں ایسی چیزیں فارسا میں کہنے لگا ہوں ۔۔ مالم ہے جوش صاحب کا قصہ، بڑی زوردار جھڑپ ہوئی تھی۔۔ لگے چیخنے چلانے ۔۔ میں نے کہا جوش صاحب، میں ہاتھا پائی میں آپ سے نہیں جیت سکتا، علمی بحث کیجیے"<br />صفدر پر ہنسی کا دورہ پڑ گیا لیکن عمران کی سنجیدگی میں ذرہ برابر بھی فرق نہ آیا۔ "ہاں ۔۔ ہاں" عمران سر ہلا کر بولا "اب شروع ہو جاؤ"<br />استاد نے کھنکار کر چھت کی طرف منہ اٹھایا اور ناک بھوں پر زور دینے لگے۔ پھر عمران سے بولے "ملاہجہ فرمایئے</div><div align="center"><br /><span style="color: rgb(51, 51, 0);">وزرٹ زٹاخ چرخم چرغاز غازبوں </span></div><div align="center"><span style="color: rgb(51, 51, 0);">فریاد زنان مونگ پھلیم گوں گوں </span></div><div align="center"><span style="color: rgb(51, 51, 0);">گوں گوں چہ کٹار باندھم چوں چوں </span></div><div align="center"><span style="color: rgb(51, 51, 0);">فُلبدنی ۔۔۔۔۔ فُلبدنی ۔۔۔۔۔ فُلبدنی</span> </div><div align="center"><br /><span style="color: rgb(204, 102, 0);">پاگلوں کی انجمن 1</span></div><div align="right"><br />"ہاتھ دیکھ لیجیے شاہ صاحب" اس نے اپنا داہنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا"اس وقت نہیں دیکھ سکتا" استاد غرائے"کیوں جناب" "میں اپنے ہاتھ مل رہا ہوں""آخر کیوں جناب""میں اپنے ہاتھوں سے جیوتش ودیا کی لکیر مٹا رہا ہوں""اس نے کیا قصور کیا ہے جناب""بس چلے جاؤ، اس ٹیم ہم صرف عورتوں کے ہاتھ دیکھتے ہیں"گاہک نے غالبا" پشتو میں انہیں ایک گندی سی گالی دی اور چلا گیا</div><div align="center"><br /><span style="color: rgb(204, 102, 0);">پاگلوں کی انجمن 2</span></div><div align="right"><br />عمران نے استاد کے شانے پر ہاتھ مار کر کہا "سنو اکثر لوگ تمہارے آئیڈیاز چرا لیا کرتے ہیں"<br />"جی بس کیا بتاؤں ۔ استاد ٹھنڈی سانس لے کر بولے "نہ صرف وہ لوگ جو زندہ ہیں بلکہ وہ بھی جو مرگئے"<br />"وہ کیسے استاد"<br />خواب میں آکر ۔۔ مومن، غالب اکثر اس قسم کی حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔۔ میرا شعر تھا</div><div align="center"><br /><span style="color: rgb(0, 51, 0);">بے غیرت ناہید کی ہر تان ہے زمبک </span></div><div align="center"><span style="color: rgb(0, 51, 0);">شعلہ سا لپ لپ لپ جھپک</span></div><div align="right"><br />اب آپ دیکھیے، ٹیلی وژن والوں سے معلوم ہوا کہ یہ غالب صاحب کا ہے"<br />مومن کا ہے استاد ۔۔</div><div align="center"><br /><span style="color: rgb(0, 51, 0);">اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک</span></div><div align="center"><span style="color: rgb(0, 51, 0);">شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو</span></div><div align="right"><br />"اب یہی دیکھ لیجیے، میں نے بے غیرت ناہید کہا ہے، اور وہ فرماتے ہیں اس غیرت ناہید۔۔۔ ہوئی نہ وہی خواب کی چوری والی بات" </div><div align="right">"صبر کرو" عمران ان کا شانہ تھپک کر بھرائی ہوئی آواز میں بولا اور استاد میکانکی طور پر آبدیدہ ہوگئے۔<br /></div><div align="center"><span style="color: rgb(204, 102, 0);">پاگلوں کی انجمن .. 3 </span></div><div align="center"></div><div align="right"></div><div align="right">استاد کی داڑھی برقرار رہی تھی لیکن زلفیں کٹوادی گئی تھیں۔۔ جس وقت وہ جاماوار کی شیروانی اور چوڑی دار پاجامہ پہن کر قد آدم آئینے کے سامنے کھڑے ہوئے تو انہیں سکتہ ہوگیا۔<br />"کیا میں چٹکی لوں استاد" عمران نے ان کی حالت دیکھ کر پوچھا<br />"جی" استاد چونک کر بولے "اس وقت ذرا دل بھر آیا تھا"<br />"خیریت ۔ بھلا دل کیوں بھر آیا تھا"<br />"یہ سالا کپڑا کیا چیز ہے ۔ میرے والد حضور ہیرے جواہرات ٹنکی ہوئی شیروانی پہنتے تھے۔۔ وقت ۔۔ وقت کی بات ہے ۔۔۔ ان کی اولاد اس طرح ٹھوکریں کھاتی پھر رہی ہے"<br />"خیر ۔۔ خیر ۔۔۔ دل چھوٹا نہ کرو ۔۔۔ تمہارے والد حضور کی واپسی اگر میرے بس میں ہوتی تو میں اس کے لیے بھی کوشش کرتا"<br /></div><div align="center"><span style="color: rgb(204, 102, 0);">۔۔۔۔۔۔۔ X ۔۔۔۔۔۔۔<br /></span></div><div align="right"></div><div align="right"></div><div align="right">آیئے اورنگی کے اس گھر کے چھوٹے سے کمرے میں واپس چلتے ہیں جہاں وہ لوگ استاد محبوب نرالے عالم کے ذکر سے آبدیدہ </div><div align="right">تھے۔ جی ہاں، یہ ہم جو تواتر کے ساتھ ‘وہ لوگ‘ کی اصطلاح استعمال کررہے ہیں، وجہہ اس کی یہ ٹھری کہ متذکرہ گھر کے مکینوں کا استاد محبوب نرالے عالم سے قطعی کوئی خونی رشتہ نہ تھا اس کے باوجود بھی انہوں نے استاد کو قریب 15 برس اپنے پاس، اپنے گھر میں استاد کے انتقال تک رکھا۔ امتیاز فاران کی استاد سے پہلی ملاقات 1988 میں ہوئی، امتیاز فاران سن 1990 میں استاد کو اپنے ہمراہ لے آئے تھے اور تب سے اس خانماں برباد انسان کو ان فرشتہ صفت لوگوں نے اپنے دل میں جگہ دی۔ استاد ایک بزرگ کی حیثیت سے وہاں رہتے ریے۔ یہ وہ دور تھا جب استاد کو فردوس کالونی ناظم آباد کا علاقہ چھوڑے زمانہ بیت چلا تھا۔۔ وہ فردوس کالونی جہاں استاد کی ملاقات ابن صفی صاحب سے ہوئی تھی اور یہ ملاقات کروانے والے جناب انوار صدیقی (انکا، اقابلا وغیرہ کے مصنف) تھے جنہوں نے ہمیں ایک ملاقات میں یہ تفصیل بتائی تھی۔ استاد ان دنوں پھیری لگا کر چنے بیچا کرتے تھے اور ایک روز انوار صدیقی صاحب نے رات کے وقت استاد کو اشارے سے بلایا اور صفی صاحب سے ملوایا۔ چند روز بعد جب انوار صاحب، صفی صاحب سے ملنے گئے تو نے صفی صاحب نے ان سے گلہ کیا کہ یار یہ تم نے کس کو میرے پیچھے لگا دیا ہے، میں عدیم الفرصت آدمی ہوں اور یہ (استاد محبوب نرالے عالم) اکثر میرے پاس آکر گھنٹوں بیٹھا کرتے ہیں۔ انوار صاحب نے صفی صاحب کو استاد کو اپنے ناولز کا کردار بنا کر پیش کرنے کی تجویز پیش کی جو صفی صاحب کو پسند آئی اور یوں اس کا آغاز ہوا۔</div><div align="right"></div><div align="right"></div><div align="right">سن اسی کی دہائی کے وسط میں استاد اورنگی چلے آئے جہاں ان کو امتیاز فاران اپنے گھر لے آئے۔ 15 برس وہ امتیاز فاران کے گھر مقیم رہے۔ گزر بسر کے واسطے وہ ڈی سی آفس کے باہر بیٹھا کرتے تھے۔ امتیاز فاران کے اہل خانہ ان سے کوئی بھی رقم لینا گناہ سمجھتے تھے۔</div><div align="right"><br />کمرے میں آبدیدہ بیٹھی خاتون، امتیاز فاران کی ہمشیرہ تھیں جن کو استاد اپنی بیٹیوں کی طرح عزیز رکھتے تھے اور انہوں نے بھی اس حرماں نصیب شخص کی خدمت کا حق ادا کردیا تھا۔ ان کو استاد شفقت سے شہزادی کہا کرتے تھے اور ان کی زبان بھی ان کو استاد ۔۔ استاد کہتے نہ تھکتی تھی۔ جتنی دیر ہم اس گھر میں رکے، ان لوگوں کی زبان سے محبوب نرالے عالم کے لیے، استاد کے سوا کچھ نہ نکلا۔ ایسا جان پڑتا تھا کہ گویا وہ لوگ استاد کے اصل نام سے واقف ہی نہ تھے۔ خاتون قمر جہاں نے ہمیں بتایا کہ استاد کے انتقال کے بعد امتیاز فاران اور ان کی بہن شہزادی بہت بری طرح بیمار پڑگئے تھے، قریب چھ ماہ وہ دونوں علیل رہے، اس دوران ان کا کھنا پینا چھوٹ گیا اور دونوں بہن بھائی سوکھ کر کانٹا ہوگئے تھے۔</div><div align="right"><br />خاص ہمارے لیے استاد کا مرتب کردہ ذاتی رجسٹر لایا گیا اور یہ دیکھ کر ہم لوگ دنگ رہ گئے کہ خاتون شہزادی نے استاد کے رجسٹر میں چسپاں ان کی تصویر کو دونوں ہاتھوں سے احتراما" چھوا اور پھر وہ ہاتھ اپنی اشک آلود آنکھوں پر عقیدتا" لگا ڈالے۔ </div><div align="right">"استاد" شہزادی کی زبان سے آہستگی سے نکلا۔۔<br /></div><div align="right">یا اللہ ۔۔۔۔ یہ منظر تو ہم نے اکثر اللہ والوں کے مزاروں پر ہی دیکھا تھا۔ </div><div align="right"><br />استاد کی شہزادی جب اپنی مستقل بھیگتی آنکھوں کو مزید ہم سے نہ چھپا پائی تو اٹھ کر اندر چلی گئی۔ ماحول ایک بار پھر سوگوار ہو گیا۔</div><div align="right"><br />استاد کے اہل خانہ (کہ بلاشبہ اب یہی لوگ ان کے اہل خانہ کہلائے جانے کے حقدار ہیں) سے یہ تمام گفتگو اس انتہائی مختصر سے کمرے میں ہوئی جس کا ایک ایک کونہ 15 برس استاد محبوب نرالے عالم کی رفاقت کا گواہ ہے۔ استاد ایک طویل القامت شخص تھے اور اس کمرے میں وہ اپنے پاؤں پھیلا کر لیٹ بھی نہ پاتے ہوں گے لیکن اہل خانہ کے دلوں کی وسعت تو دیکھیے کہ استاد کو کسی بھی صورت ان کی کم مائیگی کا احساس نہ ہونے دیا۔ اور استاد کی وضع داری بھی ملاحظہ ہو کہ بقول شہزادی کے کہ " ہم نے 15 برسوں میں استاد کی آنکھوں کی پتلی نہ دیکھی، وہ کبھی نظر اٹھا کر ہم سے بات نہ کرتے تھے"۔ خاتون شہزادی کی پردہ دار والدہ نے ہمیں بتایا کہ 15 برسوں میں انہوں (والدہ نے) کبھی استاد کا چہرہ نہیں دیکھا اور نہ ہی استاد کبھی والدہ کے چہرے سے سے آشنا ہوئے۔</div><div align="right"><br />گفتگو میں شریفانہ لب و لہجہ ، حفظ مراتب نکتہ آفرینی اور رکھ رکھاو یہ سب استاد محبوب نرالے عالم کا شخصیت کا خاصہ تھے۔ بقول شہزادی، استاد اپنی گفتگو کے آغاز سے قبل ہمیشہ ‘معاف کیجیے گا" ضرور کہتے تھے۔</div><div align="right"><br />استاد کے مرتب کردہ ذاتی رجسٹر کو امتیاز فاران کے اہل خانہ نے دے کر نہ صرف ہمیں اپنے احسان تلے زیر بار کیا بلکہ اس طرح ہمیں یہ موقع ملا کہ ہم ابن صفی صاحب کے ان تمام ان گنت پڑھنے والوں تک بذریہ انٹرنیٹ یہ نایاب ذخیرہ پہنیچا سکیں جو آج تک استاد محبوب نرالے عالم کے بارے میں جاننے کے متمنی ہیں۔ ہمیں آگاہ کیا گیا کہ ہم استاد کے انتقال کے بعد اس گھر تک پہنچنے والے پہلے فرد ہیں۔</div><div align="right"><br />آئیے متذکرہ رجسٹر کا جائزہ لیتے ہیں کہ جس کو اپنے ہاتھوں میں تھام کر ہم نے استاد کے ہاتھوں کے لمس کو محسوس کیا:<br />استاد محبوب نرالے عالم کی (بقول ابن صفی صاحب) "گجل" کا ایک شعر</div><div align="center"><br /><span style="color: rgb(51, 51, 0);">نگاہ یار سے مانگ کے لائے عمر ہزار پانچ دن </span></div><div align="center"><span style="color: rgb(51, 51, 0);">دو جستجو میں کٹ گئے، دو انتظار میں</span></div><div align="right"><br /></div><div align="right">ارے صاحب یہ تو چار دن ہوئے لیکن پانچواں کہاں گیا ---- ایک انٹرویو (ابن صفی ڈاٹ انفو پر موجود) میں استاد نے اس سوال </div><div align="right">کے جواب میں کہا کہ پانچواں دن تو میں خود ہوں جو زندہ ہوں۔<br />استاد مزید کہتے ہیں</div><div align="center"><br /><span style="color: rgb(51, 51, 0);">محبوب نرالے عالم کی بدنصیبی پر کرو ماتم میرے دوستوں </span></div><div align="center"><span style="color: rgb(51, 51, 0);">اس سرزمین پر رہنے کے لیے دو گز زمیں نہ ملی کوچہ یار می</span>ں</div><div align="center"></div><div align="right"></div><div align="right"></div><div align="right">ایک مقام پر استاد کی ترقی پسندانہ نظم ملاحظہ کیجیے کہ یہی وہ شاہکار ہے جس سے متاثر ہو ابن صفی صاحب نے ان کی (صفی </div><div align="right">صاحب کے الفاظ میں) ‘ساہری‘ کو اپنے ناولز کی زینت بنایا</div><div align="center"><br /><span style="color: rgb(51, 51, 0);">آج گھر سے بن من کے نکلی ہے نازنین</span></div><div align="center"><span style="color: rgb(51, 51, 0);">گُل سفنی ۔۔ گُل سفنی ۔۔ گُل سفنی </span></div><div align="center"><span style="color: rgb(51, 51, 0);">نہ گرجتے ہیں ۔ نہ برستے ہیں ۔۔ یونہی چمکتے ہیں</span></div><div align="center"><span style="color: rgb(51, 51, 0);">گُل برنی ۔۔۔ گُل برنی ۔۔۔ گُل برنی </span></div><div align="center"><span style="color: rgb(51, 51, 0);">آؤ ماتھے کی بندیا پہن کر رقص کرو </span></div><div align="center"><span style="color: rgb(51, 51, 0);">ہنس ہنس کر سربازار کہتے ہیں </span></div><div align="center"><span style="color: rgb(51, 51, 0);">گُل ڈفنی ۔۔ گُل ڈفنی ۔۔ گُل ڈفنی </span></div><div align="center"><span style="color: rgb(51, 51, 0);">آج بھی دنیا میں چور رہتے ہیں </span></div><div align="center"><span style="color: rgb(51, 51, 0);">ہم نے بڑی مشکل سے چوری پکڑی ہے محبوب نرالے عالم </span></div><div align="center"><span style="color: rgb(51, 51, 0);">گُل بخنی -- گُل بخنی -- گُل بخنی</span></div><div align="right"><br /></div><div align="right">استاد کی جوش ملیح آبادی سے نیاز مندی تھی اور ہمیں یقین ہے کہ جوش صاحب استاد کی مندرجہ بالا نظم کو سن کر اپنی "گل بدنی" بھول گئے ہوں گے۔ ویسے بھی استاد محبوب نرالے عالم، جوش صاحب کی گل بدنی کی ٹکر پر "فُل بدنی" ایجاد کرچکے تھے۔ اس مضمون میں اوپر ہم نے ابن صفی کی عمران سیریز سے چند دلچسپ اقتباسات درج کیے ہیں عمران سیریز کے ناول </div><div align="right">زہریلی تصویر" کا ایک مختصر اقتباس دوبارہ ملاحظہ کیجیے</div><div align="right"><br />عمران استاد سے مخاطب رہا ۔۔ " گلبدنی کے بعد کیا کہا تھا استاد"</div><div align="right">"فُلبدنی ۔۔ فارسا میں ۔۔ جب سے جوش صاحب نے میری گلبدنی چرائی ہے، میں ایسی چیزیں فارسا میں کہنے لگا ہوں ۔۔ مالُم ہے جوش صاحب کا قصہ، بڑی زوردار جھڑپ ہوئی تھی۔۔ لگے چیخنے چلانے ۔۔ میں نے کہا جوش صاحب، میں ہاتھا پائی میں آپ سے نہیں جیت سکتا، علمی بحث کیجیے</div><div align="right"><br />منظر امکانی صاحب نے اپنے کالم (سن و تاریخ نامعلوم) میں استاد کے بارے میں ایک واقعہ تحریر کیا ہے کہ جس کی رو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ابن صفی صاحب نے زہریلی تصویر کا مندرجہ بالا ٹکڑا مکمل تصدیق کے بعد لکھا تھا۔ منظر امکانی لکھتے ہیں:<br />"استاد کا کمال یہ ہے کہ وہ کسی جگہ اور حالات میں نروس نہیں ہوتے۔ استاد محبوب نرالے عالم جب پہلی بار جوش ملیح آبادی مرحوم سے ملنے گئے تو ان کی خاموش طبع دیکھ کر جوش صاحب یہ اندازہ نہیں لگا سکے تھے کہ وہ اس صدی کی عجیب و غریب چیز سے مخاطب ہیں۔۔ جب استاد گویا ہوئے تو جوش صاحب پر آشکار ہوا۔ اس آگاہی پر جوش صاحب شدید برہم ہوگئے اور وہ استاد کو بھگانے کھڑے ہوگئے۔۔ استاد محبوب نرالے عالم کچھ قدم دور جاکر بڑے یقین سے کہا "جوش صاحب، آپ ہاتھ پاؤں میں مجھ سے جیت سکتے ہیں مگر ادب میں مقابلہ نہیں کرسکتے ۔۔ استاد کے اس فقرے پر جوش صاحب کا غصہ ختم ہوگیا اور انہوں نے استاد کو بٹھا لیا اور پھر زندگی بھر استاد کی گفتگو برداشت کی</div><div align="right"> </div><div align="right"></div><div align="right">منظر امکانی سے چند مزید بیحد دلچسپ انکشافات سنیے کہ یہاں مقصد ان واقعات کو محفوظ کرنا ہے</div><div align="right"><br />"لکھتے ہیں کہ استاد نے ان پر انکشاف کیا تھا کہ ان کے (استاد کے) ایک لاکھ تیرہ ھزار شاگرد ہیں۔ مزید یہ کہ علامہ اقبال درحقیقت چار تھے اور ان میں وہ علامہ اقبال سب سے بڑے ہیں جنہوں نے شاعری کی۔ استاد نے ایک نئی صنف ادب "افسانی" بھی ایجاد کی تھی۔ استاد آج کل ایک تعمیراتی فرم میں ملازم ہیں، فرم کے دفتر میں انگریزی کا اخبار لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور اسے ہمیشہ الٹا پڑھتے ہیں ۔۔ شعر کا پیمانہ استاد نے اس طرح بنایا ہے کہ دونوں مصرعے اسکیل رکھ کر ناپتے ہیں اور اگر معمولی بھی فرق ہوجائے تو شعر ناموزوں قرار پاتا ہے۔ ہر لمحہ جدت اختیار کرنا انہیں پسند ہے اسی لیے مکان کے باہر جو بورڈ لگایا اس پر "بیت الخلا" درج تھا۔ انہیں ملک کے باہر بھی شہرت ملی، معروف جریدے ٹائم کے سرورق پر استاد کی تصویر شائع ہوچکی ہے، یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب استاد بنیادی جمہوریت کے انتخابات میں امیدوار تھے اور انہوں نے اپنے لیے ایک مخصوص لباس تیار کرایا تھا جس میں کئی فٹ لمبی ٹوپی تھی ( ابن صفی ڈاٹ انفو اور وادی اردو پر استاد کی یہ تصویر شامل ہے۔۔ راشد اشرف) اور لبادے پر جلی حروف میں تحریر تھا کہ اس حلال خور کو ووٹ دیں ۔ استاد جب باہر نکلتے تو ایک ہجوم ساتھ ہوتا، اس ہجوم اور اس عجیب و غریب شخص کو دیکھ کر ٹائم کے نمائندے نے ان کی تصویر بنائی اور ان سے متعلق ٹائم میں مضمون لکھا۔ استاد کا تذکرہ لکھنے والوں میں مجید لاہوری، شوکت تھانوی، ابن انشاء، ابن صفی، ابراہیم جلیس، سلیم احمد اور جوش ملیح آبادی شامل ہیں"<br />۔۔ استاد کے رجسٹر سے معلوم ہوا کہ ان پر کالم لکھنے والوں میں سجاد میر، ابو نثر اور نادم سیتا پوری بھی شامل ہیں۔ ابو نثر نے اپنے کالم (سن و تاریخ نامعلوم) میں لکھا " استاد محبوب نرالے عالم ہمارے ہی نہیں پاکستان میں جاسوسی ادب کے پہلے اور آخری تاجدار ابن صفی مرحوم کے بھی محبوب تھے۔ مرحوم کی کہانیوں میں استاد کا ذکر ایک مستقل کردار کی حیثیت سے ملتا ہے۔ استاد کی وہ حیثیت ماشااللہ ابھی تک قائم و دائم ہے</div><div align="right"><br />۔۔ نادم سیتا پوری نے استاد کو فخر پاکستان استاد محبوب نرالے عالم رجسٹرڈ (ان لمیٹڈ) کا خطاب دیا تھا۔</div><div align="right"><br />مشہور شاعر دلاور فگار نے استاد پر 3 جنوری سن انیس سو اٹھاسی کو ایک نظم لکھی، اس کے دو بند ملاحظہ ہوں</div><div align="center"><br /><span style="color: rgb(51, 51, 0);">قاتل کو کیا ملے گا نرالے کو مار کے ۔۔۔ وہ خود ہی جارہا ہے ‘شب غم‘ گزار کے </span></div><div align="center"><span style="color: rgb(51, 51, 0);">سینہ ہے شاہزادہ کا خود ایک بلٹ پروف ۔۔۔ درپے ہے اسکی جان کے یہ کون بیوقوف</span></div><div align="right"><br />۔۔ کراچی میں استاد کے ٹھکانے تواتر کے ساتھ بدلتے رہے اور اس بے آسرا شخص نے کئی علاقوں کی خاک چھانی جن میں 115 خالد آباد ۔۔ فردوس کالونی، کوثر ٹاؤن ملیر اور گولیمار شامل ہیں۔</div><div align="right"><br />۔۔ استاد کی شاعری کی واحد کتاب ‘دیوان تاریخ زمانہ‘ ہمیں ان کے اہل خانہ نے بطور تحفہ دی جس میں درج غزلوں سے کچھ منتخب کلام ابن صفی ڈاٹ انفو اور وادی اردو پر شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ استاد کی ایک اور کتاب ‘روٹی، کپڑا اور لامکان‘ کے چند منتخب دلچسپ حصے بھی مذکورہ ویب سائٹس پر دیکھے جاسکتے ہیں۔</div><div align="right"><br />۔۔ تمام عمر استاد کا دعوی رہا کہ وہ مغلوں کی اولاد اور بہادر شاہ ظفر کے پڑپوتے ہیں اور استاد کے اس دعوے کی بنیاد پر ہی اخباری نامہ نگاروں اور کالم نگاروں کا لہجہ ان کے بارے میں ہمیشہ فکاہیہ رہا۔ لیکن یہ انکشاف بھی استاد کے چاہنے والوں کے لیے باعث حیرت ہوگا کہ روزنامہ نوائے وقت نے 8 جنوری سن انیس سو چوراسی کو ایک خبر شائع کی جس میں محقق اور گورنمنٹ اردو کالج کراچی کے شعبہ تاریخ اسلامی کے پروفیسر علی محمد شاہین نے اس بات کی تصدیق کی کہ استاد محبوب نرالے عالم، بہادر شاہ ظفر کے سلسلہ نسب سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ کہ شہزادے محبوب نرالے عالم ہی تخت طاؤس اور کوہ نور ہیرے کے اصل وارث ہیں۔</div><div align="right"><br />۔۔ 17 جنوری سن انیس سو چوراسی کو ایک اخباری بیان کے ذریعے استاد نے یہ تاریخی انکشاف کیا کہ "سن 1857 میں دہلی کی جنگ آزادی کے دوران فرنگیوں نے تمام شہزادوں اور شاہزادیوں کو یا تو قتل کردیا یا جنگلوں، پہاڑوں میں روپوشی کے دوران وہ سارے شہزادے اور شاہزادیاں لقمہ اجل بن گئے۔ شہزادہ محبوب نرالے عالم کو ان کے گھر کی ایک لونڈی اپنی بغچی میں باندھ کر فرنگیوں سے بچتی بچاتی لکھنؤ جا پہنچی لیکن جب لکھنؤ میں بھی فرنگیوں کا زور ہوا اور اس لونڈی کو دھڑکا ہوا کہ فرنگی اس نومولود شہزادے کو چھین کر مارڈالیں گے تو اس نے ایک صندوق میں بند کرکے انہیں دریائے گومتی میں بہا دیا۔ یہ شہزادہ بلاآخر وضو کرتے ہوئے ایک بزرگ کو دریا میں بہتے صندوق سے مل گیا اور انہوں نے اپنی روحانی عملیاتی کملی میں اس بچے کو لپیٹ کر سلادیا۔</div><div align="right"></div><div align="right"></div><div align="right"></div><div align="right">۔۔ جناب رئیس امروہوی اور ان کے بھائی سید محمد تقی کا دستخط شدہ سات جولائی سن انیس سو چھیاسی کا ایک تصدیق نامہ یہاں موجود ہے کہ جس میں رئیس صاحب اور ان کے بھائی، استاد کے خانماں برباد ہونے کی تصدیق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ استاد کو پلاٹ دیا جائے۔</div><div align="right"><br />۔۔ وزیر اعظم پاکستان، محمد خان جونیجو کے نام استاد کی پلاٹ کے حصول کے واسطے لکھی گئی مورخہ بیس اگست سن انیس سو چھیاسی کی درخواست اور وزیر اعظم سیکریٹیریٹ میں وصول شدہ رسید موجود ہے۔</div><div align="right"><br />۔۔ یہ انکشاف ہوا کہ استاد مختلف اخباروں میں کالم بھی لکھا کرتے تھے۔ ان کے کالم کا مستقل عنوان "ورنہ شکایت ہوگی" تھا اور وہ شہزادہ محبوب نرالے عالم کے نام سے مختلف موضوعات پر لکھا کرتے تھے۔ استاد عموما" سماجی مسائل کو موضوع بناتے تھے مثلا" اورنگی ٹاؤن میں قلت آب، لیاقت آباد نمبر دس کی چورنگی، کراچی کا بنگلہ بازار اور مچھلی، مچھیرے اور مگر مچھ۔ اس کے علاوہ ایک مضمون "بیسویں صدی میں سائنسی علوم" بھی ایک خاص کیفیت میں لکھا گیا ہے۔</div><div align="right"><br />۔۔ استاد کے متفرق موضوعات پر مبنی ایک کالم کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے</div><div align="center"><br /><span style="color: rgb(0, 51, 0);">چچی اماں کے مرنے پر بڑے جھگڑے بوا نکلے </span></div><div align="center"><span style="color: rgb(0, 51, 0);">بہت سے قبریں کھودیں لکین ان سب میں چچا نکلے</span> </div><div align="right"><br />۔۔ ایک خاندانی مہر دیکھی جاسکتی ہے جس پر درج ہے: یادگار پاک و ہند، خاندان مغلیہ محبوب نرالے عالم، دہلی پایہ تخت اور لکھنؤ اودھ کی سرزمین، بہادر شاہ ظفر کے پڑپوتے، اٹھارہ سو ستاون۔</div><div align="right"><br />۔۔ استاد محبوب نرالے عالم کا شجرہ چسپاں ہے جس کے مطابق استاد کے دادا نامی محمد شاہ عالم، جج دہلی تھے (سن انیس سو ایک عیسوی میں وفات پائی)، والد کا نام کرنل نادر درانی عالم (سن انیس سو پندرہ عیسوی میں وفات پائی) اور بعد ازاں، محبوب نرالے عالم۔</div><div align="right"><br />یہاں ہم آپ کو ایک دلچسپ بات بتاتے چلیں کہ استاد نے اپنے والد اور دادا کا تذکرہ ابن صفی صاحب سے صد فیصد کیا ہوگا اور خاص کر ان کے والد کا نام صفی صاحب کے ذہن میں نقش تھے اسی لیے صفی صاحب نے عمران سیریز کے ناول زہریلی تصویر میں استاد کے والد کا نام استعمال کیا ہے۔ ملاحظہ ہو زہریلی تصویر کا یہ اقتباس</div><div align="right"><br />دفعتا" ان کی طرف آنے والوں میں سے کسی نے گرج کر کہا " ہالٹ ۔ ہو کمس دیئر"</div><div align="right">"فرینڈز" عمران نے جواب دیا اور رک گیا۔وہ تیر کی طرح قریب آئے۔۔ اور عمران نے بارعب لہجے میں پوچھا " کیا بات ہے"</div><div align="right">"آپ لوگ اس وقت یہاں"</div><div align="right">"اونہہ ۔۔ عمران ہاتھ ہلا کر بولا "کیا یہ کوئی ممنوعہ علاقہ ہے ۔ ہم چہل قدمی کررہے ہیں"</div><div align="right">"آپ کون ہیں"</div><div align="right">"کرنل نادر درانی آف سیکنڈ بٹالین</div><div align="right"><br />اسی طرح صفی صاحب نے عمران سیریز کے ناول ڈاکٹر دعاگو میں استاد کے دادا کا ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ ہو ڈاکٹر دعاگو کا یہ اقتباس</div><div align="right"></div><div align="right">استاد نے دانت نکال دیے پھر کچھ سوچ کر گردن اکڑائی اور بولے "پانچ سوٹ کیڑے کھا گئے، دو ابھی کھا رہے ہیں ۔۔۔ میرے دادا جج تھے نکھلؤ کے</div><div align="right"><br />۔۔ دسمبر سن انیس سو تراسی کے استاد کے ایک اخباری بیان سے معلوم ہوا کہ ان کی اہلیہ کا نام شہزادی اختر جہاں بیگم تھا جن سے استاد کے سات بچے تھے جو سب کے سب انتقال کرگئے۔ اختر جہاں بیگم برصغیر کے ایک جج کی صاحبزادی تھیں۔</div><div align="right"><br />۔۔ رجسٹر میں موجود اخباری تراشوں کے مطالعے سے ہمارے ممدوح کی شخصیت کا ایک دلچسپ پہلو عیاں ہوتا ہے ۔۔۔ جی ہاں، استاد بڑے تواتر کے ساتھ اخباری بیان (بلکہ شاہی فرمان کہیں تو بہتر ہو گا کہ اکثر اخبار والے اسی طرح رپورٹ کیا کرتے تھے) جاری کیا کرتے تھے۔ کہیں وہ ایرانی حکومت سے تخت طاؤس کی حوالگی کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں تو کہیں ہندوستانی حکومت کو بہادر شاہ ظفر کی جائداد میں حصے کے حصول کے لیے للکارتے ہیں ۔۔۔ کہیں آپ سلطنت برطانیہ سے کوہ نور ہیرے کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں تو کہیں فرانسیسی شہزادی کو دورہ پاکستان کی دعوت دیتے نظر آتے ہیں۔ وہ امریکی حکومت کو تنبیہہ کرتے ہیں کہ اس نے عراق پر حملہ کرکے فاش غلطی کی ہے۔</div><div align="right"><br />۔۔استاد کی زندگی کے آخری ماہ و سال میں رفتہ رفتہ ان اخباری بیانات پر ایک افسردگی کا رنگ غالب آتا دکھائی دیتا ہے اور ان کے پندرہ اگست سن انیس سو اٹھانوے کے اس بیان کے حزنیہ الفاظ کو پڑھ کر دل دکھ سے بھر آتا ہے جب وہ حکومت برطانیہ و پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ " آج ہم کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، حکومت ہمارے اجداد کی بے اندازہ دولت میں سے کم از کم اتنا تو دیں کہ میں اپنے زندگی بہتر انداز میں بسر کرنے کے قابل ہو سکوں</div><div align="right"><br />۔۔اسی طرح وہ ایک اور بیان میں ارباب اختیار سے مطالبہ کرتے ہیں کہ "ہمیں روٹی، کپڑا اور مکان دو ۔۔ ورنہ اسلام آباد بلا کر گولی مار دو</div><div align="right"><br />۔۔ اور پھر آخری دنوں میں (مارچ سن 2003) ایک سیاسی عہدےدار وسیم رشید کی سرکار سے یہ اخباری اپیل کہ شہزادہ استاد محبوب نرالے عالم کا، جو فالج کے حملے کے سبب علیل ہیں، سرکاری خرچ پر علاج کرایا جائے۔</div><div align="right"><br />ابن صفی ڈاٹ انفو پر موجود استاد کے انٹرویو "اپنا ابن صفی والا استاد محبوب نرالے عالم" سے استاد کے سن پیدائش سے آگاہی ہوتی ہے جو بقول استاد سن انیس سو چودہ عیسوی ہے۔ استاد نے متذکرہ انٹرویو میں اپنی کتابوں کا ذکر کیا ہے جن کے نام کچھ اس طرح ہیں: مسائل عشق منزل، نرالا مذاق، بندر کی اولاد، یہ دنیا مرغ دل، دیوانے تاریخ زمانہ، آنکھ دل کا مقدمہ، عرش کا مشاعرہ، بھارت کا تباہی، ایک پہاڑ کا آگ و پانی اور روٹی کپڑا اور لامکان۔</div><div align="right"><br />بہادر شاہ ظفر کی برسی کا دن استاد کی زندگی میں ایک خاص مقام رکھتا تھا ۔۔ اس روز تمام اہل خانہ استاد کی دلجوئی کے لیے جمع ہوتے، اسی چھوٹے سے کمرے میں شہزادی کی والدہ کے ہاتھ کا بنا ہوا "کپڑے" کا تاج استاد کو پہنا کر ان کی تاج پوشی کرتے تھے۔ شہزادی کی والدہ استاد سے پوچھتی تھیں کہ "بھائی،آج کے دن کے لیے کوئی فرمائش" اور استاد اس خاص دن، قورمے اور زردے کی فرمائش کرتے تھے۔ تاج پوشی کے دن وہ اپنے اسلاف کے پرشکوہ ماضی اور اپنے حال کے بارے میں کیا سوچا کرتے ہوں گے، اس کا اندازہ لگانا دقت طلب نہیں۔</div><div align="right"> </div><div align="right"></div><div align="right"></div><div align="right">جولائی 4 سن دو ھزار پانچ کو یہ شہزادی ہی تھیں جو استاد کو طبیعت کی خرابی کی بنا پر اورنگی کے قطر اسپتال لے گئی تھیں، استاد بے حد کمزور ہو چکے تھے اور بقول خاتون شہزادی اور ان کی بہن قمر جہاں، زیادہ تر لیٹے رہنے پر ہی اصرار کیا کرتے تھے۔ 4 جولائی کو استاد کو بلند فشار خون کی شکایت پر قطر اسپتال میں داخل کردیا گیا۔ استاد کسی سے بات نہ کرتے تھے، بس ڈاکٹروں سے یہی کہتے رہے کہ ہمیں جلدی سے ٹھیک کردیں یہ بچیاں کب تک ہمارا خیال کریں گی ۔۔۔ تین دن تک استاد اسپتال میں داخل رہے، اس دوران ان پر نقاہت کی وجہ سے زیادہ تر غنودگی کی کیفیت طاری رہی۔ انتقال سے ایک روز قبل ان کی اہل خانہ نے استاد سے کہا کہ استاد آپ ہمت نہ چھوڑیں ۔۔ استاد جو غنودگی میں تھے، بولے " خان صاحب، ہمیں مجبور نہ کرو" ۔۔۔ جولائی 6 سن دو ھزار پانچ کی صبح اسپتال سے فون آیا کہ استاد کی طبیعت خراب ہے، آپ لوگ چلے آئیے۔ خاتون شہزادی کے مطابق جب وہ لوگ اسپتال پہنچے تو وہ مجذوب صفت انسان کہ دنیا جس کو استاد محبوب نرالے عالم کے نام سے جانتی تھی، اس دار فانی کو لبیک کہہ چکا تھا۔ “انا للہ و انا الیہ راجعون</div><div align="center"><br />خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طنیت را</div><div align="right"><br />اورنگی کے قبرستان میں جس طرح آپ کی تدفین ہوئی وہ بذات خود ایک حیرت انگیز واقعہ تھا۔ روزنامہ عوام میں شائع ہوئی خبر (عکس ابن صفی ڈاٹ انفو اور وادی اردو پر موجود ہے) کی تصدیق امتیاز فاران کے اہل خانہ نے بھی کی کہ مذکورہ قبرستان دس برس قبل ہر طرح کی تدفین کے لیے بند کیا جاچکا تھا لیکن استاد کو جو گوشہ ملا وہ کسی قبر کا حصہ نہیں۔ ہم نے یہ دیکھا کہ استاد کی قبر پر نیم و کیکر کے درختوں نے ایک طمانیت بخش سایہ کیا ہوا ہے (تصاویر ابن صفی ڈاٹ انفو اور وادی اردو پر دیکھی جاسکتی ہیں</div><div align="right"><br />محبوب نرالے عالم، دنیا کی نظروں میں آپ مفلس و تہی دامن تھے-- اپنے اسلاف کی جائز دولت میں سے صرف اپنے گزارے لائق مشاہرے کے متمنی آپ تمام عمر در در ٹھوکر کھایا کیے ۔۔۔ لوگ آپ کو سودائی خیال کرتے تھے۔۔ "آپ کے اسلاف جب زبان کھولتے تھے تو ایک عالم ان کی ہیبت سے تھرا جایا کرتا تھا" ۔۔۔۔ ضرور ایسا ہوگا ۔۔۔۔ لیکن آپ کی کہی ہوئی باتوں پر لوگ آپ کو دیوانہ قرار دیتے تھے ۔۔۔۔ "آپ کے آباواجداد تین وقت مرغ متنجن نوش کرتے اور ہیرے جواہرات ٹنکی شیروانیاں زیب تن کرتے تھے" -- یقیننا" کرتے ہوں گے ۔۔۔ لیکن آپ کو دو وقت کی روٹی بھی نصیب نہ تھی، شاید ناظم آباد کی گلیوں میں چنے بیچتے وقت آپ شکم کی آگ بجھانے کے لیے مٹھی بھر چنے ہی پھانک لیا کرتے ہوں ۔۔۔ آپ کے انتقال کے بعد آپ کے اہل خانہ نے آپ کے ملگجے کپڑے، کسی آپ سے بھی زیادہ تہی دست انسان کو دے ڈالے ۔۔۔۔۔۔ "آپ کے اسلاف محلات میں رہا کرتے تھے" ۔۔۔۔ یقیننا" رہتے ہوں گے ۔۔۔۔ لیکن آپ تمام عمر سرچھپانے کے لیے ایک ٹھکانے کو ترسا کیے ۔۔۔۔ "آپ نے ملک پاکستان کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو اور کراچی کے ڈپٹی کمشنر کو ایک پلاٹ کے حصول کے لیے درخواست دی تھی" لیکن آپ کی شنوائی نہ ہوئی ۔۔۔ "آپ کے اسلاف کی تاج پوشی کا منظر ہزاروں کی تعداد میں موجود رعایا دیکھا کرتی تھی، رنگ برنگے مختلف النوع قسم کے قیمتی پکوانوں سے ان کا دستر خوان سجا رہتا تھا" ۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں ۔۔۔ لیکن آپ کی تاج پوشی سال میں صرف ایک دن ایک غریب عورت کے بنائے ہوئے کپڑے کے معمولی تاج سے سرانجام پاتی تھی اور معاشی حالات سے نبرد آزما وہ لوگ صرف اس دن آپ کے لیے قورمے اور زردے کا اہتمام کرتے تھے۔۔۔ "آپ کے اسلاف میں کسی کے انتقال کے بعد اس کا شاندار مقبرہ تعمیر کیا جاتا تھا، رعایا اس پر حاضری دیا کرتی تھی" ۔۔۔ تاریخ شاہد ہے، ضرور ایسا ہی ہوگا ۔۔۔ لیکن آپ کی گمنام، جی ہاں ایک چھوٹے سے کتبے تک کو ترستی سادہ سی قبر کراچی کی ایک مضافاتی بستی کے قبرستان میں ہے جس سے سوائے مٹھی بھر افراد کے، اور کوئی واقف نہیں ۔۔۔۔۔ "آپ کے اسلاف میں سے کسی کے بیمار ہونے پر شاہی معالجین کا جھمگٹا مریض کو گھیر لیتا تھا اور اگر کوئی انتقال کر جاتا تو اس کے مرنے پر زبردست سوگ منایا جاتا تھا، شاہی دربار سے وابستہ شعرا اس کا نوحہ لکھتے تھے" ۔۔۔۔ یقیننا" تاریخ اس کی گواہ ہے ۔۔۔۔ لیکن جب آپ علیل ہوئے تو آپ کے اہل خانہ میں اتنی سکت نہ تھی کہ آپ کو کسی نجی اسپتال میں داخل کراتے، جب آپ کا دم نکلا تو آپ کے سرہانے کوئی موجود نہ تھا، شہر کراچی میں اس روز چلنے والی گرد آلود ہوا نے آپ کا ماتم کیا اور آپ کی قبر پر ایستادہ نیم و کیکر کے درختوں سے گرتے پتوں نے آپ کا نوحہ لکھا۔</div><div align="right"><br />دنیا کی نظروں میں آپ ناکام و نامراد کہلائے لیکن خان صاحب محبوب نرالے عالم، آپ ہرگز ہرگز ناکام و نامراد نہیں ہیں ۔۔۔۔ درحقیقت آپ ایک عالی نفس انسان تھے جس کی زبان و ہاتھ سے زندگی بھر کسی کو تقصان نہ پہنچا ۔۔۔ آپ تو بہت خوش قسمت تھے کہ عم عزیز کے آخری 15 برس آپ نے ایسے مخلص لوگوں کے درمیان بسر کیے کہ جنہوں نے آپ کا غم بھلانے میں آپ کی مدد کی، آپ کی خدمت میں دن رات ایک کردیے ۔۔۔۔۔۔ آپ کی سات اولادیں اللہ کو پیاری ہوئیں لیکن ذرا دیکھیے تو کہ آج آپ کی منہ بولی بیٹی شہزادی کے آنسو آپ کے لیے تھمتے ہی نہیں</div><div align="right"><br />خان صاحب محبوب نرالے عالم، بارے آپ کے اس مضمون کو لکھنے والا راشد اشرف ایک خوش گمان شخص ہے ۔۔ وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس کی عاجزانہ درخواست پر، اس کے اس مضمون کے قارئین بارگاہ الہی میں ہاتھ اٹھا کر آپ کی مغفرت کے لیے دعا کررہے ہیں اور اللہ تعالی اتنی بڑی تعداد میں دعاؤں کی آمد پر فرشتوں کو حکم دیتے ہیں کہ ہمارا یہ خانماں برباد بندہ نامی محبوب نرالے عالم، جو اپنی تمام زندگی میں ہمارے امتحان پر پورا اترا، اس کے درجات بلند کیے گئے اور اسے خلد بریں میں ابن صفی کے بے داغ سفید موتیوں کے بنے محل کے برابر میں ویسا ہی ایک محل عطا کیا جاتا ہے۔</div><div align="right"><br /><span style="color: rgb(204, 0, 0); font-weight: bold;">راشد اشرف</span></div><div style="color: rgb(204, 0, 0); font-weight: bold;" align="right">دسمبر 25، سن دو ھزار نو</div><div align="right"></div><div align="right">{ وادی اردو پر استاد محبوب نرالے عالم سے متعلق مندرجہ ذیل مواد شامل کیا جارہا ہے جس کی فراہمی کے لیے ہم امتیاز فاران اور ان کے اہل خانہ کے شکرگزار ہیں}:<br />۔۔ استاد کی نادر تصاوہر</div><div align="right">۔۔ استاد کے لکھے گئے اخباری کالم کے عکس</div><div align="right">۔۔ استاد پر لکھے گئے اخباری کالم کے عکس</div><div align="right">۔۔ استاد کے دیے گئے اخباری بیانات کے عکس</div><div align="right">۔۔ اورنگی کے اس مکان کی تصاویر جہاں استاد 15 برس مقیم رہے</div><div align="right">۔۔ استاد کی بےنام قبر کی تصاویر (پہلی مرتبہ)</div><div align="right">۔۔ استاد کی شاہی مہر کا عکس </div><div align="right">۔۔ محترم دلاور فگار کی استاد پر لکھی گئی نظم</div><div align="right">۔۔ پلاٹ کے حصول کے لیے استاد کی لکھی گئی درخواستوں کے عکس</div><div align="right">۔۔ جولائی سن دو ھزار پانچ کے دن روزنامہ عوام کی مکمل کوریج</div><div align="right">۔۔ استاد کی کتب ‘دیوان تاریخ زمانہ‘ (شاعری کی واحد کتاب) اور ‘روٹی، کپڑا اور لامکان‘ کے چند منتخب دلچسپ حصے<br />نیچے دیے گئے ایڈریسس پر آپ یہ تمام عجائبات دیکھ سکتے ہیں:<br /><a href="http://www.compast.com/ibnesafi/essay56.htm">http://www.compast.com/ibnesafi/essay56.htm</a></div><div align="right"><a href="http://www.wadi-e-urdu.com/">http://www.wadi-e-urdu.com/</a> </div>Rashidhttp://www.blogger.com/profile/05188816648792244637noreply@blogger.com6tag:blogger.com,1999:blog-5257349512764447761.post-12096262937142151852009-12-16T13:15:00.010+03:002010-01-12T08:10:37.903+03:00فرزند ابن صفی، ڈاکٹر احمد صفی سے ملاقات (کاپی رائٹ کے حوالے سے معاملات)، وادی اردو کا اجراء و دیگر متفرق احوال<span style="color: rgb(0, 0, 0);">یہ بات ہے سن 2008 کی جب ہمارے دوست منیر احسن نے ،جو ابن صفی صاحب کے انتہائی قریبی عزیز ہیں، اپنی خاموش طبع کے سبب ہم پر عرصہ دو سال کے بعد ایک دن اچانک انکشاف کیا کہ ابن صفی ان کے اپنے ہیں۔ یہ بات ہم پر گویا ایک ایٹم بم کی طرح نازل ہوئی۔ ابن صفی تو اوائل عمری ہی سے گویا ہمارا پیشن ہیں اور یوں لگا کہ جیسے منزل مل گئی۔<br /><br />"ارے صاحب تو پہلے کیوں نہیں بتایا"<br /><br />"آپ نے پہلے کیوں نہیں پوچھا"<br /><br />"چلیے تو اب ہمیں ملوائیے"<br /><br />"لیکن کس سے ملواؤں"<br /><br />یوں اس گفت و شنید سے پتہ چلا کہ خانوادہ ابن صفی میں کون کون ہے اور کہاں کہاں ہے۔ معلوم ہوا کہ ہم صرف ڈاکٹر احمد صفی سے مل سکتے ہیں کہ صفی صاحب کے باقی تمام فرزند پاکستان سے باہر مقیم ہیں۔ یاد رہے کہ یہاں بات ابرار و افتخار صفی صاحبان کی ہورہی ہے کہ صفی صاحب کے بڑے بیٹے، ڈاکٹر ایثار صفی سن دو ھزار پانچ میں قضائے الہی سے اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں۔ منیر احسن صاحب کے ہم یوں بھی احسان مند ہیں کہ اس ملاقات کے بعد انہوں نے اس قبرستان تک بھی ہماری رہنمائی کی کہ جہاں صفی صاحب مدفون ہیں۔اور اس طرح ہمیں اپنے چہیتے مصنف کے لیے فاتحہ خوانی کرنے کا موقع میسر آیا<br /><br />تو یوں ہم منیر احسن کے ہمراہ ایک شام احمد صفی صاحب کے گھر جادھمکے۔<br /><br />یہاں احمد صاحب کا ایک مختصر سا تعارف کراتے چلیں۔ احمد صفی بنیادی طور پر ایک میکینیکل انجینئر ہیں۔ کیلیفورنیا سے ماسٹرز اور پھر مزید اعلی تعلیم نیویارک کے رینزیلئر پولی ٹیکنیک انسٹیوٹ سے۔ سن 2003 میں کراچی آمد اور تاحال کراچی ہی میں مقیم۔ ان دنوں ایک کمپنی میں مینیجنگ ڈائرکٹر کے عہدے پر ہیں۔ ملاقات سے قبل یہ بات ذہن میں تھی کہ اگر احمد صاحب کو اردو ادب سے بالکل لگاؤ نہ ہوا تو کیا ہوگا، پھر تو گفتگو کا مزہ جاتا رہے گا لیکن پھر یہ سوچ کر دل کو تسلی دی کہ ہیں تو آخر ہمارے چہیتے مصنف ابن صفی صاحب کے فرزند کہ یہ تعلق بھی کچھ ایسا کم تو نہیں۔ (یادش بخیر! ایک بار مشتاق احمد یوسفی سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ کے بچے آپ کی تحریریں پڑھتے ہیں؟ یوسفی صاحب نے جواب دیا کہ میری بیٹی سے کسی نے یہی سوال کیا تھا اور اس نے انگریزی میں جواب میں دیا کہ "ہاں میں سنا ہے کہ پاپا کچھ ہیومر وٍغیرہ لکھتے ہیں)<br /><br />لیکن نہیں صاحب، وہاں ہمارے سامنے تو ایک نابغہ روزگار شخصیت براجمان تھی۔ شاعری سے شغف، نثر میں منجھا ہوا عمل دخل، اردو اور انگریزی ادب پر گہری نظر۔ اور تو اور اپنے والد گرامی کی کتابوں سے مکمل طور پر آشنا۔ کراچی کا تھکا دینے والا معمول، راستوں کی رکاوٹیں، آفس سے آئے تھے اور لباس بھی تبدیل نہیں کیا تھا لیکن کم و بیش ڈھائی گھنٹے ہمیں وقت دیا۔ ہم سوال کرتے گئے اور وہ جواب دیتے گئے، بس نہیں چل رہا تھا کہ ہر وہ بات پوچھ لیں جو صفی صاحب کے ناولز کے حوالے سے اوائل عمری ہی سے ذہن کے گوشوں میں ڈیرے ڈالے تھی۔ ابن صفی کیسے لکھتے تھے، بچوں سے رویہ کیسا تھا، ذاتی پسند نا پسند، رہائش، ناول کے پلاٹ کیسے ذہن میں آتے تھے۔ احمد صفی جواب دیتے گئے۔<br /><br />ایک موقع پر سوال کیا کہ صفی صاحب عمران سیریز میں تلے ہوئے جھینگے بمعہ کافی اور سارڈینا فش کا بہت ذکر کرتے تھے کہ یہ علی عمران کی مرغوب ڈش تھی۔ احمد صاحب کے جواب سے تصدیق ہوئی کہ واقعی یہ صفی صاحب کو پسند تھیں۔</span><br /><br /><span style="color: rgb(0, 0, 0);">ابن صفی صاحب پر 1995 میں نئے افق میں شائع شدہ اپنا مضمون "قلم کا قرض" دیا۔ کھبی شوق و جنون میں صفی صاحب کے ڈائجسٹ میں چھپنے والے چند ناولز کو مضبوط جلد کرواکر رکھا تھا، اس پر احمد صاحب کے دستخط لیے اور یوں فاتحانہ انداز میں خوشی سے سرشار واپس لوٹے کہ سب کو اس کی روداد سنائیں گے۔<br /><br />وقت گزرتا چلا گیا، قریب آٹھ ماہ بیت گئے کہ ایک دن انٹرنیٹ پر ایک ویب سائٹ دیکھی کہ جہاں لوگوں نے ابن صفی کی عمران و فریدی سیریز کے پورے پورے ناولز کی پی ڈی ایف کاپیاں بنا کر شامل کی ہوئی تھیں، ایک عجب ہی دنیا تھی کہ جہاں لوگوں کی بے تحاشا آمدورفت تھی۔ پم کیوں پیچھے رہیں، آؤ دیکھا نہ تاؤ، صفی صاحب کے کئی ناولز ایک فولڈر بنا کر شامل کرڈالے، دو چار حوصلہ افزا تبصرے آگئے تو لرادے کو اور مہمیز ملی، جوش خطابت میں اس سائٹ پر یہ اشتہار دے ڈالا کہ اگر طبیعت سیر نہ ہوئی ہو تو جن صاحب کو کوئی خاص ناول درکار ہو، نام لے کر طلب کریں۔ ہم ہیں نا۔ اتنے میں بنگلہ دیش سے درخواست آئی کہ فرہاد 59 انٹرنیٹ پر کہیں دستاب نہیں ہے، لیجیے صاحب، راشد اشرف، فرہاد 59 کی اسکیننگ پر جٹ (براہ کرم لفظ جٹ کو پیش کے ساتھ پڑھیے گا، زبر کے ساتھ نہیں -- ویسے کام تو جٹوں والا ہی تھا ) گئے۔<br /><br />ان ہی دنوں میں ایک شام کمپیوٹر پر اپنے برقی پیٍغاموں کو ٹٹولا تو احمد صفی صاحب کا نام جگمگا رہا تھا، ارے واہ احمد صاحب کو ہم ابھی تک یاد ہیں۔ لیکن صاحب جب پیغام کھولا تو گویا ‘چراغوں میں روشنی نہ رہی‘ ---- آپ سے کیا چھپانا، خود ہی پڑھ لیجیے<br /><br /></span><br /><blockquote><div style="text-align: left;"><span style="color: rgb(0, 0, 0);">Dear Rashid: AA I was reporting Copyright Infringement to eSnips.com and stumbled upon first on a Mr.....'s page where he had uploaded many pdfs of Ibne Safi Novels (illegally so!) and I was really hurt to see your appreciation on this "Effort" of his... Then I followed it to your profile and saw your open offer: "I have added two Jasoosi Dunya Novels. If anybody want to have any specific novel, just tell me ---- " This hurt me more...I have known and admired you for your love and respect for Ibne Safi and his novels. I just have to tell you that these works are copyright materials and copying them in any form print/electronic is illegal. M/s Asrar Publications is actively publishing these novels and all rights are reserved.<br />So as a first thing, I would request you to Volantarily remove the pdf versions or links to those, from your web pages and uphold the rights of your favourite author whose main aim was to propagate the Respect of Law (Qanoon ka Ehtraam.)<br />If you would not stand side by side with me and the Ibne Safi family which includes your dear friend Muneer, then we would be left to think that Ibne Safi Fans are fans for the sake of reading his works but not learning from it.I hope you would consider the point of view of the copyright holders and would be amongst the protectors of the rights not violators of the same. Hope to see a positive response from you.<br />Sincerely,<br />Ahmad Safi<br /></span></div></blockquote><br /><span style="color: rgb(0, 0, 0);">دیکھا دوستوں، بقول شاعر ‘پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات‘ -- گھڑوں پانی پڑ گیا، سچ پوچھو تو طبیعت مضمحل ہو گئی کہ یہ کیا کر بیٹھے۔<br /><br />خیر، تھوڑا سنبھالا کیا اور فورا" جواب دیا کہ معافی چاہتے ہیں، نتائج سے بےخبر ہم سے انجانے میں کوتاہی ہوئی، کل آپ مذکورہ فولڈر کو ویب سائٹ پر نہ پائیں گے۔<br /><br />یوں فولڈر تو حذف ہوا لیکن احمد صفی صاحب سے جو تعلق بنا وہ دیرپا ثابت ہوا۔ یہ ضرور ہے کہ ہم نے اس کاروائی کے بعد ایک عدد پیغام میں یہ گلہ بھی کیا کہ ہم نے تو آپ کی بات مانی لیکن انٹرنیٹ پر یہ جو سینکڑوں کی تعداد میں صفی صاحب کے ناولز پر مبنی فولڈرز موجود ہیں ان کا آپ کیا کریں گے ؟ اس قدرے چبھتے ہوئے سوال کا احمد صاحب نے ٹھنڈے لہجے جو جواب دیا وہ اس مفہوم کا غماز تھا کہ<br /><br />شکوہ ظلمت شب سے تو بہتر تھا<br />اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے<br /><br />لیجیے صاحب، وہ الجھن بھی دور ہوئی اور ہوں ہم بقول احمد صفی صاحب، ابن صفی کی 'ایکسٹینڈڈ فیملی' کا حصہ بن گئے۔ الحمدللہ اس تمام قضیے سے ہم نے جناب محمد حنیف (ایڈمنسٹریٹر ابن صفی ڈاٹ انفو) کو بھی آگاہ رکھا۔ حنیف صاحب 2008 کے اوائل میں ہم سے ملنے ہماری رہائش گاہ پر تشریف لائے تھے اور تب سے ان سے ایک خاص طرح کا قلبی لگاؤ بن گیا جو الحمد للہ آج تک جاری و ساری ہے۔<br /><br />یہاں سے ایک دوسری داستان کا آغاز ہوتا ہے جو ہماری ابن صفی صاحب پر ویب سائٹ وادی اردو کے اجرا کا سبب بنا۔ احمد صفی صاحب سے تعلق استوار ہوتا چلا گیا کہ جس کی بنیاد کاپی رائٹ کے معاملے میں ان کی کشادہ دلی سے پڑی تھی۔ اور پھر ہمارے ذہن میں یہ خیال جڑ پکڑ گیا کہ اب کوئی ایسا کام کیا جائے کہ جس سے اس ‘عظیم حماقت‘ کا ازالہ بھی ہوسکے۔ ویب سائٹ کی شروعات ہوئی اور احمد صفی صاحب کی حوصلہ افزائی شامل حال رہی۔ ادھر محمد حنیف صاحب بھی دل بڑھا رہے تھے۔<br /><br /><br />اب کیفیت یہ ہے کہ آج ٹی وی میں ابن صفی صاحب کی برسی کے دن نشر ہونے والی خبر سے لے کر، کراچی آرٹس کونسل میں منعقدہ پروگرام ‘ابن صفی - ایک مکالمہ ہماری روزنامہ جنگ میں لکھی گئی رپورٹ تک اور پھر معاصر بزنس ریکارڈر میں ہمارے انگریزی میں لکھے گئے ابن صفی صاحب پر مضمون سے لے کر ایف ایم ریڈیو چینل 105 پر نشر ہونے والے احمد صفی صاحب کے 26 نومبر 2009 کے انٹرویو تک، کئی ایسی کامیابیاں ہیں جن میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس شرمندگی کا بڑی حد تک ازالہ ہو چلا ہے جو کاپی رائٹ کے قضیے سے شروع ہوئی تھی۔<br /><br />یہاں ہم پڑھنے والوں کو بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہماری صفی صاحب کے ناولز کی کاپی رائٹ حیثیت کے حوالے سے انٹرنیٹ پر چلائی گئی مہم (حقیر سی کوشش) کا سب سے پہلے حوصلہ افزا جواب جناب باذوق صاحب نے مئی 2009 میں دیا اور عملی طور پر ایسے تمام روابط ہٹا دیے جو ان کی سائٹ پر موجود تھے۔ مزید یہ کہ ماشاء اللہ ابن صفی بلاگ پوسٹ بھی ایسے تمام روابط سے پاک ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی کئی ایسے دوست سامنے آئے جنہوں نے اپنے "ای اسنپس" نامی سائٹ پر موجود اپنے فولڈر محض ہماری درخواست پر ہٹا ڈالے۔ ان میں سب سے پہلے تو عزیر عبداللہ صاحب ہیں جو صفی صاحب کے پرستار ہیں اور ڈھاکا میں رہائش پذیر ہیں، ان کے علاوہ ایک صاحب ‘ایکسٹو‘ نامی (یہ ان کی آئی ڈی) اور ‘صفی فین‘ بھی ان میں شامل ہیں۔<br /><br />یہ بھی بتاتے چلیں کہ احمد صفی صاحب نے ابن صفی پر اولین ویب سائٹ ابن صفی ڈاٹ کام کا آغاز سن 1997 میں کیا تھا، مذکورہ سائٹ چند سال بعد ہی "ہیک" کرلی گئی اور پھر محمد حنیف صاحب نے ابن صفی ڈاٹ انفو کا اجرا سن 2005 میں احمد صفی صاحب کی باضابطہ اجازت و رہنمائی کے ساتھ کیا، یوں "ہیک شدہ" ابن صفی ڈاٹ کام کا تمام قیمتی مواد ابن صفی ڈاٹ انفو پر منتقل ہوا اور پھر بتدریج اس میں نکھار آتا چلا گیا۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ وادی اردو کو شروع کرتے وقت یہ بات ذہن میں تھی اور ہمیشہ رہے گی کہ ابن صفی صاحب پر آفیشل ویب سائٹ بہرصورت ابن صفی ڈاٹ انفو ہی ہے, یہ ضرور ہے کہ حنیف صاحب ہمیں کسی قابل سمجھتے ہوئے ہمارا کام بڑی محبت سے ابن صفی ڈاٹ انفو پر شامل کرلیتے ہیں اور یوں یہ حقیر سی کوشش معتبر بن جاتی ہے۔</span><br /><span style="color: rgb(0, 0, 0);"><br />احمد صفی صاحب کی مسلسل حوصلہ افزائی کی بنا پر پھر یوں ہوا کہ ہم نے 1956 کے عمران سیریز کے اوریجنل ناول بھیانک آدمی پر درج ابن صفی صاحب کے لالو کھیت (اب لیاقت آباد) کے مکان کے پتے کی مدد سے وہ مکان ڈھونڈ نکالا جس میں صفی صاحب ھندوستان کی تقسیم کے بعد آکر 1953 سے 1957 تک رہائش پذیر رہے تھے۔ اس مکان کی تصاویر وادی اردو اور ابن صفی ڈاٹ انفو پر موجود ہیں۔ اس کے بعد باری آئی ناظم آباد کے اس گھر کی جہاں صفی صاحب 1957 سے 1980 تک اپنی رحلت کے وقت تک مقیم رہے۔ اس گھر کی تصاویر لینا ایک دشوار گزار مرحلہ تھا جو دو ہفتے کے کڑے اور صبر آزما انتظار کے بعد ہماری ہٹ دھرمی کی بنا پر تکمیل پایا۔ (ہمیں یقین ہے کہ مذکورہ گھر کے مالکان دوبارہ ایسے کسی بھی مطالبے پر خون ریزی پر آمادہ ہو جائیں گے) ۔۔۔۔ اب کیا بتائیں آپ کو، وہ بھلے لوگ گھر میں داخل ہی نہ ہونے دیتے تھے لیکن جیسے تیسے اپنا کام نکلوانا بھی ہم نے علی عمران ہی سے تو سیکھا ہے۔<br /><br />لیجیے یہاں ناظم آباد کے اسی گھر کے حوالے سے ہماری ایک تک بندی ملاحظہ ہو جو گلزار سے متاثر ہو کر کہی گئی ہے<br /><br />ناظم آباد دو نمبر کے محلے کی وہ گلیاں<br /><br />کچھ فاصلے پر مچھو پان والے کے نکڑ پر دنیا بھر کے قصیدے ۔۔<br /><br />اور گڑگڑاتی ہوئی پان کی پیکوں میں وہ واہ واہ کی صدائیں<br /><br />آنگن کی دیوار پر جھولتی بوگن ویلیا کی بیل ۔۔۔۔<br /><br />ایک بکری کے ممیانے کی آواز<br /><br />گھر کے آنگن میں کھیلتے سات ننھے بہن بھائی ۔۔۔۔۔<br /><br />اور دھندلائی ہوئی شام کے اندھیرےایسے دیواروں سے سر جوڑ کے چلتے ہیں یہاں ۔۔۔۔<br /><br />گھر میں موجود ْاماںْ جیسےاپنے ضعیف ہاتھوں سے پوتوں کے لیے دروازہ کھولے<br /><br />اسی بظاہر عام سی نظر آنے والی ناظم آباد کی گلی سے ۔۔۔۔<br /><br />ایک ترتیب چراغوں کی نمودار ہوتی ہے<br /><br />سری ادب کا لازوال سفر آگے بڑھتا ہے<br /><br />لیکن یہاں سمپورن سنگھ کے مرزانوشہ کا نہیں بلکہ اسرار احمد المعروف ابن صفی کا پتہ ملتا ہے<br /></span><br /><br /><span style="color: rgb(0, 0, 0);">سلسلہ آگے بڑھا اور ایک رات قریب گیارہ بجے ایک صاحب (محمد صادق پرستار ابن صفی) کا فون آیا کہنے لگے کہ میں اس وقت کراچی کے ایک مضافاتی علاقے میں موجود ہوں، یہاں ایک بینر لگا ہوا ہے جس پر درج یے ‘ابن صفی آئی کلینک کا عنقریب افتتاح" اور میں حیران ہو کر آپ کو مطلع کر رہا ہوں۔ ہم نے کہا کہ حضور، آپ نے ہمیں بھی حیران کر دیا۔ خیر اگلے روز ہم ویاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ ایک ایسے ڈاکٹر صاحب کا عزم ہے جو کراچی کے ایک اسپتال میں ابن صفی کے مرحوم صاحبزادے ڈاکٹر ایثار صفی کے ہمراہ قریب سات برس تک نوکری کرتے ریے تھے اور ڈاکٹر ایثار صفی کی دیرینہ خواہش کی تکمیل میں انہوں نے مذکورہ کلینک کی شروعات کا ارادہ کیا ہے۔ تادم تحریر، یہ کلینک شروع ہوچکا ہے اور اچھا چل رہا یے۔ وادی اردو پر اس کی تفصیلات بمعہ تصاویر کے دیکھی جاسکتی ہیں۔</span><br /><span style="color: rgb(0, 0, 0);"><br />کاپی رائٹ کے معاملے میں احمد صفی صاحب کی بات ہمیشہ پیش نظر رہی اور<br />وادی اردو کے سلسلے میں جناب ایج اقبال صاحب سے ملاقات ہوئی اور ان سے ان کے 1972 میں نکالے گئے الف لیلہ ڈائجسٹ کے ابن صفی نمبر کو اسکین کرکے شامل ویب سائٹ کرنے کی اجازت طلب کی گئی جو انہوں نے بخوشی دے دی۔<br /><br />اسی طرح مشتاق احمد قریشی صاحب سے بھی ویب سائٹ پر موجود نئے افق کے ابن صفی نمبرز کو اسکین کرکے شامل کرنے کی اجازت طلب کی گئی<br /><br />دریں اثنا، احمد صفی صاحب نے 2009 میں معروف ویب سائٹ "فیس بک" پر ابن صفی کے خاص صفحے کا اجرا کیا جسے راتوں رات مقبولیت حاصل ہوئی اور اب اس کے پرستاروں کی تعداد پانچ سو کے قریب پہنچنے والی ہے۔<br /><br />یونہی ایک روز خیال آیا کہ جلد یا بدیر، ایک دن کراچی یونیورسٹی میں ابن صفی صاحب پر پی ایچ ڈی ضرور کی جائے گی۔ یہ خیال دل میں جڑ پکڑتا گیا اور ایک روز ہم نے ابن صفی پر سوالنامہ/گائیڈ لائنز برائے پی ایچ ڈی (Questionnaire / Guidelines for Ph.D on Ibne Safi) پر کام شروع کرڈالا۔ حسب معمول احمد صفی صاحب کا عملی تعاون اس میں شامل رہا۔ مذکورہ سوالنامے کو ہم نے ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹرہیلڈ (جرمنی میں اردو کی پرفییسر اور نئی دہلی میں ابن صفی پر مقالہ پڑھنے والی محقق) اور پرفییسر شمس الرحمان فاروقی (مشہور ادیب و شاعر، مقیم ھندوستان) کو نظر ثانی کی غرض سے ارسال کیا تھا اور ان تمام اہل علم حضرات نے ہمیں اپنے مشوروں نے نوازا۔ مزید یہ کہ نارویجیئن پروفیسر فن تھیسین (ابن صفی پر کام کے حوالے سے معروف) کو بھی حال ہی میں بھیجا ہے۔<br /><br />ایک اہم بات جس کا ذکر کرتے چلیں کہ ابن صفی صاحب کے حوالے سے ہمارا رابطہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب سے ہوا جنہیں دنیا محسن پاکستان کے حوالے سے جانتی ہے، ڈاکٹر صاحب نے ہمیں یہ بتا کر حیران کر دیا کہ وہ بھی ابن صفی صاحب کو پڑھا کرتے تھے، ڈاکٹر صاحب نے ہم سے وعدہ کیا کہ وہ اپنی مصروفیت سے وقت نکال کر ابن صفی صاحب پر مضمون لکھیں گے۔ ایسا ہی ایک وعدہ ہم سے کالم نگار جناب یاسر پیرزادہ نے، جو جناب عطاالحق قاسمی صاحب کے صاحبزادے ہیں، حال ہی میں کیا ہے کہ یاسر بھی ابن صفی صاحب کے پرستاروں میں سے ہیں۔</span><br /><span style="color: rgb(0, 0, 0);"><br />ابن صفی صاحب کی اوریجنل کتب کا حصول ہمیشہ سے ایک سلگتی ہوئی آرزو رہی تھی۔ پچھلے دنوں شام ڈھلے کراچی کی زمستانی ھواوں کے بیچ لالٹین کی روشنی میں یہ آرزو پوری ہوئی۔ گلشن اقبال میں واقع ممتاز منزل کے پرانی کتابوں کے ٹھکانے پر ایک کتب شناس ٹھیلے والا دو روز قبل ہمیں اطلاع دے چکا تھا کہ صفی صاحب کی 140 کتب آیا چاہتی ہیں۔ لگ بھگ 25 عمران اور 10 جاسوسی دنیا ہاتھ لگیں اور تمام کی تمام اوریجنل سرورق کے ساتھ۔ چالیس برس پرانی کتب اور تمام اس حالت میں کہ ایک بار بھی نہ پڑھی گئی تھیں۔ نا معلوم کیسے زمانے کی دستبرد سے محفوظ رہ گئی تھیں۔ چار کتب کو کتابی کیڑے نے کچھ ایسے چاٹا تھا کہ گویا کسی نے برف توڑنے والے سوئے سے برابر برابر چھید ڈالا ھو لیکن ایک احتیاط اس میں بھی لازم ٹھہری کہ پڑھنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی۔ (کتب شناس کیڑے ۔ خوش رھو)۔ جاسوسی دنیا کے " اونچا شکار" سے کاتب کا پتہ ملتا یے۔ احمد الہ خان سندیلوی ہیں (ان کا ذکر احمد صفی صاحب نے اپنے مخزن کے مضمون میں کیا ہے)۔ صفی صاحب کے دستخط چھبیس دسمبر انیس سو اٹھاون کے ہیں، سالانہ مع رجسٹری ساڑھے تیرہ روپے اور غیر ممالک کے لیے اکیس شلنگ۔ ابن صفی صاحب کی 1960 کی بیماری کے دوران کا اور ڈیڑھ متوالے کی اشاعت سےقبل ان کا (صفی صاحب کا) لکھا ہوا کسی آفتاب ناصری کی کتاب رات کا جادوگر کا پیشرس نظر سے گزرا۔ رات کا جادوگر نکہت پبلیکیشنز کا ناول ایڈیشن ہے جو کراچی سے اسرار پبلیکیشنز نے اپنے امتیازی نشان کے ساتھ شائع کیا تھا۔ پیشرس میں ابن صفی اپنی بیماری کا ذکر کرتے ہیں اور ڈیڑھ متوالے کی آمد کی نوید سناتے ہیں اور پڑھنے والوں سے دعا کی درخواست کرتے ہیں۔<br /><br />کتابوں کا ذکر چلا ہے تو یہ خوش کن خبر بھی قاریئن کو سناتے چلیں کہ حال ہی میں مشتاق احمد قریشی صاحب نے ابن صفی و ابوالخیر کشفی صاحبان پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام "دو بڑے" ہے۔ مذکورہ کتاب ابھی مارکیٹ میں نہیں آئی ہے لیکن عنقریب دستیاب ہوگی۔ کتاب "دو بڑے" میں قریشی صاحب نے ابوالخیر کشفی کے ان قلمی تبصروں کو یکجا کردیا ہے جو کشفی صاحب نے صفی صاحب کے مختلف ناولز کے مطالعے کے دوران ان پر لکھے تھے۔</span><br /><br /><span style="color: rgb(0, 0, 0);">ابن صفی صاحب کے ناولز کے سرورق بنانے والے آرٹسٹ جناب ولائیت احمد سے ملاقات بھی احمد صفی صاحب کے توسط سے ہی ہوئی اور پھر ان ہی دنوں ولائیت صاحب کے قریبی عزیز اور کرسچین کالج الہ آباد میں ابن صفی صاحب کے استاد پروفیسر انوار الحق صاحب کے صاحبزادے جناب انوار صدیقی (انکا، اقابلا اور سونا گھاٹ کا پجاری جیسے مشہور سلسلوں کے مصنف) سے ملاقات بھی اس بات کی دلیل ٹھہری کہ ابن صفی صاحب سے تعلق رکھنے والے حضرات کی کھوج لگاکر انہیں منظر عام پر لانا گویا ایک خواب کی تکمیل ہے۔ ایک ایسا خواب کہ جس کی خواہش ہم نے برسوں پہلے 1995 میں اپنے مضمون ‘قلم کا قرض‘ کے آختتامیے میں کچھ اس طرح سے کی تھی<br /><br />میں ان لوگوں کے انتظار میں ہوں جو ابن صفی کو پڑھیں گے، اس کی باتیں مجھ سے کریں گے، اس کے پیغام کو سمجھیں گے۔<br /><br />میں ان کی راہ دیکھتا ہوں کہ جو ابھی ابن صفی سے ناواقف ہیں، اور جنہیں کسی نہ کسی موڑ پر اس سے متعارف ہونا ہے۔<br /><br />میں ان لوگوں کو دیکھ کر سکون محسوس کرنا چاہتا ہوں۔<br /><br />وہ آرہے ہیں، وہ آگئے ہیں، تم آگئے۔ تم نے بہت انتظار کرایا۔ میں راشد ہوں۔ اچھا اب میں چلتا ہوں۔<br /><br /><br />راشد اشرف<br />دسمبر 16، سن دو ھزار نو</span>Rashidhttp://www.blogger.com/profile/05188816648792244637noreply@blogger.com6tag:blogger.com,1999:blog-5257349512764447761.post-51199924843536823562009-12-10T14:44:00.002+03:002009-12-10T14:47:02.995+03:00قانون - 2 بشکریہ : <a href="http://www.wadi-e-urdu.com/">راشد اشرف</a> صاحب<br />
<br />
کچھ ہماری طرف سے بھی<br />
<br />
"میں جانتا ہوں کہ حکومتوں سے سرزد ہونے والے جرائم، جرائم نہیں حمکت عملی کہلاتے ہیں۔ جرم تو صرف وہ ہے جو انفرادی حیثیت سے کیا جائے۔"<br />
(جونک کی واپسی)<br />
<br />
"آدمی کس قدر بے چین ہے مستقبل میں جھانکنے کے لیے۔ شاید آدمی اور جانور میں اتنا ہی فرق ہے کہ جانور مستقبل سے بے نیاز ہوتا یے اور آدمی مستقبل لیے مرا جاتا ہے۔"<br />
(سہ رنگا شعلہ)<br />
<br />
"میں عموما بنجر زمین پر کاشت کرتا ہوں اور کچھ نہیں تو کانٹے دار پودے ہی اگا لیتا ہوں اور وہ کانٹے میرے لیے خون کی بوندیں فراہم کردیتے ہیں۔"<br />
(مہکتے محافظ)<br />
<br />
"اگر میں اس سڑک پر ناچنا شروع کردوں تو مجھے دیوانہ کہو گے لیکن لاشوں پر ناچنے والے سورما کہلاتے ہیں۔ انہیں اعزاز ملتے ہیں، ان کی چھاتیاں تمغوں سے سجائی جاتی ہیں"<br />
(خطرناک لاشیں)<br />
<br />
"جو عبادت آدمی کو آدمی نہیں بنا سکتی، میں اس عبادت کے بارے میں اپنی رائے محفوظ رکھنے پر مجبور ہوں"<br />
(صحرائی دیوانہ)<br />
<br />
"دنیا کا کوئی مجرم بھی سزا سے نہیں بچ سکتا۔ قدرت خود ہی اسے اس کے مناسب انجام کی طرف دھکیلتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو تم ایک رات بھی اپنی چھت کے نیچے آرام کی نیند نہ سو سکو، زمین پر فتنوں کے علاوہ کچھ نہ اگے"<br />
(ہیروں کا فریب)<br />
<br />
"یہاں اس ملک میں تمہارے ناپاک ارادے کبھی شرمندہ تکمیل نہیں ہو سکیں گے۔ یہاں کی فضا میں ایسا معاشرہ زندہ نہیں رہ سکتا جو خدا کے وجود سے خالی ہو"<br />
(جہنم کی رقاصہ)<br />
<br />
"جب کوئی ذہین اور تعلیم یافتہ آدمی مسلسل ناکامیوں سے تنگ آجاتا ہے تو اس کی ساری شخصیت صبر کی تلخیوں میں ڈوب جاتی ہے۔"<br />
(موت کی آندھی)<br />
<br />
"ایک پرندے کو سنہرے قفس میں بند کر کے دنیا کی نعمتیں اس کے لیے مہیا کر دو لیکن کیا وہ پرندہ تمہیں دعائیں دے گا ؟"<br />
(دشمنوں کا شہر)باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5257349512764447761.post-19153716539427343462009-12-04T22:33:00.002+03:002009-12-04T22:35:27.851+03:00دلچسپ و عجیب - 2<a href="http://www.wadi-e-urdu.com/">راشد اشرف</a> صاحب نے اس بلاگ کی تحریر <a href="http://ibnsafi.blogspot.com/2009/07/ibnsafi-novels-interesting-points.html">دلچسپ و عجیب</a> پر <a href="http://ibnsafi.blogspot.com/2009/07/ibnsafi-novels-interesting-points.html?showComment=1259912140336#c7498938755756230320">تبصرہ</a> کرتے ہوئے ابن صفی کے شیدائیوں کا ایک دلچسپ امتحان بھی لیا ہے ، درج ذیل سوالات کی شکل میں ۔۔۔۔<br />
ہے کوئی جواب دینے والا ؟؟<br />
<br />
1:<br />
جاسوسی دنیا (فریدی سیریز) کی ان ہیروئینوں کے نام بتائیں جنہیں کرنل فریدی نے اپنی سرد مزاج فطرت کے مطابق نظرانداز کر دیا تھا اور ان ہیروئینوں کو قارئین کی ہمدردی حاصل ہوئی تھی۔ ہیروئینوں کے نام کے ساتھ ناول کے نام بھی بتائیں۔<br />
<br />
2:<br />
عمران سیریز کی ان ہیروئینوں کے نام بتائیں جنہیں علی عمران نے اپنی لاپرواہ فطرت کے مطابق نظرانداز کر دیا تھا اور ان ہیروئینوں کو قارئین کی ہمدردی حاصل ہوئی تھی۔ ہیروئینوں کے نام کے ساتھ ناول کے نام بھی بتائیں۔<br />
<br />
3:<br />
کیپٹن فیاض کی بیوی کا نام بتائیں۔<br />
<br />
4:<br />
اُس ناول کا نام بتائیں جس میں ابن صفی نے علامہ اقبال کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ علامہ کا واحد شعر جو انہیں یاد ہے ، وہ یہ ہے :<br />
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں<br />
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی<br />
<br />
5:<br />
ابن صفی نے ایکس-ٹو کے نام کا انتخاب کیوں کر کیا تھا؟ اس انتخاب کا پس منظر کیا تھا ؟<br />
<br />
6:<br />
اپنے اچھے دنوں میں (غالباً سیکرٹ سروس میں شمولیت سے قبل) علی عمران ایسی کہانیاں لکھا کرتا تھا جو ایک مغربی مصنف کے طرز تحریر سے مماثلت رکھتی تھیں۔ اس مغربی مصنف کا نام کیا تھا؟<br />
<br />
7:<br />
جیمسن (جمن) کے والد کا نام بتائیں۔ اس ناول کا نام بھی بتائیں جس میں عمران اس راز کو آشکار کرتا ہے۔<br />
<br />
8:<br />
عمران سیریز کے اس ویلن کا نام بتائیں جس کے متعلق خود ابن صفی ہمدردانہ جذبات رکھتے تھے۔<br />
<br />
9:<br />
اُس ملک کا نام بتائیں جسے ابن صفی دیکھنا چاہتے تھے۔ اور اس ناول کا بھی نام بتائیں جس میں انہوں نے اس کا ذکر کیا ہے۔<br />
<br />
10:<br />
اُن دو ناولوں کے نام بتائیں جن میں ابن صفی نے علی عمران کی عمر کا ذکر کیا ہے۔باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com11tag:blogger.com,1999:blog-5257349512764447761.post-44190957771667863432009-07-28T10:24:00.003+03:002009-07-28T10:29:25.170+03:00ابن صفی مرحوم کی 29 ویں برسی26-جولائی-2009ء کو ابن صفی مرحوم کی 29ویں برسی تھی۔<br /><br />ڈاکٹر نعمان احمد نے انگریزی میں ابن صفی پر ایک متاثر کن مضمون روزنامہ ڈان کے ای-پیپر میں شائع کروایا ہے جسے یہاں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔<br /><a href="http://epaper.dawn.com/ArticleText.aspx?article=26_07_2009_468_002">In memoriam</a><br /><br />اسی طرح پاکستان کے اولین فنانشیل انگریزی روزنامہ بزنس ریکارڈر میں بھی ابن صفی پر ایک عمدہ تحریر جناب راشد اشرف کی شائع ہوئی ہے جس کا مطالعہ یہاں کیا جا سکتا ہے:<br /><a href="http://www.brecorder.com/index.php?id=940188&currPageNo=1&query=&search=&term=&supDate">Ibne Safi - a great Urdu mystery novelist</a><br /><br />میٹرو-1 ٹی-وی پر اتوار 26-جولائی کی رات ایک گھنٹہ طویل پروگرام ابن صفی پر پیش کیا گیا تھا۔ اس پروگرام کی تشہیر جس 2 منٹ کے پرومو کے ذریعہ کی گئی ، وہ یو ٹیوب پر یہاں دستیاب ہے :<br /><a href="http://www.youtube.com/watch?v=ptLiZe--Fok">metro one tv ..... Ibn e safi</a><br /><br />تقریباً دس منٹ دورانیے کی ایک ٹیلی نیوز ، 26-جولائی کو ہر اہم بلیٹن میں پیش کی گئی ، یہ ٹی-وی خبر بھی یوٹیوب پر یہاں دستیاب ہے :<br /><a href="http://www.youtube.com/watch?v=F6S_pkCdjy4">Anniversary Tribute to Ibn-e-Safi Biggest Detective Novel Writer Asia Produced</a>باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com4tag:blogger.com,1999:blog-5257349512764447761.post-64165201485416583042009-07-20T14:52:00.002+03:002009-07-20T14:56:54.856+03:00مختصر تعارف - احمد صفی (ولد ابن صفی)پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے ؟<br />کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا<br /><br />مخزن کی روایت کے مطابق اپنا تعارف کرانے بیٹھا ہوں تو میرزا کا مذکورہ شعر ذہن میں گونجنے لگا ہے اور اب اس کا مطلب بھی بہتر طور پر سمجھ میں آ گیا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اردو شاعری میں صنعتِ حسنِ تعلیل (یا شاعرانہ تعلّی) کی گنجائش موجود ہے جسے نثر میں بھی کھینچا جا سکتا ہے ورنہ میں کیا لکھتا۔<br />مختصر مختصر یہ کہ میں نے بیسویں صدی کی ساٹھویں دہائی میں اس دنیا کو رونق بخشی۔والدین نے نام اظہار احمد رکھا کہ والد اور برادران کے ناموں، اسرار، ایثار اور ابرار کا ہم قافیہ تھا اور اس لئے بھی کہ اس زمانے میں بچّوں کے پائجامے کے کپڑے سے لے کر ناموں تک یکسانیت کا خیال رکھا جاتا تھا ۔ بزرگوں ہی سے سنا کہ جب دادا (صفی ا للہ صاحب مرحوم) اسکول میں داخل کرانے لے گئے تو ٹیچر کے پوچھنے پر میں نے اپنا نام "احمد صفی" بتایا۔ دادا نے فوراً تصدیق کی اور یہی نام لکھوا دیا کیونکہ بیٹے نے تو محض قلمی طور پر ان کے نام کو استعمال کیا، پوتے نے سرکاری طور پر انکے نام کو اپنے نام کا حصّہ بنا لیا۔<br /><br />کراچی میں رہا، پلا بڑھا اور تعلیم حاصل کی۔ گورنمنٹ اسکول ناظم آباد سے ڈی جے سائینس کالج اور پھر وہاں سے این ای ڈی یونیورسٹی پہنچا۔ مکینیکل انجنیئرنگ کی ڈگری لے کر کچھ عرصہ پاکستان میں کام کیا۔ سی ایس ایس اور وزارتِ سائنس و ٹکنالوجی کے وظیفے کے امتحانات آگے پیچھے دیئے اور دونوں میں پوزیشن کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ پھر سول سروس کا خیال چھوڑ کر اعلٰی تعلیم کے لئے امریکہ کی راہ لی۔ والدہ محترمہ کا خیال بھی یہی تھا کہ میں سی ایس پی افسر نہیں بن سکتا تھا کیونکہ نہ میرے والد کا مزاج افسرانہ تھا اور نہ ہی میرا۔ لہٰذا پہلے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اروائن سے ماسٹرز کیا اور پھر مزید تعلیم کے لئے نیویارک کے رینزیلئر پولی ٹکنک انسٹیٹیوٹ چلا گیا۔ وہاں سے "جنرل الیکٹرک" والوں نے پکڑ بلوایا۔ 2003ء میں پاکستان واپس آنے تک وہیں خدمات انجام دیں۔ مختلف ایجادات پر بیس عدد پیٹنٹ حاصل کئے جن کو انٹرنیٹ پر ڈھونڈھا جا سکتا ہے۔ اِن دنوں کراچی کی ایک انجنیئرنگ کمپنی میں گھوم پھر کر وہی افسرانہ خدمات انجام دے رہا ہوں۔<br /><br />یہ تو تھیں ساری بے ادبی کی باتیں۔ ادبی کاموں کا جہاں تک تعلق ہے، چونکہ آنکھیں ہی کتابوں کے درمیان کھلی تھیں لہٰذا نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کچھ تو اثر ہونا ہی تھا۔ ستّر کی دہائی کے اواخر سے اشعار و مضامین ڈائریوں کے اوراق تک آنے شروع ہو گئے تھے۔ فطری جھجھک اور شرم کی وجہ سے کلام کو چُھپایا اور اسے چھپوایا نہیں۔ عاشقانہ اشعار دکھانے میں اور حیا آتی تھی۔ تعلیمی دور میں ایک استاد نے میری کی ہوئی تشریحاتِ شعری کو دیکھ کر کہا کہ میاں ہر شاعر کا محبوب حقیقی ہی نہیں ہوا کرتا آپ محبوبِ مجازی کا خیال بھی کیجئے۔<br />بہر حال نثر اور نظم دونوں میں کچھ نہ کچھ ہوتا رہا۔ امریکہ ، کینیڈا اور پاکستان کے مشاعروں میں پھر شریک ہوتا رہا۔ میری پہلی نظم "مامتا کی لوری" ، 1988ء میں "جنگ لندن" میں چھپی اور پھر حافظ شیرازی کی کچھ غزلوں کے منظوم تراجم بکمالِ لطف معین الدین شاہ صاحب مرحوم نے "اردو ادب" میں شائع کئے۔<br />نثر میں پہلی شائع ہونے والی مختصر کہانی (افسانہ نہیں کہوں گا کہ تکنیکی طور پر شائد وہ افسانہ نہ رہا ہو) "بھاگ گئی" کے عنوان سے غالباً 1990ء میں، "راوی، بریڈفورڈ" میں چھپی۔<br />مجھے اس طرح منظرِ عام پر لانے میں میری خالہ محترمہ صفیہ صدیقی صاحبہ کا بہت ہاتھ ہے ورنہ بہت کچھ میری ڈائریوں میں مدفون رہ جاتا جو اب کئی امریکی، کنیڈین، برطانوی اور پاکستانی رسالوں تک پہنچ چکا ہے۔ نیویارک میں رہتے ہوئے ٹرائے کے شہر سے احباب کے ساتھ مل کر ایک ریڈیو پروگرام "آوازِ پاکستان" کے نام سے عرصہ دس سال تک کیا اور مختلف ایوارڈز بھی حاصل کئے۔ اب بھی انٹرنییٹ پر یہ پروگرام بروز ہفتہ صبح دس بجے (نیویارک کے وقت کے مطابق) www.wrpi.org پر سنا جا سکتا ہے۔<br /><br />ادبی سرگرمیوں کو ہمیشہ غمہائے روزگار نے پچھلی نشست پر جگہ دی۔ پاسبانِ عقل نے دل کو اپنی نہیں کرنے دی۔ شائد بچپن میں "اظہار" کو ترک کر دینے کا نتیجہ ہے کہ اب تخلیقی قوتیں آہستہ آہستہ اپنے اظہار کے ذرائع خود پیدا کر رہی ہیں۔<br />ع<br />آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا<br /><br /><span style="color:#993399;">بشکریہ : مخزن (بریڈفورڈ ، یو-کے) - جلد:8 ، مدیر : <u>مقصود الٰہی شیخ</u></span>باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-5257349512764447761.post-30776023342965152432009-07-12T12:46:00.002+03:002009-07-12T12:51:15.794+03:00دلچسپ و عجیب* ابن صفی نے "انور" کا کردار سب سے پہلے ناول "ہیرے کی کان" میں متعارف کروایا تھا۔<br /><br />* ایکسٹو کے دست راست "بلیک زیرو" کو ناول "درندوں کی بستی" میں مار ڈالا گیا تھا لیکن اگلے ہی ناول "گمشدہ شہزادی" میں ایک نیا فرد بحیثیت "بلیک زیرو" متعارف کروایا گیا۔<br /><br />* حمید کی "چوہیا" کا کردار ناول "جنگل کی آگ" میں تخلیق کیا گیا۔<br /><br />* قاسم کا کردار سب سے پہلے ناول "برف کے بھوت" میں متعارف کروایا گیا تھا۔ قاسم کا مکمل نام "قاسم رضا" تھا۔ قاسم اور حمید کی سب سے پہلی ملاقات "زہریلا آدمی" میں ہوئی تھی۔<br /><br />* حمید نے ناول "شیطان کی محبوبہ" میں ایک عورت کا بھیس بھی بدلا ہے۔<br /><br />* حمید کے والد کا نام "وحید" تھا۔ حمید "پورٹ سعید" سے نازل ہوا تھا۔<br /><br />* ناول "پتھر کا خون" میں عمران نے دعویٰ کیا تھا کہ اگر کبھی اس کی لڑائی فریدی سے ہو جائے تو فریدی کو چھ ماہ کی چھٹی پر چلا جانا پڑے گا۔<br /><br />* ناول "زمین کے بادل" میں فریدی ، عمران کی ذہانت کا اعتراف حمید سے کرتے ہوئے کہتا ہے کہ : عمران بااصول آدمی نہیں ہے لیکن اگر میرے ساتھ صرف ایک سال گزار لے تو میں عمران کو سدھار دوں گا۔<br /><br />* "استاد محبوب نرالے عالم" کا کردار حقیقی دنیا کا کردار تھا جن کا انتقال 2002ء میں ہوا ہے۔ استاد کو پہلی بار عمران سیریز ناول "پاگلوں کی انجمن" میں پیش کیا گیا تھا۔<br /><br />* عمران نے موسیقی کے ساز بھی بجائے ہیں۔ ناول "گیت اور خون" میں طبلہ اور ناول "قاصد کی تلاش" میں ستار بجایا ہے۔<br /><br /><br />*****<br />حوالہ جات بشکریہ : <a href="http://www.compast.com/ibnesafi/faq.htm">ابن صفی آفیشیل ویب سائیٹ</a>باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com4tag:blogger.com,1999:blog-5257349512764447761.post-55908353235768800262009-07-12T11:37:00.005+03:002009-07-12T11:46:21.847+03:00ابن صفی کا آٹوگراف<span style="font-size:130%;">اسے کبھی نہ بھولو کہ تمہیں ایک سچے مسلمان کی طرح زندگی بسر کرنی ہے !</span><br /><span style="color:#cc33cc;">ابن صفی</span><br /><span style="color:#3333ff;">5 / جنوری / 1970ء</span><br /><br />بشکریہ : <a href="http://www.ibnesafi.info/">ابن صفی آفیشیل ویب سائیٹ [www.ibnesafi.info]</a><br /><div align="center">***<br /><br /></div><a href="http://www.compast.com/ibnesafi/images/autograph3.jpg"><img style="DISPLAY: block; MARGIN: 0px auto 10px; WIDTH: 497px; CURSOR: hand; HEIGHT: 290px; TEXT-ALIGN: center" alt="" src="http://www.compast.com/ibnesafi/images/autograph3.jpg" border="0" /></a>باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5257349512764447761.post-31016313500922671852009-07-05T09:58:00.003+03:002009-07-05T10:04:11.107+03:00ابن صفی کا لازوال کردار ۔۔۔ علی عمران !!ابنِ صفی کے ' عمران سیریز ' ناولوں میں قوس قزح کی طرح دلکش اور دلفریب سات رنگوں پر مشتمل سات معروف کردار واضح طور پر نظر آتے ہیں :<br /><span style="color:#cc33cc;">صفدر ، جولیا ، سنگ ہی ، تھریسیا ، جوزف ، سلیمان اور علی عمران !</span><br />اِن سب میں گہرا اور دلآویز رنگ خود <span style="color:#ff0000;">علی عمران</span> کا ہے!<br /><br />علی عمران ، جو ایم ایس سی ، پی ایچ ڈی (آکسن) ہے، جس کے پاس ڈگریوں کی فوج ہے لیکن اُس نے ڈگریوں کو سرد خانے میں محفوظ کر رکھا ہے۔<br />اِس کردار کے ذریعے ابن صفی سارے معاشرے پر طنز کرتے ہیں کہ اب ہم ڈگریوں کے سائے میں چلتے ہیں۔ ہمارے ہر قول و فعل پر ڈگریوں کا پر تَو نظر آتا ہے۔ اور یوں اَنا کا حصار ہمیں دوسروں کے دلوں میں اُترنے سے روکتا ہے۔<br />لیکن عمران اپنی ساری حماقتوں اور معصومیت کے ساتھ یوں جلوہ گر ہوتا ہے کہ سلیمان ہو یا سر سلطان سبھی اس خبطی اور ازلی بیوقوف کے گرویدہ نظر آتے ہیں۔<br /><br />عمران کی ٹیڑھی شخصیت پر ابن صفی نے ناول '' گھر کا بھیدی '' میں مفصل روشنی ڈالی ہے۔ وہ رقمطراز ہیں:<br /><blockquote><div style="BACKGROUND-COLOR: rgb(243,236,209)">"لوگ اکثر سوچتے ہیں کہ عمران کی شخصیت اتنی غیرمتوازن کیوں ہے ؟ وہ ہر معاملے کو ہنسی میں کیوں اُڑا دیتا ہے ؟ والدین کا احترام اُس طرح کیوں نہیں کرتا جیسے کرنا چاہئے؟<br />اس کے پیچھے بھی ایک طویل کہانی ہے۔ بچپن میں ماں اُسے نماز ، روزے سے لگانا چاہتی تھی۔ باپ نے ایک امریکی مشن اسکول میں داخل کرا دیا۔ باپ سخت گیر آدمی تھے۔ اپنے آگے کسی کی چلنے نہ دیتے۔ لہذا عمران بچپن ہی سے دُہری زندگی گذارنے کا عادی ہوتا گیا۔ باہر کچھ ہوتا تھا اور گھر میں کچھ ... مشن اسکول اور گھریلو تربیت کے تضاد نے اُسے بچپن ہی سے ذہنی کش مکش میں مبتلا کر دیا تھا۔ ہر چیز کا مضحکہ اُڑا دینے کی عادت پڑتی جا رہی تھی۔"</div></blockquote><br />کیا اِس قسم کا تضاد ہمارے گھروں میں نہیں؟ کیا آج نئی نسل ، دُہری زندگی گزارنے پر مجبور نہیں؟ اگر آپ ان کے چہروں کو پڑھیں گے تو کیا یہ نہیں کہیں گے کہ اس شہر میں ہر شخص عمران سا کیوں ہے؟<br /><br />تو ماہرِ نفسیات کے نزدیک خود عمران ایک کیس ہے اور وہی مجرمانہ کیس کی گتھیاں ایسے سلجھاتا ہے کہ مجرم اور پولیس دونوں حیران رہ جاتے ہیں۔ لیکن اس کا طریقۂ کار اتنا عجیب ہے کہ مروّجہ قانونی چوکھٹے میں نہیں سماتا۔ اسی لئے پولیس اُسے مجرم اور مجرم پولیس کا انفارمر سمجھتے ہیں اور سب اُس سے متنفر ہیں۔<br />اگر عمران بزم میں کیپٹن حمید سے زیادہ بذلہ سنج، پُرلطف اور کھلنڈرا ہے تو رزم میں فریدی سے بڑھ کر جیالا اور بہادر ہے۔<br />فریدی کا کردار اتنا سپاٹ اور خشک ہو گیا ہے کہ ہمیں جلد ہی حمید کی طرح راہِ فرار اختیار کرنی پڑتی ہے۔ اپنی تمام خوبیوں اور اعلیٰ صفات کے باوجود فریدی زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا اور مجبوراً ابنِ صفی نے حمید اور قاسم کو بے ساکھیاں بنا کر اس مافوق الفطرت کردار کو آگے بڑھنے پر مجبور کیا۔<br />اس کے برخلاف عمران کا کردار خاصا تہ دار اور پُرپیچ ہے ۔ خود اس کے چار روپ ہیں : عمران ، ایکس ٹو ، پرنس آف ڈھمپ اور رانا تہور علی ...<br />مختلف سطحوں پر مختلف کرداروں کے ساتھ ذہنی تصادم ، خاصا ہنگامہ اور دلچسپی پیدا کرتے ہیں۔ اپنے والد رحمٰن صاحب سے لے کر نوکر سلیمان تک ہر سطح اور ہر کردار کے ساتھ اپنی انفرادیت اور توانائی برقرار رکھتا ہے۔<br />یہ ابن صفی کے شگفتہ قلم کا نتیجہ ہے کہ ہر ناول میں عمران ہمارے سامنے نت نئے روپ میں آتا ہے۔<br />کبھی وہ پرانی کارمیں بیٹھ کر بھیک مانگ رہا ہے... (<span style="color:#3333ff;">دوسری آنکھ</span>)<br />کبھی پیکسی کے ساتھ سرکس میں مسخرا بن جاتا ہے . (<span style="color:#3333ff;">کالی تصویر</span> )<br />کبھی ایک معمر باریش بزرگ کو سائیکل چلانے پر اس لئے ٹوک رہا ہے کہ داڑھی کے بال ہلا کر سائیکل چلاتے شرم نہیں آتی ؟ (<span style="color:#3333ff;">گُمشدہ شہزادی</span>)<br />تو کبھی وہ اپاہج اور بیوی سے خوفزدہ شوہر بن کر رینا ڈکسن کے گھر پناہ لیتا ہے ۔ (<span style="color:#3333ff;">سبز لہو</span>)<br /><br />غرض ہر ناول میں عمران کی عجیب و غریب حرکات و افعال پر سب کو تعجب ہوتا ہے ۔ بعد میں پتا چلتا ہے کہ یہ تو ایک ڈھونگ تھا، مجرم تک رسائی پانے کے لئے ... تب ہم عمران کی ذہانت اور شجاعت کے قائل ہو جاتے ہیں۔ علامہ دہشتناک ، ظلمات کا دیوتا ، بے باکوں کی تلاش ، درندوں کی بستی ... سیریز میں عمران پورے شباب پر نظر آتا ہے ۔<br />ابن صفی نے علّامہ دہشت ناک کا کردار بڑی چابک دستی سے کھینچا ہے ۔ علامہ دہشتناک ، جو یونیورسٹی میں سوشیالوجی کا پروفیسر ہے اور اپنے دہشتناک خیالات کی بنا پر شاگردوں اور معتتقدوں میں مقبول ہے۔ صرف ذہین اور طاقتور انسان کو زندہ رہنے کا اہل سمجھتا ہے ۔ کمزوروں اور بُزدلوں کو کیڑے مکوڑے جانتا ہے۔ عمران اُس کی معتقد طالبہ شیلا دھنی رام کو کیسے رام کرتا ہے ؟ ملاحظہ ہو :<br /><blockquote><div style="BACKGROUND-COLOR: rgb(243,236,209)">"میں خواہ مخواہ اپنے ذہن کو تھکا دینے کا قائل نہیں ہوں ، جب جو کچھ ہوگا دیکھا جائے گا، اور میں تو اس کا عادی ہوں۔ میرے ملازم ہی مجھے صبح سے شام تک بے وقوف بناتے رہتے ہیں۔"<br />"اور آپ بنتے رہتے ہیں ؟"<br />"پھر کیا کروں ؟ عقل مندوں کی زندگی جہنم بن جاتی ہے ۔ جو کچھ بھی گزرے ، چُپ چاپ جھیلتے رہو ، مگن رہو ۔"<br />"آپ تو ایک بالکل ہی نئی بات سُنا رہے ہیں ..." شیلا نے اُسے گھورتے ہوئے کہا ۔ وہ سوچنے لگی کہ ذہین کہلانے کا اہل علامہ دہشت ہے یا یہ بیوقوف آدمی ؟<br />"جب سے آدمی کو اپنا ادراک ہوا ہے ، وہ اس کشمکش میں مبتلا ہے ۔ اُسے بیوقوف بننا چاہئے یا نہیں ۔ جو بیوقوف بننا پسند نہیں کرتے ، وہ زندگی بھر جلتے رہتے ہیں ۔"</div></blockquote><br />یہاں ابن صفی نے عمران کے ذریعے زندگی کا ایک حقیقی فلسفہ پیش کیا ہے۔ سیاسی برتری کے پردے میں دراصل ذہنی برتری کام کر رہی ہے۔ مختلف فلسفۂ حیات دراصل ذہین شخصیتوں کے ماحول سے بیزاری کا نتیجہ ہے ۔ جو جتنا ذہین ہوگا ، اُتنا ہی چالاک ہوگا اور کرۂ ارض پر فتنے کا سبب ہوگا ۔<br />۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔<br /><br /><br />اقتباس از تحریر : <span style="color:#666666;">رؤف خوشتر</span>باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-5257349512764447761.post-13628039038827451232009-06-28T01:41:00.005+03:002009-06-28T14:18:37.786+03:00ابن صفی : اگاتھا کرسٹی کا اظہارِ خیالسہیل اقبال لکھتے ہیں :<br />غالباً 1965ء کی بات ہے۔ میں ابن صفی کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ دو اصحاب کی آمد کی اطلاع ملی۔ انہوں نے ان حضرات کو بھی وہیں بلوا لیا جہاں ہم بیٹھے ہوئے تھے۔<br />یہ حضرات وصی اختر شوق اور روزنامہ "حریت" کے اے۔آر۔ممتاز تھے۔ شوق صاحب ریڈیو کے جشن تمثیل کے لیے ابن صفی سے ایک ڈرامہ لکھوانا چاہتے تھے۔<br /><br />بات جاسوسی لٹریچر کی چھڑ گئی اور ابن صفی کے نقالوں تک جا پہنچی۔ اس پر شوق صاحب نے بتایا کہ :<br /><blockquote><div style="BACKGROUND-COLOR: rgb(243,236,209)">پچھلے دنوں مغرب کی نامور جاسوسی مصنفہ " <a href="http://en.wikipedia.org/wiki/Agatha_Christie">اگاتھا کرسٹی - Agatha Christie</a> " کہیں جاتی ہوئی کراچی ایرپورٹ سے گزری تھیں۔ کچھ لوگوں کو پہلے سے علم تھا کہ وہ کچھ دیر وی۔آئی۔پی لاؤنج میں قیام کریں گی۔ وہ لوگ ان سے ملنے گئے۔<br />کسی نے دورانِ گفتگو پاکستانی جاسوسی لٹریچر کا ذکر کیا تو اگاتھا کرسٹی مسکرائیں اور بولیں :<br /><br />"مجھے اردو نہیں آتی لیکن برصغیر کے جاسوسی لٹریچر سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتی ہوں۔ صرف ایک اوریجنل رائیٹر "ابن صفی" ہے اور سب اس کے نقال ہیں۔ کسی نے بھی اس سے ہٹ کر کوئی نئی راہ نہیں نکالی۔"<br /></div></blockquote>باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5257349512764447761.post-85764826784964921952009-06-28T01:22:00.001+03:002009-06-28T01:24:06.886+03:00پیش رس :: رات کا شہزادہاس بار خطوط کی تعداد بھی پہلے سے زیادہ ہے۔ مشورے ، تنقید اور تنقیص ، یکساں انداز کی باتیں۔ لہذا ان کے بارے میں کیا لکھوں۔<br />البتہ ایک صاحب نے کراچی سے مجھے للکارا ہے کہ میں خوابِ غفلت میں پڑا ہوا ہوں۔ قوم کو سدھارنے کی کوشش کروں۔<br /><br />آپ کا فرمانا بجا کہ میرے ہاتھ میں قلم ہے۔ لیکن قوم اس قلم سے صرف کہانیوں کا نزول چاہتی ہے۔ اگر کبھی ایک آدھ جملہ کسی مثال کے طور پر بھی قلم سے رپٹ گیا تو قوم جھپٹ پڑتی ہے :<br />" آخر آپ کو سیاست میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ "<br />اور میں ہکا بکا رہ جاتا ہوں کہ قوم کو کیا جواب دوں۔ کیونکہ جواب دینے کے سلسلے میں ایک ضخیم کتاب لکھنی پڑ جائے گی۔<br />پہلے تو قوم کو یہ بتانا پڑے گا کہ سیاست ہے کیا چیز ، پھر عرض کرنا پڑے گا کہ میرے اس حقیر جملے کو اس کسوٹی پر پرکھئے۔ اگر اس میں ذرہ برابر بھی سیاست پائی جاتی ہو تو جو لیڈر کی سزا وہ میری سزا ۔۔۔۔<br /><br />اور پھر بھائی اگر ملک میں سیاستدانوں کی کمی پائی جاتی ہو تو تھوڑا بہت کشٹ بھی اٹھا لیا جائے۔ مجھے تو بس کہانیاں لکھنے دیجئے۔ میری لیڈری آپ بھی تسلیم نہیں کریں گے۔ پھر خواہ مخواہ قوم کا وقت برباد کرنے سے کیا فائدہ۔<br />قوم کے لئے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتا کہ دعا کروں۔<br />"اے اللہ ! اس قوم کو ایک آزاد اور منفرد قوم کی حیثیت سے ہمیشہ قائم رکھیو۔"<br /><br />آخر میں ان صاحب نے پوچھا ہے کہ :<br />"لیڈر کی صحیح تعریف کیا ہے؟"<br />بڑا بےڈھب سوال کیا ہے آپ نے۔ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔ البتہ اکبر الہ آبادی نے اپنے زمانے کے لیڈر کی تعریف یوں کی ہے :<br /><br /><span style="color: rgb(51, 51, 255);">یوسف کو نہ دیکھا کہ حسیں بھی ہے جواں بھی</span><br /><span style="color: rgb(51, 51, 255);">شاید نرے لیڈر تھے زلیخا کے میاں بھی</span>باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5257349512764447761.post-64205752535442860512009-06-26T00:39:00.004+03:002009-06-26T00:43:30.595+03:00ستارہ جو غروب ہو گیا<div style="text-align: center;"><span style="color: rgb(255, 0, 0);">ستارہ جو غروب ہو گیا</span><br /><span style="color: rgb(255, 0, 0);">۔ ۔ ۔ روشنی جو باقی رہے گی</span><br />۔۔۔ پروفیسر <span style="color: rgb(51, 51, 255);">مجاور حسین رضوی</span><br /></div><br />ایک اک کر کے ستاروں کی طرح ٹوٹ گئے<br />ہائے کیا لوگ مرے حلقہ ء احباب میں تھے<br /><br />ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ماہ وسال کی گردشیں تھم گئی ہیں ۔ ماضی نے اپنے چہرے سے نقاب الٹ دی ہے اور یادوں کا کارواں آج سے ٹھیک 33 سال پہلے اگسٹ 1947ء پر آ کر ٹھہر گیا ہے۔<br />الہ آباد یونیورسٹی کے بی اے سال اول کے درجہ میں ڈاکٹر حفیظ سید اردو پڑھا رہے تھے۔ میں اگلی نشستوں پر بیٹھا ہوا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ میں چھڑی تھی۔ اس پر بائیں ہاتھ کو سہارا دئیے ہوئے وہ ٹھہر ٹھہر کر بولتے تھے۔ ان کے سر پر چاروں طرف حاشیہ کی طرح بالوں کے گچھے رہتے تھے۔ درمیانی حصہ بالکل صاف تھا۔ پیچھے گردن پر بال بے ترتیبی سے پڑے رہتے تھے جوش تقریر میں کبھی کبھی چھڑی اٹھا کر ہوا میں لہراتے تھے ۔<br />اچانک مرے پاس بیٹھے ہوئے ایک طالب علم نے ٹھوکر دے کر کہا:<br />’’ذرا دیکھئے۔ ہمارے ’سر‘ کے پیچھے داڑھی ہے‘‘<br />جملہ اتنے زور سے کہا گیا تھا کہ میں تو چونکا ہی، کلاس میں بھی قہقہے گونجنے لگے۔<br /><br />ڈاکٹر صاحب نے جب باز پرس کی تو بڑی معصومیت سے اس طالب علم نے کہا۔ ’’میں نے اپنے لئے یہ بات کہی تھی‘‘ ۔<br />بعد میں معلوم ہوا کہ ان صاحب کا نام اسرار احمد ہے اور میرے محلے ہی میں رہتے ہیں ۔ اس روز کے بعد سے نسبتاً بے تکلفی بڑھی۔ بہت خوش گلو تھے اس لئے اکثر احباب کی محفل میں ان سے جذبی، مجاز اور اقبال کی غزلیں ترنم سے سنی جایا کرتی تھیں ۔ جنوری 48ء میں گاندھی جی کا حادثہ ہوا۔<br />میں اس زمانے میں الہ آباد کے ایک سہ روزہ اخبار ’’نیا دور‘‘ میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ اس کا ’’گاندھی نمبر‘‘ نکلنا تھا۔ صبح صبح دفتر جا رہا تھا۔ اسرار صاحب نے راستے میں مل کر ایک نظم دی اور بغیر پڑھے ہوئے میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اسے شائع نہیں کرنا ہے۔ اسے ردی کی ٹوکری میں ڈالنے سے پہلے یوں ہی سرسری طور پر نظر ڈالی تو ٹھٹھک کر رہ گیا۔ نظم کتابت کے لئے دے دی۔ لیکن شام کو ان سے بڑی سنجیدگی سے کہا۔ ’’اسرار صاحب وہ نظم اشاعت کے لئے دے دی گئی۔‘‘<br />کہنے لگے ’’شکریہ‘‘ ۔<br />میں نے کہا ’’سمجھ لیجئے جس کی نظم ہوگی وہ مجھے اور آپ کو قبر تک نہ چھوڑے گا‘‘<br />بولے ’’کیا مطلب ۔ ؟ ‘‘ تیوریاں چڑھ گئیں ۔<br />میں نے کہا ’’مطلب یہ کہ کیا وہ آپ ہی کی ہے؟‘‘<br />بولے ’’پھر کس کی ہے؟‘‘<br />میں نے کہا ’’چرائی ہے‘‘<br />بولے ’’ ثابت کر دیجئے تو پانچ روپیے حاضر کروں گا۔‘‘<br />میں نے ایک شعر سناکر کہا ’’یہ تو آپ کا نہیں ہے۔ یہ تو جوش یا فراق کا معلوم ہوتا ہے‘‘۔<br />بولے ’’دکھا دیجئے۔ شاعری ترک کر دوں گا‘‘۔<br />وہ شعر یہ تھا۔<br />لویں اداس، چراغوں پہ سوگ طاری ہے<br />یہ رات آج کی انسانیت پہ بھاری ہے<br /><br />مگر میں جوش یا فراق یا کسی اور کے دیوان میں یہ شعر کہاں سے دکھاتا۔ اب ان کی حیثیت ہمارے حلقے میں اک شاعر کی تھی، ایسا شاعر جو فراق، سلام مچھلی شہری اور وامق جونپوری کے سامنے بیٹھ کر نظمیں سناتا تھا اور لوگ حیرت زدہ رہ جاتے تھے۔ اس زمانے میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ سولہ برس کے تھے تو 42ء میں ایک نظم لکھی تھی ۔<br />للہ نہ روکو جانے دو ۔<br />مجھے یہ نظم زبانی یاد تھی مگر سمجھتا تھا کہ شمیم کرہانی کی ہے۔<br />وہ نظم بھی اشاعت کے لئے دے دی گئی۔ مگر کسی نے بھی دعویٰ نہ کیا اور اسرار صاحب ہی اس نظم کے خالق قرار پائے۔ مزے کی بات یہ تھی کہ وہ ایسے موضوعات منتخب کرتے تھے جن پر کسی نے قلم نہیں اٹھایا تھا۔<br />’مرگھٹ کا پیپل‘ ،<br />’بانسری کی آواز‘ ،<br />’سنگتراش نے کہا ‘،<br />’خوف کا میخانہ‘<br />وغیرہ۔<br />اس زمانے کے دو تین شعر یاد آ گئے۔<br /><br />دکھائی دی تھی جہاں پر گناہ کی منزل<br />وہیں ہوئی تھی دل ناصبور کی تکمیل<br /><br />بس اتنا یاد ہے اسرار وقت مئے نوشی<br />کسی کی یاد بھی آئی تھی دل کو سمجھانے<br /><br />جو کہہ سکے وہی ٹھیرا ہمارا فن اسرار<br />جو کہہ نہ پائے نہ جانے وہ چیز کیا ہوتی<br /><br />شاعر کی حیثیت سے تیغ الہ آبادی (مصطفےٰ زیدی ) اور راہی معصوم رضا دونوں ہی ان کے معترف تھے۔<br />اسی زمانے میں ماہنامہ ’نکہت‘ کا آغاز ہوا تھا۔ صبح سے شام تک بڑی دلچسپ صحبتیں رہتی تھیں ۔ جس میں حسین حیدر صاحب مرحوم کی حیثیت صدر نشین کی ہوا کرتی تھی۔ حالانکہ وہ ہم سب کے بزرگ تھے اور برادر محترم عباس حسینی صاحب کے والد۔ مگر ہم سب لوگوں کے ادبی مشاغل میں بڑے انہماک و دلچسپی سے شامل ہوتے تھے۔<br />اسرار صاحب نے ’ٹماٹر ازم‘ کے عنوان سے ایک طنزیہ سنایا۔ بہت پسند کیا گیا اور ’’طغرل فرغان‘‘ نام تجویز ہوا۔<br />پھر نکہت میں وہ ’طغرل فرغان‘ اور ’’عقرب بہارستانی‘‘ کے نام سے طنزیہ مضامین بھی لکھنے لگے۔<br />الہ آباد سے ایک روزنامہ ’نوائے ہند‘ نکلتا تھا۔ اس میں بھی ’’طغرل فرغان‘‘ کے نام سے مزاحیہ کالم لکھا کرتے تھے۔ طنز و مزاح لکھنے والوں میں ابراہیم جلیس کے بہت مداح تھے اور شفیق الرحمان کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔<br />کہتے تھے ’’لیکاک کی مسلّم فنٹیسی پر ہاتھ صاف کر دیتا ہے۔‘‘<br />اب شاعری پس پشت چلی گئی۔ اسرار احمد جو نارہ ضلع الہ آباد کے رہنے والے تھے اور اس لحاظ سے اپنے کو اسرار ناروی لکھا کرتے تھے، طغرل فرغان ہو گئے۔<br />’نکہت‘ اور ’نوائے ہند‘ کو ملا کر سو کے لگ بھگ طنزیہ مضامین لکھے 51ء تک یہی کیفیت رہی۔<br />ایک روز انہوں نے ایک کہانی سنائی جسے سن کر بہت غصہ آیا اس لئے کہ وہ بہت فحش تھی۔ سناتے جاتے تھے اور غصہ بڑھتا جاتا تھا۔ لیکن کہانی کے اختتام نے منھ پیٹنے پر مجبور کر دیا۔ اس لئے کہ کہانی کا مرکزی کردار جسے ہم سب عورت سمجھ رہے تھے وہ ایک پالتو بلی ثابت ہوئی۔<br />ذہن میں ایک خیال آیا اور سکسٹن بلیک کی طرز پر اردو میں ایک جاسوسی ماہنامے کا منصوبہ تیار ہونے لگا۔ اس منصوبہ بندی میں بھیا (عباس حسینی)، جمال صاحب (شکیل جمالی) راہی (معصوم رضا) اور حسن حیدر صاحب بھی شامل تھے۔ ان کا خیال تھا کہ راہی بہت اچھی جاسوسی کہانیاں لکھ سکتے ہیں ۔ اس لئے کہ ہم لوگوں کے مقابلے میں وہ گارڈنر، پیٹر شینے، ایڈگرویلس، اگاتھا کر سٹی وغیرہ کو بہت زیادہ پڑھا کرتے تھے۔ بڑی برق رفتاری کے ساتھ پڑھتے تھے اور لکھتے بھی تھے۔ لیکن راہی کو نظر انداز کر کے میں نے وکٹر گن کا ایک ناول منتخب کیا کہ اسی کو بنیاد بناکر ایک کہانی لکھی جائے۔<br />یہ کام اسرار احمد کے سپرد ہوا۔<br />انہوں نے ایک ہفتہ میں ناول مکمل کرکے حوالے کردیا اور اسے پڑھنے کے بعد راہی نے بھی جاسوسی ناول لکھنے کا خیال ترک کردیا۔<br />جنوری 53ء میں ناول نگار کا نام ابن صفی منتخب ہوا کہ اسرار صاحب کے والد کا نام صفی اللہ تھا اور اسی مہینہ میں جاسوسی دنیا کے پہلے شمارہ کی حیثیت سے یہ ناول شائع ہوا۔<br />اس ناول کا نام تھا۔ ’’دلیر مجرم‘‘-<br />جس میں پہلی بار انسپکٹر فریدی اور سرجنٹ حمید روشناس کرائے گئے تھے۔<br />ایک ناول اور جو ’’پہاڑوں کی ملکہ‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا، رائیڈر ہیگرڈ کے ناول ’’کنگ سالون مانےئر‘‘ سے مستعار تھا۔<br />اس کے علاوہ انہوں نے تقریباً ڈھائی سو ناول لکھے۔ جو ان کے طبع زاو ناول تھے۔<br />ان ناولوں کی مقبولیت کے بارے میں کچھ لکھنا عبث ہے۔ صرف اتنا ہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ ان کی فروخت اردو اور ہندی کے کسی ناول نگار کے ناولوں کے مقابلے میں بلاخوف تردید سب سے زیادہ تھی اور اس کا راز ان کا منفرد طرز تحریر تھا۔<br />تجسس اور پراسرار واقعات سے بھرپور کہانیوں میں طنز کی شگفتگی اور مزاح کی چاشنی ایک سحرکارانہ کیفیت پیدا کردیتی تھی۔ کسی بھی زبان میں لکھے گئے جاسوسی ناول پڑھئیے، یہ انداز تحریر نہیں ملے گا اور پھر ان سب پر مستزاد ایک باوزن باوقار دلکش زبان، واقعات میں نصیحت کا کہیں شائبہ نہیں ۔ نہ جانے کتنے لوگوں نے ان کے ناولوں کے ذریعہ اردو سیکھی، اردو پڑھنے کا ذوق حاصل کیا۔<br />ہندی میں ان کے ناولوں کا ترجمہ شائع ہوتا تھا۔ ابھی تقریباً ستر پچھتر ناول ایسے ہیں جو ہندی میں شائع نہیں ہوئے۔<br />وہ ہندی میں بھی اتنے ہی مقبول تھے جتنے اردو میں ،البتہ ہندی میں ان کے دو کرداروں کے صرف نام بدلے ہوئے تھے۔ یعنی فریدی کی جگہ ونود اور عمران کی جگہ راجیش۔<br />حمید اور قاسم اپنے اصلی ناموں کے ساتھ ہی ہندی میں بھی ملتے ہیں ۔ یوں تو طلسم ہو شربا کی طرح انہوں نے بے شمار کردار خلق کئے اور وہ سب اپنے محدود دائرے میں ذہن پر دیر پا اثرات چھوڑتے ہیں ۔<br />لیکن حمید ان کا ایسا شاہکار کردار ہے جو فسانہ آزاد کے خوجی اور طلسم ہوشربا کے عمر عیار کی طرح ادب میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔<br />یہ درست نہیں کہ ادبی حلقوں نے انہیں نظرانداز کیا۔<br />اردو میں آزادی کے بعد لکھے جانے والے ناولوں کے دور پر بہت کم لکھا گیا ہے پھر بھی ڈاکٹر اعجاز حسین نے ’’اردو ادب آزادی کے بعد‘‘ اور ڈاکٹر علی حیدر نے ’’اردو ناول سمت و رفتار‘‘ میں ان کا ذکر کیا ہے۔<br />پاکستان سے بیشتر نکلنے والے ناول نمبر یا ناولوں کے جائزے ان کے تذکرے سے خالی نہیں ہیں ۔<br />ان کی ادبی حیثیت اپنے منفرد اسلوب اور اپنی کردار نگاری کی بناء پر مسلم ہے ۔<br />اگر انگریزی ادب کانن ڈائل اور اگا تھا کرسٹی کو ادب عالیہ کی کرسی عطا کرسکتا ہے تو اردو میں یہ جگہ صرف ابن صفی کے لئے مخصوص ہے۔<br />یوں تو ان کا ہر ناول بہت مشہور ہوا لیکن ان میں کچھ ایسے ہیں جو ہر جہت سے اس طرز کے بہت اچھے ناولوں کی صف میں عالمی ادب میں جگہ پانے کے مستحق ہیں ۔<br />ان میں ۔۔۔۔۔۔<br />دشمنوں کا شہر، لاشوں کا آبشار، خوفناک ہنگامہ، شعلوں کا تاچ، پتھر کی چیخ، سائے کی لاش وغیرہ<br />بہت اہم اوراچھے موضوعاتی ناول ہیں ۔<br />یہ درست ہے کہ ان کے یہاں واقعات کی رفتار پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ پورے منظر، پس منظر و پیش منظر کی تصویرکشی پر نہیں ۔ لیکن ان کا شاعرانہ مزاج ان کا طنزسے بھرا ہوا نکیلا قلم کہیں کہیں عصری حسیت کو بھی اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔ ان پر بہت کچھ لکھنے کی گنجائش ہے اور اگر موقع ملا تو ادارہ جاسوسی دنیا کی طرف سے شائع ہونے والے ابن صفی نمبر میں ان پر تفصیل سے لکھنے کی کوشش کی جائے گی۔<br /><br />اسرار صاحب نارہ کے رہنے والے تھے اور کائستھ نژاد مسلم تھے اور بڑے فخر سے کہا کرتے تھے کہ تم لوگ اتفاقی مسلمان ہو۔ ہم لوگ اختیاری مسلمان ہیں ۔ ہمارے آباد اجداد نے سوچ سمجھ کر اسلام قبول کیا۔ ان کی والدہ دیوبندی عقائد رکھتی تھیں اور والد بریلوی مسلک کے ماننے والے تھے اور ان کے حلقۂ احباب میں زیادہ تر اثنائے عشری۔<br />لیکن وہ بذات خود صرف مسلمان تھے۔<br />اور ان کی یہ خصوصیت ایسی تھی جس کی بناء پر ہر شخص بلالحاظ عقیدہ ان کی عزت کرنے پر مجبور تھا۔ محلے میں ان کی حیثیت ’’امین‘‘ کی تھی ۔ لوگ اپنی امانتیں رکھاتے تھے اور پھر لے جاتے تھے۔<br />ایک بار ایک صاحب نے ایک چھوٹا سا صندوقچہ رکھا۔ میرے سامنے ہی واپس لینے آئے۔ اس پر گرد جمی ہوئی تھی۔اسی عالم میں ان کا صندوقچہ انہیں واپس ملا۔<br />میں نے کہا ’’گرد تو صاف کردی ہوتی‘‘<br />بولے ’’غور ہی نہیں کیا۔ اور پھر ایک ذرہ بھی اگر کم ہو تو وہ امانت میں خیانت ہے‘‘۔<br /><br />الہ آباد میں وہ مجیدیہ اسلامیہ کالج اور یادگار حسینی ہائر سکنڈری اسکول (جو اب کالج ہے) میں مدرس تھے اور بہت کامیاب۔ ان کے شاگردوں میں اجمل اجملی بہت مشہور ہوئے۔ الہ آباد میں پانچ سال ان کا ساتھ رہا۔ ان کے والد صاحب پاکستان ہی میں تقسیم سے قبل سے ملازم تھے۔<br />اسرار اگسٹ 52ء میں اپنی والدہ اور اپنی ہمشیرہ کے ہمراہ کراچی چلے گئے۔ الہ آباد کے دوران قیام ہی ایک شادی ہوئی لیکن سال بھر بعد ہی ان کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا۔ ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔<br />52ء سے 60ء تک ہم لوگ ایک دوسرے سے دور رہے۔ صرف خط و کتابت ہی کا سہارا تھا۔ ہر ہفتہ انتہائی پابندی سے خط موصول ہوتا تھا۔ خط اتنے دلچسپ ہوا کرتے تھے کہ پڑھنے میں ناول کا مزہ آتا تھا۔<br />میں 60ء میں پاکستان گیا۔ میرے سامنے ہی وہ بیمار ہوئے اور یہ سلسلہ 63ء تک چلا۔ 61ء میں پھر میں پاکستان گیا اور ان سے ملا تھا۔ پچھلے 19 سال سے انہیں نہیں دیکھا۔<br />مگر ایک لمحہ کے لئے بھی یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ ہم دونوں کے درمیان کوئی فاصلہ ہے۔ وہ وسیع حلقہ احباب کے قائل نہ تھے اور بے تکلفی کی حد تک بھیا ،جمال صاحب، راقم الحروف اور راہی کے علاوہ کوئی بھی ان کا ’’یار‘‘ نہ تھا۔<br />عام لوگوں کی نظر میں وہ بہت خاموش آدمی تھے۔ بلاضرورت بات نہیں کرتے تھے اور دیکھنے والا بڑا معمولی تاثر لے کر اٹھتا تھا۔ ان کی شخصیت ملنے والے کو کشمکش میں مبتلا کردیتی تھی۔ سانولا رنگ، کشادہ پیشانی، روشن چمکتی ہوئی آنکھیں ،ابھرے ہوئے ہونٹ، بیضاوی چہرہ، لیکن وہ اپنے کردار عمران کی طرح اپنے چہرے پر حماقت طاری کرلیا کرتے تھے اور جب ملنے والا چلا جایا کرتا تھا تو یہ سوچ کر مزہ لیا کرتے تھے کہ ان کے بارے میں کیا رائے قائم کی ہو گی۔<br />لیکن اپنے بے تکلف احباب کے لئے وہ زندگی کا ایک ناگزیر جزو بن کر رہ گئے تھے۔<br />24 گھنٹوں میں بلامبالغہ 12 گھنٹے ساتھ ہی گذرتے تھے۔ میرے پاس نومبر79ء تک ان کے خطوط آتے رہے ۔<br />ان کی علالت کی خبر سن کر بھیا نے اپنے چھوٹے بھائی جمال صاحب کو کراچی ان کی عیادت کے لئے بھیجا تھا۔ اس لئے کہ وہ خود ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق لمبا سفر نہیں کرسکتے تھے۔ اپریل میں جمال صاحب ان کے ہاں ایک مہینہ رہ کر واپس ہوئے اور اسرار صاحب کے ساتھ گذارے ہوئے خوشگوار دنوں کی کہانی مئی جون تک میں روزآنہ ان سے سنتا رہا، تصویریں دیکھتا رہا۔ اس خبر سے بڑا اطمینان ہوا کہ وہ اب روبہ صحت ہیں ۔ میرا پورا خاندان پاکستان میں ہے۔ ان لوگوں نے جولائی میں مجھے یہ اطلاع دی کہ اسرار بھائی اب پھر ناول لکھ رہے ہیں ۔ مگر انہیں اب بھی خون چڑھایا جاتا ہے۔ میں نے بہت سخت خط لکھا ۔اس لئے کہ اتنے عرصے سے خون کا چڑھایا جانا کوئی اچھی علامت نہ تھی اور اس پر سے کام کا جاری رہنا۔ میرے خط کا جواب نہیں آیا۔<br />پہلی اگسٹ کو ایک شاگرد نے بتایا کہ اخبار میں ابن صفی کے انتقال کی خبر چھپی ہے۔<br />الہ آباد اور کراچی سے تصدیق کرائی۔<br />دل چاہتا تھا کہ خبر غلط ہو۔ مگر دل دھڑکتا بھی تھا۔<br />چھ تاریخ کو دونوں جگہ سے خبر کی تصدیق ہوگئی۔<br />25۔ جولائی کو انتقال ہوا۔ 26۔ کو دفن کئے گئے۔<br />مرنے سے دو روز پہلے مجھے خط لکھا تھا۔ کیا لکھا ہوگا۔ خدا جانے۔ مجھے آج تک وہ خط نہیں ملا۔<br /><br />1960ء میں جب وہ پہلی بار بیمار پڑے تھے تو ڈاکٹروں کی دوا سے کوئی فائدہ نہ ہوا تھا۔ حکیم اقبال حسین کے علاج سے صحت یاب ہوئے۔ عارضہ جگر کی خرابی کا تھا۔ پھر 16 سال بعد بیمار ہوئے ، وہی دیرینہ بیماری اور کچھ برس پہلے ماں کی موت کا صدمہ، اپنی طرف سے لاپرواہی ، سارے زمانے کی فکر۔ حکیم اقبال حسین بھی نہیں تھے جو مرض کو سمجھ سکتے۔ اب معلوم ہوا کہ بلڈ کینسر تھا۔<br /><br />کراچی پہونچ کر ایک شادی کی جن سے 4 لڑکے اور 4 لڑکیاں ہیں ۔ پھر عقدثانی بھی کیا لیکن ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ بڑی لڑکی کی شادی ہوچکی ہے۔ ایک لڑکا اٹلی میں زیرتعلیم تھا۔ یقینا اس وقت جب انہوں نے آخری بار اس دنیا پرنظر ڈالی ہوگی تو یہ سب رہے ہوں گے۔<br />مجھے یقین ہے کہ ان کی نگاہوں نے بھیا، ننھے، مجن کو ضرور تلاش کیا ہوگا اور آج ان تینوں کی آنکھیں ہمیشہ کے لئے نمناک ہوچکی ہیں ۔ ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرتا جب وہ قہقہہ لگاتا ہوا، سرگوشیاں کرتا ہو، نظمیں سناتا ہوا، کہانیاں لکھتا ہوا، نظروں کے سامنے بیٹھا ہوا دکھائی نہ دیتا ہو۔ میں 17۔اگسٹ سے تادم تحریر بیمار رہا لیکن بیمار نہ بھی ہوتا تو شائد اس پر کچھ لکھ نہ پاتا۔<br /><br />ایسا لگتا ہے جیسے وہ اس دنیا سے نہیں گیا، ہم سب کے قلم بھی ساتھ لیتا گیا، ہونٹوں پر بکھیرنے والی مسکراہٹ بھی لیتا گیا اور پلکوں پر لرزنے والا ستارہ دے گیا۔<br /><br />***<br />بشکریہ : <a href="http://samt.herokugarden.com/samt13/view/35">سمت (جلد:13)</a>باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-5257349512764447761.post-19211226026073353262009-06-26T00:29:00.002+03:002009-06-26T00:34:45.181+03:00ایک نظم : التجا<div style="text-align: center;"><span style="color: rgb(255, 0, 0);">التجا</span><br />بحضور سرورِ کائینات (صلی اللہ علیہ وسلم)<br /></div><br />میرے آقا ! میں کس منہ سے در پر ترے حاضری دوں<br />میرے ماتھے پہ اب تک نشانِ عبادت نہیں<br />ایک بھی نیک عادت نہیں<br />میری جھولی گناہوں سے پُر ہے<br />میرے ہاتھوں کی آلودگی باعثِ شرم و غیرت بنی<br />میرے آقا ! میں کس منہ سے در پر ترے حاضری دوں؟<br />پھر بھی آقا مرے ! پھر بھی مولا مرے !<br />تیرے در کے سوا اور جاؤں کہاں<br />ہو اجازت مجھے حاضری کی عطا<br />میرے آقا ! میں نادم ہوں اپنی بد عادات پرباذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5257349512764447761.post-61301934023239146922009-06-26T00:15:00.001+03:002009-06-26T00:17:29.879+03:00ابن صفی کا مذہبی نظریہ<span style="color: rgb(255, 0, 0);">سوال :</span><br />آپ کس ازم کے قائل ہیں ؟<br /><span style="color: rgb(51, 51, 255);">جواب :</span><br />قریب قریب سارے ہی ماڈرن ازم میرے مطالعے میں آ چکے ہیں لیکن میں قائل کسی کا بھی نہیں۔<br />میں تو اللہ کی ڈکٹیٹرشپ کا قائل ہوں۔ اس میں اس کی گنجائش نہیں ہوتی کہ جب جتنے پیگ کا نشہ ہو ویسا ہی بیان داغ دیا۔<br />آپ بھی کسی ازم وزم کے بجائے اسلام کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ اسلام کے سوا سارے ازم محض وقتی حالات کی پیداوار ہیں۔ اور کسی ایک ازم کی کوئی دشواری کسی زمانے میں دوسرے ازم کی پیدائش کا باعث بنتی ہے۔ جبکہ اسلامی نظام آج بھی قابل عمل ہے۔<br /><br /><span style="color: rgb(255, 0, 0);">سوال :</span><br />لیکن دیکھئے نا ! اب دوبارہ نہ تو ڈاڑھیاں رکھی جا سکتی ہیں ، نہ بیل باٹم چھوڑا جا سکتا ہے۔ پھر وہ خواتین جو اپنا پردہ مَردوں کی عقل پر ڈال چکی ہیں دوبارہ اس کو کیسے اپنائیں گی؟<br /><span style="color: rgb(51, 51, 255);">جواب :</span><br />صاحب ! کیا رکھا ہے ان باتوں میں۔ آپ کا ظاہر کچھ بھی ہو، لیکن دل مسلمان ہونا چاہئے۔ کچھ نیکیاں سچے دل سے اپنا کر دیکھئے۔ آہستہ آہستہ آپ خود کسی جبر و کراہ لے بغیر اپنا ظاہر بھی اللہ کے احکامات کے مطابق بنا لیں گے۔<br />بس جیسے ہی آپ انفرادی طور پر اللہ کے احکامات کے آگے جھکے یہ سمجھ لیجئے کہ ایک ایسا یونٹ بن گیا ، جس پر اللہ کی ڈکٹیٹرشپ قائم ہے۔ انفرادی طور پر اپنی حالت سدھارتے چلے جائیے ، پھر دیکھئے کتنی جلدی ایک ایسا معاشرہ بن جاتا ہے جس پر اللہ کی حاکمیت ہو۔<br />قرآن کو پڑھئے ، اس پر عمل کیجئے ، اسے علم الکلام کا اکھاڑہ نہ بنائیے۔باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5257349512764447761.post-3541823470912415682009-06-21T22:20:00.001+03:002009-06-21T22:21:34.527+03:00نقلی فریدی سیریزاگر آپ نے ایچ۔اقبال یا این صفی کی جاسوسی دنیا پڑھی ہے تو ان لوگوں کی تخلیق کردہ کرنل فریدی سیریز کا اندازِ تحریر آپ کے لیے نیا نہیں ہوگا۔ لیجئے ایسا ہی ایک نمونہ یہاں ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔<br /><br />******<br /><br />سرخ رنگ کی اس عمارت کے باہر بہت زیادہ رش تھا۔ کاریں پارک کرنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ باہر پولیس کی ایک لاری اور بہت سی پولیس کاریں نظر آ رہی تھیں۔ اندر کوٹھی کے ایک کمرے میں ڈی۔آئی۔جی اور آئی۔جی سر پکڑ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ کمرے کے فرش کے عین سنٹر میں دو لاشیں پڑی تھیں ، ایک کا سر غائب تھا اور دوسرے کے پاؤں۔<br />"میری سمجھ میں نہیں آتا ، آخر سر کہاں گیا؟" ڈی۔آئی۔جی نے کہا۔<br />"آپ کو سر کی پڑی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ پاؤں کاٹ کر کسی کو کیا ملا؟"<br />"کون سر لے گیا؟"<br />"خاموش رہئے۔ پاؤں کی تلاش زیادہ ضروری ہے۔"<br />"سر سر سر ۔۔۔۔"<br />"سر کے بچے ، میں تمہارا سر توڑ دوں گا"<br /><br />قریب تھا کہ دونوں پولیس آفیسر ایک دوسرے پر پل پڑتے کہ باہر سے فائر کی آواز آئی اور کھڑکی کا شیشہ چھن سے ٹوٹ کر گرا۔<br />ایک نقاب پوش جو چھپ کر ڈی۔آئی۔جی اور آئی۔جی کی باتیں سن رہا تھا، کرسی کے پیچھے سے اچھل کر بھاگا۔ اس کے پیچھے ایک اور نقاب پوش تھا۔ اس نے پہلے نقاب پوش کو ٹانگ پکڑ کر گھسیٹ لیا۔ دونوں ایک دوسرے سے گتھے ہوئے زمین پر آ گرے ، دیکھنے والوں نے محسوس کیا کہ پہلے نقاب پوش کی گرفت ڈھیلی ہوئی جا رہی ہے ، دوسرے نے اس کا سر زمین پر مار کر اسے بےہوش کر دیا اور اس کے چہرے سے نقاب اُتر گئی۔<br />آئی۔جی کے حلق سے تحیر آمیز آواز نکلی : "ارے ، یہ تو پارٹی کا ایک لیڈر ہے!"<br />"جی ہاں۔ دوسرے نقاب پوش نے اپنے چہرے سے نقاب اُتارتے ہوئے کہا ، وہ فریدی تھا۔<br /><br />"لیکن یہ سر اور پاؤں غائب ہونے میں کیا راز ہے؟" آئی۔جی نے پوچھا۔<br />"آپ نے وہ نظم نہیں سنی؟<br />ایک تھا تیتر ، ایک بٹیر<br />لڑنے میں تھے دونوں شیر<br />لڑتے لڑتے ہو گئے گم<br />ایک کی چونچ اور ایک کی دُم!<br />یہ دو لاشیں اس نظم کی تکمیل ہیں !"<br />"لیکن کسی کو کیا پڑی تھی یہ کرنے کی؟"<br />"یہ ایک بہت بڑا راز ہے ، جس پر سے ان شاءاللہ پھر کبھی پردہ اٹھاؤں گا۔"<br />یہ کہہ کر کرنل فریدی کمرے سے ہوا کے دوش پر اُڑتا ہوا نکل گیا۔باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5257349512764447761.post-36784246560247158482009-06-21T22:17:00.001+03:002009-06-21T22:18:57.832+03:00نقلی عمران سیریزاردو کے مشہور ، مقبول و معروف جاسوسی ادیب ابن صفی جہاں فانی سے کوچ کر چکے ہیں۔<br />یوں تو ان کی زندگی میں ہی ان کی تحریروں کے بہت سے نقال پیدا ہو گئے تھے۔<br />لیکن اب بعد وفات چونکہ یہ خلا پُر کرنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے لہذا ظاہر ہے نقال حضرات کی کوششیں خاصا زور پکڑ گئی ہیں۔<br /><br />ذیل میں ہم اس تحریر کا ایک نمونہ پیش کر رہے ہیں جو اب عمران سیریز کے نام پر پڑھنے کو ملیں گی۔<br />اگر مستقبل کے مصنف کو عمران کی شادی رچانے کا اچھوتا خیال سوجھ گیا عمران سیریز کا مستقبل وہ ہوگا جو ذیل میں بیان کیا جا رہا ہے۔<br /><br />۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br />عمران نے اپنی منی بس چورنگی کے فٹ پاتھ کے ساتھ پارک کر دی اور ادھر ادھر دیکھ کر بڑی احتیاط سے دکان میں داخل ہو گیا۔ اس کی آنکھوں پہ تاریک شیشوں کی عینک تھی اور چہرے پر ریڈی میڈ میک اپ !<br />اس نے کاؤنٹر کے پاس پہنچ کر سیلزمین کو ایک خفیہ اشارہ کیا۔۔<br />سیلز مین نے سر ہلایا اور کاؤنٹر کے پیچھے کا دروازہ کھول کر اندر غائب ہو گیا۔ پانچ منٹ بعد واپس ہوئی تو اس کے ہاتھ میں ایک سربمہر پیکٹ تھا جو اس نے عمران کے حوالے کر دیا۔<br />عمران جس رازداری سے داخل ہوا تھا ویسے ہی رازداری سے باہر نکل آیا اور پھرتی سے منی بس میں بیٹھ کر بس اسٹارٹ کر دی۔<br />عقبی شیشے میں دیکھا تو تھوڑے فاصلہ پر کھڑے ایک موٹر سائیکل پر تعاقب کا شبہ ہوا۔ وہ یہ اندازہ لگانے کے لئے کہ تعاقب ہو رہا ہے یا نہیں بس کو چھوٹی چھوٹی سڑکوں پر بلامقصد موڑنے لگا۔ آخرکار ایک گلی میں وہ موٹرسائیکل والے کو ڈاج دینے میں کامیاب ہو گیا۔<br />اپنے فلیٹ میں پہنچ کر اس نے پھرتی سے دروازہ بند کر کے اندر سے کنڈی چڑھا دی اور صوفے پر گر کر گہری گہری سانسیں لینے لگا۔<br /><br />اندر والے کمرے سے آواز آئی :<br />" لے آئے آپ منے کے لئے امپورٹیڈ مدر کئیر کے پیمپرز ؟"باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5257349512764447761.post-39448963162326870282009-06-21T22:13:00.001+03:002009-06-21T22:15:03.805+03:00پیش رس :: گیارہ نومبر"گیارہ نومبر" حاضر ہے۔<br />اس نام سے متعلق مجھے کئی خطوط بھی موصول ہوئے ہیں اور لوگوں سے زبانی بحثیں بھی ہوئی ہیں۔<br />ایک صاحبہ نے کہا : نام سے قطعی نہیں معلوم ہوتا کہ یہ کوئی جاسوسی ناول ہے۔<br />میں نے کہا : ناموں سے کچھ نہیں ہوتا مثلاً آپ کے نصف بہتر "عاقل فہیم" کہلاتے ہیں ، لیکن صورت سے بلکل چغد معلوم ہوتے ہیں اور آپ سینکڑوں بار مجھ سے ہی ان کی بد عقلی کا رونا رو چکی ہیں۔<br />اس پر وہ بھڑک اٹھیں۔<br />میں نے عرض کیا : لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ جتنا وہ کماتے ہیں اس کے پچھتر فیصد کی آپ کو ہوا بھی نہیں لگنے دیتے اور احباب میں آپ کی فضول خرچیوں کا رونا روتے پھرتے ہیں۔<br /><br />بہر حال آپ کہانی پڑھیں اور خود ہی فیصلہ کریں کہ یہی مناسب تھا یا نہیں۔<br />اب آئیے بے چارے مصنف کی طرف کہ اسے بہت دنوں کے بعد پھر وہی پرانا مرض لاحق ہو گیا ہے۔<br />لیکن اس بار بنگلہ بھاشا میں ہو اہے۔ یعنی مشرقی پاکستان کے دو پبلشروں نے میرے کچھ ناولوں کا بنگلہ ترجمہ چھاپا ہے اور اس پر میرے نام کی بجائے "مراد پاشا" اور "آلک باری" رسید کردیا ہے۔<br />یعنی اردو میں تو صرف چوریاں ہی ہوتی تھیں ،لیکن بنگلہ میں تو ڈاکہ پڑا ہے مجھ پر۔<br />آلک باری صاحب نے عمران سیریز کے "بھیانک آدمی" کو ذبح کیا ہے اور مراد پاشا نے شعلوں کے پورے سیٹ پر دھاوا بولا دیا ہے۔<br /><br />میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر یہی غریب کیوں ایسوں کے ہتھے چڑھتا ہے (اسے صنعت تجاہل عارفانہ کہتے ہیں۔)<br />ان پبلشروں کے خلاف قانونی کاروائی کی جا رہی ہے اور ان شاء اللہ انھیں کراچی ہی کی عدالت میں حاضر ہونا پڑے گا۔<br /><br />سنا ہے کراچی میں کوئی گجراتی اخبار عمران سیریز کا کوئی ناول نہ صرف چھاپ رہا ہے بلکہ کرداروں کی ایسی قلمی تصاویر بھی وہ اخبار میں چھاپ رہا ہے، جنھیں دیکھ کر بعض "عمران پسند" آپے سے باہر ہو گئے ہیں !<br />قلمی تصاویر بھی وہ اخبار چھاپ رہا ہے اور صلواتیں مجھے سننی پڑ رہی ہیں۔ یہ دوسرا مرض ہے جو مجھے ہی لاحق ہواہے۔ اب آپ مجھے مشورہ دیجئے کہ عدالتی کاروائی مناسب رہے گی یا گنڈے تعویز کروں!<br />خرچ دونو ں میں ہوتا ہے، لہذا آپ خرچ کی پروا نہ کریں مجھے اپنے مفید مشوروں سے مالامال فرما ئیں۔<br />ورنہ آپ جانتے ہیں کہ میرے کرداروں پر ناول لکھنے والوں کی تعداد اب گنڈے تعویز کی دسترس سے بھی نکل کر ٹائیفون اور ڈی۔ڈی ۔ٹی کی حدود میں داخل ہوگئی ہے۔باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5257349512764447761.post-56484669670051461572009-06-20T09:20:00.004+03:002009-06-20T09:50:04.111+03:00یک سطری جواہر پارے - (1)- بعض اوقات قیاس بھی حقیقت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔<br /><br />- کوئی بھی فن معصومیت اور پاکیزگی کے بغیر پروان نہیں چڑھ سکتا۔<br /><br />- خدا جاہل والدین سے بچائے۔<br /><br />- یہ زندگی الفاظ ہی کا تو کھیل ہے۔<br /><br />- میں اُن مجرموں کو احمق سمجھتا ہوں ، جو پولیس کو مرعوب کرنے کی کوشش کریں۔<br /><br />- ہر آدمی اپنے ماحول سے اکتایا ہوا ہے۔<br /><br />- زندہ رہنے کے لیے سب کچھ گوارا کرنا پڑتا ہے۔<br /><br />- آدمیت کی معراج صرف بانٹ کر کھانے میں مضمر ہے۔<br /><br />- اصل چیز محنت ہے ، دولت نہیں۔<br /><br />- جو بھی اپنی حدود سے تجاوز کرے گا دشواری میں ضرور پڑے گا۔<br /><br />- اپنی پسند کے لوگ تلاش کیے جاتے ہیں یونہی نہیں مل جایا کرتے۔<br /><br />- اگر سب عقل مند ہو جائیں تو زندگی ریگستان بن کر رہ جائے گی۔<br /><br />- فنکاروںکے یہاں تکلفات کو دخل نہ ہونا چاہئے۔<br /><br />- میں خود کو بےبس سمجھنے کا عادی نہیں ہوں۔<br /><br />- عالی ظرف لوگ کبھی احسان نہیں جتاتے ، بلکہ زبان پر بھی نہیں لاتے۔<br /><br />- آدمی کتنا گر سکتا ہے اس کا اندازہ کرنا بہت مشکل ہے۔<br /><br />- تمہیں زیادہ سے زیادہ وقت کسی کام پر صرف کرنا چاہئے۔<br /><br />- دنیا کی ہر عورت بحیثیت بیوی کریک ہوتی ہے۔<br /><br />- شادی شائد اس چڑیا کو کہتے ہیں جو رات کو بولتی ہے اور دن کو کہیں نہیں دکھائی دیتی۔<br /><br />- عورتوں کی ہم نشینی سے خدا ہر شریف آدمی کو محفوظ رکھے۔<br /><br />- لڑکیوں کی موجودگی میں انتہائی سنجیدہ لوگ بھی شیخیاں بگھارنے لگتے ہیں۔<br /><br />- اللہ ناٹے کو لمبی اور لمبے کو ناٹی عورت سے بچائے ۔۔۔۔<br /><br />- ناگن ہر حال میں زہریلی ہوتی ہے ! عورت ناگن ہی کہلاتی ہے نا !<br /><br />- ہر نسل اور ہر قوم کی عورت ، صرف عورت ہوتی ہے۔<br /><br />- ہر لڑکی کے معاملے میں خدا سے ڈرنا چاہئے۔<br /><br />- موٹی محبوبائیں لاش کے سینے پر رکھا ہوا پتھر بن جاتی ہیں۔<br /><br />- بوڑھی محبوبائیں لات مارنے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔<br /><br />- عورت بجائے خود ایک بہت بڑی طاقت ہے ۔اتنی بڑی کہ مرد پیدا کرتی ہے ۔<br /><br />- حسن جہاں بھی نظر آئے اسے پوجنا ہی چاہیے ۔خواہ وہ کتے کے پِلّے ہی میں کیوں نہ نظر آئے ۔<br /><br />- دنیا کی ساری نعمتیں صرف عورتوں ہی کے لئے ہیں ۔<br /><br />- دَب کر چیونٹی بھی کاٹ لیتی ہے ۔باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5257349512764447761.post-6745020443749350852009-06-17T19:27:00.001+03:002009-06-17T19:28:57.711+03:00اپنے ناولوں کے کرداروں پر ابن صفی کی رائےابن صفی کے مطابق "علی عمران" کا کردار قطعی طور پر ان کا تخلیقی کردار ہے۔ ان کے بقول :<br />اس کردار کی مثال نہ تو مقامی سری ادب میں پائی جاتی ہے اور نہ ہی بین الاقوامی سری ادب میں۔<br />البتہ فریدی ، حمید اور قاسم کے کردار برطانوی ہندوستان اور اس کی ریاستوں میں سراغرسانی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے معروف افراد اور ان کے کارناموں سے متاثر ہو کر تخلیق کیے گئے ہیں۔<br />مثلاً قاسم ہی کے کردار کو لیجئے۔<br />ریاست مہوبہ کے ایک پولیس انسپکٹر کے لحیم شحیم صاحبزادے جن کا نام بھی حسن اتفاق سے قاسم ہی تھا ، "قاسم" کے کردار کی وجۂ تخلیق رہے ہیں۔<br />یہ اصلی تے وڈّے قاسم بھی گریجویٹ ہونے کے باجود بہکی ہوئی ذہنی رو کے مالک تھے۔ اپنی اسی غائب دماغی کا مظاہرہ انہوں نے شبِ عروسی میں دلہن کو مرعوب کرنے کے لیے فرمایا تھا۔ وہ کچھ اس طرح کہ بچاری کو چھپر کھٹ سمیت سر کے اوپر اٹھا لیا۔ وہ بچاری ڈر کر جو بیہوش ہوئی تو ہوش میں آنے کے بعد پھر کبھی موصوف کو قریب نہ پھٹکنے دیا۔<br />اس لیے قاسم ایک ایسا کردار ہے جس کو صرف ابن صفی ہی نباہ سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ اس کردار کے پس منظر اور ذہنی کیفیات سے بخوبی واقف ہیں۔<br />ابن صفی کے کرداروں کے چربہ نگاروں کے قلم اسی ایک کردار پر آ کر جام ہو جاتے ہیں۔<br /><br />قاسم کے بارے میں ابن صفی کے قارئین کی اکثر یہ رائے رہتی ہے کہ اسے بھی صاحبِ اولاد دکھایا جائے۔ اسی قسم کی خواہش حمید ، فریدی اور عمران کے بارے میں بھی پائی جاتی ہے کہ ان کے بھی سہرے کے پھول کھلیں۔ بعض خواہش مند تو فیاض کو بھی صاحبِ اولاد دیکھنا چاہتے ہیں۔<br />ابن صفی کے نزدیک ان خواہشات کا حل بڑا ہی دلچسپ ہے۔<br />قاسم کو تو وہ اولاد پیدا کرنے کی صلاحیتوں سے اس وقت تک کے لیے مبرّا قرار دیتے ہیں جب تک اس کے جوڑ کی کوئی خاتون پیدا نہ ہو جائے جس کی جسمانی وضع قطع اور ذہنی رو قاسم جیسی ہی ہو۔<br />رہے عمران ، حمید اور فریدی ۔۔۔ تو ان کی شادی اس لیے نہیں کرانا چاہتے کہ اس طرح وہ گھریلو تفکرات میں گھر جائیں گے اور ان میں وہ بےجگری نہیں رہے گی جو ان کے کردار کا خاصہ ہے ، ہو سکتا ہے شادی ہونے کے بعد انہیں انشورنس کی سوجھے۔<br />ابن صفی اسی ضمن میں آگے کہتے ہیں :<br />پھر میرا تو یہی مصرف رہ جائے گا کہ میں خالص گھریلو مسلم سوشل اصلاحی رومانی یا تاریخی ناول تحریر کرنے لگوں۔<br />اپنے فیاض صاحب تو ویسے ہی کیا کم بور کرتے ہیں کہ ان کی اولاد بھی منظرِ عام پر آئے۔ بفرض محال ایسا کیا بھی گیا تو پھر قارئین کے ہاتھوں میں ابن صفی کی کتابوں کے بجائے "بور بور" اور "کرداروں کا استحصال بند کرو" کے پلے کارڈ ہوں گے۔ ویسے بھی یہ عوامی دور ہے۔<br /><br />ابن صفی پر ایک بڑا الزام یہ عائد کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے کرداروں کو مستقلاً تجرد کی زندگی بسر کرتے دکھا کر تجرّد کی تبلیغ کرتے ہیں۔ اس بارے میں ابن صفی کا موقف یوں ہے کہ :<br />انہوں نے اپنے قلم کے ذریعے نہ تو کبھی تجرد کی تبلیغ کی اور نہ ہی کبھی اپنے کرداروں (حمید ، فریدی ، عمران وغیرہ) کو بےراہ روی کی طرف مائل دکھایا۔<br />بقول ان کے :<br />وہ اپنے کرداروں میں جنس کے جذبے پر قابو پانے کی صلاحیت سے وہ قوت پیدا کرتے ہیں جس کی ضرورت مہمات کو سر کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کردار تنہائی میں صنف نازک سے گزوں پرے رہتے ہیں اور اس نظریے کو ان کے قارئین من و عن تسلیم کرتے ہیں کیونکہ انہیں ابن صفی کے کرداروں کی اخلاقی پختگی پر پورا یقین ہے۔<br />ابن صفی مزید کہتے ہیں کہ :<br />اگر ان کا قلم کرداروں کو تجرد آمیز زندگی بسر کرتے دکھاتا ہے تو یہ ایک فنی ضرورت بھی ہے۔ ویسے بھی نفسیاتی طور پر جنس کے جذبے کو بڑی آسانی سے ریاضت ، عبادت اور جفا کشی کی طرف منتقل کیا جا سکتا ہے اور یہ کوئی خلافِ فطرت عمل نہیں ہے۔ لیکن وہ اس عمل کی تبلیغ بھی نہیں کرتے ساتھ ہی ساتھ وہ بےراہ روی کو اخلاقی موت سمجھتے ہیں اس لیے اپنے قلم سے اس کی تکذیب کرتے رہتے ہیں۔باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com6