ابن صفی کے مطابق "علی عمران" کا کردار قطعی طور پر ان کا تخلیقی کردار ہے۔ ان کے بقول :
اس کردار کی مثال نہ تو مقامی سری ادب میں پائی جاتی ہے اور نہ ہی بین الاقوامی سری ادب میں۔
البتہ فریدی ، حمید اور قاسم کے کردار برطانوی ہندوستان اور اس کی ریاستوں میں سراغرسانی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے معروف افراد اور ان کے کارناموں سے متاثر ہو کر تخلیق کیے گئے ہیں۔
مثلاً قاسم ہی کے کردار کو لیجئے۔
ریاست مہوبہ کے ایک پولیس انسپکٹر کے لحیم شحیم صاحبزادے جن کا نام بھی حسن اتفاق سے قاسم ہی تھا ، "قاسم" کے کردار کی وجۂ تخلیق رہے ہیں۔
یہ اصلی تے وڈّے قاسم بھی گریجویٹ ہونے کے باجود بہکی ہوئی ذہنی رو کے مالک تھے۔ اپنی اسی غائب دماغی کا مظاہرہ انہوں نے شبِ عروسی میں دلہن کو مرعوب کرنے کے لیے فرمایا تھا۔ وہ کچھ اس طرح کہ بچاری کو چھپر کھٹ سمیت سر کے اوپر اٹھا لیا۔ وہ بچاری ڈر کر جو بیہوش ہوئی تو ہوش میں آنے کے بعد پھر کبھی موصوف کو قریب نہ پھٹکنے دیا۔
اس لیے قاسم ایک ایسا کردار ہے جس کو صرف ابن صفی ہی نباہ سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ اس کردار کے پس منظر اور ذہنی کیفیات سے بخوبی واقف ہیں۔
ابن صفی کے کرداروں کے چربہ نگاروں کے قلم اسی ایک کردار پر آ کر جام ہو جاتے ہیں۔
قاسم کے بارے میں ابن صفی کے قارئین کی اکثر یہ رائے رہتی ہے کہ اسے بھی صاحبِ اولاد دکھایا جائے۔ اسی قسم کی خواہش حمید ، فریدی اور عمران کے بارے میں بھی پائی جاتی ہے کہ ان کے بھی سہرے کے پھول کھلیں۔ بعض خواہش مند تو فیاض کو بھی صاحبِ اولاد دیکھنا چاہتے ہیں۔
ابن صفی کے نزدیک ان خواہشات کا حل بڑا ہی دلچسپ ہے۔
قاسم کو تو وہ اولاد پیدا کرنے کی صلاحیتوں سے اس وقت تک کے لیے مبرّا قرار دیتے ہیں جب تک اس کے جوڑ کی کوئی خاتون پیدا نہ ہو جائے جس کی جسمانی وضع قطع اور ذہنی رو قاسم جیسی ہی ہو۔
رہے عمران ، حمید اور فریدی ۔۔۔ تو ان کی شادی اس لیے نہیں کرانا چاہتے کہ اس طرح وہ گھریلو تفکرات میں گھر جائیں گے اور ان میں وہ بےجگری نہیں رہے گی جو ان کے کردار کا خاصہ ہے ، ہو سکتا ہے شادی ہونے کے بعد انہیں انشورنس کی سوجھے۔
ابن صفی اسی ضمن میں آگے کہتے ہیں :
پھر میرا تو یہی مصرف رہ جائے گا کہ میں خالص گھریلو مسلم سوشل اصلاحی رومانی یا تاریخی ناول تحریر کرنے لگوں۔
اپنے فیاض صاحب تو ویسے ہی کیا کم بور کرتے ہیں کہ ان کی اولاد بھی منظرِ عام پر آئے۔ بفرض محال ایسا کیا بھی گیا تو پھر قارئین کے ہاتھوں میں ابن صفی کی کتابوں کے بجائے "بور بور" اور "کرداروں کا استحصال بند کرو" کے پلے کارڈ ہوں گے۔ ویسے بھی یہ عوامی دور ہے۔
ابن صفی پر ایک بڑا الزام یہ عائد کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے کرداروں کو مستقلاً تجرد کی زندگی بسر کرتے دکھا کر تجرّد کی تبلیغ کرتے ہیں۔ اس بارے میں ابن صفی کا موقف یوں ہے کہ :
انہوں نے اپنے قلم کے ذریعے نہ تو کبھی تجرد کی تبلیغ کی اور نہ ہی کبھی اپنے کرداروں (حمید ، فریدی ، عمران وغیرہ) کو بےراہ روی کی طرف مائل دکھایا۔
بقول ان کے :
وہ اپنے کرداروں میں جنس کے جذبے پر قابو پانے کی صلاحیت سے وہ قوت پیدا کرتے ہیں جس کی ضرورت مہمات کو سر کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کردار تنہائی میں صنف نازک سے گزوں پرے رہتے ہیں اور اس نظریے کو ان کے قارئین من و عن تسلیم کرتے ہیں کیونکہ انہیں ابن صفی کے کرداروں کی اخلاقی پختگی پر پورا یقین ہے۔
ابن صفی مزید کہتے ہیں کہ :
اگر ان کا قلم کرداروں کو تجرد آمیز زندگی بسر کرتے دکھاتا ہے تو یہ ایک فنی ضرورت بھی ہے۔ ویسے بھی نفسیاتی طور پر جنس کے جذبے کو بڑی آسانی سے ریاضت ، عبادت اور جفا کشی کی طرف منتقل کیا جا سکتا ہے اور یہ کوئی خلافِ فطرت عمل نہیں ہے۔ لیکن وہ اس عمل کی تبلیغ بھی نہیں کرتے ساتھ ہی ساتھ وہ بےراہ روی کو اخلاقی موت سمجھتے ہیں اس لیے اپنے قلم سے اس کی تکذیب کرتے رہتے ہیں۔
سلام دوستو
ReplyDeleteمیں جناب محترم ابن صفی کا ایک ایسا قاری ہوں جس نے ان کی تحریروں کے اخلاقی اسباق سے خاصے سبق بچپن سے بڑھاپے تک عملی زندگی میں استعمال کیے۔
تاہم، حال ہی میں ان پر ایک مضمون ایک رسالہ میں پڑھا، جس سے ان کی خفیہ طور پر کی گئ دوسری شادی کا علم ہوا۔
اگرچہ یہ کوئی خاص امر نہیں، ہمارے معاشرہ میں، مگر یہ خفیہ طور پر شادی، اور پھر اپنے بچوں سے اختلافات یہ موضوع قابل بحث ہے۔
اس بارے میں کوئی معلومات ہوں تو یہاں شائع کیجیے، تاکہ یہ عقدہ حل ہوسکے۔
حصہ اول:
ReplyDeleteڈیئر ہاشم!
آپ کی خدمت میں چند گزارشات
آپ نے جس مضمون کا حوالہ دیا ہے وہ شکیل صدیقی کا ہے جو سرگزشت کے فروری دو ھزار نو کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ شکیل صدیقی نے جو کچھ مذکورہ مضمون کے آخر میں صفی صاحب کی ازدواجی زندگی کے بارے میں تحریر کیا یے، محظ غلط بیانی پر مبنی ہے اور یہ بات میرے ذاتی علم میں ہے کہ مذکورہ مضمون کے شائع ہونے کے بعد ابن صفی کی فیملی نے شکیل صدیقی سے اس پر سخت احتجاج کیا تھا۔ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے شکیل صدیقی ابن صفی صاحب پر بہت عرصے سے ایک کتاب لکھ رہے ہیں لیکن ان کی ہمت نہیں ہوتی کی اب وہ ابن صفی کی فیملی سے اس سلسلے میں کوئی مزید مدد طلب کریں، اس لیے کہ مذکورہ مضمون کے شایع ہونے کے بعد صفی صاحب کے پرستاروں نے بھی مضمون میں ذاتیات کو بھونڈے طریقے اور سستی شہرت کے حصول کی خاطر استعمال کرنے کی مذمت کی ہے۔ شکیل صدیقی کا یہ کہنا کہ وہ شادی ایک خفیہ شادی تھی، سراسر غلط ہے۔
ہاشم صاحب! ہم آپ کو انتہائی ذمہ داری سے مذکورہ مضمون سے متعلق چند حقائق سے آگاہ کرتے ہیں، یہ تمام حقائق صفی صاحب کی فیملی خاص کر فرزند ابن صفی، ڈاکٹر احمد صفی سے مکمل طور سے تصدیق شدہ ہیں:
شکیل صدیقی، ابن صفی پر متذکرہ مضمون لکھنے کے دوران (اوائل سن دو ھزار نو) ڈاکٹر احمد صفی کے ساتھ طویل نشستوں کا سلسلہ رکھتے تھے کہ جن کی مدد کے بنا یہ مضمون لکھنا ناممکن تھا۔ ڈاکٹر احمد کا شکیل صدیقی کو اپنی حد درجہ مصروفیت کے باوجود اس قدر طویل وقت دینے کا محض ایک ہی مقصد تھا کہ ان کے والد گرامی کے بارے میں ان کے پرستاروں تک درست معلومات بہم پہنچائی جاسکیں۔ صفی صاحب کی ازدواجی زندگی (اور بالخصوص جس بات کی طرف آپ کا اشارہ ہے) کے بارے میں شکیل صدیقی سے کی جانے والی گفتگو جب تحریر کی شکل میں سامنے آئی تو ابن صفی کی فیملی کے لیے گویا ایک سوہان روح بن گئی اور وہ یہ دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئے کہ مضمون میں ان کے والد گرامی کی ذاتی زندگی سے متعلق حقائق کو یکسر تبدیل کر دیا گیا ہے۔ بقول احمد صفی، مضمون کا آخری حصہ پڑھ (خاص کر کہ جہاں ان کے چہیتے ماموں کا تذکرہ ہے) کر ان کی پیشانی بھیگ گئی اور احمد صاحب کے نزدیک سب سے دکھ کی بات تو یہ ٹھہری کہ شکیل صدیقی نے ایک واضح پیغام یہ دیا کہ یہ تمام خرافات گویا احمد صفی صاحب سے تصدیق شدہ ہیں۔
حصہ دوئم:
ReplyDeleteہاشم صاحب! یہ بھی سن لیجیے کہ احمد صفی صاحب نے شکیل صدیقی سے احتجاج تو کیا لیکن اس میں بھی حد ادب لازم ٹھہرا کہ آج بھی احمد صفی، شکیل صدیقی کا نام لیتے ہوئے کوئی "ذاتیات" پر مبنی جملہ نہیں کہتے کہ یہی ان کے عظیم المرتبت والد کی تربیت کا خاصہ ہے۔
ہاشم صاحب! آپ یہ بات بھیی مدنظر رکھیں کہ احمد صفی صاحب کے دو اور بھائی بھی ہیں، بہنیں ہیں، ان کو اس مضمون کی وجہ سے کہاں کہاں نہ ہزیمت اٹھانی پڑی ہو گی، اپنے وسیع حلقہ احباب کو کس کس طرح مطمعین کرنا پڑا ہوگا ؟ اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے، آپ اپنی ہی مثال لیجیے، آج مضمون کو شائع ہوئے دس ماہ ہو چلے ہیں لیکن آپ نے سوال کر ہی ڈالا۔
ہاشم صاحب! آپ نے کہا ہے کہ آپ کی تمام زندگی صفی صاحب کی تحریروں سے اخلاقی اسباب لیتے گزری، آپ خود ہی طے کریں کہ آپ کا یہ تقاضا کہ یہ عقدہ حل ہونا چاہیے، کیا اخلاقی طور سے درست ہے ؟ ابن صفی ہمارے لیے اپنی تحریروں میں زندہ ہیں، انہیں وہاں تلاش کیجیے، حساس نوعیت کی ذاتیات کا کھوج لگانے سے کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس طرح آپ صفی صاحب کے اہل خانہ کو خوش کرنے کا سبب بنیں گے ؟
رہی بچوں سے اختلاف کی بات، تو حضور، اگر آج آپ اور ہم اس بات کا گھر میں اعلان کردیں تو مذہب ہمیں کھبی نہیں روکے گا لیکن کیا آپ کے اہل خانہ آپ کو اس اعلان پر گلے سے لگایئں گے ؟
میں ابن صفی صاحب پر ایک ویب سائٹ چلاتا ہوں:
(http/www.wadi-e-urdu.com)
یقین کریں کہ مجھے یہ پیشکش ہوئی تھی کہ ہم آپ کو صفی صاحب کی ذاتی زندگی سے متعلق تفصیلات سے آگاہی کے لیے فلاں جگہ لے چلتے ہیں۔ آپ کی طرح ہماری تمام زندگی بھی صفی صاحب کی تحریروں سے اخلاقی اسباب لیتے گزری ہے لیکن اگر ہم محض سنسنی اور شہرت کے حصول کو اولیت دیتے تو ان صاحب کی پیشکش فورا" قبول کرلیتے اور ایسا کرکے یقین کریں کہ جب تک زندہ رہتے، اپنی نظروں میں تو گرتے ہی بلکہ صفی صاحب کے اہل خانہ سے بھی آنکھ ملانے کی جرات نہ کرپاتے۔
اس قدر تفصیل سے جواب دینے کا ہمارا محض ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کہ اس سلسلے میں مزید تجسس کو تیاگ دیا جائے کہ جس موضوع کو چھیڑنے سے ہمارے ہردلعزیز مصنف کے اہل خانہ کو مزید دکھ پہنچے، اس سے اجتناب ہی بھلا۔
شکیل صدیقی صاحب، صفی صاحب کی عقیرت میں شوق سے کتاب چھاپیں لیکن اس میں سے ہر وہ تذکرہ نکال دیں کہ جو کسی کی دل آزاری کا سبب بنے۔ ہمیں یقین ہے اور آپ بھی یقین کرلیں کہ اس صورت میں کتاب زیادہ مقبول ہو گی۔ ورنہ:
عشق قاتل سے بھی، مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا ؟
سجدہ خالق کو بھی، ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا ؟
ہاشم صاحب! میری ویب سائٹ پر، ابن صفی ڈاٹ انفو پر اور اس بلاگ پر پر صفی صاحب کے حوالے سے ایسا بہت کچھ نیا ہے جسے آپ یقیننا" پسند کریں گے۔ آئیے مل کر دیکھتے ہیں۔
خیر اندیش
راشد اشرف
حصہ دوئم:
ReplyDeleteشکیل صدیقی، ابن صفی پر متذکرہ مضمون لکھنے کے دوران (اوائل سن دو ھزار نو) ڈاکٹر احمد صفی کے ساتھ طویل نشستوں کا سلسلہ رکھتے تھے کہ جن کی مدد کے بنا یہ مضمون لکھنا ناممکن تھا۔ ڈاکٹر احمد کا شکیل صدیقی کو اپنی حد درجہ مصروفیت کے باوجود اس قدر طویل وقت دینے کا محض ایک ہی مقصد تھا کہ ان کے (ڈاکٹر احمد کے) والد گرامی کے بارے میں ان کے پرستاروں تک درست معلومات بہم پہنچائی جاسکیں۔ صفی صاحب کی ازدواجی زندگی (اور بالخصوص جس بات کی طرف آپ کا اشارہ ہے) کے بارے میں شکیل صدیقی سے کی جانے والی گفتگو جب تحریر کی شکل میں سامنے آئی تو ابن صفی کی فیملی کے لیے گویا ایک سوہان روح بن گئی اور وہ یہ دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئے کہ مضمون میں ان کے والد گرامی کی ذاتی زندگی سے متعلق حقائق کو یکسر تبدیل کر دیا گیا ہے۔ بقول احمد صفی، مضمون کا آخری حصہ (خاص کر کہ جہاں ان کے چہیتے ماموں کا تذکرہ ہے) پڑھ کر ان کی پیشانی بھیگ گئی. احمد صاحب کے نزدیک سب سے دکھ کی بات تو یہ ٹھہری کہ شکیل صدیقی نے ایک واضح پیغام یہ دیا کہ یہ تمام خرافات گویا احمد صفی صاحب سے تصدیق شدہ ہیں۔
ہاشم صاحب! یہ بھی سن لیجیے کہ احمد صفی صاحب نے شکیل صدیقی سے احتجاج تو کیا لیکن اس میں بھی حد ادب لازم ٹھہرا کہ آج بھی احمد صفی، شکیل صدیقی کا نام لیتے ہوئے کوئی
ذاتیات" پر مبنی جملہ نہیں کہتے کہ یہی ان کے عظیم المرتبت والد کی تربیت کا خاصہ ہے۔
ہاشم صاحب! آپ یہ بات بھی مدنظر رکھیں کہ احمد صفی صاحب کے دو اور بھائی بھی ہیں، بہنیں ہیں، ان کو اس مضمون کی وجہ سے کہاں کہاں نہ ہزیمت اٹھانی پڑی ہو گی، اپنے وسیع حلقہ احباب کو کس کس طرح مطمعین کرنا پڑا ہوگا ؟ اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے، آپ اپنی ہی مثال لیجیے، آج مضمون کو شائع ہوئے دس ماہ ہو چلے ہیں لیکن آپ نے سوال کر ہی ڈالا۔
ہاشم صاحب! آپ نے کہا ہے کہ آپ کی تمام زندگی صفی صاحب کی تحریروں سے اخلاقی اسباب لیتے گزری، آپ خود ہی طے کریں کہ آپ کا یہ تقاضا کہ یہ عقدہ حل ہونا چاہیے، کیا اخلاقی طور سے درست ہے ؟ ابن صفی ہمارے لیے اپنی تحریروں میں زندہ ہیں، انہیں وہاں تلاش کیجیے، حساس نوعیت کی ذاتیات کا کھوج لگانے سے کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس طرح آپ صفی صاحب کے اہل خانہ کو خوش کرنے کا سبب بنیں گے ؟
رہی بچوں سے اختلاف کی بات، تو حضور، اگر آج آپ اور ہم اس بات کا گھر میں اعلان کردیں تو مذہب ہمیں کھبی نہیں روکے گا لیکن کیا آپ کے اہل خانہ آپ کو اس اعلان پر گلے سے لگایئں گے ؟
میں ابن صفی صاحب پر ایک ویب سائٹ چلاتا ہوں:
(http/www.wadi-e-urdu.com)
یقین کریں کہ مجھے یہ پیشکش ہوئی تھی کہ ہم آپ کو صفی صاحب کی ذاتی زندگی سے متعلق تفصیلات سے آگاہی کے لیے فلاں جگہ لے چلتے ہیں۔ آپ کی طرح ہماری تمام زندگی بھی صفی صاحب کی تحریروں سے اخلاقی اسباب لیتے گزری ہے لیکن اگر ہم محض سنسنی اور شہرت کے حصول کو اولیت دیتے تو ان صاحب کی پیشکش فورا" قبول کرلیتے اور ایسا کرکے یقین کریں کہ جب تک زندہ رہتے، اپنی نظروں میں تو گرتے ہی بلکہ صفی صاحب کے اہل خانہ سے بھی آنکھ ملانے کی جرات نہ کرپاتے۔
اس قدر تفصیل سے جواب دینے کا ہمارا محض ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کہ اس سلسلے میں مزید تجسس کو تیاگ دیا جائے کہ جس موضوع کو چھیڑنے سے ہمارے ہردلعزیز مصنف کے اہل خانہ کو مزید دکھ پہنچے، اس سے اجتناب ہی بھلا۔
شکیل صدیقی صاحب، صفی صاحب کی عقیرت میں شوق سے کتاب چھاپیں لیکن اس میں سے ہر وہ تذکرہ نکال دیں کہ جو کسی کی دل آزاری کا سبب بنے۔ ہمیں یقین ہے اور آپ بھی یقین کرلیں کہ اس صورت میں کتاب زیادہ مقبول ہو گی۔ ورنہ
:
عشق قاتل سے بھی، مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا ؟
سجدہ خالق کو بھی، ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا ؟
ہاشم صاحب! میری ویب سائٹ پر، ابن صفی ڈاٹ انفو پر اور اس بلاگ پر پر صفی صاحب کے حوالے سے ایسا بہت کچھ نیا ہے جسے آپ یقیننا" پسند کریں گے۔ آئیے مل کر دیکھتے ہیں۔
I fully agree with Rashid sahab. We should only focus on the messages hidden in the writings of ibne safi sahab.
ReplyDeleteI sent percent agree with Dania --- We all love ibne-e-safi sahab
ReplyDelete