ہانکا کرنے والوں کا شور بہت دور سے سنائی دے رہا تھا۔ میں شیر کا منتظر رہا۔ گٹھری میں سے ایک پتلون کھینچ کر سامنے رکھ لی تھی۔ پاڑا تالاب کے کنارے کھڑا اطمینان سے جگالی کر رہا تھا۔
کچھ دیر بعد دور سے شیر کے دھاڑنے کی آواز آئی ۔ میں نے رائفل ہاتھ سے رکھ کر پتلون سنبھال لی۔
زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ شیر بھی آ گیا۔ بڑی شان سے آہستہ آہستہ چلتا ہوا تالاب کی طرف آ رہا تھا۔ پتلون بھی میرے ہاتھ سے چھوٹ پڑی ۔ پاڑے کی بری حالت تھی۔ دفعتاً شیر نے ہلکے سے قہقہے کے ساتھ اُس سے کہا :
"برخوردار ، پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں لنچ کر چکا ہوں۔ شکاری صاحب چغد معلوم ہوتے ہیں ۔ تمھیں خواہ مخواہ تکلیف دی"۔
اپنے لیے لفظ چغد سن کر میں غصے سے پاگل ہو گیا اور یہ بھی بھول گیا کہ کچھ دیر پہلے بے حد خائف تھا۔
میں نے اپنا سینہ ٹھونک کر کہا : "میں ادیب ہوں"۔
پھر میں نے محسوس کیا کہ شیر میری طرف مڑ کر حقارت سے مسکرایا ہے۔ اُس نے کہا :
"تب تو تم چغد سے بھی سینئر ہو ، یعنی اُلّو"۔
میں نے رائفل سنبھالتے ہوئے اُسے للکارا : "زبان سنبھال کر بات کر"۔
وہ ہنسنے لگا۔ دیر تک ہنستا رہا۔ پھر بولا : "رکھ دو۔ رائفل رکھ دو۔ کیوں ایک گولی ضائع کروگے؟ ٹرانزسٹر ریڈیو سیٹ ہو تو نکالو ، میں ابھی تمھارے سامنے یہیں دم توڑ دوں گا"۔
"کیا بکواس ہے؟" میں نے چیخ کر کہا۔
" یقین کرو میرے دوست"۔ وہ بے حد سنجیدہ ہو کر گلوگیر آواز میں بولا۔
" کلامِ اقبال کی قو ّالی سن کر میں زندہ نہیں بچوں گا۔ دراصل خودکشی ہی کی نیت سے میں میں بستی والوں کے ٹرانزسٹر سیٹ اُٹھا لاتا ہوں۔ ایک دن اتفاق سے اسی وقت میں نے ریڈیو کھولا۔ کہیں سے کلامِ اقبال کی قوالی ہو رہی تھی۔ میری حالت بگڑنے لگی۔ بس مرنے ہی والا تھا کہ کمبخت بیٹریاں ایگزاسٹ ہو گئیں۔ ریڈیو بند ہو گیا اور میں مر نہ سکا۔
آدمی تو کیا ، اس ملک کے جانوروں کو بھی زندہ رہنے کا حق حاصل نہیں۔ جہاں اقبال جیسا عظیم المرتبت شاعر قوالوں کے حوالے کر دیا گیا ہو۔ کیا بتاؤں دل کی کیا حالت ہوتی ہے ، جب اس ملکوتی کلام پر بے ہنگم اور بھدی موسیقی کے بغدے چلتے ہیں۔ آخر اس عظیم شاعر کو کس گناہ کی پاداش میں قوالوں کے حوالے کر دیا گیا ہے ؟ قیامِ پاکستان سے قبل تو ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ شاید نظریۂ پاکستان پیش کرنے کی سزا ہے"۔
۔۔۔ پھر وہ شیر دفعتاً نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ اور میرے کانوں سے ڈھولک اور ہارمونیم کا شور ٹکرانے لگا۔ کچھ ایسی اذیت ہوئی کہ بے ساختہ اچھل پڑا۔ آنکھیں مَل کر دیکھا تو ایڈیٹر صاحب سامنے بیٹھے ہوئے جھومتے نظر آئے۔ ریڈیو پوری آواز سے کھلا ہوا تھا اور شبِ جمعہ ہونے کی وجہ سے قوالی جاری تھی۔ قوال صاحب فرما رہے تھے :
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا نہ کرے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
سچ کہتا ہوں ، میرا بھی یہی جی چاہا کہ خودکشی کر لوں۔ اب یہاں تک نوبت پہنچ چکی ہے کہ قوال حضرات کلامِ اقبال پر اصلاح بھی فرمانے لگے۔
میںنے ریڈیو کی طرف ہاتھ اُٹھا کر ایڈیٹر صاحب سے پوچھا : " یہ کیا بک رہا ہے ؟"
جھومتے ہوئے بولے : "پتا نہیں ۔ ویسے میں پسند نہیں کرتا کہ میرے دفتر میں کام کرنے والا کوئی آدمی کرسی پر ہی سونا شروع کر دے"۔
" میں پوچھ رہا ہوں کہ کیا یہ صحیح شعر پڑھ رہا ہے ؟" میں نے غصیلی آواز میں پوچھا۔
" مجھے شعر و شاعری سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ تم میری بات کا جواب دو"۔
" دیتا ہوں ، جواب "۔ میں نے اٹھتے ہوئے کہا ...
ہاتھ بڑھا کر ایڈیٹر صاحب کا گریبان پکڑ لیا اور ایک ہی جھٹکے میں وہ بھی اٹھتے چلے آئے۔ اب اُن کی گردن میری گرفت میں تھی اور میں دانت بھنچے کہہ رہا تھا ...
" شیر کے شکار سے پہلے ، تم جیسے مٹی کے شیروں کا شکار ہونا چاہئے ، جو ادب کے سچے خادم بھی ہیں اور جنھیں کلامِ اقبال کی قوالی پر حال بھی آتا ہے "۔
وہ غُل مچاتے رہے ، لیکن میں نے اُنھیں اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک کہ اُن کا دَم نہیں نکل گیا ۔
No comments:
Post a Comment