پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے ؟
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
مخزن کی روایت کے مطابق اپنا تعارف کرانے بیٹھا ہوں تو میرزا کا مذکورہ شعر ذہن میں گونجنے لگا ہے اور اب اس کا مطلب بھی بہتر طور پر سمجھ میں آ گیا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اردو شاعری میں صنعتِ حسنِ تعلیل (یا شاعرانہ تعلّی) کی گنجائش موجود ہے جسے نثر میں بھی کھینچا جا سکتا ہے ورنہ میں کیا لکھتا۔
مختصر مختصر یہ کہ میں نے بیسویں صدی کی ساٹھویں دہائی میں اس دنیا کو رونق بخشی۔والدین نے نام اظہار احمد رکھا کہ والد اور برادران کے ناموں، اسرار، ایثار اور ابرار کا ہم قافیہ تھا اور اس لئے بھی کہ اس زمانے میں بچّوں کے پائجامے کے کپڑے سے لے کر ناموں تک یکسانیت کا خیال رکھا جاتا تھا ۔ بزرگوں ہی سے سنا کہ جب دادا (صفی ا للہ صاحب مرحوم) اسکول میں داخل کرانے لے گئے تو ٹیچر کے پوچھنے پر میں نے اپنا نام "احمد صفی" بتایا۔ دادا نے فوراً تصدیق کی اور یہی نام لکھوا دیا کیونکہ بیٹے نے تو محض قلمی طور پر ان کے نام کو استعمال کیا، پوتے نے سرکاری طور پر انکے نام کو اپنے نام کا حصّہ بنا لیا۔
کراچی میں رہا، پلا بڑھا اور تعلیم حاصل کی۔ گورنمنٹ اسکول ناظم آباد سے ڈی جے سائینس کالج اور پھر وہاں سے این ای ڈی یونیورسٹی پہنچا۔ مکینیکل انجنیئرنگ کی ڈگری لے کر کچھ عرصہ پاکستان میں کام کیا۔ سی ایس ایس اور وزارتِ سائنس و ٹکنالوجی کے وظیفے کے امتحانات آگے پیچھے دیئے اور دونوں میں پوزیشن کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ پھر سول سروس کا خیال چھوڑ کر اعلٰی تعلیم کے لئے امریکہ کی راہ لی۔ والدہ محترمہ کا خیال بھی یہی تھا کہ میں سی ایس پی افسر نہیں بن سکتا تھا کیونکہ نہ میرے والد کا مزاج افسرانہ تھا اور نہ ہی میرا۔ لہٰذا پہلے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اروائن سے ماسٹرز کیا اور پھر مزید تعلیم کے لئے نیویارک کے رینزیلئر پولی ٹکنک انسٹیٹیوٹ چلا گیا۔ وہاں سے "جنرل الیکٹرک" والوں نے پکڑ بلوایا۔ 2003ء میں پاکستان واپس آنے تک وہیں خدمات انجام دیں۔ مختلف ایجادات پر بیس عدد پیٹنٹ حاصل کئے جن کو انٹرنیٹ پر ڈھونڈھا جا سکتا ہے۔ اِن دنوں کراچی کی ایک انجنیئرنگ کمپنی میں گھوم پھر کر وہی افسرانہ خدمات انجام دے رہا ہوں۔
یہ تو تھیں ساری بے ادبی کی باتیں۔ ادبی کاموں کا جہاں تک تعلق ہے، چونکہ آنکھیں ہی کتابوں کے درمیان کھلی تھیں لہٰذا نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کچھ تو اثر ہونا ہی تھا۔ ستّر کی دہائی کے اواخر سے اشعار و مضامین ڈائریوں کے اوراق تک آنے شروع ہو گئے تھے۔ فطری جھجھک اور شرم کی وجہ سے کلام کو چُھپایا اور اسے چھپوایا نہیں۔ عاشقانہ اشعار دکھانے میں اور حیا آتی تھی۔ تعلیمی دور میں ایک استاد نے میری کی ہوئی تشریحاتِ شعری کو دیکھ کر کہا کہ میاں ہر شاعر کا محبوب حقیقی ہی نہیں ہوا کرتا آپ محبوبِ مجازی کا خیال بھی کیجئے۔
بہر حال نثر اور نظم دونوں میں کچھ نہ کچھ ہوتا رہا۔ امریکہ ، کینیڈا اور پاکستان کے مشاعروں میں پھر شریک ہوتا رہا۔ میری پہلی نظم "مامتا کی لوری" ، 1988ء میں "جنگ لندن" میں چھپی اور پھر حافظ شیرازی کی کچھ غزلوں کے منظوم تراجم بکمالِ لطف معین الدین شاہ صاحب مرحوم نے "اردو ادب" میں شائع کئے۔
نثر میں پہلی شائع ہونے والی مختصر کہانی (افسانہ نہیں کہوں گا کہ تکنیکی طور پر شائد وہ افسانہ نہ رہا ہو) "بھاگ گئی" کے عنوان سے غالباً 1990ء میں، "راوی، بریڈفورڈ" میں چھپی۔
مجھے اس طرح منظرِ عام پر لانے میں میری خالہ محترمہ صفیہ صدیقی صاحبہ کا بہت ہاتھ ہے ورنہ بہت کچھ میری ڈائریوں میں مدفون رہ جاتا جو اب کئی امریکی، کنیڈین، برطانوی اور پاکستانی رسالوں تک پہنچ چکا ہے۔ نیویارک میں رہتے ہوئے ٹرائے کے شہر سے احباب کے ساتھ مل کر ایک ریڈیو پروگرام "آوازِ پاکستان" کے نام سے عرصہ دس سال تک کیا اور مختلف ایوارڈز بھی حاصل کئے۔ اب بھی انٹرنییٹ پر یہ پروگرام بروز ہفتہ صبح دس بجے (نیویارک کے وقت کے مطابق) www.wrpi.org پر سنا جا سکتا ہے۔
ادبی سرگرمیوں کو ہمیشہ غمہائے روزگار نے پچھلی نشست پر جگہ دی۔ پاسبانِ عقل نے دل کو اپنی نہیں کرنے دی۔ شائد بچپن میں "اظہار" کو ترک کر دینے کا نتیجہ ہے کہ اب تخلیقی قوتیں آہستہ آہستہ اپنے اظہار کے ذرائع خود پیدا کر رہی ہیں۔
ع
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
بشکریہ : مخزن (بریڈفورڈ ، یو-کے) - جلد:8 ، مدیر : مقصود الٰہی شیخ
واہ واہ باذوق بھائی
ReplyDeleteخوش رہیئے کہ اس مضمون کو شامل کیا
مقصود الہی شیخ صاحب کی کیا بات ہے، برطانیہ میں رہ کر مخزن کی شکل میں اردو کی خدمت عرصہ دراز سے کررہے ہیں
خیر اندیش
راشد اشرف
کراچی سے