صفدر ، جولیا ، سنگ ہی ، تھریسیا ، جوزف ، سلیمان اور علی عمران !
اِن سب میں گہرا اور دلآویز رنگ خود علی عمران کا ہے!
علی عمران ، جو ایم ایس سی ، پی ایچ ڈی (آکسن) ہے، جس کے پاس ڈگریوں کی فوج ہے لیکن اُس نے ڈگریوں کو سرد خانے میں محفوظ کر رکھا ہے۔
اِس کردار کے ذریعے ابن صفی سارے معاشرے پر طنز کرتے ہیں کہ اب ہم ڈگریوں کے سائے میں چلتے ہیں۔ ہمارے ہر قول و فعل پر ڈگریوں کا پر تَو نظر آتا ہے۔ اور یوں اَنا کا حصار ہمیں دوسروں کے دلوں میں اُترنے سے روکتا ہے۔
لیکن عمران اپنی ساری حماقتوں اور معصومیت کے ساتھ یوں جلوہ گر ہوتا ہے کہ سلیمان ہو یا سر سلطان سبھی اس خبطی اور ازلی بیوقوف کے گرویدہ نظر آتے ہیں۔
عمران کی ٹیڑھی شخصیت پر ابن صفی نے ناول '' گھر کا بھیدی '' میں مفصل روشنی ڈالی ہے۔ وہ رقمطراز ہیں:
"لوگ اکثر سوچتے ہیں کہ عمران کی شخصیت اتنی غیرمتوازن کیوں ہے ؟ وہ ہر معاملے کو ہنسی میں کیوں اُڑا دیتا ہے ؟ والدین کا احترام اُس طرح کیوں نہیں کرتا جیسے کرنا چاہئے؟
اس کے پیچھے بھی ایک طویل کہانی ہے۔ بچپن میں ماں اُسے نماز ، روزے سے لگانا چاہتی تھی۔ باپ نے ایک امریکی مشن اسکول میں داخل کرا دیا۔ باپ سخت گیر آدمی تھے۔ اپنے آگے کسی کی چلنے نہ دیتے۔ لہذا عمران بچپن ہی سے دُہری زندگی گذارنے کا عادی ہوتا گیا۔ باہر کچھ ہوتا تھا اور گھر میں کچھ ... مشن اسکول اور گھریلو تربیت کے تضاد نے اُسے بچپن ہی سے ذہنی کش مکش میں مبتلا کر دیا تھا۔ ہر چیز کا مضحکہ اُڑا دینے کی عادت پڑتی جا رہی تھی۔"
کیا اِس قسم کا تضاد ہمارے گھروں میں نہیں؟ کیا آج نئی نسل ، دُہری زندگی گزارنے پر مجبور نہیں؟ اگر آپ ان کے چہروں کو پڑھیں گے تو کیا یہ نہیں کہیں گے کہ اس شہر میں ہر شخص عمران سا کیوں ہے؟
تو ماہرِ نفسیات کے نزدیک خود عمران ایک کیس ہے اور وہی مجرمانہ کیس کی گتھیاں ایسے سلجھاتا ہے کہ مجرم اور پولیس دونوں حیران رہ جاتے ہیں۔ لیکن اس کا طریقۂ کار اتنا عجیب ہے کہ مروّجہ قانونی چوکھٹے میں نہیں سماتا۔ اسی لئے پولیس اُسے مجرم اور مجرم پولیس کا انفارمر سمجھتے ہیں اور سب اُس سے متنفر ہیں۔
اگر عمران بزم میں کیپٹن حمید سے زیادہ بذلہ سنج، پُرلطف اور کھلنڈرا ہے تو رزم میں فریدی سے بڑھ کر جیالا اور بہادر ہے۔
فریدی کا کردار اتنا سپاٹ اور خشک ہو گیا ہے کہ ہمیں جلد ہی حمید کی طرح راہِ فرار اختیار کرنی پڑتی ہے۔ اپنی تمام خوبیوں اور اعلیٰ صفات کے باوجود فریدی زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا اور مجبوراً ابنِ صفی نے حمید اور قاسم کو بے ساکھیاں بنا کر اس مافوق الفطرت کردار کو آگے بڑھنے پر مجبور کیا۔
اس کے برخلاف عمران کا کردار خاصا تہ دار اور پُرپیچ ہے ۔ خود اس کے چار روپ ہیں : عمران ، ایکس ٹو ، پرنس آف ڈھمپ اور رانا تہور علی ...
مختلف سطحوں پر مختلف کرداروں کے ساتھ ذہنی تصادم ، خاصا ہنگامہ اور دلچسپی پیدا کرتے ہیں۔ اپنے والد رحمٰن صاحب سے لے کر نوکر سلیمان تک ہر سطح اور ہر کردار کے ساتھ اپنی انفرادیت اور توانائی برقرار رکھتا ہے۔
یہ ابن صفی کے شگفتہ قلم کا نتیجہ ہے کہ ہر ناول میں عمران ہمارے سامنے نت نئے روپ میں آتا ہے۔
کبھی وہ پرانی کارمیں بیٹھ کر بھیک مانگ رہا ہے... (دوسری آنکھ)
کبھی پیکسی کے ساتھ سرکس میں مسخرا بن جاتا ہے . (کالی تصویر )
کبھی ایک معمر باریش بزرگ کو سائیکل چلانے پر اس لئے ٹوک رہا ہے کہ داڑھی کے بال ہلا کر سائیکل چلاتے شرم نہیں آتی ؟ (گُمشدہ شہزادی)
تو کبھی وہ اپاہج اور بیوی سے خوفزدہ شوہر بن کر رینا ڈکسن کے گھر پناہ لیتا ہے ۔ (سبز لہو)
غرض ہر ناول میں عمران کی عجیب و غریب حرکات و افعال پر سب کو تعجب ہوتا ہے ۔ بعد میں پتا چلتا ہے کہ یہ تو ایک ڈھونگ تھا، مجرم تک رسائی پانے کے لئے ... تب ہم عمران کی ذہانت اور شجاعت کے قائل ہو جاتے ہیں۔ علامہ دہشتناک ، ظلمات کا دیوتا ، بے باکوں کی تلاش ، درندوں کی بستی ... سیریز میں عمران پورے شباب پر نظر آتا ہے ۔
ابن صفی نے علّامہ دہشت ناک کا کردار بڑی چابک دستی سے کھینچا ہے ۔ علامہ دہشتناک ، جو یونیورسٹی میں سوشیالوجی کا پروفیسر ہے اور اپنے دہشتناک خیالات کی بنا پر شاگردوں اور معتتقدوں میں مقبول ہے۔ صرف ذہین اور طاقتور انسان کو زندہ رہنے کا اہل سمجھتا ہے ۔ کمزوروں اور بُزدلوں کو کیڑے مکوڑے جانتا ہے۔ عمران اُس کی معتقد طالبہ شیلا دھنی رام کو کیسے رام کرتا ہے ؟ ملاحظہ ہو :
"میں خواہ مخواہ اپنے ذہن کو تھکا دینے کا قائل نہیں ہوں ، جب جو کچھ ہوگا دیکھا جائے گا، اور میں تو اس کا عادی ہوں۔ میرے ملازم ہی مجھے صبح سے شام تک بے وقوف بناتے رہتے ہیں۔"
"اور آپ بنتے رہتے ہیں ؟"
"پھر کیا کروں ؟ عقل مندوں کی زندگی جہنم بن جاتی ہے ۔ جو کچھ بھی گزرے ، چُپ چاپ جھیلتے رہو ، مگن رہو ۔"
"آپ تو ایک بالکل ہی نئی بات سُنا رہے ہیں ..." شیلا نے اُسے گھورتے ہوئے کہا ۔ وہ سوچنے لگی کہ ذہین کہلانے کا اہل علامہ دہشت ہے یا یہ بیوقوف آدمی ؟
"جب سے آدمی کو اپنا ادراک ہوا ہے ، وہ اس کشمکش میں مبتلا ہے ۔ اُسے بیوقوف بننا چاہئے یا نہیں ۔ جو بیوقوف بننا پسند نہیں کرتے ، وہ زندگی بھر جلتے رہتے ہیں ۔"
یہاں ابن صفی نے عمران کے ذریعے زندگی کا ایک حقیقی فلسفہ پیش کیا ہے۔ سیاسی برتری کے پردے میں دراصل ذہنی برتری کام کر رہی ہے۔ مختلف فلسفۂ حیات دراصل ذہین شخصیتوں کے ماحول سے بیزاری کا نتیجہ ہے ۔ جو جتنا ذہین ہوگا ، اُتنا ہی چالاک ہوگا اور کرۂ ارض پر فتنے کا سبب ہوگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
اقتباس از تحریر : رؤف خوشتر
I love Imran Series ..
ReplyDelete