2010/04/17

قلم کا قرض



راشد اشرف - نئے افق - اگست 1995


تم جانتے ہو جب مجھے ابن صفی سے عقیدت شروع ہوئی تو انہیں پورے ہوئے تیرہ برس ہوچکے تھے۔

اور سنو ۔ یہ عقیدت اب محبت میں بدل چکی ہے۔

میں قدرت اللہ شہاب نہیں ہوں اور نہ ہی ابن صفی کوئی چندراوتی۔ شہاب کو جب چندراوتی سے محبت شروع ہوئی تو اسے مرے ہوئے تیسرا دن تھا اور میں اگر تین میں تین میں نہ سہی پر تیرہ میں ضرور ہوں۔

تم یقیننا" جاننا چاہو گے کہ اس کی ابتدا کہاں سے ہوئی ? تو سنو:

جولائی 27 سن 1980

میں غالبا پرائمری کا طالب علم تھا۔ اخبار میرے ہاتھ میں تھا اور میں ابن صفی کی موت کی خبر اٹک اٹک کر پڑھنے کی کوشش کررہا تھا۔ اس میں کامیابی کے بعد میں وہ اخبار تھامے اپنی آنٹی کے پاس چلا گیا کیونکہ اکثر انہی کے ہاتھ میں، میں نے اس نام کے مصنف کی کتابیں دیکھی تھیں۔ میں نے انہیں وہ خبر سنائی، اور بھی کچھ لوگ کمرے میں موجود تھے اور وہ بھی شاید ابن صفی کے پڑھنے والے تھے۔ کچھ دیر کے لیے وہاں سناٹا چھا گیا۔

"یہ مذاق کررہا ہے"۔۔ کوئی بولا ۔ پھر کسی نے اخبار میرے ہاتھ سے چھین لیا اور کمرے کا سناٹا گہرا ہوتا چلا گیا۔

God's Finger tounched him and he is slept

یہ ابن صفی کون تھا جس کی موت کی خبر ان لوگوں کے لیے اس قدر غیر متوقع تھی ? شاید اسی تجسس نے وقت سے کافی پیشتر مجھے اس کی کتابوں کو ہاتھ لگانے کا جواز فراہم کیا۔ اس وقت یہ حال تھا کہ ابن صفی کی کتابیں پڑھتے تھے اور خود کو بڑوں کی طرح ان کتابوں کے پڑھنے والوں میں شامل سمجھتے تھے لیکن ان فن پاروں میں چھپا ہوا اصل پیغام تیرہ برس بعد سمجھ میں آیا۔ اب دیکھو نا! کیا یہ بدقسمتی نہیں ہے کہ ان فن پاروں کو پڑھ کر ان کے مصنف سے ملنے کا، اس کے ہاتھ چومنے کو جی کرتا ہے لیکن وہ تو مٹی اوڑھ کر سویا ہوا ہے:

Is death the last sleep
No its is the final awakening

جیسا کہ مشتاق احمد قریشی کا جی کرتا ہے کہ "میں انہیں اپنی بانہوں میں سمیٹ لینے کے لیے بازو پھیلا کر آگے بڑھتا ہوں لیکن میرے بازو ہوا میں لہرا کر رہ گئے ہیں۔ میری آنکھیں دھندلا رہی ہیں۔ یہ ننھے ننھے ستارے جو میری پلکوں پر جھلملا رہے ہیں میں انہیں محفوظ کرنا چاہتا ہوں۔ یہ میرا سرمایہ ہیں، انہیں محفوظ، زندہ رہنا چاہیے۔"

"کیا کہا ?" یہ مشتاق قریشی کون ہیں۔"

تاکید کرنے والا چلا گیا اور وہ بھی نہ رہا کہ جس کا خیال رکھنے کی اس قدر تاکید کی گئی تھی۔ اپنے استاد کے احترام میں اس جہان خراب کو چھوڑ گیا لیکن اس کے یکایک اس طرح سے چلے جانے سے بہت ڈر لگتا ہے۔ مشتاق قریشی اب اکیلے ہو گئے ہیں۔ خدا انہیں سلامت رکھے۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ غلط مت سمجھو! قریشی صاحب کے لیے رطب للسان ہورہا ہوں تو اس کی یہ وجہ نہیں کہ اپنی یہ تحریر شائع کروانے کے لیے راہ ہموار کرہا ہوں۔ یہ تو قرض ہے اس شخص کا کہ جس کی تحریروں کے مطالعے کے بعد چار اشخاص کے درمیان بولنا سیکھا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اب تو وہ چار بھی نہیں پورے ہوتے کسی ایک جگہ۔ اسی بنا پر تو تم کو یہ سب سنا رہا ہوں کہ تم کو ابن صفی سے متعارف کراسکوں۔ کوئی دوسرا ملتا ہی نہیں کہ جس کے ساتھ ابن صفی کے بارے میں گفتگو کرکے سیر ہوسکوں۔ اب تو ڈش اینٹینا اور موبائل فون پر بات کرنے والے باآسانی دستیاب ہیں۔ وہ کہتے ہیں "فلاں فلم دیکھی، کیا اداکاری ہے خرگوش کمار کی، واہ۔ اور ہنٹر والی کے تو بس کیا ہی کہنے، کیا نام لیتے ہو ! ابن صفی ? اجی چھوڑیں، اس کی کتابوں میں تو رومانس ہی نہیں اور پھر ہم تو بس instant love کے قائل ہیں، وہ جیسا کہ اس فلم میں۔۔۔وہ۔"

اب تم ہی بتاؤ کوئی کیا کہے ان کے سامنے۔ تمہارے اندر کچھ چراثیم دیکھے تو ٹھان لی کہ تم کو ابن صفی سے متعارف کرائے بغیر نہ رہوں گا لیکن تم کو دلائل کے ساتھ قائل کرنا پڑے گا۔ یہ جانتا ہوں میں، تو سنو:

الہ آباد - سن 1952

چند حضرات ایک میز کے گرد بیٹھے ہیں اور موضوع گفتگو ہے اُس وقت کا سری ادب۔ یہ تقریبا تمام کے تمام اس زمانے کے قد آور لوگ ہیں جن میں ابن سعید (بعد میں پروفیسر مجاور حسین رضوی)، عباس حسینی، اسرار احمد (بعد میں ابن صفی)، شکیل جمالی، راہی معصوم رضا (بعد میں ڈاکٹر راہی معصوم رضا) اور آفاق حیدر وغیرہ شامل ہیں۔ حاضرین میں اسرار احمد شاعری کرتے ہیں۔ خوش گلو ہیں اس لیے دوست احباب ان سے مختلف شعرا حضرات کی غزلیں ترنم سے سنا کرتے ہیں۔ سن 1948 میں جب گاندھی جی کی موت ہوئی تو اس صبح اسرار احمد نے اس سانحے پر اپنی ایک نظم نیا دور کے دفتر کی جانب جاتے ہوئے ابن سعید کو تھما دی۔ اس نظم کا ایک شعر ملاحظہ ہو:

لویں اداس، چراغوں پہ سوگ طاری ہے
آج کی رات انسانیت پہ بھاری ہے

سن 1948 میں وہ محض سولہ برس کے تھے اور فراق، سلام مچھلی شہری اور وامق جونپوری کے سامنے بیٹھ کے نظمیں سناتے تھے۔ ہاں تو بات ہورہی تھی سن 1952 کے الہ آباد کی اور اس محفل کی۔ تو صاحب، حاضرین میں سے کسی نے ہانک لگائی کہ اردو میں صرف فحش کتابیں ہی زیادہ مقبول ہوسکتی ہیں۔

اسرار احمد نے شدومد سے اس بات کی مخالفت کی اور اپنی بات کے حق میں دلائل پیش کیے۔ بحث کا اختتام چاہے کچھ کیوں نہ رہا ہو لیکن ہر شخص اس بات پر متفق تھا کہ سکسٹین بلیک سیرز کی طرز پر اردو میں ایک جاسوسی ماہانہ نکالا جائے۔ دوستوں کا خیال تھا کہ راہی چونکہ گارڈنر، ایڈگر ویلس اور اگاتھا کرسٹی کو دوسرے شرکا کی بہ نسبت زیادہ پڑھے ہوئے ہیں لہذا وہ بہت اچھی جاسوسی کہانیاں لکھ سکتے ہیں لیکن ابن سعید نے راہی کو نظر انداز کرکے وکٹر گن کا ایک ناول بعنوان ‘آئرن سائیڈز لون ہینڈز‘ اسرار احمد کو تھما دیا کہ میاں اسی کو بنیاد بنا کر ایک کہانی لکھ لاؤ۔ اسرار احمد نے ایک ہفتے میں وہ ناول مکمل کر لیا۔

ناول کا نام تھا "دلیر مجرم"

قابل ذکر بات یہ ہے کہ راہی نے اس ناول کو پڑھنے کے بعد اس صنف میں طبع آزمائی کا ارادہ ترک کردیا۔ غالبا" انہوں نے اندازہ کرلیا تھا کہ آگے چل کر یہ اچھے اچھوں کو آؤٹ کلاس کردے گا۔

جنوری سن 1952 میں ناول نگار کا نام اس کے والد بزرگوار صفی اللہ کے حوالے سے ابن صفی تجویز ہوا اور یوں ایک ایسے نوآزمودہ لکھاری نے اس وادی بے مثال میں قدم رکھا جو بنیادی طور پر ایک شاعر تھا اور جس کی شاعری کی معترف تیغ الہ آبادی (بعد میں مصطفی زیدی) اور راہی معصوم رضا جیسی شخصیات تھیں اور کیوں نہ ہوتے جبکہ ایسے خوبصورت اشعار کی داد تو انہوں نے کئی جگہ سے پائی، نمونہ ملاحظہ ہو:

اُتر تو آئی ہے جاڑوں کی دھوپ آنگن میں
مگر پڑوسی کا دو منزلہ بھی گھات میں ہے

بلاآخر تھک ہار کے یارو ہم نے یہ تسلیم کیا
اپنی ذات سے عشق ہے سچا، باقی سب افسانے ہیں

تم کیا سمجھتے ہو کہ تختہ گل میرا جہاں
وہ گھٹن ہے کہ مجھے سانس بھی لینا ہے محال

بہرکیف دلیر مجرم کے بعد جو قلم رواں ہوا تو ناولوں کے ڈھیر لگتے چلے گئے اور ان کی فکر و فن جب قلم کے راہوں سے رنگا رنگ فن پاروں میں ڈھلا تو جاسوسی ادب کے میدان میں گویا بہار سی آگئی۔ ہر کہائی دوسری سے جدا، بالکل مختلف۔ عمران کا کردار تخلیق کیا تو لوگ اس کے دیوانے ہوگئے۔ فریدی اور حمید کو پسند کرنے والوں کا حلقہ الگ تھا۔ مگر دوست یہ دنیا جس میں ہم اور تم سانس لے رہے ہیں بڑی کمینی جگہ ہے۔ یہاں خوشامد پسندوں کو تو سر پر بٹھایا جاتا ہے اور جس کسی میں آگے بڑھنے کا حوصلہ ہو، ٹیلنٹ ہو، اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ تنقید بے جا کے پتھروں سے اس کو سنگسار کیا جاتا ہے اور یہ سب کچھ اس کی زندگی ہی میں کیا جاتا ہے، محض اس تخلیق کے شعلے کو سرد کرنے کی خاطر جس کی آنچ ایسے لوگ اپنے گرد محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ایسے ہی چند ادب کے "علمبرداروں" نے ابن صفی کی عظمت کا کبھی اعتراف نہ کیا۔ یہ لوگ جاسوسی ادب کو ادب شمار نہیں کرتے تھے۔ وہ شاعر کہتا ہے نا:

شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر ہے
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

انہی لوگوں کے بارے میں اپنے ایک انٹرویو میں اس عظیم مصنف کا لہجہ بہت دکھی دکھائی دیتا ہے:

"تھکے ہوئے ذہنوں کے لیے تھوڑی سی تفریح مہیا کرنا ایک مقدس فریضہ ہے۔ جب آرٹ اور ادب کے علمبردار مجھ سے کہتے ہیں کہ میں ادب کی خدمت کروں تو مجھے بڑی ہنسی آتی ہے۔ تم ہی بتاؤ مشتاق میاں کہ کیا میں جھک مار رہا ہوں ? حیات و کائنات کا کون سا ایسا مسئلہ ہے جسے میں نے اپنی کسی نہ کسی کتاب میں نہ چھیڑا ہو۔ بس میرا طریقہ کار ہمیشہ عام روش سے الگ تھلگ رہا ہے۔ میں بہت اونچی بات کہہ کر محض چند لوگوں تک محدود ہونے کا قائل نہیں ہوں۔ دوسرے لوگ جو اعلی اور ارفع ادب تخلیق کر رہے ہیں وہ ادب کتنے ہاتھوں تک پہنچتا ہے اور انفرادی یا اجتماعی زندگی میں کیا انقلاب لاتا ہے ? افسانوی ادب خواہ وہ کسی بھی پائے کا ہو، اس کا مقصد محض ذہنی فرار اور کسی نہ کسی تفریح ہی فراہم کرنا ہوتا ہے لیکن اس سے گنے چنے لوگ ہی محظوظ ہوتے ہیں۔ میں ان گنے چنے لوگوں کے لیے ہی کیوں لکھوں ? میں وہ انداز کیوں نہ اپناؤں جسے لوگ زیادہ پسند کرتے ہیں۔"

دیکھا تم نے اس عظیم شخص کی گفتگو کا ڈھنگ ? اب مزید وضاحتیں دینے کے لیے وہ تو نہیں رہا لیکن اس کا چھوڑا ہوا کام دیکھو۔ اس کا مطالعہ کر تم کو اس انٹرویو کے مندرجات کی زیادہ بہتر طریقے سے آگاہی ہوسکے گی۔ یہاں پہلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ ادب کیا ہے ? ادب شرطیہ طور پر ہر دلچسپ اور زندگی سے قریب تحریر کا احاطہ کرتا ہے۔ ایسی تحریر جو تفریح بہم پہنچاتی ہو اور احساسات کو چھو لیتی ہو، ادب کے زمرے میں آئے گی تو اس حوالے سے کیا ابن صفی کی یہ کتابیں اردو میں ادب کا درجہ نہیں رکھتیں ? ذرا غور کرو۔

وہ کہتا ہے کہ " وہ لوگ جو اعلی اور ارفع ادب تخلیق کررہے ہیں وہ کتنے ہاتھوں میں پہنچتا ہے ?"

آگ کا دریا سے عام آدمی نے کتنا اثر لیا، نیز اس کو پڑھنے والوں کی تعداد اس ملک میں کتنی ہے۔ اور پھر پڑھ کر ‘سمجھنے‘ والے کتنے ہیں۔ واضح رہے کہ قرۃالعین کے اس ناول کو ادبی محفلوں، ادبی مقالوں، ادبی ‘ٹاکروں‘اور انٹرویوز میں عبدللہ حسین کے ناول ‘اداس نسلیں‘ پر فوقیت دی جاتی رہی ہے بلکہ اب تو یہ فیشن بنتا جارہا ہے بالکل اسی طرح سے کہ فلم کی میٹرک پاس ہیروئین سے جب اس کے پسندیدہ شاعر کا نام پوچھا جاتا ہے تو وہ کسی قدر اٹھلاتے ہوئے جواب میں فیض احمد فیض کا نام لیتی ہے لیکن وہ تو پھر بھی کسی حد تک درست ہے کیونکہ اس کو اور اس کے قبیلے کی اور دوسری اداکاراؤں کو بچپن ہی سے تماش بینوں کے سامنے فیض کی غزلوں پر ہی پرفارم کرنا پڑتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

سن 1947 کے فسادات پر جو ادب تخلیق ہوا اس کی زندگی کتنی تھی ?

سن 1965 کی جنگ کے بعد اس سے متلعق افسانوی ادب کا سیلاب سا آگیا تھا۔ کیا اس کو بھی ہمیشہ زندہ رہنے والے ادب میں شمار کیا جائے گا ?

برطانوی فلسفی برکلے کا کہنا ہے کہ "ہم شے کا ادراک اس لیے نہیں کرتے کہ وہ پائی جاتی ہے، بلکہ وہ پائی ہی اس لیے جاتی ہے کہ ہم اس کا ادراک کرتے ہیں۔" -- یہ بڑی دلچسپ صورتحال ہے، مثال کے طور پر اگر ہم کسی کتاب کو پڑھنے کے بعد الماری میں بند کردیں اور وہ ہمارے ادراک کی توجہ کھو بیٹھے تو اس کائنات میں اس کا کہیں کوئی وجود باقی نہیں رہے گا لیکن ابن صفی کی تصنیفات اس کلیئے سے مستشنی ہیں کیونکہ وہ المارہ میں بند کیے جانے کے باوجود قارئین کے ذہنوں میں مقید رہتی ہیں۔

آگے چل کر اسی انٹرویو میں صفی صاحب مزید کہتے ہیں:

"یہ جو تم ادب عالیہ کہ بات کرتے ہو تو میں اس کو افورڈ نہیں کرسکتا۔ تم نے ادب تخلیق کرنے والوں کو دیکھا ہے ? کیا حلیہ ہوتا ہے ان کا ? جب وہ ادب کا شہ پارہ تخلیق کرکے ادب کے ٹھیکیداروں کو دیتے ہیں تو وہ جواب میں انہیں اس کا کیا معاوضہ دیتے ہیں ? صرف ستائشی لفظوں اور ستائشی جملوں سے نہ تو ادیب کا پیٹ بھرتا ہے اور نہ ہی اس کے بال بچوں کا۔ خیر، تم میری یہ بات نوٹ کرلو کہ ایک ایسا وقت آئے گا کہ لوگ اسی کو ادب تسلیم کرلیں گے۔"

جہاں تک ابن صفی کی شہرت کا سوال ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس شخص میں ایسی خداداد صلاحیتیں تھیں کہ جن کے بل بوتے پر اس نے اپنی منزل کا خود تعین کیا اور وہ جو اس نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ "میں گنے چنے لوگوں کے لیے کیوں لکھوں ?" تو جی کرتا ہے کہ اس کی مقبولیت سے متعلق چند حیران کن واقعات تمہارے گوش گزار کروں:

رضی اختر شوق اور حریت کے اے آر ممتاز کے حوالے سے سہیل اقبال سے روایت ہے کہ اگاتھا کرسٹی لندن جاتے ہوئے کراچی ائیرپورٹ پر آدھ گھنٹے قیام کے لیے رکیں۔ چند مداحوں نے ان سے دوران گفتگو پاکستانی جاسوسی ادب کا ذکر کیا تو انہوں نے جوابا" کہا "مجھے اردو نہیں آتی لیکن برصغیر کے جاسوسی ادب سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتی ہوں۔ ابن صفی جاسوسی ادب سے واحد خالق ہیں۔ کسی نے بھی ان سے ہٹ کر کوئی نئی راہ نہیں نکالی۔"

ضمیر اختر نقوی جنہوں نے ابن صفی کی ناول نگاری کے عنوان سے کتاب لکھی ہے، ایک جگہ لکھتے ہیں۔ " محکمہ انٹیلی جنس حکومت پاکستان کے اہم ترین آفیسرز کو جرائم کے کسی کیس میں مشکل درپیش ہوتی تھی تو وہ ابن صفی سے مشورہ کرنے ان کے پاس آیا کرتے تھے۔"

اس ضمن میں بدر منیر (پشتو فلموں والے نہیں) چند بڑے دلچسپ واقعات بیان کرتے ہیں۔ وب سے پہلے تو وہ اپنے بارے میں کہتے ہیں۔ " مجھے یاد ہے کہ شعلہ سیریز سے میں نے ابن صفی کا مطالعہ شروع کیا۔ ان دنوں میں زبردست ذہنی انتشار سے دوچار تھا اور مجھے ہر طرف تاریکی ہی تاریکی دکھائی دے رہی تھی۔ دوستوں نے آنکھیں پھیر لی تھیں اور زندگی کا کا اختتام قرب تر ہوتا دکھائی سے رہا تھا لیکن شعلہ سیریز نے میری امنگوں اور حوصلوں کو نئی توانائی دی اور میں جلد ہی انتشار کے اس ہولناک گرداب سے باہر نکل آیا۔ میں نے (بدر منیر) اپنے عہد کے نامور ، شریف، دیندار، دیانتدار، پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کی بک شیلف میں ابن صفی کی کتابیں دیکھیں۔ خواجہ صاحب اگاتھا کرسٹی، سر آرتھر کونن ڈائل اور پیری میسن سیریز کے مستقل قاری تھے لیکن ابن صفی کی آمد کے بعد انہوں نے انگریز مصنفوں سے کافی حد تک نجات حاصل کرلی تھی۔

اب ذرا خواجہ ناظم الدین کا ابن صفی کے بارے میں تبصرہ سنو:

"ابن صفی مجھے خاص طور سے اس لیے پسند ہے کہ وہ فی الواقع ایک شریف، دیانتدار، خوددار اور نیک نیت لکھنے والا ہے۔ مجھے اس لیے بھی ابن صفی پسند ہے کہ اس نے اردو ادب کو انگریزی ادب کے برابر لا کھڑا کیا ہے کہیں کہیں تو اس کا قد غیر ملکی لکھنے والوںکے مقابلے میں نکلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔"

محمد بدر منیر سقوط مشرقی پاکستان سے پیشتر ایک نوے سالہ ضعیف خاتون کو ان کی پسندیدہ اردو کی کتاب اسپتال جاکر پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ ایک عرصے تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ پھر مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد بھی نہایت ہی نامساعد حالات میں وہ ان کے پاس برابر جاتے رہے۔ وجہ حاضری بھی اس مرتبہ وہی ٹہری یعنی اردو کی کتب اور یہ کتب کسی اور کی نہیں، ابن صفی کی تھیں جن سے وہ خاتون گہری عقیدت رکھتی تھی اوہ وہ ضعیف خاتون بابائے بنگلہ دیش کی والدہ تھی۔

ایک شاعر ہیں رؤف شیخ - ان سے سوال کیا گیا کہ اور کون کون سے ادیب ابن صفی کو پڑھتے ہیں۔ ان کا جواب تھا " یار پڑھتے تو سبھی ہیں۔ کوئی میری طرح اعتراف کرلیتا ہے اور کسی میں اعتراف کی ہمت نہیں۔ یہ لوگ احساس کمتری کے مارے ہوئے لکھاری ہیں، ادیب یا شاعر نہیں۔"

پیجاب کے کسی گاؤں میں بدر منیر کسی کے گھر مہمان کے حیثیت سے قیام پذیر ہیں۔ میزبان کے گھر لڑکے کی پیدائش ہوتی ہے۔ جب نام رکھنے کا مرحلہ آتا ہے تو طے یہ ہوتا ہے کہ اپنا اپنا پسندیدہ نام ایک پرچی پر لکھ کر تمام حضرات پیش کریں گے۔ پرجیوں کی پڑتال ہوتی ہے تو گیارہ پرچیوں میں سے آٹھ پر عمران چوہدری درج ہوتا ہے۔ بقیہ تین پرچیوں میں ایک پر حمید اور دو پر فریدی کے نام درج تھے۔

اور فراز چائییں کتنی محبتیں تجھے
ماؤں نے تیرے نام پہ بچوں کا نام رکھ دیا

بدر منیر ایک اور واقعہ سناتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کو لاہور سے کراچی بذریعہ ٹرین سفر درپیش ہوا۔ عین وقت پر ریزرویشن نہ مل سکی۔ کاؤنٹر پر ایک صاحب ابن صفی کے ناول میں غرق تھے اور ایک مرتبہ بدر صاحب کو ٹکٹ کی فراہمی کے سلسلے میں نفی میں جواب دے چکے تھے۔ بدر صاحب نے ان سے جھوٹ بولا کہ ایک صاحب ہیں ابن صفی ان کے لیے مجھے سیٹ درکار ہے۔ ان صاحب نے پانچ منٹ میں ٹکٹ بمہ ریزرویشن کے حوالہ راوی کیا اور بولے "میرے ایک عزیز کراچی جارہے ہیں، ان کو گھر جاکر منالوں گا۔ ابن صفی کے لیے تو پوری ٹرین حاضر ہے۔"

اب تم خود ہی اندازہ کرلو کہ یہ شخص کہاں کہاں اپنی تحریروں کے حوالے سے نہیں پوجا جاتا تھا۔ بقول مرزا حیدر عباس کہ سندھ، پنجاب، بلوچستان اور سرحد میں ہزاروں ایسے لوگ تھے جو ابن صفی کی تحریر کے سحر میں گرفتار تھے حالانکہ ان کو ٹھیک سے اردو پڑھنی بھی نہیں آتی تھی۔

بابائے اردو مولوی عبدالحق کے نام سے کون واقف نہیں۔ دیکھو تو وہ بھی ابن صفی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کچھ فرما رہے ہیں کہ " اس شخص کا اردو پر بہت بڑا احسان ہے۔" دنیا جانتی ہے کہ بابائے اردو نے اپنی تمام زندگی اردو کی تدوین و فروغ کی کوششوں میں گزار دی۔

اب وہ زمانہ آگیا تھا کہ دھیرے دھیرے اپنی تحریروں میں اپنا لہو نچوڑ دینے والے کا ذکر "ادبی" سطح پر کہیں کہیں نظر آنے لگا تھا۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر اعجاز حسین نے اپنی تصنیف ‘اردو ادب آزادی کے بعد‘ اور ڈاکٹر علی حیدر نے ‘اردو ناول- سمت و رفتار‘ میں ان کا ذکر کیا ہے۔

طبیعت کے ایسے درویش کہ لوگوں نے ان کے ناول مختلف ناموں سے چھاپنا شروع کردیے۔ گرچہ ان لوگوں کے خلاف صفی صاحب نے کاروائی کی لیکن کب تک ? آخر کار نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہوئے اور عرصہ تین برس تک صاحب فراش رہے لیکن مسجدوں، کلیساؤں میں کی گئی دعائیں رنگ لائیں اور اپنے ایک معرکتہ الارا ناول ڈیڑھ متوالے سے ان تمام بدخواہوں کو للکارا کہ:

کیا سمجھتے ہو جام خالی ہے
پھر چھلکنے لگے سبو آؤ

دوران علالت ان پر اپنے دوستوں کی حقیقت آشکارا ہوئی۔ صفیہ صدیقی، کہ رشتے میں ان کی سالی ہوتی ہیں، سے روایت ہے کہ اسرار بھائی کہا کرتے تھے کہ بیماری کے دوران کم بخت کوئی پھٹکا نہیں۔ خیریت تک نہ دریافت کی۔ کتنے ہی ایسے لوگ تھے جو میرے قرضدار تھے، وہ بھی غائب ہوگئے۔

تجھے گلہ ہے کہ دنیا نے پھیر لیں آنکھیں
فراز یہ تو سدا سے رواج اس کا تھا

27 جولائی 1980 کو ہندوستان سے شائع ہونے والے اخبار انقلاب کا ایک اقتباس دیکھو، گرچہ بات کچھ تلخ سی ہے لیکن یہاں تذکرہ ضروری ٹھرا۔ اخبار لکھتا ہے۔ " ابن صفی ایشیا کے وہ واحد ناولسٹ تھے جنکے کرداروں پر ہر مہینے آٹھ تا دس ناول دوسرے کمرشل رائٹر لکھتے تھے اور ان کی روٹی روزی اسی بنیاد پر چل رہی ہے۔ ہندوستان میں ابن صفی کے پبلیشر عباس حسینی ابن صفی کے ناولوں کی بدولت آج لکھ پتی ہیں۔"

اور تم کیا توقع رکھتے ہو ? تمہیں اور کون کون سے زخم دکھاؤں۔۔۔سنو گے ? تو سنو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابن صفی کے ایک قریبی عزیز مبین احسن ایک واقعہ سناتے ہیں کہ ایک مرتبہ اسرار بھائی نے میرے محکمے کے ایک ملازم کی ترقی کے بارے میں مجھ سے کہا اور ان صاحب کی ترقی اتفاقا" میرے ہی دستخط سے ہوئی، یہ الگ بات ہے کہ یہ صاحب انہی کے لیے مار آستین ثابت ہوئے۔

مرزا حیدر عباس بتاتے ہیں۔ " ایک آدمی نے ان کے ساتھ فراڈ کیا۔ ابن صفی نے مقدمہ کردیا۔ اس آدمی کو سزا ہوگئی۔ جب معلوم ہوا کی اس کے بیوی بچوں کا کوئی سہارا نہیں ہے تو اس کو اپنے وظیفہ دینا شروع کردیا۔

غور کرو یہ دریا دلی کے قصے اسی شہر نگاراں کے ہیں جسے عروس البلاد کہا جاتا تھا کہ اب جس کی فضاؤں میں خون کی بو اس قدر رچ بس گئی ہے کہ ایسے واقعات سن کر ان پر محض ٹھنڈی آہیں ہی بھری جاسکتی ہیں کہ:

جو رد ہوئے تھے جہاں میں کئی صدی پہلے
وہ لوگ ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں

اب تو یہاں خدا کے گھر میں اعتکاف میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو بھی نہیں بخشا جاتا۔ کاش کہ کوئی وقت ایسا آئے کہ ہم کہہ سکیں:

سلام ہو تیری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں
یہ رسم عام ہے جو چاہے سر اٹھا کے چلے

سوچتا ہوں کہ وہ شخص چلا گیا تو اب سکون سے ہوگا۔ کم از کم ان حالات میں اس جیسا انتہائی حساس طبیعت کا مالک کیسے رہ سکتا تھا ? اس کا نروس بریک ڈاؤن تو بار بار ہوتا۔ اس موقع پر ایک نظم بعنوان ‘سیاست‘ کچھ اس طرح یاد آئی ہے کہ گویا قلم کا راستہ روک کر کھڑی ہوچلی ہے:

یہ سیاست بھی کیا عجب شے ہے
میں سمجھتا ہوں میں بھی حق پر ہوں
تم سمجھتے ہو تم بھی حق پر ہو
میں تمہیں مار دوں تو تم ہو شہید
تم مجھے مار دو تو میں ہوں شہید
تم ہو یا میں یہاں بفضل خدا
سب شہیدوں کی صف میں شامل ہیں
سب یزیدوں کی صف میں شامل ہیں


صفی صاحب کے ایک دوست کہ عزیز جبران انصاری کہلاتے ہیں، ان کے بارے میں بہت صحیح تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ " انتہائی مخدوش حالات اور پابندیوں کے دور میں جاسوسی ادب تخلیق کرنے والی ہستی جس کو اپنے جائز حق کا عشر عشیر بھی نہ مل سکا۔"

تم کو حیرت ہو گی کہ بشری رحمان جو رومانی ناولوں کے حوالے سے خاصی معتبر مانی جاتی ہیں، ابن صفی کی بہت بڑی پرستار ہیں۔ وہ اپنی ایک تحریر میں ابن صفی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتی ہیں۔ " ادیب دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک وہ جن کو نقاد ادیب مان لیتے ہیں اور ان کا ایک مخصوص حلقہ بن جاتا ہے، ان کی کتابیں ادب کے ذخائر میں اضافہ کرتی ہیں۔ دوسرے وہ ادیب نہیں نقاد ادیب ماننے پر تیار نہیں ہوتے مگر عوام انہیں ادیب مان لیتے ہیں۔ وہ گھر گھر میں پڑھے جاتے ہیں، ان کی رسائی ہر دل تک ہوتی ہے، وہ گلی کوچوں میں اتر جاتے ہیں، وہ جھونپڑیوں میں بھی دستک دیتے ہیں اور محلوں میں بھی۔ وہ ریلوے اسٹیشن اور ریل کے ڈبوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان کی کتابیں ہر بک اسٹال پر نظر آتی ہیں۔ ابن صفی دوسری قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر آج ان کے نقاد ان کو بڑا ادیب نہیں مانتے تو کل ان کو وہاں بھی اپنا مقام مل جائے گا۔"

کھبی کھبی میں سوچتا ہوں کہ اس شخص کو خدا تعالی نے کیسے بے مثال سنس آف ہیومر سے نوازا تھا۔ دلچسپ جملے۔ بذلہ سنجی کی اچھوتی مثال۔ قاسم کے کردار ہی کو لے لو۔ جب تم جاسوسی دنیا کا "فرہاد 59" پڑھو گے تو تو خود ہی اس کی سمجھ آجائے گی۔ مزید ہنسنا چاہو تو "چمکیلا غبار" پڑھ لو۔ "برف کے بھوت" سے تم کو قاسم کے پس منظر سے آگاہی حاصل ہوگی اور "سینکڑوں ہم شکل"، "چاندی کا دھواں"، "موت کی چٹان"، "زمین کے بادل" اور "طوفان کا اغوا" پڑھنے کے بعد تو تم قاسم کو بے چینی سے بقیہ ناولوں میں تلاش کرو گے۔

مزاح لکھنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ اسٹیفن لیکاک مزاح کی تعریف کچھ اس طرح سے بیان کرتا ہے۔ " یہ زندگی کی ناہمواریوں کے اس ہمدردانہ شعور کا نام ہے جس کا فنکارانہ اظہار ہوجائے۔"

اور تم محسوس کرو گے کہ ابن صفی نے اس فنکارانہ اظہار میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جاسوسی دنیا کا ایک خوبصورت، ایڈونچرس ناول "موروثی ہوس" ہے۔ یہ ایک ناقابل فراموش تحریر ہے۔ بس یوں سمجھ لو کہ لکھا لکھایا اسکرپٹ ہے۔ فلم بنانے والے کو محض لوکیشنز کا انتخاب کرکے شوٹنگ کرنی ہے۔ ان کے ایسے اور کئی ناولوں پر مہماتی، جاسوسی، نفسیاتی اور آرٹ فلمیں بنائی جاسکتی ہیں۔

"برف کے بھوت" کو موسم گرما میں پڑھو تو ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے۔ ظالم نے کچھ ایسی ہی فضا بنا دی ہے کہ جب بھی اس ناول کو پڑھا ہے، ایسا ہی احساس ہوا ہے۔ "شاہی نقارہ" کے مطالے کے ددوران پڑھنے والا گھنے جنگلوں میں شکار کا لطف اٹھاتا ہے اور کیپٹن حمید کی بدحواسیوں سے محظوظ ہوتا ہے۔ ایک بڑی دلچسپ بات کا ذکر کرتا چلوں۔ جاسوسی دنیا کی ایک ناول میں حمید، فریدی کو یہ شعر سناتا ہے:

پہلے ترساتی رہے، خاک میں آخر مل جائے
اور کس کام کی یہ گلبدنی ہوتی ہے

کرنل فریدی کہتا ہے " یہ تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی ندیدے بچے نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی ہو۔"

جواب میں حمید کہتا ہے " تمام اردو شاعری اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ اس ندیدے بچے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔"

دلچسپ بات یہ ہے کہ متذکرہ شعر ابن صفی کا اپنا ہے اور ان کی اس غزل کا مقطع ہے جس کا مطلع کچھ یوں ہے:

ان کی ہر رات ہی قسمت کی دھنی ہوتی ہے
اور ادھر نیند کی بھی بیخ کنی ہوتی ہے

بیچارہ/ری کا پیشرس بھی اپنی جگہ بجائے خود ایک فن پارہ ہے جس میں ابن صفی نے اپنے قارئین سے حد درجہ سنجیدہ گفتگو کی ہے۔ ان کے ہر چاہنے والے کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ متذکرہ ناول کے بارے میں ایک صاحب رائے کا تبصرہ ایک دوسرے ناول کے پیش رس میں یہ ہے کہ " اگر اس تھیم کا کوئی ناول انگریزی میں آیا ہوتا تو نجانے کتنے انگریزی کے کارنامے گرد ہوکر رہ گئے ہوتے۔" ۔۔۔۔۔۔ عمران کے کردار پر تو نجانے کتنی بحثیں ہوتی آئی ہیں لیکن عمران سیرز کو پڑھنے کے بعد تم ان کی کئی ہیروئنز کے بارے میں مغموم ہوجاؤ گے بالخصوص "بیباکوں کی تلاش" کی صبیحہ، "گیت اور خون" کی فریدہ وغیرہ۔ لیکن عمران سیریز کے جس سلسلے کی طرف میں اب آرہا ہوں وہ بلاشبہ ابن صفی کے لازوال قلم کا ناقابل فراموش کہلائے جانے کا حقیقتا" مستحق ہے۔ یہ "ایڈلاوا" سیریز کا تذکرہ ہے۔ یہاں اس کا ذکر کرتے ہوئے مجھے کچھ جذباتی ہوجانے دو۔ یقین نہیں آتا کہ ہزاروں میل کا فاصلہ ہونے کے باوجود ابن صفی نے اٹلی کی رنگین و رومانی فضاؤں میں یہ ایڈونچرس سلسلہ کیسے تحریر کیا ? یہ وصف تو رائیڈر ہیگرڈ میں بھی نہ تھا کہ ایسے معرکتہ آرا ناول لکھ سکے۔ اور پھر ایڈلاوا کا دلدوز انجام ۔۔۔۔ ناول کی ہیروئن کی موت کے حوالے سے اس سلسلے کے آخری ناول ایڈلاوا کا اختتامیہ حد درجے بوجھل ہے اور قاری کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔

عمران سیریز کے ایک ناول "چار لکیریں" کا ابتدائی جملہ پڑھنے کے بعد بے اختیار حلق سے قہقہ ابل پڑتا ہے۔ پڑھنے والا آنکھیں بند کرکے ایک لمحے صورتحال کا تصور کرتا ہے اور پھر مزید قہقہے۔۔۔۔۔ ہوا یہ کہ کیپٹن فیاض اپنے ایک جاگیردار دوست بسلسلہ پارٹی مدعو کیے گئے۔ وہ جاگیردار صاحب عمران کے ساتھ آکسفورڈ میں اکھٹے پڑھتے رہے تھے۔ پارٹی کے انعقاد کے سلسلے میں دعوت ناموں کا انتظام تھا۔ کیپٹن فیاض کی جو شامت آئی تو اس نے عمران کے دعوت نامے پر مسٹر اینڈ مسز عمران لکھ دیا۔ کچھ تو تفریح کی خاطر اور کچھ یہ سوچ کر کہ شاید عمران روشی کو بھی ساتھ لیتا آئے جس کی خوش مزاجی فیاض کو پسند تھی۔ اب ناول کا پہلا جملہ ملاحظہ ہو:

"اس وقت کیپٹن فیاض کی کھوپڑی ہوا میں اڑ گئی جب اس نے عمران کے ساتھ شہر کی ایک طوائف دیکھی۔"

بقیہ صورتحال کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ معززین اور شرفا کی اس تقریب میں عمران صاحب جس طوائف کو اپنے ہمراہ لے گئے تھے اس کی وجہ سے وہاں کیا کیا نہ حماقتیں بھیلی ہوں گی۔

اور پھر امام الجاہلین، قتیل ادب استاد محبوب نرالے عالم۔ دیکھو اس کردار کا انہوں نے کیا خوب نقشہ کھینچا ہے:

"بسر اوقات کے لیے پھیری لگا کر مصالحے دار سوندھے چنے بیچتے تھے۔ اکثر استاد کے جسم میں بعض مشور مقتدین (مثلا" غالب وغیرہ) کی روحیں بھی حلول کرجاتی ہیں۔ کاندھے سے چنوں کا تھیلا لٹکتا ہوا اور ہاتھ میں ٹین کا بھونپو جس میں منہ ڈال کے "چنا کڑک" کی آوازیں لگاتے تھے۔ ایک روز عمران کو اپنی تخلیق سنا رہے تھے:

تم بھلا باز آؤ گے غالب
رستے میں چڑھاؤ گے غالب
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی

ایک اور بہت ہی دلچسپ کردار ہد ہد کا ہے جو کہ عمران سیریز کے ایک ابتدائی ناول میں نظر آتا ہے لیکن پھر "شفق کے پجاری" میں آخری بار رنگ جما کر پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ اس درجے کا احمق اور ناکارہ تھا کہ عمران کے ساتھ ساتھ ابن صفی بھی اس کو "افورڈ" نہ کرپائے۔

"بحری یتیم خانہ" کی ابتدا ایک نائٹ کلب میں کلاسیکی موسیقی کے پروگرام سے ہوتی ہے (یہاں ابن صفی اہنے مخصوص ہلکے پھلکے انداز میں چوٹ کرتے نظر آتے ہیں)۔۔۔ عمران صاحب وہاں موجود تھے۔ استاد لفگار ٹھمری شروع کرتے ہیں اور ‘نندیا کاہے مارے بول‘ کی جو تکرار شروع کرتے ہیں تو عمران سات منٹ کے انتظار کے بعد استاد کے سامنے ہاتھ جوڑ کے کھڑا ہوجاتا ہے "حضور اب آپ کی تکلیف نہیں دیکھی جاتی، آپ مجھے اپنی نندیا کا پتہ بتائیں، ابھی دوڑ کر پوچھ آتا ہوں کہ ‘کاے مارے بول‘۔۔۔۔۔ استاد کی تنک مزاجی مشہور تھی۔ سُرمنڈل پھینک کر انہوں نے عمران کا گریبان پکڑنے کی کوشش کی۔ ہنگامہ ہوگیا ۔۔ کسی نے پوچھا کہ یہ کیا بے ہودگی ہے تو عمران صاحب غصیلے لہجے میں بولے " ان کی نندیا میری بھی رشتے دار ہیں"۔۔۔۔ اور استاد دھاڑے " ارے یہ بہرام خان حرام خان کا کوئی گرگا ہے حرامی" ---- " آپ غلط کہہ رہے ہیں جناب" عمران بڑے ادب سے بولا " میں آپ کی نندیا کا سالا ہوں۔"

ان کے چند ناولوں کے نام سنو کہ ایک ایسا ادیب جو بنیادی طور پر شاعر تھا، اپنے ناولوں کے نام اس قدر آرٹسٹک اور شاعرانہ تخیل سے بھرپور رکھ سکتا ہے:

ٹھنڈی آگ، سہمی ہوئی لڑکی، تاریک سائے، سبز لہو، لاش گاتی رہی، آوارہ شہزادہ، چاندنی کا دھواں، چمکیلا غبار، چیختے دریچے، ٹھنڈا سورج، خوشبو کا حملہ وغیرہ وغیرہ۔

ابن صفی کی کتابوں کے پیشرس کا مطالعہ کرنے کے بعد ان کا ایک نیا چہرہ سامنے اتا ہے۔ بعض فاتر العقل پڑھنے والے ان کو کس طرح کے سوالات کر کے بور کرتے ہیں اور ابن صفی ان کو ایسے جواب دیتی ہیں وہ بیجا اور نامناسب تنقید کرنے والے کٹ کر رہ جائیں۔ "سہمی ہوئی لڑکی" کے پیشرس میں ٹنڈو آدم کے ایک ٹیلیفون آپریٹر صاحب ابن صفی کے سابقہ ناول "آتشی بادل" کو محض بکواس قرار دیتے ہیں، ان کی دانست میں ناول کے نام سے اس کے میٹیریل کا کوئی میل نہ تھا۔ ابن صفی لکھتے ہیں کہ ٹیلیفون آپریٹر صاحب نے آتشی بادل کا اشتہار دیکھ کر اس کے بارے میں کچھ اس قسم کی کہانی خود بنائی ہوگی کہ آگ برساتا ہوا ایک بادل ہے جو تمام شہر ہر مسلط ہوگیا ہے، عمارتیں دھڑا دھڑ جل رہی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ پھر عمران اخیر میں اپنی پناہگاہ سے قہقہے لگاتا ہوا برآمد ہوتا ہے اور اس سائینسدان کا ٹیٹوا دباتا ہے جو ایک مشین کے ذریعے آتشی بادل بنا بنا کر فضا کو سپلائی کررہا تھا۔

جوابا ابن صفی اپنے مخصوص انداز میں ایک جملے میں ایسی بات کہتے ہیں کہ پڑھنے والا اچھل پڑے:

"یار ٹنڈو آدمی صاحب! خود ہی لکھ کر پڑھ لیا کرو"

غور کیا تم نے ٹنڈو آدمی کی نادر ترکیب پر ?

چاٹگام سے ایک اور صاحب ابن صفی کو کتابیں لکھنا ترک کرکے ترکاری بیچنے کا مشورہ دیتے نظر آتے ہیں۔ کتاب کا نام ہے "دھواں اٹھ رہا تھا"۔ ابن صفی ان صاحب کو سنجیدگی سے ایک طویل جواب دیتے ہیں لیکن آخر میں چٹکی لینے سے باز نہیں آتے:

"بھئی اپنا نام تو صاف لکھا کریں۔ پہلی نظر میں ‘بدھو داس‘ معلوم ہوتا ہے۔ غور کرو تو ‘رولس رائس‘ پڑھا جاتا ہے۔ ذرا ترچھا کرکے دیکھو تو ‘چلو واپس‘ گھسیٹا ہوا معلوم ہوتا ہے۔

ڈیڑھ متوالے کے پیشرس میں وہ اپنے پڑھنے والوں سے تین برس کے وقفے کے بعد مخاطب ہیں:

"رہی مختلف قسموں کے ابنوں اور صفیوں کے بات تو یہ بیچارے سارے قافیے استعمال کرچکے ہیں۔ لہذا اب مجھے کسی ‘ابن خصی‘ کا انتظار ہے۔ میری دانست میں تو اب یہی قافیہ بچا ہے۔"

یہاں ان کا اشارہ انہی لوگوں کی طرف تھا جو ان کے کرداروں پر غیر معیاری اور واہیات قسم کی کہانیاں لکھ کر پڑھنے والوں کو دھوکہ دیتے رہے تھے۔

فن کی نمود گاہ پر ایسے بھی خوش گماں ملے
چار حروف لکھ لیے اہل کمال ہوگئے

عمران سیریز نمبر 58 کا پیشرس ایک بہت ہی دلچسپ خط لیے سامنے آتا ہے:

"جناب ابن صفی
آپ کے ناول ایک عرصے سے زیر مطالعہ ہیں۔ ہمارا مسئلہ بے ڈھب ہے اور اسے مزید بے ڈھب آپ کے ناول بنا رہے ہیں جو ہماری چھوٹی بہن کے حافظے کی گرفت میں نہیں آتے۔ موصوفہ آپ کے ناولوں کی حافظہ ہیں۔ صفحہ نمبر، سطور کی تعداد، ہر صفحے کا پہلا جملہ، سچویشن، کرداروں کے مکالمے وغیرہ ازبر ہیں۔ خدشہ یہ ہے کہ یہ بار بار کا پڑھنا کہیں اس کے حواس معطل نہ کردے جس کے آثار پیدا ہوچلے ہیں۔ چھ مرتبہ فی ناول کی اوسط ہے۔ اگر نوبت یہیں تک رہتی تو پھر بھی خیر تھی لیکن اب تو پرانے ناولوں کو خریدنے اور جمع کرنے کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا ہے جس کا اختتام پاگل خانہ نظر آرہا ہے۔ آپ سے اتنی سی درخواست ہے کہ اس عجیب و غریب قاریہ سے ہماری جان چھڑائی جائے۔ پیشرس میں اپنی اس سنکی مداح کو اتنی سے نصیحت کردیں کہ ان ناولوں کو حفظ کرنے سے ثواب تو شاید ہی ملے، باقی دنیا سے بھی جائے گی۔"

ابن صفی جواب میں اپنے ایسے دیگر تمام پڑھنے والوں سے گزارش کرتے ہیں کہ تفریح کو تفریح کی حد سے نہ گزرنے دیجیے ورنہ وہ تفریح نہ رہے گی، لت بن جائے گی اور لت ہمیشہ بوریت کی طرف لے جاتی ہے۔ بوریت شروع - تفریح غائب - لہذا محتاط رہیے۔

ایک اور ناول "خطرناک ڈھلان" میں وہ قارئین سے نوک جھونک کے بہترین موڈ میں نظر آتے ہیں۔ اپنی اس کتاب کے پیشرس میں وہ ایک ایسے ہی صاحب کو، جو ان کے پچھلے ناول "ریشوں کی یلغار" سے کچھ مختلف قسم کی توقعات وابستہ کربیٹھے تھے، لال بجھکڑ قرار دیتے ہوئے ‘رجبان‘ کے بارھویں حجرے میں بند کردینے کی خواہش کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ (رجبان کے حجرے کا ذکر ریشوں کی یلغار میں ہے)۔ متذکرہ پیشرس کے ایک اور خط کے جواب میں انداز گفتگو ملاحظہ ہو:

" ایک مولوی صاحب کو ریشوں کی یلغار میں بھی عریانی نظر آئی ہے۔ غالبا" وہ یہ چاہتے ہیں کہ نروں کو ماداؤں کی خوشبو پر بے چین نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ڈی ڈی ٹی چھڑک کر بالکل ہی مار دیجیے کمبختوں کو۔"

ابن صفی جاسوسی دنیا کے 87 ویں ناول کو تحریر کرنے کے بعد اپنے اگلے ناول "پرنس وحشی" میں پڑھنے والوں کو اس وقت کے ماحول میں واپس لے جاتے ہیں جب فریدی انسپکٹر تھا اور حمید سارجنٹ۔ اس کے جواز میں وہ متذکرہ ناول کے پیشرس کا آغاز کچھ یوں کرتے ہیں:

"ایک بار کا ذکر ہے کہ انگریزی کے مشہور مصنف ایڈگر ویلس نے اپنے مداحوں کے ایک مجمع میں بڑے خلوص سے کہا۔ " پچاس ناول لکھنے کے بعد ہی مجھے ناول لکھنے کا سلیقہ ہوا ہے۔"

چھوٹتے ہی ایک صاحبزادی نے فرمایا " کاش ایسا نہ ہوا ہوتا! اب تو آپ بور کرنے لگے ہیں۔ شروع شروع کی کتابوں کا کیا کہنا۔ کاش آپ ماضی میں چھلانگ لگا سکیں۔"

نوجوان نسل کے مقبول شاعر امجد اسلام امجد کے سفرنامے ‘ریشم ریشم ‘کے آغاز ہی سے امجد کی ابن صفی سے عقیدت کا پتا چلتا ہے۔

ابن صفی نے اپنے ایک ناول "لاشوں کا آبشار" کے آخری چار صفحات میں ایک انتہائی حساس موضوع کو چھیڑا ہے۔ ناول کا ویلن مسٹر کیو کسی شخص کی ناجائز اولاد ہوتا ہے۔ وہ عدالت میں اپنا بیان دیتا ہے اور جو کچھ ابن صفی اس کردار کی زبانی کہ گئے ہیں وہ قابل غور ہے، لمحہ فکریہ ہے۔ ایک ایسا نازک و حساس موضوع ہے جس پر قلم اٹھانے کی اور اس خوبصورتی سے اٹھانے کی جرات بڑے بڑوں کو نہ ہوئی۔ مسٹر کیو کے دکھ کو تم اپنے دل میں محسوس کرو گے۔

ابن صفی پورے ہوگئے۔ سب کو مرنا ہے۔ کسی کو آج تو کسی کو کل مگر وہ اپنے پڑھنے والوں کے دل و دماغ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ جدید جاسوسی ادب کی تاریخ انہیں فراموش نہیں کرسکے گی اور اگر اس گناہ کی مرتکب ہوئی تو اس کا حشر بھی ان نقالوں کا سا ہوگا جو ان کے نام کے قافیے سے ملتے جلتے نام رکھ کر پڑھنے والوں کو دھوکا دیتے رہے تھے۔ جب انسانوں کی کوئی جماعت اللہ تعالی کے احکام اور اس کی اطاعت سے مسلسل روگردانی کرتی ہے تو آخر کار غیرت الہی جوش میں آجاتی ہے اور طرح طرح کے عذاب نازل ہوتے ہیں لیکن جس قوم کو سب سے بڑھ کر عبرتناک سزا دینا مطلوب ہوتا ہے، خدا تعالی اس کے چہرے کو مسخ کردیتا ہے اور ایسے لوگ اپنی شناخت گم کردیتے ہیں۔ ادب کے ان ٹھکیداروں کا چہرہ بھی مسخ ہوگیا ہے۔ ان کی شناخت گم ہوگئی ہے۔

فاعبتریا اولی الابصار (عبرت پکڑو اے عقل والو)

وہ ایک اداس صبح منہ لپیٹ کر رخصت ہوگئے۔ سب کو جانا ہے - کسی کو آج تو کسی کو کل۔ خلیل جبران نے کہا تھا کہ "روح تمہارے جسم میں ایک بربط کی مانند ہے، اب یہ تمہارے اوپر منحصر ہے کہ تم اس سے شیریں نغمے پیدا کرتے ہو یا بے ہنگم آوازیں۔"

ابن صفی نے اس بربط سے شیریں نغمے بکھیرے۔ ہنگم آوازیں بھی بازار میں دستیاب ہیں۔ ہر طرح کا مواد ہے۔ اب یہ نئے پڑھنے والے پر منحصر ہے کہ وہ کس کا انتخاب کرتا ہے۔

ابن صفی ہمارے درمیان سے اٹھ گئے، سب کو مرنا ہے، کسی کو آج تو کسی کو کل۔ وقفے وقفے کے ساتھ سب رخصت ہوجائیں گے۔ وہ ساری زندگی اپنی تحریروں کے ذریعے قانون کا احترام سکھاتا رہا۔ 1974 کے خونریز چشم دید فسادات نے اس کو ایسا کرے پر آمادہ کیا تھا کیونکہ وہ کہتا تھا کہ یہ افراتفری محض قانون کی دھجیاں اڑانے کی وجہ سے عمل پذیر ہوئی۔

آج حالات وہی رخ اختیار ہیں۔ قانون کی تذلیل ہر طرف دیکھنے میں آرہی ہے۔ فراق نے ایک بار کہا تھا کہ جو قوم چیخوں سے جگائی جاتی ہے، وہ جاگنے پر بھی وحشی رہتی ہے۔

میں ان لوگوں کے انتظار میں ہوں جو ابن صفی کو پڑھیں گے۔ اس کی باتیں مجھ سے کریں گے۔ اس کے پیغام کو سمجھیں گے۔ اس سے سبق حاصل کریں گے۔ میں ان کی راہ دیکھتا ہوں کہ جو ابھی ابن صفی سے ناواقف ہیں اور جنہیں کسی نہ کسی موڑ پر اس سے متعارف ہونا ہے۔

میں ان لوگوں کو دیکھ کر سکون محسوس کرنا چاہتا ہوں

وہ آرہے ہیں۔۔ وہ آگئے ہیں ۔۔ تم آگئے - تم نے بہر انتظار کرایا - میں راشد ہوں - اچھا اب میں چلتا ہوں

دسمبر 31، سن 2015

رات بہت سرد تھی لیکن گھر کا سنٹرل ہیٹنگ سسٹم اطمینان بخش کارکردگی کا مظاہرہ کررہا تھا۔ اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا ۔ شیشے پر بارش کی بوندیں لرز رہی تھیں۔

"ابھی بہت کام کرنا ہے" اس نے سوچا " اور ابھی تک آغاز بھی نہیں ہوا۔"

اسے امید تھی کہ وہ یہ ایک ہی نشست میں مکمل کرلے گا۔ اس کے لیے یہ بہت دلچسپ تھا۔ مضمون کا بنیادی خاکہ اس کے ذہن میں تھا۔ ۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔۔ "ابتدا کس طرح کروں"۔۔۔۔۔۔ قلم ہاتھ میں لے کر وہ کچھ دیر سوچتا رہا اور پھر کاغذ ہر جھک کر اس نے پہلا جملہ لکھا:

"جب مجھے ابن صفی سے محبت شروع ہوئی، انہیں انتقال کیے پورے 35 برس ہوچکے تھے۔"

2010/04/13

ابن صفی - پیدائشی ادیب :: ایچ اقبال

ابن صفی صاحب پیدائشی ادیب ہیں !
میرے بعض دوستوں کو اس بات سے انکار ہے اور میں اس پر صرف حیرت ہی کا اظہار کر سکتا ہوں۔ اس بات کا اعتراف تو مجنوں گورکھپوری جیسے نقاد نے بھی کیا ہے کہ :
ابن صفی صاحب کے جاسوسی ناولوں میں ادبی چاشنی بھی مل جاتی ہے۔
اگر ایسا نہ ہوتا تو پروفیسر ابوالخیر کشفی اور سرشار صدیقی جیسے علمی و ادبی ذوق رکھنے والے لوگ ان کے ناول ذوق و شوق سے ہرگز نہ پڑھتے۔

ابن صفی صاحب نے اپنے جاسوسی ناولوں میں زندگی کے جتنے اہم پہلوؤں پر قلم اٹھایا ہے شائد ہی کسی اور ادیب نے اٹھایا ہو۔ انہوں نے معاشرے کے رستے ہوئے ناسوروں کی طرف اشارہ کیا ہے اور سماج کے زہریلے کیڑوں کو الفاظ کا جنم دے کر لوگوں کے سامنے پیش کر دیا ہے کہ ۔۔۔۔ دیکھو ! عبرت حاصل کرو ۔۔۔ اور ان سے بچو !
کسی ادیب کا فرض اس سے زیادہ اور کیا ہوگا؟

ابن صفی صاحب نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا تھا۔ اسرار ناروی نے ہندوستان میں بڑی دھومیں مچائی تھیں۔ پھر وہ طنزنگاری کے میدان میں آ گئے۔ اور اس میدان کے شہسواروں میں ہلچل سی مچ گئی۔ کچھ زمانہ اسی میدان میں دوڑتے ہوئے گزرا۔ لیکن ابن صفی صاحب کی سیمابی فطرت نے انہیں اکسایا کہ کہیں اور چلئے۔ خود ابن صفی کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ اب کدھر کا رُخ کیا جائے؟
پھر ایک حادثہ ہوا۔ وہ جاسوسی ناول نگاری کے سمندر میں کود پڑے اور اس بحرِ اسرار کے بھی سب سے بڑے پیراک ثابت ہوئے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اسرار ناروی جیسے شاعر اور طغرل فرغان جیسے طنز نگار کے ناولوں میں ادبی چاشنی نہ ہو؟
بات ادبی چاشنی کی آ گئی ہے تو میں ابن صفی کی تحریر کا ایک نمونہ پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا۔ دیکھئے کہ لکھنے کا انداز کتنا منفرد اور کتنا رومانٹک ہے ۔۔۔ یہ چند سطریں "خونخوار لڑکیاں" سے لی جا رہی ہیں ۔۔۔۔۔

سلاخوں کے پیچھے لڑکی موجود تھی لیکن حمید اس کی شکل نہیں دیکھ سکا کیونکہ وہ گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھی اور پھر جیسے ہی اس نے سر اٹھایا حمید کی آنکھوں میں بجلی سی چمک گئی۔ پہلی نظر میں کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ کتنی حسین تھی۔ دوسری نظر بھی تفصیلی جائزے کے لیے ناکافی تھی اور تیسری نظر کو اتنا ہوش کہاں کہ وہ تفصیل میں جا سکتی۔ حمید اس کی اداس آنکھوں میں کھو گیا۔ اسے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے وہ کسی سنسان مقام پر کھڑا ہو۔ خاموشی سے پرواز کرنے والے پرندوں کی قطاریں افق کی سرخی میں لہرا رہی ہوں اور کسی پرسکون جھیل میں شفق کے رنگین لہرئیے آنکھ مچولی کھیل رہے ہوں ، لیکن ان سب پر ایک خواب آگیں سی اداسی مسلط ہو۔

ایسے ہی بےشمار ٹکڑے ابن صفی صاحب کے ناولوں میں بکھرے ہوئے ملتے ہیں۔ اگر انہیں یکجا کیا جائے تو سو سوا سو صفحے کی ایک کتاب ضرور بن جائے گی۔ بس ستم یہ ہوا کہ یہ ادب پارے جاسوسی ناولوں میں پیش کئے گئے ہیں اور جاسوسی ناولوں کو ہمارے یہاں صدقِ دل سے تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔

ابن صفی صاحب کی کراہ سنئے :
جو کہہ گئے وہی ٹھہرا ہمارا فن اسرار
جو کہہ نہ پائے نہ جانے وہ چیز کیا ہوتی

اور مجھے یقین ہے کہ وہ کوئی بہت ہی عجیب چیز ہوتی۔ کیونکہ میں نے خود بعض ادیبوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ ۔۔۔۔۔
اگر ابن صفی نے جاسوسی ناول نگاری نہ کی ہوتی اور صرف طغرل فرغان ہی بنا رہتا تو آج کرشن چندر جیسے لوگوں کی صف میں کھڑا نظر آتا !

ابن صفی صاحب کرشن چندر کی صف میں کھڑے ہو سکے یا نہیں ، اس بحث سے قطع نظر میں یہ ضرور کہوں گا کہ انہوں نے لوگوں کو اُردو بولنا اور پڑھنا سکھایا۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے ایک دفعہ ارشاد فرمایا تھا کہ :
اردو پر اس شخص کا بہت بڑا احسان ہے۔

اس احسان کو آج کے لوگ مانیں یا نہ مانیں ، اس احسان کرنے والے کی ادبی حیثیت کو آج کے لوگ تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن مستقبل کا مورخ جب اردو ادب کی تاریخ لکھے گا تو ابن صفی صاحب کو تسلیم کئے بغیر نہ رہ سکے گا !!

2010/04/01

ابن صفی - یاد رکھے گا زمانہ

تحریر: راشد اشرف
مارچ سن 2010

کہنے والے نے کہا تھا کہ اس بزم ہستی سے کچھ ایسی ہستیاں بھی اٹھ جائیں گی کہ جب زمانہ ان کی تلاش میں نکلے گا تو ڈھونڈتا رہ جائے گا۔ یہ ہستیاں جنہیں شاعر حاصل زیست قرار دیتا ہے، جب زمین سے اٹھ جاتے ہیں تو حساس دل رکھنے والے غم و الم کی اتھاہ گہرایوں میں یوں ڈوب جاتے ہیں کہ پھر تمام عمر قدم قدم پر انہیں بے طرح سے یاد کیا جاتا ہے۔ اکثر یہ اخباری ترکیب پڑھتے و سنتے ہیں کہ فلاں کے چلے جانے سے ایک خلا پیدا ہوگیا ہے جو اب کبھی پر نہیں ہوگا ۔ یہ جملہ ہر کس و ناکس کے بارے میں سنتے سنتے کان پک گئے ہیں۔ ہر ایرے غیرے کے بارے میں اس کے بے دھڑک و بیجا استعمال نے اس کی معنویت کو اس بری طرح تاراج کردیا ہے کہ اب تو اسے پڑھ کر کوفت ہونے لگتی ہے۔ یاروں نے تنگ آکر کہا کہ کسی کے مرنے پر جو خلا پیدا ہوتا ہے وہ چند محض گھنٹوں پر محیط ہوتا ہے اور جو خود مرنے والے کے مردہ جسم سے پُر ہوجاتا ہے --- رہے نام اللہ کا ---- ہاں مگر یہ بھی سچ ہے کہ چند شخصیات کے بارے، اس ترکیب کا استعمال اس طرح موزوں نظر آتا ہے گویا یہ جملہ ان ہی کے لیے تخلیق کیا گیا ہو۔ ایسے لوگوں کا نعم البدل ملنا ناممکن ہوتا ہے۔ ایسی ہی نادر روزگار شخصیات میں ایک شخصیت خود ساز‘ عہد ساز‘ روایت شکن‘ روایت ساز جناب اسرار احمد المعروف ابن صفی تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج 30 برس گزر جانے کے بعد بھی مجال ہے کہ کوئی ان جیسا لکھ سکے۔ بہتوں نے بڑا زور مارا لیکن گرد کو بھی نہ چھو سکے۔ صفی صاحب کا 60 برس پہلے کا ناول اٹھا کر پڑھ لیں، اسی طرح ترتازہ معلوم ہوگا۔ لوگوں نے اس تازگی کی مختلف توجیہات پیش کیں لیکن ہماری سمجھ میں تو یہ آتا ہے کہ جرائم کی جانب حضرت انسان کا جھکاؤ ازل سے تھا اور ابد تک رہے گا۔ خیر و شر کے درمیان جنگ بھی اسی طرح جاری و ساری رہے گی، ہاں مگر ابن صفی صاحب نے اپنی کتابوں کے ذریعے قانون کا جو احترام سکھایا ہے اور جس انداز میں سکھایا ہے اس منفرد اسلوب کو اب سے 60 برس بعد بھی وہی پذیرائی ملتی نظر آئے گی کہ جس کے وہ حقدار تھے اور ہمیشہ رہیں گے۔

یوں تو ہم نے ایشیا کے سری ادب کے عظیم مصنف جناب ابن صفی پر اردو و انگریزی میں کئی مضامین تحریر کیے ہیں جن میں صفی صاحب کے فن اور ان کی شخصیت پر سیر حاصل روشنی ڈالی گئی ہے لیکن آج یہاں صفی صاحب کے چاہنے والوں کے لیے صفی صاحب کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ یاد آرہا ہے جو ہمارے احباب کے درمیان ہماری لاج رکھنے کا سبب بنا

پُرانی صحبتیں یاد آ رہی ہیں
چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے

یہ بات ہے سن 2001 کی جب ہم بسلسلہ روزگار، ضلع مظفر گڑھ، پنجاب میں مقیم تھے۔ اس روز آفس کی چھٹی تھی اور چند احباب کے ہمراہ ملتان کی سڑکوں پر آوارہ گردی کے دوران جاسوسی ادب پر بحث چل نکلی تھی، ہر شخص اپنی اپنی رائے دے رہا تھا۔ کہنے کو تو ہر کسی نے ابن صفی کو کبھی نہ کبھی پڑھا تھا لیکن ہماری صفی صاحب سے عقیدت اور ان پر لکھے گئے مضمون کے دعوے کو للکار کر ہمارے عزیز دوست بشیر صاحب (حال مقیم سعودی عرب) تشکیک کا شکار تھے اور دوسروں کو بھی اپنا ہم نوا کرچکے تھے۔ اکثر بے تکلف دوستوں کے درمیان اپنے کسی ایک ساتھی کی "ٹانگ کھینچنے" کا عمل بڑی مہارت اور یکجائی کے ساتھ سرانجام پاتا ہے اور اس دن تختہ مشق ہم تھے۔

یہاں ایک ذرا بشیر صاحب کا تعارف کراتے چلیں۔ ان کا تعلق کوٹ ادو کے علاقے سے تھا۔ پیشے کے لحاظ سے انجینیر تھے۔ اصولوں پر شمجھوتا نہ کرتے ہوئے دو نوکریاں چھوڑ چکے تھے -- دل کے کھرے، کردار کے بے داغ، انتہائی ذودرنج، جلد روٹھنے اور اتنی ہی جلدی مان جانے والے - سانولی رنگت، سر پر سیہہ کی طرح لہرے دار اور کھڑے بال، لامبا قد۔ رخساروں پر اوپر کی طرف جہاں عموما" داڑھی کے بالوں کا نام و نشان نہیں ہوتا، بال بے طرح سے اُگ آتے تھے اور اکثر ہم بشیر صاحب کے ساتھ نائی کی دکان پر جایا کرتے تھے جہاں نائی ایک دھاگہ ہاتھ میں لے کر بےدردی سے فالتو بالوں کی فصل کُھرچا کرتا تھا۔ بشیر صاحب اس تمام عمل کے دوران شرمندہ شرمندہ سے نظر آتے۔ سچ پوچھیے تو اس سے پہلے یہ منظر ہم نے نہ دیکھا تھا اور ہم اس تمام عرصے میں کچھ کچھ عبرت لیے، حیرت و دلچسپی سے نائی کی بےرحمی اور بشیر صاحب کا صبر دیکھا کرتے تھے- ایک روز جب نائی ان پر اپنی مہارت آزما رہا تھا تو یکایک وہ عبرت ناک منظر دیکھتے ہوئے، ہم جھک کر آہستہ سے بشیر صاحب کے کان میں کہا "حضور، بس یہ خیال رکھیے گا کہ کہیں انسداد بے رحمی حیوانات والوں کو اس عمل کی بھنک نہ پڑنے پائے اور پھر نائی کو بشیر صاحب کو کچھ وقت دینا پڑا کہ ہنسی کا دورہ تھم جائے تو وہ اپنا کام دوبارہ شروع کرے ۔

قہقہہ لگانے میں بشیر صاحب یدطولی رکھتے تھے۔ ایسا فلک شگاف قہقہہ کہ آسمان تھرا اٹھے اور قہقہے کے بعد پھیلا ہوا ہاتھ کہ آپ جوابا" ہاتھ پر ہاتھ نہ ماریں تو اسے سخت بداخلاقی تصور کرتے تھے۔ اپنی حد درجہ صاف گوئی کی بنا پر لوگوں میں غیر مقبول تھے اور اسی بنا پر ہمارے کمرے میں روز رات کے کھانے کے بعد پھیرا لگانا ان کا معمول بن گیا تھا۔ گرمی ہو یا سردی، ان کے معمول میں کھبی فرق نہ آتا۔ ہفتے اور اتوار کو آفس کی چھٹی ہوتی تھی اور وہ ان دو دنوں کے لیے کوٹ ادو اپنے گھر چلے جایا کرتے تھے۔ سچ پوچھیے تو ان کا جانا ہم پر گراں گزرتا تھا کہ ہم حیررآباد سے 800 کلومیٹر دور وہاں بشیر صاحب کی ہمنشینی کے عادی ہوچلے تھے۔ ہمارے چند جملوں پر پھڑک پھڑک اٹھتے تھے۔ آپ سے کیا پردہ، ہم بھی تو اکثر مشتاق یوسفی صاحب کا ہی سہارا لیا کرتے تھے۔

" بشیر صاحب، یاد رکھیں، زبان سے نکلا ہوا تیر اور بڑھا ہوا پیٹ کبھی واپس نہیں آتے" - یہ ہم نے شام کی چہل قدمی کے دوران اس موقع پر کہا کہ جب بشیر صاحب حسب عادت کوئی بےلاگ تبصرہ کربیٹھے تھے، بس پھر کیا تھا، بشیر صاحب چلتے چلتے رک گئے اور قہقہے لگانے لگے۔ ایک روز کسی بات پر ہم نے کہا کہ "یاد رکھیے کہ بیوی سے عشقیہ گفتگو کرنا ایسا ہی ہے جیسے انسان وہاں خارش کرے جہاں نہ ہورہی ہو" وہ بے انتہا محظوظ ہوئے اور پھر ہم نے یہ جملہ ان کو موقع بے موقع دوہراتے اکثر دیکھا۔

ایک روز ہم نے ابن صفی صاحب کا جملہ چلادیا - بات ہورہی تھی ہمارے کسی عزیز کی اور بشیر صاحب کو وہ پیچیدہ رشتہ سمجھانا مشکل ہورہا تھا کہ اچانک ہم نے کہا " یار یوں سمجھ لیں کہ وہ ہمارے "دادا زاد" بھائی ہیں" ۔ بشیر صاحب کے حلق سے توپ کے گولے کی مانند ایک قہقہہ نکلا۔

تو یہ تھے ہمارے بشیر صاحب۔

بات ہورہی تھی ملتان کی۔ گفتگو ایک ایسے موڑ پر آٹھہری تھی کہ جہاں "عزت سادات" بچانا مشکل ہوچلا تھا۔ دوستوں نے استہزایہ لہجے میں یہ کہنا شروع کردیا کہ صرف باتیں ہی باتیں ہیں، اب گھر جانا تو ثبوت لانا کہ بولنے اور لکھنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ہم احباب کی لاف گزاف کے سامنے ہتھیار ڈال چکے تھے۔ دوستوں کا ٹولہ آہستگی سے قدم اٹھاتا چلا جارہا تھا کہ فرمائش ہوئی کہ چائے پی جائے۔ ایک چھوٹے سے ہوٹل کی جانب قدم اٹھ گئے۔ اند داخل ہونے سے پہلے بشیر صاحب نے باہر کھڑے پرانی کتابوں کے ایک ٹھیلے کو ٹٹولنا شروع کردیا، ہمارے لیے تو کتابیں اوائل عمری ہی سے باعث مسرت رہی ہیں۔ ٹھیلے کے ایک کونے میں پرانے ڈائجسٹ نظر آئے اور ہم نے یونہی ان کو یکے بعد دیگرے دیکھنا شروع کردیا۔ ارے یہ کیا، یہ تو کوئی جانا پہجانا سرورق جان پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگست سن 1995 کا نئے افق ۔۔۔۔۔۔۔ آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا ----- یا اللہ، یہ تو نے کیسی لاج رکھی۔ جی ہاں، مذکورہ شمارہ وہی تو تھا جس میں سات برس قبل ابن صفی صاحب پر ہمارا طویل مضمون "قلم کا قرض" شائع ہوا تھا جسے مشتاق احمد قریشی صاحب نے مذکورہ شمارے کے اولین مضمون کے طور پر شائع کیا تھا۔ "قلم کا قرض" کا مسودہ ہم بغل میں دابے، انتہائی نامساعد حالات کے اور گھر والوں کی مخالفت کے باوجود حیدرآباد سے کراچی، نئے افق کے دفتر میں دے کے آئے تھے۔ یہ مضمون جناب محمد حنیف کی ابن صفی صاحب پر بنائی آفیشل ویب سائٹ ابن صفی ڈاٹ انفو پر موجود ہے۔
بس پھر کیا تھا- ہم نے ایک فاتحانہ انداز میں رسالہ اٹھایا، ٹھیلے والے کے ہاتھ پر مُنہ مانگے پیسے رکھے اور بشیر صاحب کی طرف نظر دوڑائی۔ وہ کتابیں دیکھنے میں مصروف تھے۔

"ہاں تو جناب والا، آپ کو ثبوت چاہیے تھا، اب ذرا ملاحظہ فرمائیے" یہ کہہ کر ہم نے ان کی آنکھوں کے سامنے رسالہ لہرایا۔

ارے کیا ملتان کی گرمی میں دیوانے ہوگئے ہیں آپ" وہ بولے

"دیوانہ ہونے کی باری اب آپ کی ہے ---- حضور، ہم رہنے والے حیدرآباد کے اور یہاں شہر ملتان کے اس ٹھیلے پر بھی ہم موجود ہیں، اب اس سے بڑا کیا ثبوت دیں، یہ دیکھیے ہمارا ابن صفی پر مضمون، مصنف یہ ناچیز یعنی راشد اشرف

بشیر صاحب کو گویا سانپ سونگھ گیا

اتنے میں دیگر احباب بھی ہوٹل سے آدھمکے - ایک جھمگٹا سا لگ گیا۔ ہمارے محبوب مصنف پر لکھی تحریر کو باری باری سب دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔ ایسا لگا جیسے ابن صفی صاحب نے خود اس نازک موقع پر ہماری مدد کی ہو۔

بشیر صاحب نے پھر کبھی جاسوسی ادب اور ہماری ابن صفی سے عقیدت کو چیلنج نہیں کیا۔