2010/04/13

ابن صفی - پیدائشی ادیب :: ایچ اقبال

ابن صفی صاحب پیدائشی ادیب ہیں !
میرے بعض دوستوں کو اس بات سے انکار ہے اور میں اس پر صرف حیرت ہی کا اظہار کر سکتا ہوں۔ اس بات کا اعتراف تو مجنوں گورکھپوری جیسے نقاد نے بھی کیا ہے کہ :
ابن صفی صاحب کے جاسوسی ناولوں میں ادبی چاشنی بھی مل جاتی ہے۔
اگر ایسا نہ ہوتا تو پروفیسر ابوالخیر کشفی اور سرشار صدیقی جیسے علمی و ادبی ذوق رکھنے والے لوگ ان کے ناول ذوق و شوق سے ہرگز نہ پڑھتے۔

ابن صفی صاحب نے اپنے جاسوسی ناولوں میں زندگی کے جتنے اہم پہلوؤں پر قلم اٹھایا ہے شائد ہی کسی اور ادیب نے اٹھایا ہو۔ انہوں نے معاشرے کے رستے ہوئے ناسوروں کی طرف اشارہ کیا ہے اور سماج کے زہریلے کیڑوں کو الفاظ کا جنم دے کر لوگوں کے سامنے پیش کر دیا ہے کہ ۔۔۔۔ دیکھو ! عبرت حاصل کرو ۔۔۔ اور ان سے بچو !
کسی ادیب کا فرض اس سے زیادہ اور کیا ہوگا؟

ابن صفی صاحب نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا تھا۔ اسرار ناروی نے ہندوستان میں بڑی دھومیں مچائی تھیں۔ پھر وہ طنزنگاری کے میدان میں آ گئے۔ اور اس میدان کے شہسواروں میں ہلچل سی مچ گئی۔ کچھ زمانہ اسی میدان میں دوڑتے ہوئے گزرا۔ لیکن ابن صفی صاحب کی سیمابی فطرت نے انہیں اکسایا کہ کہیں اور چلئے۔ خود ابن صفی کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ اب کدھر کا رُخ کیا جائے؟
پھر ایک حادثہ ہوا۔ وہ جاسوسی ناول نگاری کے سمندر میں کود پڑے اور اس بحرِ اسرار کے بھی سب سے بڑے پیراک ثابت ہوئے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اسرار ناروی جیسے شاعر اور طغرل فرغان جیسے طنز نگار کے ناولوں میں ادبی چاشنی نہ ہو؟
بات ادبی چاشنی کی آ گئی ہے تو میں ابن صفی کی تحریر کا ایک نمونہ پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا۔ دیکھئے کہ لکھنے کا انداز کتنا منفرد اور کتنا رومانٹک ہے ۔۔۔ یہ چند سطریں "خونخوار لڑکیاں" سے لی جا رہی ہیں ۔۔۔۔۔

سلاخوں کے پیچھے لڑکی موجود تھی لیکن حمید اس کی شکل نہیں دیکھ سکا کیونکہ وہ گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھی اور پھر جیسے ہی اس نے سر اٹھایا حمید کی آنکھوں میں بجلی سی چمک گئی۔ پہلی نظر میں کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ کتنی حسین تھی۔ دوسری نظر بھی تفصیلی جائزے کے لیے ناکافی تھی اور تیسری نظر کو اتنا ہوش کہاں کہ وہ تفصیل میں جا سکتی۔ حمید اس کی اداس آنکھوں میں کھو گیا۔ اسے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے وہ کسی سنسان مقام پر کھڑا ہو۔ خاموشی سے پرواز کرنے والے پرندوں کی قطاریں افق کی سرخی میں لہرا رہی ہوں اور کسی پرسکون جھیل میں شفق کے رنگین لہرئیے آنکھ مچولی کھیل رہے ہوں ، لیکن ان سب پر ایک خواب آگیں سی اداسی مسلط ہو۔

ایسے ہی بےشمار ٹکڑے ابن صفی صاحب کے ناولوں میں بکھرے ہوئے ملتے ہیں۔ اگر انہیں یکجا کیا جائے تو سو سوا سو صفحے کی ایک کتاب ضرور بن جائے گی۔ بس ستم یہ ہوا کہ یہ ادب پارے جاسوسی ناولوں میں پیش کئے گئے ہیں اور جاسوسی ناولوں کو ہمارے یہاں صدقِ دل سے تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔

ابن صفی صاحب کی کراہ سنئے :
جو کہہ گئے وہی ٹھہرا ہمارا فن اسرار
جو کہہ نہ پائے نہ جانے وہ چیز کیا ہوتی

اور مجھے یقین ہے کہ وہ کوئی بہت ہی عجیب چیز ہوتی۔ کیونکہ میں نے خود بعض ادیبوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ ۔۔۔۔۔
اگر ابن صفی نے جاسوسی ناول نگاری نہ کی ہوتی اور صرف طغرل فرغان ہی بنا رہتا تو آج کرشن چندر جیسے لوگوں کی صف میں کھڑا نظر آتا !

ابن صفی صاحب کرشن چندر کی صف میں کھڑے ہو سکے یا نہیں ، اس بحث سے قطع نظر میں یہ ضرور کہوں گا کہ انہوں نے لوگوں کو اُردو بولنا اور پڑھنا سکھایا۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے ایک دفعہ ارشاد فرمایا تھا کہ :
اردو پر اس شخص کا بہت بڑا احسان ہے۔

اس احسان کو آج کے لوگ مانیں یا نہ مانیں ، اس احسان کرنے والے کی ادبی حیثیت کو آج کے لوگ تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن مستقبل کا مورخ جب اردو ادب کی تاریخ لکھے گا تو ابن صفی صاحب کو تسلیم کئے بغیر نہ رہ سکے گا !!

1 comment:

  1. سن 1972 میں لکھی گئی ایچ اقبال صاحب کی یہ تحریر بلاشبہ ابن صفی کے فن کے اعتراف میں ایک اہم درجہ رکھتی ہے

    ReplyDelete