2010/01/20

ابن صفی کے ناولوں سے کچھ انتخاب بمعہ تبصرہ

دوستو!
صفحہ مختصر ہے اور داستان طولانی ۔۔۔۔۔۔ باذوق بھائی کی حوصلہ افزائی کی بنا پر جناب ابن صفی کے ناولوں سے ‘کچھ انتخاب بمعہ تبصرہ‘ ہم یہاں شروع کررہے ہیں، یہ سلسلہ ہمیں امید ہے، صفی صاحب کے چاہنے والوں کو اپنی جانب ضرور متوجہ کرے گا...... گہرے یا بولڈ حروف میں درج عبارت صفی صاحب کے ناول سے لی گئی ہے جبکہ ابتدا میں سادہ حروف میں لکھی گئی رائے یا تہمید ہماری تک بندی ہے جسے آپ ایک طفل مکتب کی خوشہ چینی سمجھ کر برداشت کر لیجیے گا۔۔۔۔۔۔۔ آُپ کوئی حوالہ دینا چاہیں تو بسروچشم...... یہی سرخوشی و سرفرازی تو ایسے میں بھی زندہ و توانا رکھے ہوئے ہے......صفی صاحب سے لگاؤ کو ایک جگ پیت گیا۔ دوسرے جگ میں لازم نہیں ہے کہ موسم نہ بدلے، نیت اور ارادے کا صدق بھی کوئی چیز ہے اور سب سے بڑا کرشمہ تو شمولیت ہے، اسے شمولیت کہیے یا وابستگی، مگر پہلی شرط ہے۔ اس سے سونا کندن ہوتا ہے، اور سنا ہے، دیوانوں کو بخشش کا ایک گداز ہمیشہ ملتا ہے۔

خیر اندیش
راشد اشرف - جنوری 2010

(1)

جناب ابن صفی کے پیشرس سے ایک چشم کُشا اقتباس - دور ابتلا میں مبتلا عصر حاضر کے چاک گریبانوں و حرماں نصیبوں کو مصنف کا نیک مشورہ -- وہی سادہ اور دلنشیں انداز کہ جس کے لیے ہم سب صفی صاحب کے چاہنے والے سراپا رہن عشق ہیں:

"خالق کائنات، اشرف المخلوقات کو ہر آن سرگرم عمل دیکھنا چاہتا ہے اسی لیے انہیں یکسانیت کا شکار نہیں ہونے دیتا۔۔۔خوشی اور غم کے یہی وقفے ہمیں آگے بڑھتے رہنے کا حوصلہ بخشتے ہیں، کامرانی کی نئی منزلوں کی طرف ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔۔۔

غموں کو آہ و زاری کے سپرد کرنے کے بجائے مستقبل کی سوچو کہ دوبارہ غم پلٹ کر تمہاری طرف نہ آنے پائے۔۔۔ مسرت کو قہقہوں کا نوالہ نہ بناؤ بلکہ اس انرجی کو اس تگ و دو میں صرف کردو کہ وہ مسرت اب تم سے چھننے نہ پائے۔۔۔"


(2)

صفحہ مختصر ہے اور داستان طولانی۔۔۔۔۔۔۔ آج بھی قوم مجموعی طور پر مایوسی کا شکار ہے۔۔۔۔۔ 1972 میں لکھے گئے، دور حاضر سے لگا کھاتے، ابن صفی صاحب کے یہ الفاظ، ہر آن چوکنا رہنے کا سبق دیتے ہیں۔۔۔۔۔ کہاں لغزش، ایسی کونسی چوک ہورہی ہے کہ رفتہ رفتہ ہم وہاں جارہے ہیں جہاں سے واپسی کے لیے شاید کوئی خون کا دریا عبور کرنا پڑے۔۔۔۔۔۔۔ کیا شاعر کا ایک بار یہ کہنا کافی نہ تھا:

کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

"مایوسی کو پاس نہ پھٹکنے دیجیے۔ دنیا کی کئی قومیں اس وقت کڑے آزمائشی دور سے گزر رہی ہیں! ایسے حالات میں صرف ثابت قدمی اور قومی یک جہتی برقرار رکھنے کی کوشش ہی ہمیں سرخ رو کر سکتی ہے! دشمن ایک بار پھر ہماری صفوں میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرے گا! لہذا ہوشیار رہئیے! افواہوں پر کان نہ دھریے۔ قومی تعمیر نو میں پوری پوری ایمانداری سے حصہ لیجیے۔ اور اللہ سے دعا کرتے رہییے کہ وہ قوم کے معماروں کو فلاح کا راستہ دکھاتا رہے!

ایک بار پھر گذارش کروں گا کہ دشمن کے ایجنٹوں کی پیشانیوں پر ان کے آقا کی مہر نہیں ہوتی۔ وہ صرف گفتار اور کردار ہی سے پہجانے جاسکتے ہیں۔ مایوسی پھیلانے والوں پر کڑی نظر رکھیے!"


(3)

ابن صفی صاحب کو اکثر و بیشتر ایسے خطوط آتے تھے جن میں ان کے قارئین تازہ ناول پر بے لاگ تبصرہ کچھ اس طور سے کرڈالتے کہ گویا کہانی کا قاری کے سوچے ہوئے پسندیدہ انجام سے میل نہ کھانا بھی صفی صاحب ہی کا قصور ٹھہرا۔۔۔۔۔۔جاسوسی دنیا کے ایک ناول کے اس پیشرس میں ذرا دیکھیے تو سہی کہ صفی صاحب ایک موزوں و معقول جواب دینے کے بعد چٹکی لینے سے باز نہ آئے۔۔۔۔۔۔۔ٹنڈو آدمی کی نادر ترکیب پر ہم تو سر دُھنا ہی کیے، خود "ٹنڈو آدمی" صاحب بھی پھڑک اٹھے ہوں گے


“ٹنڈو آدم کے ایک ٹیلیفون آپریٹر کا خیال ہے کہ میرا پچھلا ناول آتشی بادل محض پکواس تھا! ان کی دانست میں ناول کا نام تو شاندار تھا لیکن اس کے اعتبار سے کہانی پھسپھسی ہے۔۔۔۔ ٹیلیفون آپریٹر نے سہہ رنگا شعلہ میں آتشی بادل کا اشتہار دیکھ کر اس کے بارے میں کچھ اس قسم کی کہانی خود بنائی ہوگی جہ آگ برساتا ہوا ایک بادل پورے شہر پر مسلط ہوگیا۔۔عمارتیں دھڑا دھڑ جلنے لگیں۔۔۔۔۔جب سب جل کر خاک ہوگیا تو عمران شورنالہ و بکا پر قہقہے لگاتا ہوا اپنی پناہ گاہ سے برآمد ہوا اور ہزاروں میل دعر کے پہاڑوں میں فروکش اس سائنٹسٹ کا ٹیٹوا جا دبایا جو ایک بہت بڑی مشین کے ذریعے آتشی بادل بنا بنا کر فضا کو سبلائی کررہا تھا!"
" یار ٹنڈو آدمی صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔خود ہی لکھ کر پڑھ لیا کرو"



(4)

یادش بخیر، صفی صاحب سے کسی نے 1979 میں پوچھا " اگر آپ زیرو لینڈ کے سلسلے کی آخری کتاب لکھنے سے پہلے ہی اللہ کو پیارے ہوگئے تو کیا ہوگا ?" صفی صاحب نے جواب دیا:
"بہت اچھا ہوگا، بھائی! میں زیرو لینڈ کی تلاش سے بچ جاؤں گا۔ ہرگز یہ نہیں کہہ سکتا کہ:

آئے ہے بے کسی عشق پہ رونا غالب
کس کے گھر جائے گا یہ سیلاب بلا میرے بعد

کسی کے بھی گھر جائے، میری بلا سے۔۔۔۔۔۔۔۔ میری زندگی ہی میں کتنوں نے زیرو لینڈ کو تلاش کرکے تباہ بھی کردیا۔ پھر اس سے کیا فرق پڑا کہ میرے آخری کتاب نہ لکھ بانے سے پڑ جائے گا


(5)

سن 1964 میں جاسوسی دنیا کے ایک ناول کے پیشرس میں ابن صفی صاحب نے اپنے ناولز کے انگریزی تراجم کا عندیہ دیا تھا۔ آج 46 برس بعد ان کی یہ خواہش پوری ہونے جارہی ہے۔

"ان صاحب سے ایک بار ضرور کہوں گا جنہوں نے مجھے انگریزی کے جاسوسی ناولوں کے تراجم پیش کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگر آپ ایسا کریں تو ہم تین کے بجائے تیس روپے میں وہ کتاب خریدیں گے۔

شکریہ جناب! لیکن صرف آپ ہی خرید سکیں گے، بقیہ پچاس پیسے فی سیر کے حساب سے فروخت کرنی پڑیں گی۔ تراجم کا حشر آئے دن پیش نظر رہتا ہے اور پھر میں کیوں کروں انگریزی ناولوں کا ترجمہ! کیوں نہ میرے ہی ناولوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا جائے۔ شاید جلد ہی آپ میرے ناولوں کے انگلش ایڈیشن بھی دیکھ سکیں


(6)

یوں تو ابن صفی صاحب نے اپنے نقالوں کا نذکرہ دلچسپ پیرائے میں ڈیڑھ متوالے میں کیا تھا لیکن جاسوسی دنیا کے ایک ناول کے پیشرس میں وہ ایک مرتبہ پھر اس بارے میں گویا ہوئے۔

"ابھی حال ہی میں میرے ایک معزز ہمدرد نے مجھے مشورہ دیا ہے کہ میں کبھی کبھی ایک آدھ ناول اپنے لیے بھی لکھ لیا کروں، صرف ‘پبلک کے بے حد اصرار‘ ہی کا شکار ہو کر نہ رہ جاؤں۔ میرے لیے یہ مشورہ بہت وقیع ہے..... ویسے بھی ‘طلسم ہوشربا‘ قسم کی کہانیاں لکھنے میں میرا جی نہیں لگتا۔ اور یقین کیجیے میں وہی لکھوں گا جو میرا جی چاہے گا...پہلے بھی کبھی کسی کا مشورہ قبول کیے بغیر لکھتا رہا ہوں۔ لیکن آخر آپ یہ کیوں چاہتے ہیں کہ ہیں ویسی ہی کہانیاں لکھتا رہوں جیسی پہلے لکھ چکا ہوں۔۔۔ اب بھی جو کچھ لکھ رہا ہوں اگر اس میں نیا پن نہ ہو تو مجھے گولی مار دیجیے! اور اپنے ذوق کی تسکین کے لیے دوسروں کو پڑھیے۔ اب میں اکیلا تو نہیں۔۔۔۔ میرے بےشُمار "ناتحقیق بھائی" منظر عام پر آگئے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ وہ بھی "صفی" ہی کی چھاؤں میں پناہ لیتے ہوں۔


(7)
ابن صفی صاحب نے اپنے جاسوسی ناولوں میں زندگی کے جتنے اہم پہلوؤں پر قلم اٹھایا ہے، شاید ہی کسی اور ادیب نے اٹھایا ہو۔ انھوں نے معاشرے کے رستے ہوئے ناسوروں کی طرف اشارہ کیا ہے اور سماج کے زہریلے کیڑوں کو الفاظ کا جسم دے کر لوگوں کے سامنے پیش کردیا ہے کہ دیکھو! عبرت حاصل کرو......اور ان سے بجو! کسی ادیب کا فرض اس سے زیادہ اور کیا ہوگا۔
گرچہ ان کی تحریروں نے سماج میں باوقار رجحان کے ارتقا میں اہم کردار ادا کیا لیکن ابن صفی صاحب، اردو ادب میں مقام حاصل کرنے کی مسابقت سے ہمیشہ کوسوں دور رہے تھے


"ہمیشہ زندہ رہنے والے ادب میں ایک کہانی کا مزید اضافہ ہوا۔ یہ ادب ہمیشہ اس لیے زندہ رہتا ہے کہ اس کا براہ راست تعلق تجسس کی جبلت سے ہے جو مرتے دم تک زندہ رہتی ہے۔ آدمی اس وقت بھی متجسس ریا ہے جب وہ غریب اپنی اس جبلت کو کوئی مخصوص نام دینے کا سلیقہ نہیں رکھتا تھا۔ اگر میں غلط نہیں کہہ رہا ہوں تو وہ پروفیسر صاحبان ہی اس کی تصدیق کردیں جو چھپا چھپا کر جاسوسی ناول پڑھا کرتے ہیں، لیکن اگر کسی نشست میں کسی کی زبان پر جاسوسی ناولوں کا نذکرہ بھی آجائے تو اس طرح ناک بھوں سکوڑتے ہیں جیسے اس نے خواتین کے مجمع میں مغلظات شروع کردی ہوں۔ ادب کی زندگی یا موت کا پیمانہ آدمی ہے لہذا آدمی کی مختلف قسم کی صلاحیتوں کے انحطاط کے ساتھ ہی مختلف قسم کے ادب کا بھی تیا پانجہ ہوتا رہتا ہے۔ بہتریے لوگوں کو جوانی کی بداعمالیوں کی یہ سزا ملتی ہے کہ وہ بڑھاپے میں صوفی ہو جاتے ہیں۔

تجسس کی جبلت مرتے دم تک قائم رہتی ہے، کچھ نہیں تو مرنے والا یہی سوچنے لگتا ہے کہ دیکھیں اب دم نکلنے کے بعد کیا ہوتا ہے، اس لیے اس جبلت کی تسکین فراہم کرنے والا ادب بھی ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔


(8)
ابن صفی صاحب کی ادبی حیثیت و مقام کی بات آج تک کی جاتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اردو ادب میں ان کو جو مقام ادب کے نام نہاد ٹھیکیدار نہ دے پائے وہ ابن صفی کے لاکھوں مداحوں نے صفی صاحب کو اپنے دل میں بسا کر دیا۔ درحقیقت، صفی صاحب تمام عمر ادب سے زیادہ، ‘اردو‘ کی خدمت کرتے رہے.......جاسوسی دنیا کے ناولز کے پیشرس سے یہ اقتباسات ہمارے ہردلعزیز مصنف کی درویش صفت طبیعت کا عکاس ہیں۔

part-1
اس بار ایک صاحب نے اپنی دلچسپ خواہش کا اظہار کیا ہے۔۔ فرماتے ہیں: " آپ جب اتنا اچھا لکھ سکتے ہیں تو ادبی انعام کے لیے کوشش کیوں نہیں کرتے۔ خاص طور پر ایک ناول اس کے لیے بھی لکھیے۔ میرا دعوی ہے کہ آپ کامیاب رہیں گے"
جناب عالی! میرا سب سے بڑا انعام یہی ہے کہ آپ میری کتابیں پسند کرتے ہیں۔، انہیں حرف بحرف اس طرح پڑھتے ہیں کہ بعض عبارتیں ازبر ہوجاتی ہیں اور آپ بےتکان ان کے حوالے اپنے خطوط میں دیتے ہیں۔ اور مجھے متعدد کتابیں اُلٹنی پڑتی ہیں کہ میں نے یہ چیز کب اور کہاں لکھی تھی۔ ویسے ایک بات ہے کہ آُپ کسی ‘پبلک چونی فنڈ‘ سے کوئی ایسا ادارہ قائم کیجیے جو اچھی ادبی تخلیقات پر انعام دے سکے تو میں اس کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دوں گا کیونکہ اس کی نوعیت قومی ہوگی لیکن شخصی انعام کا تصور بھی میرے لیے توہین آمیز ہے۔"


part-2
اساطیری کہانیوں سے لے کر مجھ حقیر کی کہانیوں تک آپ کو ایک بھی ایسی کہانی نہ ملے گی جس میں جرائم نہ ہوں......اور آج بھی آپ جسے بہت اونچے قسم کے ادب کا درجہ دیتے ہیں اور جس کا ترجمہ دنیا کی دوسری زبانوں میں بھی آئے دن ہوتا رہتا کیا جرائم کے تذکروں سے پاک ہوتا ہے? کیا اس کے مضرت رساں پہلوؤں پر ہمارے نقاد کی نظر پڑتی ہے ? اگر نہیں....تو کیوں ? اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے لوگ کہانیوں میں بھی (جو دراصل ذہنی فرار کا ذریعہ ہوتی ہیں) پولیس یا جاسوس کا وجود نہیں برداشت کرسکتے۔ چلیے پولیس کو اس لیے برداشت کر لیں گے کہ وہ للکار کے سامنے آتی ہے لیکن جاسوس تو بےخبری میں پتہ نہیں کب گردن دبوچ لے۔۔ لہذا اگر مجھے ادب میں کوئی مقام پانے کی خواہش ہے تو جاسوس کو چھٹی دینی پڑے گی۔۔ لیکن میں اس پر تیار نہیں کیونکہ مجھے ہر حال میں شر پر خیر کی فتح کا پرچم لہرانا ہے۔۔ میں باطل کو حق کے سامنے سربلند نہیں دکھانا چاہتا۔ میں معاشرے میں مایوسی نہیں پھیلانا چاہتا...... ایسی مایوسی جو غلط راستوں پر لے جائے۔

part-3
"اس خیال کو دل سے نکال دیجیے کہ میں اپنے ہی جیسے کسی انسان سے انعام کا خواہاں ہوں، اس کا تصور بھی مجھے احساس کمتری کے گڑھے میں دھکیل دے گا۔ میرے لیے میرے اللہ کا یہی انعام کافی ہے کہ کتاب فروش میری کتابوں کو کرنسی نوٹ کہتے ہیں۔"

part-4
جب کوئی میرا ناول بہت پسند کیا جاتا ہے تو مجھ سے ‘ادب‘ کی خدمت کی فرمائش کی جاتی ہے۔ بھائی، آپ تو صرف مجھے اردو کی خدمت کرنے دیجیے (اس کے باوجود کہ صرف ونحو کی غلطیاں مجھ سے بھی سرزد ہوتی ہوں گی)۔ آپ اس وقت میری خوشی کا اندازہ نہیں لگاسکتے جب مجھے کسی سندھی یا بنگالی بھائی کا خط بہ ایں مضمون ملتا ہے کہ محض آپ کی کتابیں پڑھنے کے شوق کی وجہ سے اردو پڑھ رہا ہوں۔ پڑھ کر سنانے والوں کا احسان کہاں تک لیا جائے۔۔۔۔ اب بتائیے میں ادب کی خدمت کروں یا میرے لیے ‘اردو ہی کی خدمت‘ مناسب رہے گی۔ ویسے اپنے نظریات کے مطابق ادب کی بھی خدمت کررہا ہوں، سوسائٹی کی بھی اور میری اس خدمت کا انداز نہ تو بدلتے ہوئے حالات سے متاثر ہوتا ہے اور وقتی مصلحتوں کے تحت کوئی دوسری شکل اختیار کرسکتا ہے۔۔ بہرحال میں قانون کا احترام کرنا سکھاتا ہوں۔"