ستارہ جو غروب ہو گیا
۔ ۔ ۔ روشنی جو باقی رہے گی
۔۔۔ پروفیسر مجاور حسین رضوی
ایک اک کر کے ستاروں کی طرح ٹوٹ گئے
ہائے کیا لوگ مرے حلقہ ء احباب میں تھے
ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ماہ وسال کی گردشیں تھم گئی ہیں ۔ ماضی نے اپنے چہرے سے نقاب الٹ دی ہے اور یادوں کا کارواں آج سے ٹھیک 33 سال پہلے اگسٹ 1947ء پر آ کر ٹھہر گیا ہے۔
الہ آباد یونیورسٹی کے بی اے سال اول کے درجہ میں ڈاکٹر حفیظ سید اردو پڑھا رہے تھے۔ میں اگلی نشستوں پر بیٹھا ہوا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ میں چھڑی تھی۔ اس پر بائیں ہاتھ کو سہارا دئیے ہوئے وہ ٹھہر ٹھہر کر بولتے تھے۔ ان کے سر پر چاروں طرف حاشیہ کی طرح بالوں کے گچھے رہتے تھے۔ درمیانی حصہ بالکل صاف تھا۔ پیچھے گردن پر بال بے ترتیبی سے پڑے رہتے تھے جوش تقریر میں کبھی کبھی چھڑی اٹھا کر ہوا میں لہراتے تھے ۔
اچانک مرے پاس بیٹھے ہوئے ایک طالب علم نے ٹھوکر دے کر کہا:
’’ذرا دیکھئے۔ ہمارے ’سر‘ کے پیچھے داڑھی ہے‘‘
جملہ اتنے زور سے کہا گیا تھا کہ میں تو چونکا ہی، کلاس میں بھی قہقہے گونجنے لگے۔
ڈاکٹر صاحب نے جب باز پرس کی تو بڑی معصومیت سے اس طالب علم نے کہا۔ ’’میں نے اپنے لئے یہ بات کہی تھی‘‘ ۔
بعد میں معلوم ہوا کہ ان صاحب کا نام اسرار احمد ہے اور میرے محلے ہی میں رہتے ہیں ۔ اس روز کے بعد سے نسبتاً بے تکلفی بڑھی۔ بہت خوش گلو تھے اس لئے اکثر احباب کی محفل میں ان سے جذبی، مجاز اور اقبال کی غزلیں ترنم سے سنی جایا کرتی تھیں ۔ جنوری 48ء میں گاندھی جی کا حادثہ ہوا۔
میں اس زمانے میں الہ آباد کے ایک سہ روزہ اخبار ’’نیا دور‘‘ میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ اس کا ’’گاندھی نمبر‘‘ نکلنا تھا۔ صبح صبح دفتر جا رہا تھا۔ اسرار صاحب نے راستے میں مل کر ایک نظم دی اور بغیر پڑھے ہوئے میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اسے شائع نہیں کرنا ہے۔ اسے ردی کی ٹوکری میں ڈالنے سے پہلے یوں ہی سرسری طور پر نظر ڈالی تو ٹھٹھک کر رہ گیا۔ نظم کتابت کے لئے دے دی۔ لیکن شام کو ان سے بڑی سنجیدگی سے کہا۔ ’’اسرار صاحب وہ نظم اشاعت کے لئے دے دی گئی۔‘‘
کہنے لگے ’’شکریہ‘‘ ۔
میں نے کہا ’’سمجھ لیجئے جس کی نظم ہوگی وہ مجھے اور آپ کو قبر تک نہ چھوڑے گا‘‘
بولے ’’کیا مطلب ۔ ؟ ‘‘ تیوریاں چڑھ گئیں ۔
میں نے کہا ’’مطلب یہ کہ کیا وہ آپ ہی کی ہے؟‘‘
بولے ’’پھر کس کی ہے؟‘‘
میں نے کہا ’’چرائی ہے‘‘
بولے ’’ ثابت کر دیجئے تو پانچ روپیے حاضر کروں گا۔‘‘
میں نے ایک شعر سناکر کہا ’’یہ تو آپ کا نہیں ہے۔ یہ تو جوش یا فراق کا معلوم ہوتا ہے‘‘۔
بولے ’’دکھا دیجئے۔ شاعری ترک کر دوں گا‘‘۔
وہ شعر یہ تھا۔
لویں اداس، چراغوں پہ سوگ طاری ہے
یہ رات آج کی انسانیت پہ بھاری ہے
مگر میں جوش یا فراق یا کسی اور کے دیوان میں یہ شعر کہاں سے دکھاتا۔ اب ان کی حیثیت ہمارے حلقے میں اک شاعر کی تھی، ایسا شاعر جو فراق، سلام مچھلی شہری اور وامق جونپوری کے سامنے بیٹھ کر نظمیں سناتا تھا اور لوگ حیرت زدہ رہ جاتے تھے۔ اس زمانے میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ سولہ برس کے تھے تو 42ء میں ایک نظم لکھی تھی ۔
للہ نہ روکو جانے دو ۔
مجھے یہ نظم زبانی یاد تھی مگر سمجھتا تھا کہ شمیم کرہانی کی ہے۔
وہ نظم بھی اشاعت کے لئے دے دی گئی۔ مگر کسی نے بھی دعویٰ نہ کیا اور اسرار صاحب ہی اس نظم کے خالق قرار پائے۔ مزے کی بات یہ تھی کہ وہ ایسے موضوعات منتخب کرتے تھے جن پر کسی نے قلم نہیں اٹھایا تھا۔
’مرگھٹ کا پیپل‘ ،
’بانسری کی آواز‘ ،
’سنگتراش نے کہا ‘،
’خوف کا میخانہ‘
وغیرہ۔
اس زمانے کے دو تین شعر یاد آ گئے۔
دکھائی دی تھی جہاں پر گناہ کی منزل
وہیں ہوئی تھی دل ناصبور کی تکمیل
بس اتنا یاد ہے اسرار وقت مئے نوشی
کسی کی یاد بھی آئی تھی دل کو سمجھانے
جو کہہ سکے وہی ٹھیرا ہمارا فن اسرار
جو کہہ نہ پائے نہ جانے وہ چیز کیا ہوتی
شاعر کی حیثیت سے تیغ الہ آبادی (مصطفےٰ زیدی ) اور راہی معصوم رضا دونوں ہی ان کے معترف تھے۔
اسی زمانے میں ماہنامہ ’نکہت‘ کا آغاز ہوا تھا۔ صبح سے شام تک بڑی دلچسپ صحبتیں رہتی تھیں ۔ جس میں حسین حیدر صاحب مرحوم کی حیثیت صدر نشین کی ہوا کرتی تھی۔ حالانکہ وہ ہم سب کے بزرگ تھے اور برادر محترم عباس حسینی صاحب کے والد۔ مگر ہم سب لوگوں کے ادبی مشاغل میں بڑے انہماک و دلچسپی سے شامل ہوتے تھے۔
اسرار صاحب نے ’ٹماٹر ازم‘ کے عنوان سے ایک طنزیہ سنایا۔ بہت پسند کیا گیا اور ’’طغرل فرغان‘‘ نام تجویز ہوا۔
پھر نکہت میں وہ ’طغرل فرغان‘ اور ’’عقرب بہارستانی‘‘ کے نام سے طنزیہ مضامین بھی لکھنے لگے۔
الہ آباد سے ایک روزنامہ ’نوائے ہند‘ نکلتا تھا۔ اس میں بھی ’’طغرل فرغان‘‘ کے نام سے مزاحیہ کالم لکھا کرتے تھے۔ طنز و مزاح لکھنے والوں میں ابراہیم جلیس کے بہت مداح تھے اور شفیق الرحمان کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔
کہتے تھے ’’لیکاک کی مسلّم فنٹیسی پر ہاتھ صاف کر دیتا ہے۔‘‘
اب شاعری پس پشت چلی گئی۔ اسرار احمد جو نارہ ضلع الہ آباد کے رہنے والے تھے اور اس لحاظ سے اپنے کو اسرار ناروی لکھا کرتے تھے، طغرل فرغان ہو گئے۔
’نکہت‘ اور ’نوائے ہند‘ کو ملا کر سو کے لگ بھگ طنزیہ مضامین لکھے 51ء تک یہی کیفیت رہی۔
ایک روز انہوں نے ایک کہانی سنائی جسے سن کر بہت غصہ آیا اس لئے کہ وہ بہت فحش تھی۔ سناتے جاتے تھے اور غصہ بڑھتا جاتا تھا۔ لیکن کہانی کے اختتام نے منھ پیٹنے پر مجبور کر دیا۔ اس لئے کہ کہانی کا مرکزی کردار جسے ہم سب عورت سمجھ رہے تھے وہ ایک پالتو بلی ثابت ہوئی۔
ذہن میں ایک خیال آیا اور سکسٹن بلیک کی طرز پر اردو میں ایک جاسوسی ماہنامے کا منصوبہ تیار ہونے لگا۔ اس منصوبہ بندی میں بھیا (عباس حسینی)، جمال صاحب (شکیل جمالی) راہی (معصوم رضا) اور حسن حیدر صاحب بھی شامل تھے۔ ان کا خیال تھا کہ راہی بہت اچھی جاسوسی کہانیاں لکھ سکتے ہیں ۔ اس لئے کہ ہم لوگوں کے مقابلے میں وہ گارڈنر، پیٹر شینے، ایڈگرویلس، اگاتھا کر سٹی وغیرہ کو بہت زیادہ پڑھا کرتے تھے۔ بڑی برق رفتاری کے ساتھ پڑھتے تھے اور لکھتے بھی تھے۔ لیکن راہی کو نظر انداز کر کے میں نے وکٹر گن کا ایک ناول منتخب کیا کہ اسی کو بنیاد بناکر ایک کہانی لکھی جائے۔
یہ کام اسرار احمد کے سپرد ہوا۔
انہوں نے ایک ہفتہ میں ناول مکمل کرکے حوالے کردیا اور اسے پڑھنے کے بعد راہی نے بھی جاسوسی ناول لکھنے کا خیال ترک کردیا۔
جنوری 53ء میں ناول نگار کا نام ابن صفی منتخب ہوا کہ اسرار صاحب کے والد کا نام صفی اللہ تھا اور اسی مہینہ میں جاسوسی دنیا کے پہلے شمارہ کی حیثیت سے یہ ناول شائع ہوا۔
اس ناول کا نام تھا۔ ’’دلیر مجرم‘‘-
جس میں پہلی بار انسپکٹر فریدی اور سرجنٹ حمید روشناس کرائے گئے تھے۔
ایک ناول اور جو ’’پہاڑوں کی ملکہ‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا، رائیڈر ہیگرڈ کے ناول ’’کنگ سالون مانےئر‘‘ سے مستعار تھا۔
اس کے علاوہ انہوں نے تقریباً ڈھائی سو ناول لکھے۔ جو ان کے طبع زاو ناول تھے۔
ان ناولوں کی مقبولیت کے بارے میں کچھ لکھنا عبث ہے۔ صرف اتنا ہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ ان کی فروخت اردو اور ہندی کے کسی ناول نگار کے ناولوں کے مقابلے میں بلاخوف تردید سب سے زیادہ تھی اور اس کا راز ان کا منفرد طرز تحریر تھا۔
تجسس اور پراسرار واقعات سے بھرپور کہانیوں میں طنز کی شگفتگی اور مزاح کی چاشنی ایک سحرکارانہ کیفیت پیدا کردیتی تھی۔ کسی بھی زبان میں لکھے گئے جاسوسی ناول پڑھئیے، یہ انداز تحریر نہیں ملے گا اور پھر ان سب پر مستزاد ایک باوزن باوقار دلکش زبان، واقعات میں نصیحت کا کہیں شائبہ نہیں ۔ نہ جانے کتنے لوگوں نے ان کے ناولوں کے ذریعہ اردو سیکھی، اردو پڑھنے کا ذوق حاصل کیا۔
ہندی میں ان کے ناولوں کا ترجمہ شائع ہوتا تھا۔ ابھی تقریباً ستر پچھتر ناول ایسے ہیں جو ہندی میں شائع نہیں ہوئے۔
وہ ہندی میں بھی اتنے ہی مقبول تھے جتنے اردو میں ،البتہ ہندی میں ان کے دو کرداروں کے صرف نام بدلے ہوئے تھے۔ یعنی فریدی کی جگہ ونود اور عمران کی جگہ راجیش۔
حمید اور قاسم اپنے اصلی ناموں کے ساتھ ہی ہندی میں بھی ملتے ہیں ۔ یوں تو طلسم ہو شربا کی طرح انہوں نے بے شمار کردار خلق کئے اور وہ سب اپنے محدود دائرے میں ذہن پر دیر پا اثرات چھوڑتے ہیں ۔
لیکن حمید ان کا ایسا شاہکار کردار ہے جو فسانہ آزاد کے خوجی اور طلسم ہوشربا کے عمر عیار کی طرح ادب میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔
یہ درست نہیں کہ ادبی حلقوں نے انہیں نظرانداز کیا۔
اردو میں آزادی کے بعد لکھے جانے والے ناولوں کے دور پر بہت کم لکھا گیا ہے پھر بھی ڈاکٹر اعجاز حسین نے ’’اردو ادب آزادی کے بعد‘‘ اور ڈاکٹر علی حیدر نے ’’اردو ناول سمت و رفتار‘‘ میں ان کا ذکر کیا ہے۔
پاکستان سے بیشتر نکلنے والے ناول نمبر یا ناولوں کے جائزے ان کے تذکرے سے خالی نہیں ہیں ۔
ان کی ادبی حیثیت اپنے منفرد اسلوب اور اپنی کردار نگاری کی بناء پر مسلم ہے ۔
اگر انگریزی ادب کانن ڈائل اور اگا تھا کرسٹی کو ادب عالیہ کی کرسی عطا کرسکتا ہے تو اردو میں یہ جگہ صرف ابن صفی کے لئے مخصوص ہے۔
یوں تو ان کا ہر ناول بہت مشہور ہوا لیکن ان میں کچھ ایسے ہیں جو ہر جہت سے اس طرز کے بہت اچھے ناولوں کی صف میں عالمی ادب میں جگہ پانے کے مستحق ہیں ۔
ان میں ۔۔۔۔۔۔
دشمنوں کا شہر، لاشوں کا آبشار، خوفناک ہنگامہ، شعلوں کا تاچ، پتھر کی چیخ، سائے کی لاش وغیرہ
بہت اہم اوراچھے موضوعاتی ناول ہیں ۔
یہ درست ہے کہ ان کے یہاں واقعات کی رفتار پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ پورے منظر، پس منظر و پیش منظر کی تصویرکشی پر نہیں ۔ لیکن ان کا شاعرانہ مزاج ان کا طنزسے بھرا ہوا نکیلا قلم کہیں کہیں عصری حسیت کو بھی اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔ ان پر بہت کچھ لکھنے کی گنجائش ہے اور اگر موقع ملا تو ادارہ جاسوسی دنیا کی طرف سے شائع ہونے والے ابن صفی نمبر میں ان پر تفصیل سے لکھنے کی کوشش کی جائے گی۔
اسرار صاحب نارہ کے رہنے والے تھے اور کائستھ نژاد مسلم تھے اور بڑے فخر سے کہا کرتے تھے کہ تم لوگ اتفاقی مسلمان ہو۔ ہم لوگ اختیاری مسلمان ہیں ۔ ہمارے آباد اجداد نے سوچ سمجھ کر اسلام قبول کیا۔ ان کی والدہ دیوبندی عقائد رکھتی تھیں اور والد بریلوی مسلک کے ماننے والے تھے اور ان کے حلقۂ احباب میں زیادہ تر اثنائے عشری۔
لیکن وہ بذات خود صرف مسلمان تھے۔
اور ان کی یہ خصوصیت ایسی تھی جس کی بناء پر ہر شخص بلالحاظ عقیدہ ان کی عزت کرنے پر مجبور تھا۔ محلے میں ان کی حیثیت ’’امین‘‘ کی تھی ۔ لوگ اپنی امانتیں رکھاتے تھے اور پھر لے جاتے تھے۔
ایک بار ایک صاحب نے ایک چھوٹا سا صندوقچہ رکھا۔ میرے سامنے ہی واپس لینے آئے۔ اس پر گرد جمی ہوئی تھی۔اسی عالم میں ان کا صندوقچہ انہیں واپس ملا۔
میں نے کہا ’’گرد تو صاف کردی ہوتی‘‘
بولے ’’غور ہی نہیں کیا۔ اور پھر ایک ذرہ بھی اگر کم ہو تو وہ امانت میں خیانت ہے‘‘۔
الہ آباد میں وہ مجیدیہ اسلامیہ کالج اور یادگار حسینی ہائر سکنڈری اسکول (جو اب کالج ہے) میں مدرس تھے اور بہت کامیاب۔ ان کے شاگردوں میں اجمل اجملی بہت مشہور ہوئے۔ الہ آباد میں پانچ سال ان کا ساتھ رہا۔ ان کے والد صاحب پاکستان ہی میں تقسیم سے قبل سے ملازم تھے۔
اسرار اگسٹ 52ء میں اپنی والدہ اور اپنی ہمشیرہ کے ہمراہ کراچی چلے گئے۔ الہ آباد کے دوران قیام ہی ایک شادی ہوئی لیکن سال بھر بعد ہی ان کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا۔ ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
52ء سے 60ء تک ہم لوگ ایک دوسرے سے دور رہے۔ صرف خط و کتابت ہی کا سہارا تھا۔ ہر ہفتہ انتہائی پابندی سے خط موصول ہوتا تھا۔ خط اتنے دلچسپ ہوا کرتے تھے کہ پڑھنے میں ناول کا مزہ آتا تھا۔
میں 60ء میں پاکستان گیا۔ میرے سامنے ہی وہ بیمار ہوئے اور یہ سلسلہ 63ء تک چلا۔ 61ء میں پھر میں پاکستان گیا اور ان سے ملا تھا۔ پچھلے 19 سال سے انہیں نہیں دیکھا۔
مگر ایک لمحہ کے لئے بھی یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ ہم دونوں کے درمیان کوئی فاصلہ ہے۔ وہ وسیع حلقہ احباب کے قائل نہ تھے اور بے تکلفی کی حد تک بھیا ،جمال صاحب، راقم الحروف اور راہی کے علاوہ کوئی بھی ان کا ’’یار‘‘ نہ تھا۔
عام لوگوں کی نظر میں وہ بہت خاموش آدمی تھے۔ بلاضرورت بات نہیں کرتے تھے اور دیکھنے والا بڑا معمولی تاثر لے کر اٹھتا تھا۔ ان کی شخصیت ملنے والے کو کشمکش میں مبتلا کردیتی تھی۔ سانولا رنگ، کشادہ پیشانی، روشن چمکتی ہوئی آنکھیں ،ابھرے ہوئے ہونٹ، بیضاوی چہرہ، لیکن وہ اپنے کردار عمران کی طرح اپنے چہرے پر حماقت طاری کرلیا کرتے تھے اور جب ملنے والا چلا جایا کرتا تھا تو یہ سوچ کر مزہ لیا کرتے تھے کہ ان کے بارے میں کیا رائے قائم کی ہو گی۔
لیکن اپنے بے تکلف احباب کے لئے وہ زندگی کا ایک ناگزیر جزو بن کر رہ گئے تھے۔
24 گھنٹوں میں بلامبالغہ 12 گھنٹے ساتھ ہی گذرتے تھے۔ میرے پاس نومبر79ء تک ان کے خطوط آتے رہے ۔
ان کی علالت کی خبر سن کر بھیا نے اپنے چھوٹے بھائی جمال صاحب کو کراچی ان کی عیادت کے لئے بھیجا تھا۔ اس لئے کہ وہ خود ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق لمبا سفر نہیں کرسکتے تھے۔ اپریل میں جمال صاحب ان کے ہاں ایک مہینہ رہ کر واپس ہوئے اور اسرار صاحب کے ساتھ گذارے ہوئے خوشگوار دنوں کی کہانی مئی جون تک میں روزآنہ ان سے سنتا رہا، تصویریں دیکھتا رہا۔ اس خبر سے بڑا اطمینان ہوا کہ وہ اب روبہ صحت ہیں ۔ میرا پورا خاندان پاکستان میں ہے۔ ان لوگوں نے جولائی میں مجھے یہ اطلاع دی کہ اسرار بھائی اب پھر ناول لکھ رہے ہیں ۔ مگر انہیں اب بھی خون چڑھایا جاتا ہے۔ میں نے بہت سخت خط لکھا ۔اس لئے کہ اتنے عرصے سے خون کا چڑھایا جانا کوئی اچھی علامت نہ تھی اور اس پر سے کام کا جاری رہنا۔ میرے خط کا جواب نہیں آیا۔
پہلی اگسٹ کو ایک شاگرد نے بتایا کہ اخبار میں ابن صفی کے انتقال کی خبر چھپی ہے۔
الہ آباد اور کراچی سے تصدیق کرائی۔
دل چاہتا تھا کہ خبر غلط ہو۔ مگر دل دھڑکتا بھی تھا۔
چھ تاریخ کو دونوں جگہ سے خبر کی تصدیق ہوگئی۔
25۔ جولائی کو انتقال ہوا۔ 26۔ کو دفن کئے گئے۔
مرنے سے دو روز پہلے مجھے خط لکھا تھا۔ کیا لکھا ہوگا۔ خدا جانے۔ مجھے آج تک وہ خط نہیں ملا۔
1960ء میں جب وہ پہلی بار بیمار پڑے تھے تو ڈاکٹروں کی دوا سے کوئی فائدہ نہ ہوا تھا۔ حکیم اقبال حسین کے علاج سے صحت یاب ہوئے۔ عارضہ جگر کی خرابی کا تھا۔ پھر 16 سال بعد بیمار ہوئے ، وہی دیرینہ بیماری اور کچھ برس پہلے ماں کی موت کا صدمہ، اپنی طرف سے لاپرواہی ، سارے زمانے کی فکر۔ حکیم اقبال حسین بھی نہیں تھے جو مرض کو سمجھ سکتے۔ اب معلوم ہوا کہ بلڈ کینسر تھا۔
کراچی پہونچ کر ایک شادی کی جن سے 4 لڑکے اور 4 لڑکیاں ہیں ۔ پھر عقدثانی بھی کیا لیکن ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ بڑی لڑکی کی شادی ہوچکی ہے۔ ایک لڑکا اٹلی میں زیرتعلیم تھا۔ یقینا اس وقت جب انہوں نے آخری بار اس دنیا پرنظر ڈالی ہوگی تو یہ سب رہے ہوں گے۔
مجھے یقین ہے کہ ان کی نگاہوں نے بھیا، ننھے، مجن کو ضرور تلاش کیا ہوگا اور آج ان تینوں کی آنکھیں ہمیشہ کے لئے نمناک ہوچکی ہیں ۔ ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرتا جب وہ قہقہہ لگاتا ہوا، سرگوشیاں کرتا ہو، نظمیں سناتا ہوا، کہانیاں لکھتا ہوا، نظروں کے سامنے بیٹھا ہوا دکھائی نہ دیتا ہو۔ میں 17۔اگسٹ سے تادم تحریر بیمار رہا لیکن بیمار نہ بھی ہوتا تو شائد اس پر کچھ لکھ نہ پاتا۔
ایسا لگتا ہے جیسے وہ اس دنیا سے نہیں گیا، ہم سب کے قلم بھی ساتھ لیتا گیا، ہونٹوں پر بکھیرنے والی مسکراہٹ بھی لیتا گیا اور پلکوں پر لرزنے والا ستارہ دے گیا۔
***
بشکریہ :
سمت (جلد:13)