27 جولائی سن 1980 کی صبح ابن صفی اپنے گھر سے قریبی واقع آفس کی جانب روانہ ہوتے نظر نہیں آئے۔ 26 جولائی کی صبح ان کے اہل خانہ ان کے پرستاروں کی موجودگی مٹی کا حق مٹی کے سپرد کر آئے تھے۔ وہ 25 اور 26 جولائی کی درمیانی صبح اپنے خالق حقیقی سے جاملے تھے۔ وہ ناظم آباد میں واقع اپنے مکان کو چھوڑ گئے اور اپنے نئے مکان کا پتہ بھی کسی کو دے کر نہیں گئے۔
اب تو یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے بہت دور بسائی ہیں بستیاں
26 جولائی کی صبح وہ ہاتھ تہہ خاک ہوئے جو 28 برس اپنے پڑھنے والوں کو نت نئے جہانوں کی سیر کراتے رہے۔ وہ ہاتھ جن کی جنبش میں ترنم تھا اور خاموشی میں شاعری۔ جن کی انگلیوں سے تخلیق کی گنگا بہا کرتی تھی۔ بقول سردار جعفری "" انسان کے تسلسل میں حیاتیاتی عمل کارفرما ہے جو باپ سے بیٹے کی شکل اختیار کرتا ہے۔ لیکن انسانیت کا تسلسل ہاتھوں کی تخلیق کا رہین منت ہے۔ یہ تخلیق بظاہر بے جان ہوتی ہے لیکن جانداروں سے زیادہ جاندار ہوتی ہے۔ ہاتھوں کے بغیر نہ جنگ ممکن ہے نہ امن، محبت ممکن ہے نہ نفرت۔ یہی ہاتھ گلے میں حمائل ہوتے ہیں اور یہی ایک دوسرے کو چھوڑ کر دل کی دھڑکنیں تیز کردیتے ہیں۔ ساز میں سوئے ہوئے نغمے انہی ہاتھوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ ہم آغوشی کے لیے یہی سب سے پہلے آگے بڑھتے ہیں اور رخصت کے وقت یہی سب کے بعد پیچھے ہٹتے ہیں۔ جس طرح ذہن اپنے آپ کو خیال میں تبدیل کرکے اس کو اپنے وجود سے الگ کردیتا ہے اسی طرح ہاتھ اپنے آپ کو قلم اور تلوار، مشین اور اوزار میں تبدیل کرکے انہیں اپنے وجود سے الگ کردیتے ہیں اور وہ چیزیں ہاتھوں سے بھی زیادہ طاقتور بن جاتی ہیں۔""
لیکن سری ادب کے موجد ابن صفی کی موت کے ساتھ ان کا دور ختم نہیں ہوتا، شروع ہوتا ہے۔ بڑے ادیب کی زندگی اس کی آنکھیں بند ہونے کے بعد شروع ہوتی ہے۔
چشم خود بربست و چشم ماکُشاد
کم و بیش 28 برس پیشتر ابن صفی کے فرزند احمد صفی نے کہا تھا کہ کبھی کھبی یہ غم حافظے کا سہارا لے کر لاشعور کی گہرائیوں سے نکلتا ہے اور آنکھوں کے راستے بہہ جاتا ہے۔ ٹھیک ہی تو کہا تھا، اس لیے کہ اب سے چند روز قبل میں ابن صفی کی بڑی صاحبزادی کو اپنے چہیتے ابو کی یادیں تازہ کرتے دیکھ رہا تھا، ساتھ میں احمد صفی بیٹھے تھے، ان کی ہمشیرہ کی بات کتم ہوئی تو احمد صفی کی آنکھیں ایک بار پھر نم ہوچکی تھیں۔
احمد صفی اس جانکاہ سانحے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
" 24 جولائی کو ابو کی طبیعت معمول سے زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ معمول سے زیادہ اس لیے کہ اس بیماری کو تقریبا دس ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا تھا۔ ابو پر درد کا پہلہ اور شدید حملہ 17 ستمبر 1979 کی رات کو ہوا تھا اور اس کے بعد صحت مسلسل خراب ہی رہی۔ نومبر 1979 میں بیماری شدت اختیار کرگئی۔ ڈاکٹروں نے طویل معائنوں اور تکلیف دہ ٹیسٹوں کے بعد ایک خطرناک بیماری کا اندیشہ ظاہر کردیا۔ دسمبر 1979 میں ابو کو کراچی کے جناح اسپتال میں داخل کر دیا گیا۔ مزید معائنوں اور ٹیسٹوں نے لبلبہ میں کینسر کی تصدیق کردی۔ اس بات کو ابو سمیت تمام لوگوں سے پوشیدہ رکھا گیا۔ اسپتال میں بہترین علاج اور توجہ سے بظاہر ابو کی بیماری میں کمی ہوگئی۔ اسپتال سے گھر آنے کے بعد علاج جاری رہا لیکن بیماری کی وجہ سے ان کے جسم میں متواتر خون کی کمی واقع ہونے لگی۔ جمعرات 24 جولائی 1980 کو ابو کو بخار آگیا جو اس وقت غیر معمولی بات نہیں تھی لیکن رات ہوتے ہوتے بخار بہت تیز ہوگیا۔ دوسرے دن طبیعت میں خرابی کی وجہ سے میں (احمد صفی) دیر سے سو کر اٹھا۔ امی نے بتایا کہ رات بھر ابو کی طبیعت بہت خراب رہی۔ ابو کو اس وقت بھی خاصا بخار تھا۔ جمعہ کا دن تھا، چھٹی ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر کا ملنا بھی مشکل تھا۔ امی کے مشورے سے میں اور بھیا (ابرار صفی) رحمن بھائی کو لینے چلے گئے۔ ڈاکٹر رحمن آئے تو ابو کا بخار تیز ہوچکا تھا۔ ان کی سانس اس قدر تیز تیز چل رہی تھی کہ بولنا دشوار تھا۔ ڈاکٹر رحمن نے فورا انجکشن منگوائے، جب انہوں نے انجکشن لگانے کے لیے ابو کی آستین سرکائی تو ابو نے منع کیا " میرے بازو اب مزید مت چھیدو" ۔۔ رحمن بھائی نے پاؤں کی رگ میں انجکشن لگایا۔ انجکشن لگنے اور دوا ملنے کے بعد ابو کی طبیعت بہتر ہوگئی اور انہوں نے عادتا طبیعت سنبھلتے ہی باتیں شروع کردیں۔ شام کے وقت افطار کے بعد عیادت کے لیے حسب معمول لوگوں نے آنا شروع کردیا۔ ابو کو کافی تیز بخار تھا، اس کے باوجود آنے جانے والوں سے تھوڑی بہت بات چیت کررہے تھے۔ رحمن بھائی نے جاتے وقت بھیا سے کہا کہ اس وقت تو حالت قدرے بہتر ہے، انشااللہ صبح سب سے پہلے خون چڑھانے کا انتظام کریں گے۔ یہ ایک ایسی صبح کا ذکر تھا جو کبھی نہ آئی۔ اس رات مجھے (احمد) بھی کافی تیز بخار تھا، میں ابو کے پاس سے اٹھتے ہی بڑے کمرے میں چلا گیا اور جاتے ہی سو گیا۔ رات کو ڈیڑھ بجے کا عمل تھا۔ گھڑیاں دیر ہوئے 26 تاریخ کا اعلان کرچکی تھیں۔ ابو نے سارے دن کے بعد بیت الخلا جانے کو کہا۔ سارا دن اس قدر کمزوری رہی تھی کہ ہاتھ نہ اٹھتا تھا لیکن اس وقت خود اٹھے اور سہارا لے کر کمرے سے متصل باتھ روم گئے۔ وہاں سے واپس آئے تو سانس نہایت تیزی سے چلا رہا تھا۔ بھیا کو بلایا کہ پیٹھ سہلا دیں۔ امی نے فورا بھیا کو جگایا۔ جب بھیا پیٹھ سہلا رہے تھے تو ابو نے کہا " ناحق تم لوگوں کو آدھی رات تنگ کررہا ہوں، میری وجہ سے تم لوگوں کو بہت پریشانی ہوتی ہے"۔۔۔۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔۔۔ تھوڑی دیر میں اچانک تکلیف میں اضافہ ہوگیا۔ کراہنے کی آواز سن کر میں فورا کمرے میں پہنچا، اس وقت تک ابو لیٹ چکے تھے۔ ان کی آنکھیں چھت میں گڑی ہوئی تھیں اور سانس چلنے کی وجہ سے پورا پلنگ ہل رہا تھا۔ ہم سب پریشان ہوگئے، امی اور بہنیں گھبرا کر رونے اور دعائیں مانگنے لگیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ میں اور بھیا ابو کے ہاتھ پاؤں سہلانے لگے، ابو کی حالت دیکھ کر سب کی حالت غیر ہو رہی تھی، بھیا روتے جاتے تھے اور ابو کو جھنجھوڑتے جاتے تھے۔ افتخار (بھائی) فورا گاڑی لے کر ڈاکٹر کی طرف دوڑ گیا۔ بھیا اور مجھ میں ابو کے پاس سے ہٹنے کی ہمت نہ تھی۔ امی اور بہنیں پاگلوں کی طرح ادھر سے ادھر دوڑ رہی تھیں۔ اچانک ابو نے زور سے سانس لی اور ان کے چہرے کا کرب یکسر دور ہوگیا۔۔۔۔ وہ بالکل پرسکون ہوگئے۔"
ابن صفی پر آفیشل ویب سائٹ ابن صفی ڈاٹ انفو کے نگراں کار اور ہمارے کرم فرما جناب محمد حنیف نے مجھے احمد صفی کا مندرجہ بالا مضمون ارسال کرتے وقت تبصرہ کیا کہ "جب بھی میں اسے پڑھتا ہوں، میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں۔"
ابن صفی کی موت پر ان کی کہانیوں کی مستقل فضائیں بھی مغموم و سوگوار لگتی ہیں۔ عمران کے قہقہ بار فیلٹ ہر اداسی چھائی ہوئی ہے۔ صفدر، جولیا، خاور، نعمانی، چوہان، ظفرالمک، جمن، سلیمان، جوزف، اور یہاں تک کہ عمران جس نے کبھی مایوس ہونا نہ سیکھا تھا۔ سب کے سب غم و اندوہ میں ڈوبی ہوئی اداس تصویریں بنے بیٹھے ہیں۔ ادھر کرنل فریدی کی کوٹھی پر بھی سوگوار فضا طاری ہے۔ کیپٹن حمید واقعی مغموم ہوگیا ہے اور اپنے خالی پائپ کو گھور رہا ہے۔ اور کرنل فریدی۔۔۔ وہ فریدی جس نے کبھی حمید کے اس اظہار خیال پر کہ اب آپ بوڑھے ہوگئے ہیں، کہا تھا کہ "لغو خیال ہے، میں کبھی بوڑھا نہیں ہو سکتا"۔ جس کی ڈکشنری میں مایوسی اور ناکامی جیسے الفاظ نہیں ملتے، وہ فریدی بھی آج افسردگی کے عالم میں بجھے ہوئے سگار کو یوں تک رہا ہے جیسے سگار کی آگ نہ ہو بلکہ ایک تابناک اور بھٹرکتا ہوا شعلہ ہو یکایک سرد ہوگیا ہے۔ غم انگیز پرچھائیوں نے فریدی کے چہرے کو جھریا دیا ہے۔ پہلی بار اس کے چہرے ہر مایوسی کے آثار نظر آئے ہیں اور اس اندوہناک خیال سے اور زیادہ وحشت ہوتی ہے کہ اب کون آئے گا جو ان کے کرداروں میں روح پھونک سکے گا، ان میں جان ڈال کر فریدی کو واقعی فریدی اور عمران کو واقعی عمران بنا کر پیش کرسکے گا۔ حقیقت تو یہ ہے ان دونوں کرداروں کی ہمہ گیریت اور ان کی کردار سازی کے فن سے جتنا ابن صفی واقف تھے کسی دوسرے کا اس کی گرد تک کو پہنچنا بعید از قیاس ہے۔
مدتوں ذہن میں گونجوں گا سوالوں کی طرح
تجھ کو یار آؤں گا گزرے ہوئے سالوں کی طرح
ڈوب جائے جو کسی روز خورشید انا
مجھ کو دوہراؤ گے محفلوں میں مثالوں کی طرح
اپنے چہیتے ‘ابو‘ کے گزر جانے کے بعد محض وہ ساتوں بہن بھائی ہی یتیم نہ ہوئے بلکہ ادرو زبان کا سری ادب بھی یتیم ہوگیا۔
ابن صفی 26 جولائی 1928 کو الہ آباد کے ایک گاؤں نارا میں صفی اللہ اور نُذیرا بی بی کے گھر پیدا ہوئے۔ زبان کے شاعر نوح ناروی رشتے میں ابن صفی کے ماموں لگتے تھے۔ ابن صفی کا اصل نام اسرار احمد تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم نارا کے پرائمری اسکول میں حاصل کی۔ میٹرک ڈی اے وی اسکول الہ آباد سے کیا جبکہ انٹرمیڈیٹ کی تعلیم الہ آباد کے ایونگ کرسچن کالج سے مکمل کی۔ 1947 میں الہ آباد یونیورسٹی میں بی اے میں داخلہ لیا۔ اسی اثنا میں برصغیر میں تقسیم کے ہنگامے شروع ہوگئے۔ ہنگامے فرو ہوئے تو تعلیم کا ایک سال ضائع ہوچکا تھا لہذا بی اے کی ڈگری آگرہ یونیورسٹی سے یہ شرط پوری کرنے پر ملی کہ امیدوار کا عرصہ دو برس کا تدریسی تجربہ ہو۔ سن 1948 میں عباس حسینی نے ماہنامہ نکہت کا آغاز کیا۔ شعبہ نثر کے نگران ابن سعید (پروفیسر مجاور حسین رضوی جو حیات ہیں اور الہ آباد میں مقیم ہیں ۔ راقم کی ان سے فروری 2010 میں گفتگو ہوئی تھی) تھے جبکہ ابن صفی شعبہ شاعری کے نگران مقرر ہوئے۔ رفتہ رفتہ وہ مختلف قلمی ناموں سے طنز و مزاح اور مختصر کہانیاں لکھنے لگے۔ ان قلمی ناموں میں طغرل فرغان اور سنکی سولجر جیسے اچھوتے نام شامل تھے۔ سن 1948 میں نکہت سے ان کی پہلی کہانی فرار شائع ہوئی۔ 1951 کے اواخر میں بے تکلف دوستوں کی محفل میں کسی نے کہا تھا کہ اردو میں صرف فحش نگاری ہی مقبولیت حاصل کرسکتی ہے۔ ابن صفی نے اس بات سے اختلاف کیا اور کہا کہ کسی بھی لکھنے والے نے فحش نگاری کے اس سیلاب کو اپنی تحریر کے ذریعے روکنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے۔ اس پر دوستوں کا موقف تھا کہ جب تک بازار میں اس کا متبادل دستیاب نہیں ہوگا، لوگ یہی کچھ پڑھتے رہیں گے۔ یہی وہ تاریخ ساز لمحہ تھا جب ابن صفی نے ایسا ادب تخلیق کرنے کی ٹھانی جو بہت جلد لاکھوں پڑھنے والوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ عباس حسینی کے مشورے سے اس کا نام جاسوسی دنیا قرار پایا اور ابن صفی کے قلمی نام سے انسپکٹر فریدی اور سرجنٹ حمید کے کرداروں پر مشتمل سلسلے کا آغاز ہوا جس کا پہلا ناول ‘دلیر مجرم‘ مارچ 1952 میں شائع ہوا۔ 1949 سے 1952 کے عرصے میں ابن صفی پہلے اسلامیہ اسکول اور بعد میں یادگار حسینی اسکول میں ٹیچر کی حیثیت سے خدمات سرانجام سیتے رہے تھے۔ اگست 1952 میں ابن صفی اپنی والدہ اور بہن کے ہمراہ پاکستان آگئے جہاں انہوں نے کراچی کے علاقے لالو کھیت کے سی ون میں 1953 سے 1958 تک رہائش اختیار کی۔ ان کے والد 1947 میں کراچی آچکے تھے۔ واقم نے 1956 میں شائع ہوئے عمران سیریز کے ناول بھیانک آدمی پر درج پتے کی مدد سے مذکورہ مکان ڈھونڈ نکالا جس کی تصاویر وادی اردو ڈاٹ کام پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ اگست 1955 میں ابن صفی نے خوفناک عمارت کے عنوان سے عمران سیریز کا پہلا ناول لکھا اور عمران کے کردار کو راتوں رات مقبولیت حاصل ہوئی۔ بھیانک آدمی، اسرار پبلیکیشنز، 130 حسن علی آفندی روڈ، کراچی سے شائع ہوا تھا۔ مذکورہ ناول کو ماہانہ جاسوسی دنیا نے نومبر 1955 میں کراچی کے ساتھ ساتھ الہ آباد سے بیک وقت شائع کیا تھا۔ اکتوبر 1957 میں ابن صفی نے اسرار پبلیکیشنز کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کے تحت جاسوسی دنیا کا پہلا ناول ٹھنڈی آگ شائع ہوا۔ 1958 میں ابن صفی، لالو کھیت سے کراچی کے علاقے ناظم آباد منتقل ہوگئے۔ جنوری 1959 میں ابن صفی اسرار پبلیکیشنز کو فردوس کالونی، کراچی-18 کے پتے پر منتقل کرچکے تھے اور یوں انہیں اپنی تخلیقات کو پروان چڑھانے کے لیے ایک آرام دہ ماحول میسر آگیا۔ ناظم آباد کے اس گھر میں وہ 1980 میں اپنے انتقال تک مقیم رہے۔ راقم کی ویب سائٹ وادی اردو پر اس مکان کی تصاویر دیکھی جاسکتی ہیں۔ خاص کر اس کمرے کی تصویر بھی موجود ہے جس میں وہ اپنی لازوال کہانیاں تخلیق کیا کرتے تھے، اس کے علاوہ بوگن ویلیا کے اس پودے کی تصویر بھی شامل ہے جسے انہوں نے اپنے ہاتھ سے لگایا تھا۔
یہاں اس بات کا ذکر اہم ہے کہ ترقی کے اس موجودہ دور میں جہاں کمپیوٹر اور بالخصوص انٹرنیٹ کا استعمال گھر گھر ہونے لگا ہے اور انٹرنیٹ تیز تر معلومات کے حصول کا ایک اہم ذریعہ بن چکا ہے، ابن صفی کے متعلق بھی خاصی معلومات دستیاب ہیں۔ اس ضمن میں ابن صفی ڈاٹ انفو کا ذکر اوپر کیا جاچکا ہے۔ علاوہ ازیں، راقم کی ویب سائٹ وادی اردو ڈاٹ کام، (جس کا اجرا جولائی 2009 میں کیا گیا) پر بھی ابن صفی کے حوالے سے کئی اہم معلومات، تصاویر اور ویڈیوز دستیاب ہیں۔ وادی اردو پر ابن صفی کی کہانیوں کے حقیقی و لازوال کردار استاد محبوب نرالے عالم کے بارے میں ایک طویل تحقیقی مضمون بمعہ استاد کی نایاب تصاویر، شامل ہے۔ اس کے علاوہ ابن صفی پر اگست 2009 میں کراچی آرٹس کونسل میں ہونے والی پہلی سرکاری تقریب ‘ابن صفی-ایک مکالمہ‘ کی روداد و تصاویر، آج ٹی وی پر 2009 جولائی میں ابن صفی کی برسی پر نشر ہونے والی خبر کی مکمل تصاویر، ابن صفی پر پی ایچ ڈی کی گائڈ لائنز، سن 1972 کے الف لیلہ ڈائجسٹ کے ابن صفی نمبر کا مکمل ریکارڈ، اور اس نوعیت کی بے شمار دلچسپیاں شامل ہیں جنہیں متعلقین کی مکمل اجازت کے بعد شامل کیا گیا ہے۔ یہ تمام معلومات، ابن صفی ڈاٹ انفو پر بھی جناب محمد حنیف کے خصوصی تعاون سے بیک وقت شامل کی جاتی ہیں۔ فرزند ابن صفی، جناب احمد صفی نے 2009 میں مشہور زمانہ ویب سائٹ فیس بک پر ابن صفی کے خصوصی صفحے کا آغاز کیا تھا جسے ابن صفی کے چاہنے والوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ تادم تحریر مذکورہ صفحے کے ممبران کی تعداد تقریبا" 1000 تک جاپہنچی ہے۔ راقم الحروف نے ابن صفی کے دیرینہ دوستوں اور ایسی شخصیات جو ابن صفی کے بارے میں مستند رائے رکھتی ہیں، سے ملاقات کرکے ان کے خیالات کو ویڈیو کی شکل میں ریکارڈ کیا اور یہ تمام ویڈیو کلپس مشہور ویب سائٹ یوٹیوب پر ابن صفی لکھ کر دیکھی جاسکتی ہیں۔ ان شخصیات میں عبید اللہ بیگ اور کمال احمد رضوی جیسے نابغہ روزگار اشخاص شامل ہیں، ان کے علاوہ شاہد منصور، جان عالم، شکیل صدیقی، انوار صدیقی (انکا، اقابلا اور سونا گھاٹ کا پجاری کے مصنف) اور فلمی اداکار و پروڈیوسر جاوید شیخ نے بھی اپنے تاثرات ریکارڈ کروائے۔ یاد رہے کہ جاوید شیخ کو ابن صفی نے فلم "دھماکہ" میں ماضی کی اداکارہ شبنم کے بالمقابل متعارف کروایا تھا۔ اس فلم کے مصنف ابن صفی تھے، ڈائرکٹر قمر زیدی جبکہ پروڈیوسر محمد حسین تالپور عرف مولانا ہپی تھے۔ فلم دھماکہ 29 دسمبر 1974 کو نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ بدقسمتی سے فلم خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر پائی اور مولانا ہپی دلبرداشتہ ہوکر اندرون سندھ واپس چلے گئے جہاں سے وہ کراچی کی فلمی دنیا میں قدم رکھنے کی خاطر آئے تھے۔ وہ دن اور آج کا دن، مولانا کبھی میڈیا کے سامنے نہیں آئے اور نہ ہی ان کی کوئی تصویر یا انٹرویو کہیں شائع ہوا۔یہاں اس بات کا ذکر اہم ہے کہ راقم الحروف ایک عرصے سے اس تگ و دو میں تھا کہ کسی طرح مولانا ہپی سے رابطہ ہوپائے۔ حال ہی میں یہ کوشش بارآور ثابت ہوئی اور ایک مہربان (میجر امین) کے ذریعے مولانا ہپی سے رابطہ ممکن ہوا۔ لیکن تا حال مولانا ہپی کی مصروفیات کی بنا پر ان سے ملاقات ممکن نہیں ہو پائی ہے۔
ابن صفی ایک بلند پایہ شاعر بھی تھے۔ احمد صفی سے روایت ہے کہ ابن صفی کے الہ آباد یونیورسٹی میں استاد ڈاکٹر اعجاز حسین نے اپنے ہونہار شاگردوں کے تذکرے ‘ملک ادب کے شہزادے‘ میں ان کا تذکرہ ایک شاعر کی حیثیت سے کیا ہے۔ ڈاکٹر اعجاز، ابن صفی سے ہمیشہ اس بات پر خفا رہے کہ اس نے اسرار ناروی کو قتل کردیا تھا۔ ابن صفی کا نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
راہ طلب میں کون کسی کا، اپنے بھی بیگانے ہیں
چاند سے مکھڑے رشک غزالاں سب جانے پہچانے ہیں
مے خانے سے دار تلک اپنی ہی کہانی بکھری ہے
رند بنے سرمستی میں کچھ اور بڑھے منصور ہوئے
بلآخرتھک ہار کے یارو ہم نے یہ تسلیم کیا
اپنی ذات سے عشق ہے سچا باقی سب افسانے ہیں
لکھنے کو لکھ رہے ہیں غضب کی کہانیاں
لیکن نہ لکھ سکے کبھی اپنی ہی داستاں
دل فسردہ ہی سہی، چہرے پہ تابانی ہو
ورنہ خوداری احساس پہ حرف آتا ہے
غم حیات کی دریا دلی نہ پوچھ اسرار
یہ لہلہاتی بہاریں اسی سحاب کی ہیں
اور اس شعر کی داد تو ابن صفی شاید مرزا نوشہ سے بھی لے لیتے:
گھٹ کے رہ جاتی ہے رسوائی تھ
کیا کسی پردہ نشیں سے ملیے
ابن صفی کی شاعری میں اگر سادگی و پرکاری کی کیفیات کا اندازہ لگانا ہو تو یہ اشعار ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں:
مرے لبوں پہ یہ مسکراہٹ
مگر جو سینے میں درد سا ہے
اسی جگہ کیوں بھٹک رہا ہوں
اگر یہی گھر کا راستہ ہے
اور ان نے مندرجہ ژیل شعر کو ان کی ناگہانی وفات کے پس منظر میں دیکھیے تو دل دکھ سے بھر آتا ہے:
ابھی سے کیوں شام ہورہی ہے
ابھی تو جینے کا حوصلہ ہے
جناب احمد صفی کی فراہم کردہ، ابن صفی کی ایک نظم دیکھیے:
محترم دوستو
وہ جو خاموش ہیں جانے کب بول اٹھیں
اس لیے چند چاندی کے چمچے منگاؤ
اور نگراں رہو
جیسے ہی لب کشا ہو کوئی
ایک چاندی کا چمچہ۔۔۔۔۔
اب تمہیں کیا بتانا کہ تم
خود ہی دانا ہو صدیوں سے
چاندی کے اوصاف سے باخبر ہو
عقل و دانش کے پیکر ہو تم
دیدہ ور اور طباع ہو
تیغ اٹھاؤ گے تو تیغ ہی پر اسے
روک لے گا کوئی
دیدہ ور دوستو
صرف چاندی کا چمچہ
تمہارے مسائل کا حل ہے اسے یاد رکھنا
شاعر لکھنوی نے ابن صفی کو بحیثیت شاعر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا:
"شاید عام ذہنوں میں یہ تاثر ہو کہ ابن صفی کی شاعری کا معیار غالبا وہ نہ ہوگا جو ان کے جاسوسی ذہن کا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ لوگ ان کے پٹری بدل لینے کو اسی کا نتیجہ سمجھتے ہوں۔ لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ ان کی نظموں کی رنگا رنگی، غزلوں کی جذباتی اور فنی آرائش اس تاثر کی نفی کرتی ہے بلکہ ہمیں اس بات کا یقین کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ ان کی جاسوسی تحریروں کی کشش، خوبصورتی اور سحر انگیزی میں ان کے شاعرانہ مزاج کی کارفرمائی بڑی حد تک موجود ہے۔ اگر وہ شعر و ادب کی راہ سے ہو کر اس منزل پر نہ آتے تو شاید ان کی تحریروں میں سحریت اور اثر انگیزی کی وہ گھلاوٹ کبھی نظر نہ آتی۔ شعر سب سے بڑا جادو ہے اور غزل سب سے بڑی جادوگر۔ ان کی جاسوسی تحریریں پڑھنے والوں پر جو سحر کاری کرتی ہیں وہ وہ ان کے غزل شناس مزاج ہی کی مرہون منت ہے اسی لیے ان میں پڑھنے والوں پر جادو کردینے کی غیر معمولی صلاحیت ملتی ہے۔ ایک جاسوسی ناول نگار اور ناول نویس کی حیثیت سے وہ میرے ایک شناسا کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن ان کی غزلوں اور نظموں کے عمیق مطالعے کے بعد مجھے یہ تمنا ہے کہ کاش وہ میرے دوست ہوتے۔ جہاں تک غزل میں فنی رکھ رکھاؤ، خیال کی ترتیب و تہذیب، الفاظ کر دروبست و معانی کی بزم آرائی کا تعلق ہے، اسرار ناروی کے یہاں یہ خصوصیات اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ موجود ملتی ہیں""
شاعری میں ابن صفی کے منفرد اسلوب کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایونگ کرسجین کالج الہ آباد میں ابن صفی کے استاد پروفیسر انوار الحق نے ٹھیک ہی تو کہا تھا کہ ""اسرار جو شاعری کے میدان میں ابھرنے والا تھا، جاسوسی ناول نگار کیسے بن گیا ?"" ۔۔۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ابن صفی کے تخلیق کردی 245 ادب پاروں کا جائزہ لینے سے ہمیں ان میں ابن صفی کا ادبی و شاعرانہ تخیل بطریق احسن نظر آتا ہے۔
جون 1960 میں ابن صفی جاسوسی دنیا کا 88 واں ناول پرنس وحشی اور عمران سیریز کا 41 واں ناول بے آواز سیارہ لکھ چکے تھے کہ ان پر شیزوفرینیا نامی بیماری کا شدید حملہ ہوا۔ 1960 سے 1963 تک وہ مکمل طور پر صاحب فراش رہے۔ اس دوران بازار میں طرح طرح کے جعلی صفیوں کی بھرمار ہوگئی۔ (راقم نے ایسے چند جعلی لکھنے والوں کے نام اور ان کی تحریروں کے نمونے وادی اردو پر شامل کیے ہیں)۔ ان میں نجمہ صفی (جس کے باے میں ابن صفی نے بعد میں کہا تھا کہ میرے نام کے قافیے والی ایک صاحبہ بہت عرصے سے غلط فہمی پھیلا رہی ہیں جبکہ میرے والد صاحب بھی ان کے جغرافیے پر روشنی ڈالنے سے قاصر ہیں)، این صفی، ابْن صفی، ایس قریشی، ابن صقی اور اس قبیل کے بہت سے دوسرے شامل تھے۔
ابن صفی کی بیماری سے متعلق ان کے فرزند احمد صفی اپنے مضمون ‘ابن صفی-چند حقائق‘ میں بیان کرتے ہیں:
" اس بیماری میں ڈیپریشن اور اختلاج بنیادی اثرات ہوتے ہیں۔ ایک ماہر نفسیات نے نیویارک میں اس پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بہت سے تخلیق کار اس درجہ پر پہنچ جاتے ہیں کہ ان کے ذہن کی کارکردگی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ کہ وہ بہت تیزی سے بہت عمدہ تخلیقات کے ڈھیر لگا دیتے ہیں (جیسا کہ ابن صفی کے قارئین نے دیکھا کہ ایک مہینے میں چار چار ناول تیار ہوجاتے تھے)۔ اس درجہ پر پہنچنے کے بعد ذہن اچانک اپنے آپ کو بند کرلیتا ہپے اور نہ صرف تخلیقی صلاحیتیں منقود ہوجاتی ہیں بلکہ ایک مسلسل ڈپریشن اور اختلاجی کیفت اس پر طاری ہوجاتی ہے جس کے زیر اثر وہ کچھ بھی کر گزر سکتا ہے۔ انہی ماہر نفسیات کے مطابق جس طرح یہ بیماری آتی ہے اسی طرح اچانک پیچھا چھوڑ بھی سکتی ہے۔ اور ابن صفی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ 1963 میں حکیم اقبال حسین کے علاج کے دوران وہ اچانک نارمل ہوگئے۔"
ابن صفی نارمل کیا ہوئے، ان کے نقالوں کی تو گویا موت واقع ہوگئی۔ وہ جاسوسی ادب کے میدان میں واپس آئے تو اس شان سے کہ عمران سیریز کا ناول ڈیڑھ متوالے لکھا جو ایک انتہائی دلچسپ ناول ہے، ناول کیا ہے لکھا لکھایا اسکرپٹ ہے کہ فلم بنانے کے لیے لوکیشنز منتخب کی جائیں اور بلا تامل فلم بندی کا آغاز ہوجائے۔ ابن صفی کے کئی ناولز پر جاسوسی، نفسیاتی، مہماتی اور آرٹ فلمیں بنائی جاسکتی ہیں کہ حیات و کائنات کا کونسا ایسا مسْلہ ہے جسے انہوں نے اپنی تحریروں میں نہ چھیڑا ہو۔ ان میں محدود پیمانے پر موروثی ہوس، موت کی آندھی، گیارہواں زینہ، وبائی ہیجان، پتھر کی چیخ، گارڈ کا اغوا، شاہی نقارہ، سائے کی لاش جیسے شاہکاروں کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ ابن صفی کی شخصیت ایک ہمہ گیر شخصیت تھی۔ بنیادی طور پر چونکہ وہ ایک اعلی پائے کے شاعر تھے، اسی لیے ان کے ناولوں کے نام بھی ان کے ادبی و شاعرانہ ذوق کے عکاس ہوتے تھے۔ ٹھنڈی آگ، سہمی ہوئی لڑکی، تاریک سائے، سبز لہو، لاش گاتی رہی، آوارہ شہزادہ، چاندنی کا دھواں، چمکیلا غبار، چیختے دریچے، ٹھنڈا سورج، خوشبو کا حملہ وغیرہ۔
ابن صفی نجی زندگی میں ایک ہمدردانہ دل رکھنے والے انسان تھے۔ ان کے برادر نسبتی مبین احسن سے روایت ہے کہ "ایک بار اسرار بھائی (ابن صفی) نے میرے محکمے کے ایک ملازم کی ترقی کے بارے میں مجھ سے کہا اور ان صاحب کی ترقی اتفاقا" میرے ہی دستخط سے ہوئی، یہ الگ بات ہے کہ یہ صاحب انہی (ابن صفی) کے لیے مار آستین ثابت ہوئے۔ مرزا حیدر عباس بیان کرتے ہیں کہ "ایک آدمی نے ابن صفی کے ساتھ فراڈ کیا۔ ابن صفی نے مقدمہ کردیا، اس آدمی کو سزا ہوگئی۔ جب معلوم ہوا کہ اس کے بیوی بچوں کا کوئی سہارا نہیں ہے تو انہیں اپنے پاس سے وظیفہ دینا شروع کردیا۔"
ابن صفی نے اپنے ناولوں میں مستقل کرداروں سے قطع نظر چند ایسے کردار تخلیق کیے جو ذہنوں سے چپک کر رہ جاتے ہیں اور خیر و شر کے جیتے جاگتے نمونے بن کر سامنے آتے ہیں۔ ایسا ہی ایک کردار ان کے ناول "لاشوں کا آبشار" کا مسٹر کیو ہے جو کسی شخص کی ناجائز اولاد ہوتا ہے۔ درجنوں انسانوں کے قاتلوں کی حیثیت سے وہ عدالت میں اپنا بیان دیتا ہے اور جو کچھ ابن صفی اپنے اس کردار کی کہہ گئے ہیں وہ قابل غور ہے۔ ایک ایسا نازک و حساس موضوع ہے جس پر قلم اٹھانے کی جرات بڑے بڑوں کو نہ ہوئی۔ مذکورہ ناول کے اختتام پر، مسٹر کیو قانون کی حراست میں ہوتا ہے اور بھری عدالت میں چند لمحے وہاں موجود مجمع کو گھورتا ہے اور پھر گرج کر کہتا ہے:
""میں ایک شخص کی ناجائز اولاد ہوں۔۔۔مجھے بتاؤ میں کیا کرتا ? مجھے جواب دو۔۔۔مادر زاد اندھر ہندؤں میں سورداس اور مسلمانوں میں حافظ جی کہلاتے ہیں لیکن میں۔۔ میں کیا بذات خود ایک بہت بڑی مجبوری نہیں تھا ? ۔۔۔۔میں کیا ایک بیماری کی طرح پیدا نہیں ہوا تھا ? ۔۔۔۔ اگر میں شاستر پڑھ لیتا، تب بھی ناجائز ہی رہتا۔۔ اگر قران بھی حفظ کرلیتا تو بھی لوگ مجھے حافظ کہتے ہوئے ہچکچاتے۔۔ آخر کیوں۔۔۔کیا میں بھی ایک اندھے اور لنگڑے کی اپنی پیدائش کے معاملے میں بے بس نہیں تھا ? ۔۔۔۔ میں تمہارے خدا سے پوچھتا ہوں کہ اس نے ناجائز کو کیوں اپنے بندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے ?۔۔۔۔۔ وہ سج کا میں نظفہ ہوں، اگر تائب ہوکر مولوی یا پنڈت ہوگیا ہو تو لوگ اس کے قدم چوم رہے ہوں گے اور وہ بہشت یا سورگ کی آس لگائے بیٹھا ہوگا۔ لیکن میں۔۔۔۔۔ میں کس طرح خود کو بدل سکتا ہوں۔۔۔۔۔میں ناجائز ہوں ۔۔ کوئی عادت نہیں کہ بدل جاؤں۔۔۔۔۔۔۔میں ماضی، حال اور مستقبل، تینوں سے محروم ہوں ۔۔۔۔۔ حال میں اس لیے کامیاب رہا کہ میں خود کو چھپانے میں کامیاب ہوگیا۔۔۔ اگر واقعی کوئی دوسری زندگی بھی ہے تو میں اس بھی مایوس ہوں اس لیے کہ کیونکہ بعض مذہب ناجائز کو بہرحال جہنمی قرار دیتے ہیں، کہتے ہیں کہ ناجائز ہر حال میں مرنے سے قبل خود کو جہنم کا مستحق بنا لیتا ہے۔۔۔۔ چلیے! ناجائز کو راہ مستقیم سے بھی محروم کردیا گیا۔۔۔۔۔پھر آخر کیا کرے۔۔۔کہاں جائے۔۔۔بتاؤ نا! بولو۔۔ جواب دو۔۔۔۔""
ابن صفی اپنے ذاتی نظریے میں صرف اور صرف اللہ کی ڈکٹیٹر شپ کے قائل تھے جیسا کہ انہوں نے اپنی ایک کتاب کے پیشرس میں کہا تھا کہ "" میں معاشرے میں صرف اللہ کی ڈکٹیٹر شپ چاہتا ہوں۔ تم انفرادی طور پر اپنی حالت سدھارتے جاؤ، پھر دیکھو کتنی جلدی ایسا معاشرہ بن جاتا ہے جس پر اللہ کی حاکمیت ہو۔
ناول "پاگلوں کی انجمن"" سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
"" تمہارا ظاہر کچھ بھی ہو لیکن مسلمان ہونا چاہیے۔ کچھ نیکیاں سچے دل سے اپنا کر دیکھو۔ آہستہ آہستہ تم خود ہی کسی جبر و کراہ کے بغیر اپنا ظاہر بھی اللہ کے احکامات کے مطابق بنالو گے۔ قرآن کو پڑھو، اسی پر عمل کرو، اسے علم الکلام کا اکھاڑا نہ بناؤ۔""
اسی طرح ایک اور سوال کے جواب میں کہ "آپ سیاست میں کس ازم کے قائل ہیں""، ان کا کہنا تھا:
"" میں تو اللہ کی ڈکٹیٹر شپ کا قائل ہوں۔ اس میں اس کی گنجائش نہیں ہوتی کہ جتنے پگ کا نشہ ہو، ویسا ہی بیان داغ دیا۔ آپ بھی کسی ازم میں پڑنے کے بجائے اسلام کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ سارے ازم محض وقتی حالات کی پیداوار ہیں اور کسی ایک ازم کی دشواری زمانے میں دوسرے ازم کی پیدائش کا سبب بنتی رہتی ہے۔ اسلام کے علاوہ کوئی بھی ازم حرف آخر ہونے کا دعوی نہیں کرسکتا۔ اسلامی نظام حیات آج بھی قابل عمل ہے لیکن اس کے لیے انفرادی طور پر ایماندار بننا پڑے گا اور یہ بےحد مشکل کام ہے۔ پس میرا سیاسی رجحان اللہ کی ڈکٹیٹر شپ کا قیام اور اور میرا فن سکھاتا ہے قانون کا احترام۔""
اسی مذہبی پس منظر میں دیکھیے تو ابن صفی کی شخصیت کا ایک اور دلنواز پہلو سامنے آتا ہے۔ پروفیسر مجنوں گورکھپوری سن 1972 میں ابن صفی پر اپنے مضمون "اردو میں جاسوسی افسانہ" میں ایک جگہ تحریر کرتے ہیں "" ایک جگہ ابن صفی نے صلواتیں کا لفظ استعمال کیا ہے جو طباعت میں "ص" سے ہے مگر ذیلی حاشیے میں مصنف نے یہ نوٹ لگایا ہے کہ کاتب کی غلطی ہے اور وہ خود "س" سے "سلواتیں" لکھتے ہیں اور اس کو جائز سمجھتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ ایسا کیوں لکھتے ہیں۔ "صلواتیں" گالیوں کے معنوں میں نثر و نظم کے اساتذہ استعمال کرتے آئے ہیں لیکن انہوں نے ہمیشہ اس لفظ کو "س" سے لکھا ہے۔""
مجنوں صاحب کے مذکورہ مضمون کے حاشیے میں ایچ اقبال صاحب کا نوٹ ملاحظہ ہو جو انہوں نے پروفیسر صاحب کے ابن صفی پر متذکرہ اعتراض کے جواب میں تحریر کیا:
"" میں نے ابن صفی صاحب سے اس موضوع پر گفتگو کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ "صلوات" کا ربط خاص ""صلوات بر محمد صلی اللہ و علیہ وسلم"" سے ہے اس لیے وہ احتراما اس لفظ کو برا بھلا کہنے کے معنوں میں استعمال نہیں کرتے اور جب اس کا استعمال ناگزیر ہوجاتا ہے تو اسے "س" سے لکھتے ہیں۔""
عالمی افق کی ہمہ وقت بدلتی صورتحال پر ابن صفی کی ہمیشہ گہری نظر رہی۔ ترقی پسند تحریک ہو یا پھر وطن عزیز کے لیے ایٹمی پراسسنگ پلانٹ کا حصول، ان کی تحریروں میں جابجا ان معاملات کا ذکر ملتا ہے۔ ان کے دیرینہ دوست اور شاعر و ادیب، جناب شاہد منصور نے اسی موضوع ہر اپنے ایک مضمون میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، وہ لکھتے ہیں:
"" ہمارے ملک پر بھی ایک ایسا وقت آن پڑا تھا کہ یار لوگوں نے سبز پاکستان کو سرخ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی۔ اس گھبیر وقت کا سامنا کرنے میں بھی ابن صفی صف اول میں سینہ سپر تھے۔ انہوں نے پے درپے اپنے کئی ناولوں میں نہ صرف اس مسئلے کو اٹھایا بلکہ ان ریشہ دوانیوں کا بھی بڑی چابکدستی سے پردہ فاش کیا جو سفارتی ہتھکنڈوں سے ثقافتی سرگرمیوں کے پردے میں کی جارہی تھیں۔ یہاں میں (شاہد منصور) آپ کی خدمت میں ابن صفی کی ایک دھماکہ خیر غزل پیش کررہا ہوں جو ان کی کتاب پاگلوں کی انجمن (سن اشاعت: سن 1970 - راقم) میں استاد محبوب نرالے عالم کی زبانی پیش کی گئی۔ ذرا اس کے پرمعنی طنز اور اس کی تشبیہوں اور استعاروں پر غور کیجیے اور دیکھیے کہ ابن صفی کا سینہ کیسے دینی جوش سے پر تھا اور اپنے قلم کو ہتھیار بنا کر کس طرح انہوں نے اپنے عہد کی خوفناک زہرناکی کا مقابلہ کیا:
اک دن جلال جبہ و دستار دیکھنا
ارباب مکر و فن کو سر دار دیکھنا
سنتے رہیں کسی بھی دریدہ دہن کی بات
ہم بھی کھلے تو جوش گفتار دیکھنا
قرآن میں ڈھونڈتے ہیں مساوات احمریں
یارو! نیا یہ فتنہ اغیار دیکھنا
ورد زباں ہیں خیر سے آیات پاک بھی
ہے ہرمن یہ خرقہ و پندار دیکھنا
کل تک جو بتکدے کی اڑاتا تھا دھجیاں
اس کے گلے میں حلقہ زنار دیکھنا
لائی گئی ہے لال پری سبزہ زار میں
ہوتے ہیں کتنے لوگ گناہ گار دیکھنا
فرصت ملے جو لال حویلی کے درس سے
اک بوریہ نشیں کے بھی افکار دیکھنا
ابن صفی ایک اعلی درجے کے مزاح نگار تھے۔ مزاح لکھنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ اسٹیفن لیکاک مزاح کی تعریف کچھ اس طرح بیان کرتا ہے کہ "یہ زندگی کی ناہمواریوں کی اس ہمدردانہ شعور کا نام ہے جس کا فنکارانہ اظہار ہوجائے۔" ۔۔ ابن صفی نے اس فنکارانہ اظہار میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ جاسوسی دنیا کا کردار قاسم اور استاد محبوب نرالے عالم اس کی چند پہترین مثالیں ہے۔ قاسم کا کردار ایک دبیل اور عقل سے پیدل کردار ہے جو کیپٹن حمید کے ساتھ ساتھ نظر آتا ہے اور مختلف موقعوں پر حمید اور کرنل فریدی کےلیے جہاں مشکلات پیدا کرتا ہے وہاں کئی مہمات میں ان کے لیے سہولت کار کا کام بھی انجام دیتا ہے۔ ابن صفی اپنے ناولوں میں ایسی پرلطف صورتحال پیدا کرتے تھے کہ ان کے قارئین بے چینی سے کہانی میں ان کرداروں کی آمد کے منتظر رہا کرتے تھے۔ سیچویشنل کامیڈی کی ایک بہترین مثال عمران سیریز کا ناول ‘چار لکیریں‘ ہے جس کا ابتدائی جملہ پڑھ کر بے اختیار حلق سے قہقہ ابل ہڑتا ہے۔ کہانی میں کچھ یوں ہوتا ہے کہ کیپٹن فیاض اپنی ایک جاگیردار دوست کے یہاں بسلسلہ پارٹی مدعو کیے گئے۔ وہ جاگیردار صاحب عمران کے ساتھ آکسفورڈ میں اکھٹے پڑھتے رہے تھے۔ کیپٹن فیاض کی جو شامت آئی تو اس نے عمران کے دعوت نامے پر مسٹر اینڈ مسز عمران لکھ دیا۔ کچھ تو تفریح کی خاطر اور کچھ یہ سوچ کر بھی کہ شاید عمران روشی (ایک طرحدار عورت) کو بھی ساتھ لیتا آئے گا جس کی خوش مزاجی کیپٹن فیاض کو بیحد پسند تھی۔ اب ناول کا ابتدائی جملہ ملاحظہ ہو:
" اس وقت کیپٹن فیاض کی کھوپڑی ہوا میں اڑ گئی جب اس نے عمران کے ساتھ شہر کی ایک طوائف دیکھی۔"
بقیہ صورتحال کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ معززین اور شرفا کی اس تقریب میں عمران صاحب جس طوائف کو اپنے ہمراہ لے گئے تھے وہاں اس کی وجہ سے کیا کیا نہ حماقتیں پھیلی ہوں گی۔
اسی طرح عمران سیریز کے ایک ناول ‘بحری یتیم خانہ‘ کی ابتدا ایک نائٹ کلب میں کلاسیکی موسیقی کے پروگرام سے ہوئی۔ عمران صاحب وہاں موجود تھے۔ استاد لفگار ٹھمری کا آغاز کرتے ہیں اور ‘نندیا کاہے مارے بول‘ کی جو تکرار شروع کرتے ہیں تو عمران سات منٹ کے انتظار کے بعد استاد لفگار کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوجاتا ہے ۔ "حضور! اب آپ کی تکلیف نہیں دیکھی جاتی، آپ مجھے اپنی نندیا کا پتہ بتائیں، ابھی دوڑ کر پوچھ آتا ہوں کہ کاہے مارے بول۔" ۔۔۔ استاد کی تنک مزاجی مشہور تھی۔ انہوں نے پیلے تو عمران کو حیرت سے دیکھا اور پھر ُسر منڈل پھینک کر انہوں نے عمران کا گریبان پکڑنے کی کوشش کی۔ ہنگامہ ہوگیا۔ کسی نے پوچھا کہ یہ کیا بے ہودگی ہے تو عمران صاحب غصیلے لہجے میں بولے " ان کی نندیا میری بھی رشتے دار ہیں، میں ان کو اس کی اجازت نہیں دے سکتا کہ پیبلک مقامات پر ان کی توہین کرتے پھریں"۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنے میں مینیجر بھی آپہنچا۔ اس نے عمران کی شکل دیکھی تو بری طرح گڑبڑا گیا۔ ""کیا بات ہے جناب عالی"" وہ گڑگڑایا۔۔۔۔عمران استاد کی طرف ہاتھ اٹھا کر بولا "" باجہ بجا کر میری عزیزہ کی توہین کررہے ہیں جناب"" ۔۔۔۔ ادھر استاد لفگار دھاڑے "ارے یہ بہرام خان حرام خان کا کوئی گُرگا ہے حرامی" ۔۔۔ " آپ غلط کہہ رہے ہیں جناب " عمران ادب سے بولا "میں آپ کی نندیا کا سالا ہوں۔"
ابن صفی کے ناولوں کے پیشرس بھی اپنی جگہ کلاسیکی درجہ رکھتے ہیں۔ اکثر و بیشتر تو وہ اپنے قارئین سے نوک جھونک کے موڈ میں رہا کرتے تھے۔ بعض پڑھنے والے ان کو کس کس طرح کے سوالات کرکے بور کیا کرتے تھے اور وہ ان کو ایسے جوابات دیا کرتے تھے کہ بیجا اور نامنسب تنقید کرنے والے کٹ کر رہ جائیں۔ جاسوسی دنیا کے ایک ناول کے پیشرس میں ٹنڈو آدم کی ایک ٹیلیفون آپریٹر ابن صفی کے سابقہ ناول کو محض بکواس قرار دیتے ہیں، ان کی دانست میں ناول کے نام سے اس کے پلاٹ کا کوئی میل نہ تھا۔ ابن صفی لکھتے ہیں کہ ٹیلیفون آپریٹر صاحب نے آتشی بادل کا اشتہار دیکھ کر اس کے بارے میں کچھ اس قسم کی کہانی خود بنائی ہوگی کہ آگ برساتا ہوا ایک بادل ہے جو تمام شہر پر مسلط ہوگیا ہے، عمارتیں دھڑا دھڑ جل رہی ہیں، پھر عمران اخیر میں اپنی پناہگاہ سے قہقہے لگاتا ہوا برآمد ہوتا ہے اور اس سائنسدان کا ٹیٹوا دباتا ہے جو ایک مشین کے ذریعے آتشی بادل بنا بنا کر فضا کو سپلائی کررہا تھا۔
آخیر میں ابن صفی ایک ایسی بات لکھتے ہیں کہ پڑھنے والا اچھل پڑے۔۔۔ " یار ٹنڈو آدمی صاحب، خود ہی لکھ کر پڑھ لیا کرو۔"
غور فرمایا آپ نے ٹنڈو آدمی کی نادر ترکیب پر۔
اسی طرح چاٹگام سے ایک صاحب ابن صفی کو کتابیں لکھنا ترک کر کے ترکاری بیچنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ابن صفی ان صاحب کو ایک طویل سنجیدہ جواب دیتے ہیں لیکن آخر میں چٹکی لینے سے باز نہیں آتے: " بھئی اپنا نام تو صاف لکھا کریں۔ پہلی نظر میں بدھو داس معلوم ہوتا ہے۔ غور کرو تو رولس رائس پڑھا جاتا ہے۔ ذرا ترچھا کرکے دیکھو تو چلو واپس گھسیٹا ہوا معلوم ہوتا ہے۔"
ڈیڑھ متوالے کے پیشرس میں وہ اپنے پڑھنے والوں سے عرصہ تین برس کے بعد یوں مخاطب ہیں: " رہی مختلف قسموں کے ابنوں اور صفیوں کی بات تو یہ بیچارے سارے قافیے استعمال کرچکے ہیں لہذا اب مجھے کسی ‘ابن خصی‘ کا انتظار ہے، میری دانست میں تو اب یہی قافیہ بچا ہے۔
ایک دوسری جگہ اسی ضمن میں شکوے کا دلنشیں و بذلہ سنج انداز ملاحظہ ہو، کہتے ہیں:
"" مجھے ان کماؤ پوتوں پر ذرا غصہ نہیں آتا۔ بس صرف اتنی سی بات گراں گزرتی ہے کہ لکھنے والے اپنے باپ کا نام بتانے کے بجائے میرے ہی باپ کا نام بتانے لگتے ہیں۔ وہ بھی اس انداز میں کہ میں ہی معلوم ہوں اور وہ ایک آدھ نکتے کے فرق سے کتابیں خریدنے والوں کو دھوکا سے سکیں۔ ایسے آئیے آپ کو ایک راز کی بات بتاؤں۔۔۔۔ وہ یہ کہ باپ کا نام بتائے بغیر کوئی جاسوسی ناول نویس کامیاب ہو ہی نہیں سکتا۔ مگر شرط یہ ہے کہ نام میرے ہی باپ کا بتایا جائے۔""
ابن صفی کے ناولوں سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں کہ جن کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ کہیں غلطی سے وہ مروجہ ادب کے میدان میں باضابطہ قدم رکھ دیتے تو بڑے بڑوں کی چھٹی ہوجاتی اور اس لحاظ سے چار حرف لکھ کر اہل کمال ہوجانے والوں کو ابن صفی کا احسان مند ہونا چاہیے کہ انہوں نے ان کو کھل کھیلنے کا موقع فراہم کیا:
(1)
اگر خود غرضی اور جاہ پرستی سے منہ موڑ لیا جائے، ایک نئے انداز کی سرمایہ داری کی بنیاد ڈالنے کے بجائے خلوص نیت سے وہی کیا جو کہا جاتا رہا ہے تو عوام کی جھلاہٹ رفع ہوجائے گی۔ ضروت ہے کہ انہیں قناعت کا سبق پڑھانے کی بجائے ان کی خودی کو ابھارا جائے جیسا کہ بعض دوسرے ملکوں میں ہوا ہے۔ اللہ کبھی اس پر برہم نہیں ہوسکتا کہ کوئی قوم اپنے حالات کو مدنظر رکھ کر اپنے وسائل کی تقسیم کا مناسب انتظام کرلے۔
(2)
ان کا طرز حکومت جمہوری کہلاتا ہے۔ جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مغز چند آدمیوں کے حصے میں آئے اور ہڈیاں عوام کے سامنے ڈال دی جائیں۔ یہ اپنے مسائل طاقت ہی سے حل کرتے ہیں مگر اسے اشتراک باہمی کا نام دیتے ہیں۔ اس کے حاکم خود کو عوام کا نمائندہ کہتے ہیں۔ عوام ہی انہیں حکومت کے لیے منتخب کرتے ہیں لیکن یہ ان کی مالی قوت ہی ہوتی ہے جو انہیں اقتدار کی کرسی تک پہنچاتی ہے لیکن وہ اسے عوام کی قوت اور رائے عامہ کہتے ہیں۔ حالانکہ رائے عامہ مالی قوت ہی سے خریدی جاتی ہے۔ انہٰیں منتخب ہونے کے لیے اپنے مخالفوں کے خلاف بڑے بڑے محاذ قائم کرنے پڑتے ہیں۔ ایک خطرناک جنگ شروع ہوتی ہے اور اس جنگ کو رائے عامہ ہموار کرنا کہا جاتا ہے۔ اس میں بھی طاقت ہی کی کارفرمائی ہوتی ہے۔ آخر ایک آدمی مخالفوں کو کچلتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے۔
(3)
ہماری زمین کے سینے میں کیا نہیں ہے مگر ہم مفلس ہیں۔۔۔۔کاہل ہیں۔۔۔۔۔ہمیں باتیں بنانی آتی ہیں۔ ہم تقریر کرسکتے ہیں، ایک دوسرے پر اپنی ذہنی برتری کا رعب ڈال سکتے ہیں۔ ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے کے لیے اپنی بہترین صلاحیتیں ضائع کرسکتے ہیں۔ لیکن ہم سے تعمیری کام نہیں ہوسکتے۔
(4)
میں جانتا ہوں کہ حکومتوں سے سرزد ہونے والے جرائم، جرائم نہیں حکمت عملی کہلاتے ہیں۔ جرم تو صرف وہ ہے جو انفرادی حیثیت سے کیا جائے۔
(5)
تربیت ضروری چیز ہے، یہ کیا کہ ایک معمولی کلرک کو کلرکی کا امتحان دینا پڑے۔ ایک پولیس کانسٹیبل، رنگروٹی کا دور گزارے بغیر کام سے نہ لگایا جائے لیکن ترکاریوں کے آڑھتی، بے مروت جاگیردار اور گاؤدی قسم کے تاجر براہ راست اسمبلیوں میں جابیٹھیں اور قانون سازی فرمانے لگیں اور ان ہی میں سے کچھ کابینہ کے ارکان بن جائیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ نچلی سطح پر امتحانات اور ٹریننگ کا چکر چلتا رہے اور اوپر جس کا دل چاہے پہنچ جائے۔ بس جیب بھاری ہونی چاہیے، نہ کوئی امتحان اور نہ کوئی ٹریننگ۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ فن کردار نگاری جو کسی بھی کہانی، افسانے یا ناول کا بنیادی وصف ہوتا ہے، ابن صفی کے قلم کی بدولت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دوام حاحل کرچکا۔ اعلی و ارفع ادب کے ‘رہنماؤں‘ کو پتہ ہی نہ چلا کہ 26 جولائی 1980 کو ان کے درمیان سے کس بلا کا اورکس غضب کا کردار نگار اٹھ گیا۔ ادب کے ان رہنماؤں کی نظر میں جرم و سزا کی کوئی وقعت ہی نہیں۔ یہ لوگ نہیں جانتے کہ جرائم کس طرح سماج کو تنزلی کی جانب دھکیلتے ہیں۔ جرائم اور سماج کی مثال آندھی اور جھونپڑیوں کی سی ہے۔ ازل ہی سے جرائم انسانی زندگی اور سماج پر آندھیوں کی طرح جھپٹتے آئے اور ان کے تدارک کے لیے اچھے سے اچھا ادب پیدا کرنا ادیبوں کا فرض ہے۔ اسے تہسرے درجے کا ادب قرار دے کر اس کی طرف سے آنکھیں بند کرلینا ناانصافی ہے۔ انگریزی ادب میں جاسوسی کردار نگاری کی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ ایڈگر ایلن پو (1849-1809) زیڈگ از والئیٹیر (1778-1694)، تھری مسکیٹرز از الیگزنڈر ڈوما (1870-1802)، ہیومن کامیڈی از بالزاک (1850-1799)، مون اسٹون از وکی کولنز (1889-1834)، بلیک ہاؤس از چارلس ڈکنز (1870-1812)، گن فار سیل از گراہم گرین وغیرہ وغیرہ۔
اردو ادب کی کئی نامور شخصیات ابن صفی کے فن کو سراہتی نظر آتی ہیں۔ جون ایلیا سے روایت ہے کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے ایک بار کہا تھا کہ اس شخص (ابن صفی) کا اردو پر بہت بڑا احسان ہے۔ ان کے علاوہ جن اشخاص نے ابن صفی کی برملا تعریف کی ہے ان میں پروفیسر حسن عسکری، پروفیسر مجنوں گورکھپوری، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، ابراہیم جلیس، سرشار صدیقی، شاعر لکھنوی، رئیس امروہوی، جون ایلیا، امجد اسلام امجد، کالم نگار حسن نثار، ہندوستانی شاعر و مکالمہ نویس جاوید اختر، عبید اللہ بیگ، پروفیسر گوپی چند نارنگ، بشری رحمان، قاضی اختر جونا گڑھی، ڈاکٹر خالد جاوید (جن کی نگرانی میں جامعہ ملیہ دہلی میں ابن صفی کے ناولوں کے حوالے سے عنقریب ایم فل اور ایک پی ایچ ڈی کی تھیسس جمع ہونے والی ہے)، شاہد منصور، صحافی و ادیب مشتاق احمد قریشی، پروفیسر انوار الحق، حریت کے کالم نگار و مشہور صحافی و ادیب نصر اللہ خان وغیرہ وغیرہ۔ اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ میں ڈاکٹر سلیم اختر نے ابن صفی کا ذکر کیا ہے۔ اسی طرح اردو کے ممتاز افسانہ نگار سید محمد اشرف نے ذہن جدید کے ادب پیما میں اردو کے دس بڑے لکھنے والوں میں ابن صفی کا ذکر کیا ہے۔
یہاں محترم رئیس امروہوی کا ابن صفی کے انتقال کے بعد مندرجہ ذیل بیان گویا اعترافی بیان سمجھا جانا چاہیے۔ ابن صفی پر اپنے مضمون "جوئے خوں بہتی ہے" میں رئیس صاحب لکھتے ہیں:
"" جب تک ابن صفی زندہ تھے، ہم سمجھتے تھے کہ ہم ان سے بے نیاز ہیں لیکن اب ہمیں اپنی محرومی اور نیازمندی کا احساس ہوتا ہے۔ اب ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے کس بے شرمی اور سنگ دلی سے اپنے ایک باکمال ہم عصر کو نظر انداز کررکھا تھا۔ یہاں ‘ہم‘ سے مراد عام قاری نہیں کہ وہ تو ابن صفی کا عاشق تھا۔ ‘ہم‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جو ناول، افسانے اور داستاں سرائی کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔""
ڈاکٹر خالد جاوید نے ایک بار کہا تھا کہ "" ابن صفی اردو میں ایک روایت کا نام ہیں مگر یہ روایت ان کے ساتھ ہی ختم ہوگئی۔ ہماری تنقید نے ان کے ساتھ سگا یا سوتیلا، کسی قسم کا برتاؤ نہیں کیا۔ یہ اسی قسم کی صورتحال ہے جیسے اعلی قسم کا فلم بین طبقہ اور سنیما کے ناقدین نصیر الدین شاہ کے ساتھ دلیپ کمار کا نام لیتے ہوئے ہونٹ دبا لیتے ہیں یا موسیقی کا اعلی ذوق رکھنے والا طبقہ اشرافیہ بھیم سین جوشی کے ساتھ محمد رفیع کے بارے میں کچھ کہنے میں ہتک محسوس کرتا ہے۔ تو کیا "پاپولر" کو صرف اس لیے نکال باہر کیا جائے کہ عوام نے اسے پسند کیوں کیا۔ ترقی پسند حضرات کو اس پر اور بھی زیادہ غور و خوص کرنے کی ضرورت ہے۔""
کاش کوئی اس بارے میں سوچے کہ شہر کراچی کی، جہاں ابن صفی تمام عمر قیام پذیر رہے، کوئی سڑک، فلائی اوؤر یا کسی عمارت کا نام ان کے نام پر رکھ دیا جائے۔ اسی طرح کراچی یونیورسٹی کو چاہیے کہ ابن صفی پر بلاتاخیر تحقیقی کام شروع کرائے کہ اس سے فن جاسوسی ناول نگاری کے خد و خال ابھر کر سامنے آئیں گے۔
ابن صفی کی ادبی حیثیت کا تعین نہ ہوسکا۔۔۔۔۔ ابن صفی اور جاسوسی ادب سے ادب کے ٹھکیداروں کی الرجی ختم نہ ہوسکی۔ جدید جاسوسی ادب کی تاریخ ابن صفی کو کبھی فراموش نہ کرسکے گی اور اگر اس کی مرتکب ہوئی تو اس کا حشر بھی ان نقالوں کا سا ہوگا جو ابن صفی کے نام کے قافیے سے ملتے جلتے نام رکھ کر پڑھنے والوں کو دھوکا دیتے رہے ہیں۔ جب انسانوں کی کوئی جماعت اللہ تعالی کے احکام اور اس کی اطاعت سے مسلسل روگردانی کرتی ہے تو آخر کار غیرت الہی جوش میں آجاتی ہے اور طرح طرح کے عذاب نازل ہوتے ہیں لیکن جس قوم کو سب سے بڑھ کر عبرتناک سزا دینا مطلوب ہوتا ہے، اللہ تعالی اس کے چہرے کو مسخ کردیتا ہے اور ایسے لوگ اپنی شناخت گم کردیتے ہیں۔۔۔۔۔۔ادب کے ان نام نہاد ٹھکیداروں کا چہرہ بھی مسخ ہوگیا ہے۔۔۔۔ان کی شناخت گم ہوگئی ہے! جہاں قول فعل کو اپنے پیچھے ہانپتا چھوڑ آئے وہاں حرف اپنی حرمت و تاثیر کھو دیتا ہے۔
ابن صفی ایک ایسا بت تھے جسے توڑنے کی، مایوس و پژمردہ کرنے کی، نیچا دکھنے کی اور اس کی نقالی میں قارئین کو گمراہ کرنے کی بڑے بڑے بت شکنوں نے تمام عمر سعی کی تھی۔ مگر جب ایسے لوگوں کے ہتھوڑے اور تیشے اس بت کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے سستانے لگتے تھے، وہ ٹکڑے ازسرنو اکھٹا ہوکر اس خوبصورت بت کی شکل اختیار کر لیتے تھے جس کا نام ابن صفی ہے اور جو اپنے تنقیص نگاروں کو مخاطب کرکے اپنی نرم ، شیریں اور مدھم آواز میں کہتا ہے:
فہم و فراست خواب کی باتیں، جاگتی دنیا پاگل ہے
عقل کا سورج ماند ہوا ہے، ذروں کی بن آئی
ابن صفی نے جس مسلک کج کلاہی کی طرف سمت ایک دفعہ اپنا قبلہ راست کرلیا، پھر اسے تاعمر نہیں بدلا اور اپنے اسی عہد وفا میں علاج گردش لیل و نہار ڈھونڈا۔ اور یہ انہوں نے اس زمانے میں کیا جب اردو زبان کے سری ادب کو تازہ خون کی اشد ضرورت تھی۔ کتنے ایسے ہیں جو قریبا نصف صدی تک ایک ہی وضع پر قائم رہے ہوں ? جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں کہ ابن صفی کے چنے ہوئے راستے سے ادب کے رہنماؤں کو اختلاف رہا ہے لیکن اپنی تحریروں کے ذریعے اردو زبان کے پھیلاؤ، قانون کا احترام اور پڑھنے والوں کی ذہنی و فکری تربیت جیسے کام جس پامردی و استقامت سے انہوں نے کیے وہ لائق تحسین و تکریم ہیں۔ ابن صفی اس طرح جیے، جس طرح جینا چاہیے اور یوں شتابی سے رخصت ہوئے، جس طرح وہ رخصت ہونا چاہتے تھے:
جس طرح آئے گی، جس روز قضا آئے گی
خواہ قاتل کی طرح آئے کہ محبوب صفت
دل سے بس ہوگی یہی حرف ودع کی صورت
للہ الحمد! باانجام دل دل زدگان
کلمہ شکر بنام لب شیریں دہناں
ابن صفی کے ادبی مقام کا تعین کرنا ہماری سب سے بڑی اخلاقی ذمہ داری ہے
تحریر: راشد اشرف
ای میل: zest70pk@gmail.com
2010/09/21
2010/05/03
پیش رس - اُلٹی تصویر
جاسوسی دنیا : 82 - الٹی تصویر (پیش رَس)
۔۔۔۔۔۔۔۔ ویسے بعض خطوط کے جوابات اتنے ہی ضروری ہوتے ہیں کہ اُن کا تذکرہ پیش لفظ میں کرنا پڑتا ہے !
مثال کے طور پر ایک صاحب نے میرے ناول "خون کا دریا" کے متعلق پوچھا ہے کہ وہ بھی اوریجنل ہے یا نہیں؟ کیونکہ ویسی ہی ایک کہانی گجراتی میں بھی اُن کی نظروں سے گزری ہے ۔۔۔
گذارش ہے کہ "خون کا دریا" کی کہانی سو فیصدی میری ہی تخلیق ہے !
یہ اور بات ہے کہ کسی گجراتی لکھنے والے بھائی نے میری گردن پر چھری پھیر دی ہو !
اردو میں جو چھریاں پھیری جا رہی ہیں وہ تو آپ کی نظروں کے سامنے ہی ہیں ۔۔۔۔۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوا ہے کہ میری کتابوں کا ہندی میں ترجمہ ہوا اور ہندی سے وہ پھر اردو میں منتقل ہوئیں لیکن اس تیسری جُون میں مصنف کا نام تک بدلا ہوا نظر آیا۔
اس قسم کی ایک کتاب "ربڑ کی عورت" کے متعلق ایک صاحب نے پوچھا ہے۔ "ربڑ کی عورت" میرے ناول "بیگناہ مجرم" کا ہندی ترجمہ ہے ! کسی صاحب نے اردو میں اس کا دوبارہ ترجمہ کر ڈالا۔ میرے ساتھ ایسے لطیفے ہوتے ہی رہتے ہیں اور میں ان سے کافی محظوظ ہوتا ہوں۔
دیکھئے نا ، میرے پراسرار کرداروں ہی کی طرح بعض اوقات یہ کمبخت کتابیں بھی بھیس بدل کر سامنے آ کھڑی ہوتی ہیں اور میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں شرلاک ہومز کی طرح کوکین کا انجکشن لے لوں یا عمران کی طرح چیونگم سے شغل فرماؤں؟
- ابن صفی
21-مارچ-1959ء
بوقت
2:37 PM
2010/04/17
قلم کا قرض
راشد اشرف - نئے افق - اگست 1995
تم جانتے ہو جب مجھے ابن صفی سے عقیدت شروع ہوئی تو انہیں پورے ہوئے تیرہ برس ہوچکے تھے۔
اور سنو ۔ یہ عقیدت اب محبت میں بدل چکی ہے۔
میں قدرت اللہ شہاب نہیں ہوں اور نہ ہی ابن صفی کوئی چندراوتی۔ شہاب کو جب چندراوتی سے محبت شروع ہوئی تو اسے مرے ہوئے تیسرا دن تھا اور میں اگر تین میں تین میں نہ سہی پر تیرہ میں ضرور ہوں۔
تم یقیننا" جاننا چاہو گے کہ اس کی ابتدا کہاں سے ہوئی ? تو سنو:
جولائی 27 سن 1980
میں غالبا پرائمری کا طالب علم تھا۔ اخبار میرے ہاتھ میں تھا اور میں ابن صفی کی موت کی خبر اٹک اٹک کر پڑھنے کی کوشش کررہا تھا۔ اس میں کامیابی کے بعد میں وہ اخبار تھامے اپنی آنٹی کے پاس چلا گیا کیونکہ اکثر انہی کے ہاتھ میں، میں نے اس نام کے مصنف کی کتابیں دیکھی تھیں۔ میں نے انہیں وہ خبر سنائی، اور بھی کچھ لوگ کمرے میں موجود تھے اور وہ بھی شاید ابن صفی کے پڑھنے والے تھے۔ کچھ دیر کے لیے وہاں سناٹا چھا گیا۔
"یہ مذاق کررہا ہے"۔۔ کوئی بولا ۔ پھر کسی نے اخبار میرے ہاتھ سے چھین لیا اور کمرے کا سناٹا گہرا ہوتا چلا گیا۔
God's Finger tounched him and he is slept
یہ ابن صفی کون تھا جس کی موت کی خبر ان لوگوں کے لیے اس قدر غیر متوقع تھی ? شاید اسی تجسس نے وقت سے کافی پیشتر مجھے اس کی کتابوں کو ہاتھ لگانے کا جواز فراہم کیا۔ اس وقت یہ حال تھا کہ ابن صفی کی کتابیں پڑھتے تھے اور خود کو بڑوں کی طرح ان کتابوں کے پڑھنے والوں میں شامل سمجھتے تھے لیکن ان فن پاروں میں چھپا ہوا اصل پیغام تیرہ برس بعد سمجھ میں آیا۔ اب دیکھو نا! کیا یہ بدقسمتی نہیں ہے کہ ان فن پاروں کو پڑھ کر ان کے مصنف سے ملنے کا، اس کے ہاتھ چومنے کو جی کرتا ہے لیکن وہ تو مٹی اوڑھ کر سویا ہوا ہے:
Is death the last sleep
No its is the final awakening
جیسا کہ مشتاق احمد قریشی کا جی کرتا ہے کہ "میں انہیں اپنی بانہوں میں سمیٹ لینے کے لیے بازو پھیلا کر آگے بڑھتا ہوں لیکن میرے بازو ہوا میں لہرا کر رہ گئے ہیں۔ میری آنکھیں دھندلا رہی ہیں۔ یہ ننھے ننھے ستارے جو میری پلکوں پر جھلملا رہے ہیں میں انہیں محفوظ کرنا چاہتا ہوں۔ یہ میرا سرمایہ ہیں، انہیں محفوظ، زندہ رہنا چاہیے۔"
"کیا کہا ?" یہ مشتاق قریشی کون ہیں۔"
تاکید کرنے والا چلا گیا اور وہ بھی نہ رہا کہ جس کا خیال رکھنے کی اس قدر تاکید کی گئی تھی۔ اپنے استاد کے احترام میں اس جہان خراب کو چھوڑ گیا لیکن اس کے یکایک اس طرح سے چلے جانے سے بہت ڈر لگتا ہے۔ مشتاق قریشی اب اکیلے ہو گئے ہیں۔ خدا انہیں سلامت رکھے۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ غلط مت سمجھو! قریشی صاحب کے لیے رطب للسان ہورہا ہوں تو اس کی یہ وجہ نہیں کہ اپنی یہ تحریر شائع کروانے کے لیے راہ ہموار کرہا ہوں۔ یہ تو قرض ہے اس شخص کا کہ جس کی تحریروں کے مطالعے کے بعد چار اشخاص کے درمیان بولنا سیکھا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اب تو وہ چار بھی نہیں پورے ہوتے کسی ایک جگہ۔ اسی بنا پر تو تم کو یہ سب سنا رہا ہوں کہ تم کو ابن صفی سے متعارف کراسکوں۔ کوئی دوسرا ملتا ہی نہیں کہ جس کے ساتھ ابن صفی کے بارے میں گفتگو کرکے سیر ہوسکوں۔ اب تو ڈش اینٹینا اور موبائل فون پر بات کرنے والے باآسانی دستیاب ہیں۔ وہ کہتے ہیں "فلاں فلم دیکھی، کیا اداکاری ہے خرگوش کمار کی، واہ۔ اور ہنٹر والی کے تو بس کیا ہی کہنے، کیا نام لیتے ہو ! ابن صفی ? اجی چھوڑیں، اس کی کتابوں میں تو رومانس ہی نہیں اور پھر ہم تو بس instant love کے قائل ہیں، وہ جیسا کہ اس فلم میں۔۔۔وہ۔"
اب تم ہی بتاؤ کوئی کیا کہے ان کے سامنے۔ تمہارے اندر کچھ چراثیم دیکھے تو ٹھان لی کہ تم کو ابن صفی سے متعارف کرائے بغیر نہ رہوں گا لیکن تم کو دلائل کے ساتھ قائل کرنا پڑے گا۔ یہ جانتا ہوں میں، تو سنو:
الہ آباد - سن 1952
چند حضرات ایک میز کے گرد بیٹھے ہیں اور موضوع گفتگو ہے اُس وقت کا سری ادب۔ یہ تقریبا تمام کے تمام اس زمانے کے قد آور لوگ ہیں جن میں ابن سعید (بعد میں پروفیسر مجاور حسین رضوی)، عباس حسینی، اسرار احمد (بعد میں ابن صفی)، شکیل جمالی، راہی معصوم رضا (بعد میں ڈاکٹر راہی معصوم رضا) اور آفاق حیدر وغیرہ شامل ہیں۔ حاضرین میں اسرار احمد شاعری کرتے ہیں۔ خوش گلو ہیں اس لیے دوست احباب ان سے مختلف شعرا حضرات کی غزلیں ترنم سے سنا کرتے ہیں۔ سن 1948 میں جب گاندھی جی کی موت ہوئی تو اس صبح اسرار احمد نے اس سانحے پر اپنی ایک نظم نیا دور کے دفتر کی جانب جاتے ہوئے ابن سعید کو تھما دی۔ اس نظم کا ایک شعر ملاحظہ ہو:
لویں اداس، چراغوں پہ سوگ طاری ہے
آج کی رات انسانیت پہ بھاری ہے
سن 1948 میں وہ محض سولہ برس کے تھے اور فراق، سلام مچھلی شہری اور وامق جونپوری کے سامنے بیٹھ کے نظمیں سناتے تھے۔ ہاں تو بات ہورہی تھی سن 1952 کے الہ آباد کی اور اس محفل کی۔ تو صاحب، حاضرین میں سے کسی نے ہانک لگائی کہ اردو میں صرف فحش کتابیں ہی زیادہ مقبول ہوسکتی ہیں۔
اسرار احمد نے شدومد سے اس بات کی مخالفت کی اور اپنی بات کے حق میں دلائل پیش کیے۔ بحث کا اختتام چاہے کچھ کیوں نہ رہا ہو لیکن ہر شخص اس بات پر متفق تھا کہ سکسٹین بلیک سیرز کی طرز پر اردو میں ایک جاسوسی ماہانہ نکالا جائے۔ دوستوں کا خیال تھا کہ راہی چونکہ گارڈنر، ایڈگر ویلس اور اگاتھا کرسٹی کو دوسرے شرکا کی بہ نسبت زیادہ پڑھے ہوئے ہیں لہذا وہ بہت اچھی جاسوسی کہانیاں لکھ سکتے ہیں لیکن ابن سعید نے راہی کو نظر انداز کرکے وکٹر گن کا ایک ناول بعنوان ‘آئرن سائیڈز لون ہینڈز‘ اسرار احمد کو تھما دیا کہ میاں اسی کو بنیاد بنا کر ایک کہانی لکھ لاؤ۔ اسرار احمد نے ایک ہفتے میں وہ ناول مکمل کر لیا۔
ناول کا نام تھا "دلیر مجرم"
قابل ذکر بات یہ ہے کہ راہی نے اس ناول کو پڑھنے کے بعد اس صنف میں طبع آزمائی کا ارادہ ترک کردیا۔ غالبا" انہوں نے اندازہ کرلیا تھا کہ آگے چل کر یہ اچھے اچھوں کو آؤٹ کلاس کردے گا۔
جنوری سن 1952 میں ناول نگار کا نام اس کے والد بزرگوار صفی اللہ کے حوالے سے ابن صفی تجویز ہوا اور یوں ایک ایسے نوآزمودہ لکھاری نے اس وادی بے مثال میں قدم رکھا جو بنیادی طور پر ایک شاعر تھا اور جس کی شاعری کی معترف تیغ الہ آبادی (بعد میں مصطفی زیدی) اور راہی معصوم رضا جیسی شخصیات تھیں اور کیوں نہ ہوتے جبکہ ایسے خوبصورت اشعار کی داد تو انہوں نے کئی جگہ سے پائی، نمونہ ملاحظہ ہو:
اُتر تو آئی ہے جاڑوں کی دھوپ آنگن میں
مگر پڑوسی کا دو منزلہ بھی گھات میں ہے
بلاآخر تھک ہار کے یارو ہم نے یہ تسلیم کیا
اپنی ذات سے عشق ہے سچا، باقی سب افسانے ہیں
تم کیا سمجھتے ہو کہ تختہ گل میرا جہاں
وہ گھٹن ہے کہ مجھے سانس بھی لینا ہے محال
بہرکیف دلیر مجرم کے بعد جو قلم رواں ہوا تو ناولوں کے ڈھیر لگتے چلے گئے اور ان کی فکر و فن جب قلم کے راہوں سے رنگا رنگ فن پاروں میں ڈھلا تو جاسوسی ادب کے میدان میں گویا بہار سی آگئی۔ ہر کہائی دوسری سے جدا، بالکل مختلف۔ عمران کا کردار تخلیق کیا تو لوگ اس کے دیوانے ہوگئے۔ فریدی اور حمید کو پسند کرنے والوں کا حلقہ الگ تھا۔ مگر دوست یہ دنیا جس میں ہم اور تم سانس لے رہے ہیں بڑی کمینی جگہ ہے۔ یہاں خوشامد پسندوں کو تو سر پر بٹھایا جاتا ہے اور جس کسی میں آگے بڑھنے کا حوصلہ ہو، ٹیلنٹ ہو، اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ تنقید بے جا کے پتھروں سے اس کو سنگسار کیا جاتا ہے اور یہ سب کچھ اس کی زندگی ہی میں کیا جاتا ہے، محض اس تخلیق کے شعلے کو سرد کرنے کی خاطر جس کی آنچ ایسے لوگ اپنے گرد محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ایسے ہی چند ادب کے "علمبرداروں" نے ابن صفی کی عظمت کا کبھی اعتراف نہ کیا۔ یہ لوگ جاسوسی ادب کو ادب شمار نہیں کرتے تھے۔ وہ شاعر کہتا ہے نا:
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر ہے
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
انہی لوگوں کے بارے میں اپنے ایک انٹرویو میں اس عظیم مصنف کا لہجہ بہت دکھی دکھائی دیتا ہے:
"تھکے ہوئے ذہنوں کے لیے تھوڑی سی تفریح مہیا کرنا ایک مقدس فریضہ ہے۔ جب آرٹ اور ادب کے علمبردار مجھ سے کہتے ہیں کہ میں ادب کی خدمت کروں تو مجھے بڑی ہنسی آتی ہے۔ تم ہی بتاؤ مشتاق میاں کہ کیا میں جھک مار رہا ہوں ? حیات و کائنات کا کون سا ایسا مسئلہ ہے جسے میں نے اپنی کسی نہ کسی کتاب میں نہ چھیڑا ہو۔ بس میرا طریقہ کار ہمیشہ عام روش سے الگ تھلگ رہا ہے۔ میں بہت اونچی بات کہہ کر محض چند لوگوں تک محدود ہونے کا قائل نہیں ہوں۔ دوسرے لوگ جو اعلی اور ارفع ادب تخلیق کر رہے ہیں وہ ادب کتنے ہاتھوں تک پہنچتا ہے اور انفرادی یا اجتماعی زندگی میں کیا انقلاب لاتا ہے ? افسانوی ادب خواہ وہ کسی بھی پائے کا ہو، اس کا مقصد محض ذہنی فرار اور کسی نہ کسی تفریح ہی فراہم کرنا ہوتا ہے لیکن اس سے گنے چنے لوگ ہی محظوظ ہوتے ہیں۔ میں ان گنے چنے لوگوں کے لیے ہی کیوں لکھوں ? میں وہ انداز کیوں نہ اپناؤں جسے لوگ زیادہ پسند کرتے ہیں۔"
دیکھا تم نے اس عظیم شخص کی گفتگو کا ڈھنگ ? اب مزید وضاحتیں دینے کے لیے وہ تو نہیں رہا لیکن اس کا چھوڑا ہوا کام دیکھو۔ اس کا مطالعہ کر تم کو اس انٹرویو کے مندرجات کی زیادہ بہتر طریقے سے آگاہی ہوسکے گی۔ یہاں پہلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ ادب کیا ہے ? ادب شرطیہ طور پر ہر دلچسپ اور زندگی سے قریب تحریر کا احاطہ کرتا ہے۔ ایسی تحریر جو تفریح بہم پہنچاتی ہو اور احساسات کو چھو لیتی ہو، ادب کے زمرے میں آئے گی تو اس حوالے سے کیا ابن صفی کی یہ کتابیں اردو میں ادب کا درجہ نہیں رکھتیں ? ذرا غور کرو۔
وہ کہتا ہے کہ " وہ لوگ جو اعلی اور ارفع ادب تخلیق کررہے ہیں وہ کتنے ہاتھوں میں پہنچتا ہے ?"
آگ کا دریا سے عام آدمی نے کتنا اثر لیا، نیز اس کو پڑھنے والوں کی تعداد اس ملک میں کتنی ہے۔ اور پھر پڑھ کر ‘سمجھنے‘ والے کتنے ہیں۔ واضح رہے کہ قرۃالعین کے اس ناول کو ادبی محفلوں، ادبی مقالوں، ادبی ‘ٹاکروں‘اور انٹرویوز میں عبدللہ حسین کے ناول ‘اداس نسلیں‘ پر فوقیت دی جاتی رہی ہے بلکہ اب تو یہ فیشن بنتا جارہا ہے بالکل اسی طرح سے کہ فلم کی میٹرک پاس ہیروئین سے جب اس کے پسندیدہ شاعر کا نام پوچھا جاتا ہے تو وہ کسی قدر اٹھلاتے ہوئے جواب میں فیض احمد فیض کا نام لیتی ہے لیکن وہ تو پھر بھی کسی حد تک درست ہے کیونکہ اس کو اور اس کے قبیلے کی اور دوسری اداکاراؤں کو بچپن ہی سے تماش بینوں کے سامنے فیض کی غزلوں پر ہی پرفارم کرنا پڑتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
سن 1947 کے فسادات پر جو ادب تخلیق ہوا اس کی زندگی کتنی تھی ?
سن 1965 کی جنگ کے بعد اس سے متلعق افسانوی ادب کا سیلاب سا آگیا تھا۔ کیا اس کو بھی ہمیشہ زندہ رہنے والے ادب میں شمار کیا جائے گا ?
برطانوی فلسفی برکلے کا کہنا ہے کہ "ہم شے کا ادراک اس لیے نہیں کرتے کہ وہ پائی جاتی ہے، بلکہ وہ پائی ہی اس لیے جاتی ہے کہ ہم اس کا ادراک کرتے ہیں۔" -- یہ بڑی دلچسپ صورتحال ہے، مثال کے طور پر اگر ہم کسی کتاب کو پڑھنے کے بعد الماری میں بند کردیں اور وہ ہمارے ادراک کی توجہ کھو بیٹھے تو اس کائنات میں اس کا کہیں کوئی وجود باقی نہیں رہے گا لیکن ابن صفی کی تصنیفات اس کلیئے سے مستشنی ہیں کیونکہ وہ المارہ میں بند کیے جانے کے باوجود قارئین کے ذہنوں میں مقید رہتی ہیں۔
آگے چل کر اسی انٹرویو میں صفی صاحب مزید کہتے ہیں:
"یہ جو تم ادب عالیہ کہ بات کرتے ہو تو میں اس کو افورڈ نہیں کرسکتا۔ تم نے ادب تخلیق کرنے والوں کو دیکھا ہے ? کیا حلیہ ہوتا ہے ان کا ? جب وہ ادب کا شہ پارہ تخلیق کرکے ادب کے ٹھیکیداروں کو دیتے ہیں تو وہ جواب میں انہیں اس کا کیا معاوضہ دیتے ہیں ? صرف ستائشی لفظوں اور ستائشی جملوں سے نہ تو ادیب کا پیٹ بھرتا ہے اور نہ ہی اس کے بال بچوں کا۔ خیر، تم میری یہ بات نوٹ کرلو کہ ایک ایسا وقت آئے گا کہ لوگ اسی کو ادب تسلیم کرلیں گے۔"
جہاں تک ابن صفی کی شہرت کا سوال ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس شخص میں ایسی خداداد صلاحیتیں تھیں کہ جن کے بل بوتے پر اس نے اپنی منزل کا خود تعین کیا اور وہ جو اس نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ "میں گنے چنے لوگوں کے لیے کیوں لکھوں ?" تو جی کرتا ہے کہ اس کی مقبولیت سے متعلق چند حیران کن واقعات تمہارے گوش گزار کروں:
رضی اختر شوق اور حریت کے اے آر ممتاز کے حوالے سے سہیل اقبال سے روایت ہے کہ اگاتھا کرسٹی لندن جاتے ہوئے کراچی ائیرپورٹ پر آدھ گھنٹے قیام کے لیے رکیں۔ چند مداحوں نے ان سے دوران گفتگو پاکستانی جاسوسی ادب کا ذکر کیا تو انہوں نے جوابا" کہا "مجھے اردو نہیں آتی لیکن برصغیر کے جاسوسی ادب سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتی ہوں۔ ابن صفی جاسوسی ادب سے واحد خالق ہیں۔ کسی نے بھی ان سے ہٹ کر کوئی نئی راہ نہیں نکالی۔"
ضمیر اختر نقوی جنہوں نے ابن صفی کی ناول نگاری کے عنوان سے کتاب لکھی ہے، ایک جگہ لکھتے ہیں۔ " محکمہ انٹیلی جنس حکومت پاکستان کے اہم ترین آفیسرز کو جرائم کے کسی کیس میں مشکل درپیش ہوتی تھی تو وہ ابن صفی سے مشورہ کرنے ان کے پاس آیا کرتے تھے۔"
اس ضمن میں بدر منیر (پشتو فلموں والے نہیں) چند بڑے دلچسپ واقعات بیان کرتے ہیں۔ وب سے پہلے تو وہ اپنے بارے میں کہتے ہیں۔ " مجھے یاد ہے کہ شعلہ سیریز سے میں نے ابن صفی کا مطالعہ شروع کیا۔ ان دنوں میں زبردست ذہنی انتشار سے دوچار تھا اور مجھے ہر طرف تاریکی ہی تاریکی دکھائی دے رہی تھی۔ دوستوں نے آنکھیں پھیر لی تھیں اور زندگی کا کا اختتام قرب تر ہوتا دکھائی سے رہا تھا لیکن شعلہ سیریز نے میری امنگوں اور حوصلوں کو نئی توانائی دی اور میں جلد ہی انتشار کے اس ہولناک گرداب سے باہر نکل آیا۔ میں نے (بدر منیر) اپنے عہد کے نامور ، شریف، دیندار، دیانتدار، پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کی بک شیلف میں ابن صفی کی کتابیں دیکھیں۔ خواجہ صاحب اگاتھا کرسٹی، سر آرتھر کونن ڈائل اور پیری میسن سیریز کے مستقل قاری تھے لیکن ابن صفی کی آمد کے بعد انہوں نے انگریز مصنفوں سے کافی حد تک نجات حاصل کرلی تھی۔
اب ذرا خواجہ ناظم الدین کا ابن صفی کے بارے میں تبصرہ سنو:
"ابن صفی مجھے خاص طور سے اس لیے پسند ہے کہ وہ فی الواقع ایک شریف، دیانتدار، خوددار اور نیک نیت لکھنے والا ہے۔ مجھے اس لیے بھی ابن صفی پسند ہے کہ اس نے اردو ادب کو انگریزی ادب کے برابر لا کھڑا کیا ہے کہیں کہیں تو اس کا قد غیر ملکی لکھنے والوںکے مقابلے میں نکلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔"
محمد بدر منیر سقوط مشرقی پاکستان سے پیشتر ایک نوے سالہ ضعیف خاتون کو ان کی پسندیدہ اردو کی کتاب اسپتال جاکر پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ ایک عرصے تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ پھر مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد بھی نہایت ہی نامساعد حالات میں وہ ان کے پاس برابر جاتے رہے۔ وجہ حاضری بھی اس مرتبہ وہی ٹہری یعنی اردو کی کتب اور یہ کتب کسی اور کی نہیں، ابن صفی کی تھیں جن سے وہ خاتون گہری عقیدت رکھتی تھی اوہ وہ ضعیف خاتون بابائے بنگلہ دیش کی والدہ تھی۔
ایک شاعر ہیں رؤف شیخ - ان سے سوال کیا گیا کہ اور کون کون سے ادیب ابن صفی کو پڑھتے ہیں۔ ان کا جواب تھا " یار پڑھتے تو سبھی ہیں۔ کوئی میری طرح اعتراف کرلیتا ہے اور کسی میں اعتراف کی ہمت نہیں۔ یہ لوگ احساس کمتری کے مارے ہوئے لکھاری ہیں، ادیب یا شاعر نہیں۔"
پیجاب کے کسی گاؤں میں بدر منیر کسی کے گھر مہمان کے حیثیت سے قیام پذیر ہیں۔ میزبان کے گھر لڑکے کی پیدائش ہوتی ہے۔ جب نام رکھنے کا مرحلہ آتا ہے تو طے یہ ہوتا ہے کہ اپنا اپنا پسندیدہ نام ایک پرچی پر لکھ کر تمام حضرات پیش کریں گے۔ پرجیوں کی پڑتال ہوتی ہے تو گیارہ پرچیوں میں سے آٹھ پر عمران چوہدری درج ہوتا ہے۔ بقیہ تین پرچیوں میں ایک پر حمید اور دو پر فریدی کے نام درج تھے۔
اور فراز چائییں کتنی محبتیں تجھے
ماؤں نے تیرے نام پہ بچوں کا نام رکھ دیا
بدر منیر ایک اور واقعہ سناتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کو لاہور سے کراچی بذریعہ ٹرین سفر درپیش ہوا۔ عین وقت پر ریزرویشن نہ مل سکی۔ کاؤنٹر پر ایک صاحب ابن صفی کے ناول میں غرق تھے اور ایک مرتبہ بدر صاحب کو ٹکٹ کی فراہمی کے سلسلے میں نفی میں جواب دے چکے تھے۔ بدر صاحب نے ان سے جھوٹ بولا کہ ایک صاحب ہیں ابن صفی ان کے لیے مجھے سیٹ درکار ہے۔ ان صاحب نے پانچ منٹ میں ٹکٹ بمہ ریزرویشن کے حوالہ راوی کیا اور بولے "میرے ایک عزیز کراچی جارہے ہیں، ان کو گھر جاکر منالوں گا۔ ابن صفی کے لیے تو پوری ٹرین حاضر ہے۔"
اب تم خود ہی اندازہ کرلو کہ یہ شخص کہاں کہاں اپنی تحریروں کے حوالے سے نہیں پوجا جاتا تھا۔ بقول مرزا حیدر عباس کہ سندھ، پنجاب، بلوچستان اور سرحد میں ہزاروں ایسے لوگ تھے جو ابن صفی کی تحریر کے سحر میں گرفتار تھے حالانکہ ان کو ٹھیک سے اردو پڑھنی بھی نہیں آتی تھی۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق کے نام سے کون واقف نہیں۔ دیکھو تو وہ بھی ابن صفی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کچھ فرما رہے ہیں کہ " اس شخص کا اردو پر بہت بڑا احسان ہے۔" دنیا جانتی ہے کہ بابائے اردو نے اپنی تمام زندگی اردو کی تدوین و فروغ کی کوششوں میں گزار دی۔
اب وہ زمانہ آگیا تھا کہ دھیرے دھیرے اپنی تحریروں میں اپنا لہو نچوڑ دینے والے کا ذکر "ادبی" سطح پر کہیں کہیں نظر آنے لگا تھا۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر اعجاز حسین نے اپنی تصنیف ‘اردو ادب آزادی کے بعد‘ اور ڈاکٹر علی حیدر نے ‘اردو ناول- سمت و رفتار‘ میں ان کا ذکر کیا ہے۔
طبیعت کے ایسے درویش کہ لوگوں نے ان کے ناول مختلف ناموں سے چھاپنا شروع کردیے۔ گرچہ ان لوگوں کے خلاف صفی صاحب نے کاروائی کی لیکن کب تک ? آخر کار نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہوئے اور عرصہ تین برس تک صاحب فراش رہے لیکن مسجدوں، کلیساؤں میں کی گئی دعائیں رنگ لائیں اور اپنے ایک معرکتہ الارا ناول ڈیڑھ متوالے سے ان تمام بدخواہوں کو للکارا کہ:
کیا سمجھتے ہو جام خالی ہے
پھر چھلکنے لگے سبو آؤ
دوران علالت ان پر اپنے دوستوں کی حقیقت آشکارا ہوئی۔ صفیہ صدیقی، کہ رشتے میں ان کی سالی ہوتی ہیں، سے روایت ہے کہ اسرار بھائی کہا کرتے تھے کہ بیماری کے دوران کم بخت کوئی پھٹکا نہیں۔ خیریت تک نہ دریافت کی۔ کتنے ہی ایسے لوگ تھے جو میرے قرضدار تھے، وہ بھی غائب ہوگئے۔
تجھے گلہ ہے کہ دنیا نے پھیر لیں آنکھیں
فراز یہ تو سدا سے رواج اس کا تھا
27 جولائی 1980 کو ہندوستان سے شائع ہونے والے اخبار انقلاب کا ایک اقتباس دیکھو، گرچہ بات کچھ تلخ سی ہے لیکن یہاں تذکرہ ضروری ٹھرا۔ اخبار لکھتا ہے۔ " ابن صفی ایشیا کے وہ واحد ناولسٹ تھے جنکے کرداروں پر ہر مہینے آٹھ تا دس ناول دوسرے کمرشل رائٹر لکھتے تھے اور ان کی روٹی روزی اسی بنیاد پر چل رہی ہے۔ ہندوستان میں ابن صفی کے پبلیشر عباس حسینی ابن صفی کے ناولوں کی بدولت آج لکھ پتی ہیں۔"
اور تم کیا توقع رکھتے ہو ? تمہیں اور کون کون سے زخم دکھاؤں۔۔۔سنو گے ? تو سنو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابن صفی کے ایک قریبی عزیز مبین احسن ایک واقعہ سناتے ہیں کہ ایک مرتبہ اسرار بھائی نے میرے محکمے کے ایک ملازم کی ترقی کے بارے میں مجھ سے کہا اور ان صاحب کی ترقی اتفاقا" میرے ہی دستخط سے ہوئی، یہ الگ بات ہے کہ یہ صاحب انہی کے لیے مار آستین ثابت ہوئے۔
مرزا حیدر عباس بتاتے ہیں۔ " ایک آدمی نے ان کے ساتھ فراڈ کیا۔ ابن صفی نے مقدمہ کردیا۔ اس آدمی کو سزا ہوگئی۔ جب معلوم ہوا کی اس کے بیوی بچوں کا کوئی سہارا نہیں ہے تو اس کو اپنے وظیفہ دینا شروع کردیا۔
غور کرو یہ دریا دلی کے قصے اسی شہر نگاراں کے ہیں جسے عروس البلاد کہا جاتا تھا کہ اب جس کی فضاؤں میں خون کی بو اس قدر رچ بس گئی ہے کہ ایسے واقعات سن کر ان پر محض ٹھنڈی آہیں ہی بھری جاسکتی ہیں کہ:
جو رد ہوئے تھے جہاں میں کئی صدی پہلے
وہ لوگ ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں
اب تو یہاں خدا کے گھر میں اعتکاف میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو بھی نہیں بخشا جاتا۔ کاش کہ کوئی وقت ایسا آئے کہ ہم کہہ سکیں:
سلام ہو تیری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں
یہ رسم عام ہے جو چاہے سر اٹھا کے چلے
سوچتا ہوں کہ وہ شخص چلا گیا تو اب سکون سے ہوگا۔ کم از کم ان حالات میں اس جیسا انتہائی حساس طبیعت کا مالک کیسے رہ سکتا تھا ? اس کا نروس بریک ڈاؤن تو بار بار ہوتا۔ اس موقع پر ایک نظم بعنوان ‘سیاست‘ کچھ اس طرح یاد آئی ہے کہ گویا قلم کا راستہ روک کر کھڑی ہوچلی ہے:
یہ سیاست بھی کیا عجب شے ہے
میں سمجھتا ہوں میں بھی حق پر ہوں
تم سمجھتے ہو تم بھی حق پر ہو
میں تمہیں مار دوں تو تم ہو شہید
تم مجھے مار دو تو میں ہوں شہید
تم ہو یا میں یہاں بفضل خدا
سب شہیدوں کی صف میں شامل ہیں
سب یزیدوں کی صف میں شامل ہیں
صفی صاحب کے ایک دوست کہ عزیز جبران انصاری کہلاتے ہیں، ان کے بارے میں بہت صحیح تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ " انتہائی مخدوش حالات اور پابندیوں کے دور میں جاسوسی ادب تخلیق کرنے والی ہستی جس کو اپنے جائز حق کا عشر عشیر بھی نہ مل سکا۔"
تم کو حیرت ہو گی کہ بشری رحمان جو رومانی ناولوں کے حوالے سے خاصی معتبر مانی جاتی ہیں، ابن صفی کی بہت بڑی پرستار ہیں۔ وہ اپنی ایک تحریر میں ابن صفی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتی ہیں۔ " ادیب دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک وہ جن کو نقاد ادیب مان لیتے ہیں اور ان کا ایک مخصوص حلقہ بن جاتا ہے، ان کی کتابیں ادب کے ذخائر میں اضافہ کرتی ہیں۔ دوسرے وہ ادیب نہیں نقاد ادیب ماننے پر تیار نہیں ہوتے مگر عوام انہیں ادیب مان لیتے ہیں۔ وہ گھر گھر میں پڑھے جاتے ہیں، ان کی رسائی ہر دل تک ہوتی ہے، وہ گلی کوچوں میں اتر جاتے ہیں، وہ جھونپڑیوں میں بھی دستک دیتے ہیں اور محلوں میں بھی۔ وہ ریلوے اسٹیشن اور ریل کے ڈبوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان کی کتابیں ہر بک اسٹال پر نظر آتی ہیں۔ ابن صفی دوسری قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر آج ان کے نقاد ان کو بڑا ادیب نہیں مانتے تو کل ان کو وہاں بھی اپنا مقام مل جائے گا۔"
کھبی کھبی میں سوچتا ہوں کہ اس شخص کو خدا تعالی نے کیسے بے مثال سنس آف ہیومر سے نوازا تھا۔ دلچسپ جملے۔ بذلہ سنجی کی اچھوتی مثال۔ قاسم کے کردار ہی کو لے لو۔ جب تم جاسوسی دنیا کا "فرہاد 59" پڑھو گے تو تو خود ہی اس کی سمجھ آجائے گی۔ مزید ہنسنا چاہو تو "چمکیلا غبار" پڑھ لو۔ "برف کے بھوت" سے تم کو قاسم کے پس منظر سے آگاہی حاصل ہوگی اور "سینکڑوں ہم شکل"، "چاندی کا دھواں"، "موت کی چٹان"، "زمین کے بادل" اور "طوفان کا اغوا" پڑھنے کے بعد تو تم قاسم کو بے چینی سے بقیہ ناولوں میں تلاش کرو گے۔
مزاح لکھنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ اسٹیفن لیکاک مزاح کی تعریف کچھ اس طرح سے بیان کرتا ہے۔ " یہ زندگی کی ناہمواریوں کے اس ہمدردانہ شعور کا نام ہے جس کا فنکارانہ اظہار ہوجائے۔"
اور تم محسوس کرو گے کہ ابن صفی نے اس فنکارانہ اظہار میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جاسوسی دنیا کا ایک خوبصورت، ایڈونچرس ناول "موروثی ہوس" ہے۔ یہ ایک ناقابل فراموش تحریر ہے۔ بس یوں سمجھ لو کہ لکھا لکھایا اسکرپٹ ہے۔ فلم بنانے والے کو محض لوکیشنز کا انتخاب کرکے شوٹنگ کرنی ہے۔ ان کے ایسے اور کئی ناولوں پر مہماتی، جاسوسی، نفسیاتی اور آرٹ فلمیں بنائی جاسکتی ہیں۔
"برف کے بھوت" کو موسم گرما میں پڑھو تو ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے۔ ظالم نے کچھ ایسی ہی فضا بنا دی ہے کہ جب بھی اس ناول کو پڑھا ہے، ایسا ہی احساس ہوا ہے۔ "شاہی نقارہ" کے مطالے کے ددوران پڑھنے والا گھنے جنگلوں میں شکار کا لطف اٹھاتا ہے اور کیپٹن حمید کی بدحواسیوں سے محظوظ ہوتا ہے۔ ایک بڑی دلچسپ بات کا ذکر کرتا چلوں۔ جاسوسی دنیا کی ایک ناول میں حمید، فریدی کو یہ شعر سناتا ہے:
پہلے ترساتی رہے، خاک میں آخر مل جائے
اور کس کام کی یہ گلبدنی ہوتی ہے
کرنل فریدی کہتا ہے " یہ تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی ندیدے بچے نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی ہو۔"
جواب میں حمید کہتا ہے " تمام اردو شاعری اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ اس ندیدے بچے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔"
دلچسپ بات یہ ہے کہ متذکرہ شعر ابن صفی کا اپنا ہے اور ان کی اس غزل کا مقطع ہے جس کا مطلع کچھ یوں ہے:
ان کی ہر رات ہی قسمت کی دھنی ہوتی ہے
اور ادھر نیند کی بھی بیخ کنی ہوتی ہے
بیچارہ/ری کا پیشرس بھی اپنی جگہ بجائے خود ایک فن پارہ ہے جس میں ابن صفی نے اپنے قارئین سے حد درجہ سنجیدہ گفتگو کی ہے۔ ان کے ہر چاہنے والے کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ متذکرہ ناول کے بارے میں ایک صاحب رائے کا تبصرہ ایک دوسرے ناول کے پیش رس میں یہ ہے کہ " اگر اس تھیم کا کوئی ناول انگریزی میں آیا ہوتا تو نجانے کتنے انگریزی کے کارنامے گرد ہوکر رہ گئے ہوتے۔" ۔۔۔۔۔۔ عمران کے کردار پر تو نجانے کتنی بحثیں ہوتی آئی ہیں لیکن عمران سیرز کو پڑھنے کے بعد تم ان کی کئی ہیروئنز کے بارے میں مغموم ہوجاؤ گے بالخصوص "بیباکوں کی تلاش" کی صبیحہ، "گیت اور خون" کی فریدہ وغیرہ۔ لیکن عمران سیریز کے جس سلسلے کی طرف میں اب آرہا ہوں وہ بلاشبہ ابن صفی کے لازوال قلم کا ناقابل فراموش کہلائے جانے کا حقیقتا" مستحق ہے۔ یہ "ایڈلاوا" سیریز کا تذکرہ ہے۔ یہاں اس کا ذکر کرتے ہوئے مجھے کچھ جذباتی ہوجانے دو۔ یقین نہیں آتا کہ ہزاروں میل کا فاصلہ ہونے کے باوجود ابن صفی نے اٹلی کی رنگین و رومانی فضاؤں میں یہ ایڈونچرس سلسلہ کیسے تحریر کیا ? یہ وصف تو رائیڈر ہیگرڈ میں بھی نہ تھا کہ ایسے معرکتہ آرا ناول لکھ سکے۔ اور پھر ایڈلاوا کا دلدوز انجام ۔۔۔۔ ناول کی ہیروئن کی موت کے حوالے سے اس سلسلے کے آخری ناول ایڈلاوا کا اختتامیہ حد درجے بوجھل ہے اور قاری کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔
عمران سیریز کے ایک ناول "چار لکیریں" کا ابتدائی جملہ پڑھنے کے بعد بے اختیار حلق سے قہقہ ابل پڑتا ہے۔ پڑھنے والا آنکھیں بند کرکے ایک لمحے صورتحال کا تصور کرتا ہے اور پھر مزید قہقہے۔۔۔۔۔ ہوا یہ کہ کیپٹن فیاض اپنے ایک جاگیردار دوست بسلسلہ پارٹی مدعو کیے گئے۔ وہ جاگیردار صاحب عمران کے ساتھ آکسفورڈ میں اکھٹے پڑھتے رہے تھے۔ پارٹی کے انعقاد کے سلسلے میں دعوت ناموں کا انتظام تھا۔ کیپٹن فیاض کی جو شامت آئی تو اس نے عمران کے دعوت نامے پر مسٹر اینڈ مسز عمران لکھ دیا۔ کچھ تو تفریح کی خاطر اور کچھ یہ سوچ کر کہ شاید عمران روشی کو بھی ساتھ لیتا آئے جس کی خوش مزاجی فیاض کو پسند تھی۔ اب ناول کا پہلا جملہ ملاحظہ ہو:
"اس وقت کیپٹن فیاض کی کھوپڑی ہوا میں اڑ گئی جب اس نے عمران کے ساتھ شہر کی ایک طوائف دیکھی۔"
بقیہ صورتحال کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ معززین اور شرفا کی اس تقریب میں عمران صاحب جس طوائف کو اپنے ہمراہ لے گئے تھے اس کی وجہ سے وہاں کیا کیا نہ حماقتیں بھیلی ہوں گی۔
اور پھر امام الجاہلین، قتیل ادب استاد محبوب نرالے عالم۔ دیکھو اس کردار کا انہوں نے کیا خوب نقشہ کھینچا ہے:
"بسر اوقات کے لیے پھیری لگا کر مصالحے دار سوندھے چنے بیچتے تھے۔ اکثر استاد کے جسم میں بعض مشور مقتدین (مثلا" غالب وغیرہ) کی روحیں بھی حلول کرجاتی ہیں۔ کاندھے سے چنوں کا تھیلا لٹکتا ہوا اور ہاتھ میں ٹین کا بھونپو جس میں منہ ڈال کے "چنا کڑک" کی آوازیں لگاتے تھے۔ ایک روز عمران کو اپنی تخلیق سنا رہے تھے:
تم بھلا باز آؤ گے غالب
رستے میں چڑھاؤ گے غالب
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
ایک اور بہت ہی دلچسپ کردار ہد ہد کا ہے جو کہ عمران سیریز کے ایک ابتدائی ناول میں نظر آتا ہے لیکن پھر "شفق کے پجاری" میں آخری بار رنگ جما کر پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ اس درجے کا احمق اور ناکارہ تھا کہ عمران کے ساتھ ساتھ ابن صفی بھی اس کو "افورڈ" نہ کرپائے۔
"بحری یتیم خانہ" کی ابتدا ایک نائٹ کلب میں کلاسیکی موسیقی کے پروگرام سے ہوتی ہے (یہاں ابن صفی اہنے مخصوص ہلکے پھلکے انداز میں چوٹ کرتے نظر آتے ہیں)۔۔۔ عمران صاحب وہاں موجود تھے۔ استاد لفگار ٹھمری شروع کرتے ہیں اور ‘نندیا کاہے مارے بول‘ کی جو تکرار شروع کرتے ہیں تو عمران سات منٹ کے انتظار کے بعد استاد کے سامنے ہاتھ جوڑ کے کھڑا ہوجاتا ہے "حضور اب آپ کی تکلیف نہیں دیکھی جاتی، آپ مجھے اپنی نندیا کا پتہ بتائیں، ابھی دوڑ کر پوچھ آتا ہوں کہ ‘کاے مارے بول‘۔۔۔۔۔ استاد کی تنک مزاجی مشہور تھی۔ سُرمنڈل پھینک کر انہوں نے عمران کا گریبان پکڑنے کی کوشش کی۔ ہنگامہ ہوگیا ۔۔ کسی نے پوچھا کہ یہ کیا بے ہودگی ہے تو عمران صاحب غصیلے لہجے میں بولے " ان کی نندیا میری بھی رشتے دار ہیں"۔۔۔۔ اور استاد دھاڑے " ارے یہ بہرام خان حرام خان کا کوئی گرگا ہے حرامی" ---- " آپ غلط کہہ رہے ہیں جناب" عمران بڑے ادب سے بولا " میں آپ کی نندیا کا سالا ہوں۔"
ان کے چند ناولوں کے نام سنو کہ ایک ایسا ادیب جو بنیادی طور پر شاعر تھا، اپنے ناولوں کے نام اس قدر آرٹسٹک اور شاعرانہ تخیل سے بھرپور رکھ سکتا ہے:
ٹھنڈی آگ، سہمی ہوئی لڑکی، تاریک سائے، سبز لہو، لاش گاتی رہی، آوارہ شہزادہ، چاندنی کا دھواں، چمکیلا غبار، چیختے دریچے، ٹھنڈا سورج، خوشبو کا حملہ وغیرہ وغیرہ۔
ابن صفی کی کتابوں کے پیشرس کا مطالعہ کرنے کے بعد ان کا ایک نیا چہرہ سامنے اتا ہے۔ بعض فاتر العقل پڑھنے والے ان کو کس طرح کے سوالات کر کے بور کرتے ہیں اور ابن صفی ان کو ایسے جواب دیتی ہیں وہ بیجا اور نامناسب تنقید کرنے والے کٹ کر رہ جائیں۔ "سہمی ہوئی لڑکی" کے پیشرس میں ٹنڈو آدم کے ایک ٹیلیفون آپریٹر صاحب ابن صفی کے سابقہ ناول "آتشی بادل" کو محض بکواس قرار دیتے ہیں، ان کی دانست میں ناول کے نام سے اس کے میٹیریل کا کوئی میل نہ تھا۔ ابن صفی لکھتے ہیں کہ ٹیلیفون آپریٹر صاحب نے آتشی بادل کا اشتہار دیکھ کر اس کے بارے میں کچھ اس قسم کی کہانی خود بنائی ہوگی کہ آگ برساتا ہوا ایک بادل ہے جو تمام شہر ہر مسلط ہوگیا ہے، عمارتیں دھڑا دھڑ جل رہی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ پھر عمران اخیر میں اپنی پناہگاہ سے قہقہے لگاتا ہوا برآمد ہوتا ہے اور اس سائینسدان کا ٹیٹوا دباتا ہے جو ایک مشین کے ذریعے آتشی بادل بنا بنا کر فضا کو سپلائی کررہا تھا۔
جوابا ابن صفی اپنے مخصوص انداز میں ایک جملے میں ایسی بات کہتے ہیں کہ پڑھنے والا اچھل پڑے:
"یار ٹنڈو آدمی صاحب! خود ہی لکھ کر پڑھ لیا کرو"
غور کیا تم نے ٹنڈو آدمی کی نادر ترکیب پر ?
چاٹگام سے ایک اور صاحب ابن صفی کو کتابیں لکھنا ترک کرکے ترکاری بیچنے کا مشورہ دیتے نظر آتے ہیں۔ کتاب کا نام ہے "دھواں اٹھ رہا تھا"۔ ابن صفی ان صاحب کو سنجیدگی سے ایک طویل جواب دیتے ہیں لیکن آخر میں چٹکی لینے سے باز نہیں آتے:
"بھئی اپنا نام تو صاف لکھا کریں۔ پہلی نظر میں ‘بدھو داس‘ معلوم ہوتا ہے۔ غور کرو تو ‘رولس رائس‘ پڑھا جاتا ہے۔ ذرا ترچھا کرکے دیکھو تو ‘چلو واپس‘ گھسیٹا ہوا معلوم ہوتا ہے۔
ڈیڑھ متوالے کے پیشرس میں وہ اپنے پڑھنے والوں سے تین برس کے وقفے کے بعد مخاطب ہیں:
"رہی مختلف قسموں کے ابنوں اور صفیوں کے بات تو یہ بیچارے سارے قافیے استعمال کرچکے ہیں۔ لہذا اب مجھے کسی ‘ابن خصی‘ کا انتظار ہے۔ میری دانست میں تو اب یہی قافیہ بچا ہے۔"
یہاں ان کا اشارہ انہی لوگوں کی طرف تھا جو ان کے کرداروں پر غیر معیاری اور واہیات قسم کی کہانیاں لکھ کر پڑھنے والوں کو دھوکہ دیتے رہے تھے۔
فن کی نمود گاہ پر ایسے بھی خوش گماں ملے
چار حروف لکھ لیے اہل کمال ہوگئے
عمران سیریز نمبر 58 کا پیشرس ایک بہت ہی دلچسپ خط لیے سامنے آتا ہے:
"جناب ابن صفی
آپ کے ناول ایک عرصے سے زیر مطالعہ ہیں۔ ہمارا مسئلہ بے ڈھب ہے اور اسے مزید بے ڈھب آپ کے ناول بنا رہے ہیں جو ہماری چھوٹی بہن کے حافظے کی گرفت میں نہیں آتے۔ موصوفہ آپ کے ناولوں کی حافظہ ہیں۔ صفحہ نمبر، سطور کی تعداد، ہر صفحے کا پہلا جملہ، سچویشن، کرداروں کے مکالمے وغیرہ ازبر ہیں۔ خدشہ یہ ہے کہ یہ بار بار کا پڑھنا کہیں اس کے حواس معطل نہ کردے جس کے آثار پیدا ہوچلے ہیں۔ چھ مرتبہ فی ناول کی اوسط ہے۔ اگر نوبت یہیں تک رہتی تو پھر بھی خیر تھی لیکن اب تو پرانے ناولوں کو خریدنے اور جمع کرنے کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا ہے جس کا اختتام پاگل خانہ نظر آرہا ہے۔ آپ سے اتنی سی درخواست ہے کہ اس عجیب و غریب قاریہ سے ہماری جان چھڑائی جائے۔ پیشرس میں اپنی اس سنکی مداح کو اتنی سے نصیحت کردیں کہ ان ناولوں کو حفظ کرنے سے ثواب تو شاید ہی ملے، باقی دنیا سے بھی جائے گی۔"
ابن صفی جواب میں اپنے ایسے دیگر تمام پڑھنے والوں سے گزارش کرتے ہیں کہ تفریح کو تفریح کی حد سے نہ گزرنے دیجیے ورنہ وہ تفریح نہ رہے گی، لت بن جائے گی اور لت ہمیشہ بوریت کی طرف لے جاتی ہے۔ بوریت شروع - تفریح غائب - لہذا محتاط رہیے۔
ایک اور ناول "خطرناک ڈھلان" میں وہ قارئین سے نوک جھونک کے بہترین موڈ میں نظر آتے ہیں۔ اپنی اس کتاب کے پیشرس میں وہ ایک ایسے ہی صاحب کو، جو ان کے پچھلے ناول "ریشوں کی یلغار" سے کچھ مختلف قسم کی توقعات وابستہ کربیٹھے تھے، لال بجھکڑ قرار دیتے ہوئے ‘رجبان‘ کے بارھویں حجرے میں بند کردینے کی خواہش کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ (رجبان کے حجرے کا ذکر ریشوں کی یلغار میں ہے)۔ متذکرہ پیشرس کے ایک اور خط کے جواب میں انداز گفتگو ملاحظہ ہو:
" ایک مولوی صاحب کو ریشوں کی یلغار میں بھی عریانی نظر آئی ہے۔ غالبا" وہ یہ چاہتے ہیں کہ نروں کو ماداؤں کی خوشبو پر بے چین نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ڈی ڈی ٹی چھڑک کر بالکل ہی مار دیجیے کمبختوں کو۔"
ابن صفی جاسوسی دنیا کے 87 ویں ناول کو تحریر کرنے کے بعد اپنے اگلے ناول "پرنس وحشی" میں پڑھنے والوں کو اس وقت کے ماحول میں واپس لے جاتے ہیں جب فریدی انسپکٹر تھا اور حمید سارجنٹ۔ اس کے جواز میں وہ متذکرہ ناول کے پیشرس کا آغاز کچھ یوں کرتے ہیں:
"ایک بار کا ذکر ہے کہ انگریزی کے مشہور مصنف ایڈگر ویلس نے اپنے مداحوں کے ایک مجمع میں بڑے خلوص سے کہا۔ " پچاس ناول لکھنے کے بعد ہی مجھے ناول لکھنے کا سلیقہ ہوا ہے۔"
چھوٹتے ہی ایک صاحبزادی نے فرمایا " کاش ایسا نہ ہوا ہوتا! اب تو آپ بور کرنے لگے ہیں۔ شروع شروع کی کتابوں کا کیا کہنا۔ کاش آپ ماضی میں چھلانگ لگا سکیں۔"
نوجوان نسل کے مقبول شاعر امجد اسلام امجد کے سفرنامے ‘ریشم ریشم ‘کے آغاز ہی سے امجد کی ابن صفی سے عقیدت کا پتا چلتا ہے۔
ابن صفی نے اپنے ایک ناول "لاشوں کا آبشار" کے آخری چار صفحات میں ایک انتہائی حساس موضوع کو چھیڑا ہے۔ ناول کا ویلن مسٹر کیو کسی شخص کی ناجائز اولاد ہوتا ہے۔ وہ عدالت میں اپنا بیان دیتا ہے اور جو کچھ ابن صفی اس کردار کی زبانی کہ گئے ہیں وہ قابل غور ہے، لمحہ فکریہ ہے۔ ایک ایسا نازک و حساس موضوع ہے جس پر قلم اٹھانے کی اور اس خوبصورتی سے اٹھانے کی جرات بڑے بڑوں کو نہ ہوئی۔ مسٹر کیو کے دکھ کو تم اپنے دل میں محسوس کرو گے۔
ابن صفی پورے ہوگئے۔ سب کو مرنا ہے۔ کسی کو آج تو کسی کو کل مگر وہ اپنے پڑھنے والوں کے دل و دماغ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ جدید جاسوسی ادب کی تاریخ انہیں فراموش نہیں کرسکے گی اور اگر اس گناہ کی مرتکب ہوئی تو اس کا حشر بھی ان نقالوں کا سا ہوگا جو ان کے نام کے قافیے سے ملتے جلتے نام رکھ کر پڑھنے والوں کو دھوکا دیتے رہے تھے۔ جب انسانوں کی کوئی جماعت اللہ تعالی کے احکام اور اس کی اطاعت سے مسلسل روگردانی کرتی ہے تو آخر کار غیرت الہی جوش میں آجاتی ہے اور طرح طرح کے عذاب نازل ہوتے ہیں لیکن جس قوم کو سب سے بڑھ کر عبرتناک سزا دینا مطلوب ہوتا ہے، خدا تعالی اس کے چہرے کو مسخ کردیتا ہے اور ایسے لوگ اپنی شناخت گم کردیتے ہیں۔ ادب کے ان ٹھکیداروں کا چہرہ بھی مسخ ہوگیا ہے۔ ان کی شناخت گم ہوگئی ہے۔
فاعبتریا اولی الابصار (عبرت پکڑو اے عقل والو)
وہ ایک اداس صبح منہ لپیٹ کر رخصت ہوگئے۔ سب کو جانا ہے - کسی کو آج تو کسی کو کل۔ خلیل جبران نے کہا تھا کہ "روح تمہارے جسم میں ایک بربط کی مانند ہے، اب یہ تمہارے اوپر منحصر ہے کہ تم اس سے شیریں نغمے پیدا کرتے ہو یا بے ہنگم آوازیں۔"
ابن صفی نے اس بربط سے شیریں نغمے بکھیرے۔ ہنگم آوازیں بھی بازار میں دستیاب ہیں۔ ہر طرح کا مواد ہے۔ اب یہ نئے پڑھنے والے پر منحصر ہے کہ وہ کس کا انتخاب کرتا ہے۔
ابن صفی ہمارے درمیان سے اٹھ گئے، سب کو مرنا ہے، کسی کو آج تو کسی کو کل۔ وقفے وقفے کے ساتھ سب رخصت ہوجائیں گے۔ وہ ساری زندگی اپنی تحریروں کے ذریعے قانون کا احترام سکھاتا رہا۔ 1974 کے خونریز چشم دید فسادات نے اس کو ایسا کرے پر آمادہ کیا تھا کیونکہ وہ کہتا تھا کہ یہ افراتفری محض قانون کی دھجیاں اڑانے کی وجہ سے عمل پذیر ہوئی۔
آج حالات وہی رخ اختیار ہیں۔ قانون کی تذلیل ہر طرف دیکھنے میں آرہی ہے۔ فراق نے ایک بار کہا تھا کہ جو قوم چیخوں سے جگائی جاتی ہے، وہ جاگنے پر بھی وحشی رہتی ہے۔
میں ان لوگوں کے انتظار میں ہوں جو ابن صفی کو پڑھیں گے۔ اس کی باتیں مجھ سے کریں گے۔ اس کے پیغام کو سمجھیں گے۔ اس سے سبق حاصل کریں گے۔ میں ان کی راہ دیکھتا ہوں کہ جو ابھی ابن صفی سے ناواقف ہیں اور جنہیں کسی نہ کسی موڑ پر اس سے متعارف ہونا ہے۔
میں ان لوگوں کو دیکھ کر سکون محسوس کرنا چاہتا ہوں
وہ آرہے ہیں۔۔ وہ آگئے ہیں ۔۔ تم آگئے - تم نے بہر انتظار کرایا - میں راشد ہوں - اچھا اب میں چلتا ہوں
دسمبر 31، سن 2015
رات بہت سرد تھی لیکن گھر کا سنٹرل ہیٹنگ سسٹم اطمینان بخش کارکردگی کا مظاہرہ کررہا تھا۔ اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا ۔ شیشے پر بارش کی بوندیں لرز رہی تھیں۔
"ابھی بہت کام کرنا ہے" اس نے سوچا " اور ابھی تک آغاز بھی نہیں ہوا۔"
اسے امید تھی کہ وہ یہ ایک ہی نشست میں مکمل کرلے گا۔ اس کے لیے یہ بہت دلچسپ تھا۔ مضمون کا بنیادی خاکہ اس کے ذہن میں تھا۔ ۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔۔ "ابتدا کس طرح کروں"۔۔۔۔۔۔ قلم ہاتھ میں لے کر وہ کچھ دیر سوچتا رہا اور پھر کاغذ ہر جھک کر اس نے پہلا جملہ لکھا:
"جب مجھے ابن صفی سے محبت شروع ہوئی، انہیں انتقال کیے پورے 35 برس ہوچکے تھے۔"
2010/04/13
ابن صفی - پیدائشی ادیب :: ایچ اقبال
ابن صفی صاحب پیدائشی ادیب ہیں !
میرے بعض دوستوں کو اس بات سے انکار ہے اور میں اس پر صرف حیرت ہی کا اظہار کر سکتا ہوں۔ اس بات کا اعتراف تو مجنوں گورکھپوری جیسے نقاد نے بھی کیا ہے کہ :ابن صفی صاحب کے جاسوسی ناولوں میں ادبی چاشنی بھی مل جاتی ہے۔
اگر ایسا نہ ہوتا تو پروفیسر ابوالخیر کشفی اور سرشار صدیقی جیسے علمی و ادبی ذوق رکھنے والے لوگ ان کے ناول ذوق و شوق سے ہرگز نہ پڑھتے۔ابن صفی صاحب نے اپنے جاسوسی ناولوں میں زندگی کے جتنے اہم پہلوؤں پر قلم اٹھایا ہے شائد ہی کسی اور ادیب نے اٹھایا ہو۔ انہوں نے معاشرے کے رستے ہوئے ناسوروں کی طرف اشارہ کیا ہے اور سماج کے زہریلے کیڑوں کو الفاظ کا جنم دے کر لوگوں کے سامنے پیش کر دیا ہے کہ ۔۔۔۔ دیکھو ! عبرت حاصل کرو ۔۔۔ اور ان سے بچو !
کسی ادیب کا فرض اس سے زیادہ اور کیا ہوگا؟
ابن صفی صاحب نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا تھا۔ اسرار ناروی نے ہندوستان میں بڑی دھومیں مچائی تھیں۔ پھر وہ طنزنگاری کے میدان میں آ گئے۔ اور اس میدان کے شہسواروں میں ہلچل سی مچ گئی۔ کچھ زمانہ اسی میدان میں دوڑتے ہوئے گزرا۔ لیکن ابن صفی صاحب کی سیمابی فطرت نے انہیں اکسایا کہ کہیں اور چلئے۔ خود ابن صفی کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ اب کدھر کا رُخ کیا جائے؟
پھر ایک حادثہ ہوا۔ وہ جاسوسی ناول نگاری کے سمندر میں کود پڑے اور اس بحرِ اسرار کے بھی سب سے بڑے پیراک ثابت ہوئے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اسرار ناروی جیسے شاعر اور طغرل فرغان جیسے طنز نگار کے ناولوں میں ادبی چاشنی نہ ہو؟
بات ادبی چاشنی کی آ گئی ہے تو میں ابن صفی کی تحریر کا ایک نمونہ پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا۔ دیکھئے کہ لکھنے کا انداز کتنا منفرد اور کتنا رومانٹک ہے ۔۔۔ یہ چند سطریں "خونخوار لڑکیاں" سے لی جا رہی ہیں ۔۔۔۔۔
سلاخوں کے پیچھے لڑکی موجود تھی لیکن حمید اس کی شکل نہیں دیکھ سکا کیونکہ وہ گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھی اور پھر جیسے ہی اس نے سر اٹھایا حمید کی آنکھوں میں بجلی سی چمک گئی۔ پہلی نظر میں کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ کتنی حسین تھی۔ دوسری نظر بھی تفصیلی جائزے کے لیے ناکافی تھی اور تیسری نظر کو اتنا ہوش کہاں کہ وہ تفصیل میں جا سکتی۔ حمید اس کی اداس آنکھوں میں کھو گیا۔ اسے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے وہ کسی سنسان مقام پر کھڑا ہو۔ خاموشی سے پرواز کرنے والے پرندوں کی قطاریں افق کی سرخی میں لہرا رہی ہوں اور کسی پرسکون جھیل میں شفق کے رنگین لہرئیے آنکھ مچولی کھیل رہے ہوں ، لیکن ان سب پر ایک خواب آگیں سی اداسی مسلط ہو۔
ایسے ہی بےشمار ٹکڑے ابن صفی صاحب کے ناولوں میں بکھرے ہوئے ملتے ہیں۔ اگر انہیں یکجا کیا جائے تو سو سوا سو صفحے کی ایک کتاب ضرور بن جائے گی۔ بس ستم یہ ہوا کہ یہ ادب پارے جاسوسی ناولوں میں پیش کئے گئے ہیں اور جاسوسی ناولوں کو ہمارے یہاں صدقِ دل سے تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔
ابن صفی صاحب کی کراہ سنئے :
جو کہہ گئے وہی ٹھہرا ہمارا فن اسرار
جو کہہ نہ پائے نہ جانے وہ چیز کیا ہوتی
اور مجھے یقین ہے کہ وہ کوئی بہت ہی عجیب چیز ہوتی۔ کیونکہ میں نے خود بعض ادیبوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ ۔۔۔۔۔
اگر ابن صفی نے جاسوسی ناول نگاری نہ کی ہوتی اور صرف طغرل فرغان ہی بنا رہتا تو آج کرشن چندر جیسے لوگوں کی صف میں کھڑا نظر آتا !
ابن صفی صاحب کرشن چندر کی صف میں کھڑے ہو سکے یا نہیں ، اس بحث سے قطع نظر میں یہ ضرور کہوں گا کہ انہوں نے لوگوں کو اُردو بولنا اور پڑھنا سکھایا۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے ایک دفعہ ارشاد فرمایا تھا کہ :
اردو پر اس شخص کا بہت بڑا احسان ہے۔
اس احسان کو آج کے لوگ مانیں یا نہ مانیں ، اس احسان کرنے والے کی ادبی حیثیت کو آج کے لوگ تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن مستقبل کا مورخ جب اردو ادب کی تاریخ لکھے گا تو ابن صفی صاحب کو تسلیم کئے بغیر نہ رہ سکے گا !!
2010/04/01
ابن صفی - یاد رکھے گا زمانہ
تحریر: راشد اشرف
مارچ سن 2010
کہنے والے نے کہا تھا کہ اس بزم ہستی سے کچھ ایسی ہستیاں بھی اٹھ جائیں گی کہ جب زمانہ ان کی تلاش میں نکلے گا تو ڈھونڈتا رہ جائے گا۔ یہ ہستیاں جنہیں شاعر حاصل زیست قرار دیتا ہے، جب زمین سے اٹھ جاتے ہیں تو حساس دل رکھنے والے غم و الم کی اتھاہ گہرایوں میں یوں ڈوب جاتے ہیں کہ پھر تمام عمر قدم قدم پر انہیں بے طرح سے یاد کیا جاتا ہے۔ اکثر یہ اخباری ترکیب پڑھتے و سنتے ہیں کہ فلاں کے چلے جانے سے ایک خلا پیدا ہوگیا ہے جو اب کبھی پر نہیں ہوگا ۔ یہ جملہ ہر کس و ناکس کے بارے میں سنتے سنتے کان پک گئے ہیں۔ ہر ایرے غیرے کے بارے میں اس کے بے دھڑک و بیجا استعمال نے اس کی معنویت کو اس بری طرح تاراج کردیا ہے کہ اب تو اسے پڑھ کر کوفت ہونے لگتی ہے۔ یاروں نے تنگ آکر کہا کہ کسی کے مرنے پر جو خلا پیدا ہوتا ہے وہ چند محض گھنٹوں پر محیط ہوتا ہے اور جو خود مرنے والے کے مردہ جسم سے پُر ہوجاتا ہے --- رہے نام اللہ کا ---- ہاں مگر یہ بھی سچ ہے کہ چند شخصیات کے بارے، اس ترکیب کا استعمال اس طرح موزوں نظر آتا ہے گویا یہ جملہ ان ہی کے لیے تخلیق کیا گیا ہو۔ ایسے لوگوں کا نعم البدل ملنا ناممکن ہوتا ہے۔ ایسی ہی نادر روزگار شخصیات میں ایک شخصیت خود ساز‘ عہد ساز‘ روایت شکن‘ روایت ساز جناب اسرار احمد المعروف ابن صفی تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج 30 برس گزر جانے کے بعد بھی مجال ہے کہ کوئی ان جیسا لکھ سکے۔ بہتوں نے بڑا زور مارا لیکن گرد کو بھی نہ چھو سکے۔ صفی صاحب کا 60 برس پہلے کا ناول اٹھا کر پڑھ لیں، اسی طرح ترتازہ معلوم ہوگا۔ لوگوں نے اس تازگی کی مختلف توجیہات پیش کیں لیکن ہماری سمجھ میں تو یہ آتا ہے کہ جرائم کی جانب حضرت انسان کا جھکاؤ ازل سے تھا اور ابد تک رہے گا۔ خیر و شر کے درمیان جنگ بھی اسی طرح جاری و ساری رہے گی، ہاں مگر ابن صفی صاحب نے اپنی کتابوں کے ذریعے قانون کا جو احترام سکھایا ہے اور جس انداز میں سکھایا ہے اس منفرد اسلوب کو اب سے 60 برس بعد بھی وہی پذیرائی ملتی نظر آئے گی کہ جس کے وہ حقدار تھے اور ہمیشہ رہیں گے۔
یوں تو ہم نے ایشیا کے سری ادب کے عظیم مصنف جناب ابن صفی پر اردو و انگریزی میں کئی مضامین تحریر کیے ہیں جن میں صفی صاحب کے فن اور ان کی شخصیت پر سیر حاصل روشنی ڈالی گئی ہے لیکن آج یہاں صفی صاحب کے چاہنے والوں کے لیے صفی صاحب کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ یاد آرہا ہے جو ہمارے احباب کے درمیان ہماری لاج رکھنے کا سبب بنا
پُرانی صحبتیں یاد آ رہی ہیں
چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے
یہ بات ہے سن 2001 کی جب ہم بسلسلہ روزگار، ضلع مظفر گڑھ، پنجاب میں مقیم تھے۔ اس روز آفس کی چھٹی تھی اور چند احباب کے ہمراہ ملتان کی سڑکوں پر آوارہ گردی کے دوران جاسوسی ادب پر بحث چل نکلی تھی، ہر شخص اپنی اپنی رائے دے رہا تھا۔ کہنے کو تو ہر کسی نے ابن صفی کو کبھی نہ کبھی پڑھا تھا لیکن ہماری صفی صاحب سے عقیدت اور ان پر لکھے گئے مضمون کے دعوے کو للکار کر ہمارے عزیز دوست بشیر صاحب (حال مقیم سعودی عرب) تشکیک کا شکار تھے اور دوسروں کو بھی اپنا ہم نوا کرچکے تھے۔ اکثر بے تکلف دوستوں کے درمیان اپنے کسی ایک ساتھی کی "ٹانگ کھینچنے" کا عمل بڑی مہارت اور یکجائی کے ساتھ سرانجام پاتا ہے اور اس دن تختہ مشق ہم تھے۔
یہاں ایک ذرا بشیر صاحب کا تعارف کراتے چلیں۔ ان کا تعلق کوٹ ادو کے علاقے سے تھا۔ پیشے کے لحاظ سے انجینیر تھے۔ اصولوں پر شمجھوتا نہ کرتے ہوئے دو نوکریاں چھوڑ چکے تھے -- دل کے کھرے، کردار کے بے داغ، انتہائی ذودرنج، جلد روٹھنے اور اتنی ہی جلدی مان جانے والے - سانولی رنگت، سر پر سیہہ کی طرح لہرے دار اور کھڑے بال، لامبا قد۔ رخساروں پر اوپر کی طرف جہاں عموما" داڑھی کے بالوں کا نام و نشان نہیں ہوتا، بال بے طرح سے اُگ آتے تھے اور اکثر ہم بشیر صاحب کے ساتھ نائی کی دکان پر جایا کرتے تھے جہاں نائی ایک دھاگہ ہاتھ میں لے کر بےدردی سے فالتو بالوں کی فصل کُھرچا کرتا تھا۔ بشیر صاحب اس تمام عمل کے دوران شرمندہ شرمندہ سے نظر آتے۔ سچ پوچھیے تو اس سے پہلے یہ منظر ہم نے نہ دیکھا تھا اور ہم اس تمام عرصے میں کچھ کچھ عبرت لیے، حیرت و دلچسپی سے نائی کی بےرحمی اور بشیر صاحب کا صبر دیکھا کرتے تھے- ایک روز جب نائی ان پر اپنی مہارت آزما رہا تھا تو یکایک وہ عبرت ناک منظر دیکھتے ہوئے، ہم جھک کر آہستہ سے بشیر صاحب کے کان میں کہا "حضور، بس یہ خیال رکھیے گا کہ کہیں انسداد بے رحمی حیوانات والوں کو اس عمل کی بھنک نہ پڑنے پائے اور پھر نائی کو بشیر صاحب کو کچھ وقت دینا پڑا کہ ہنسی کا دورہ تھم جائے تو وہ اپنا کام دوبارہ شروع کرے ۔
قہقہہ لگانے میں بشیر صاحب یدطولی رکھتے تھے۔ ایسا فلک شگاف قہقہہ کہ آسمان تھرا اٹھے اور قہقہے کے بعد پھیلا ہوا ہاتھ کہ آپ جوابا" ہاتھ پر ہاتھ نہ ماریں تو اسے سخت بداخلاقی تصور کرتے تھے۔ اپنی حد درجہ صاف گوئی کی بنا پر لوگوں میں غیر مقبول تھے اور اسی بنا پر ہمارے کمرے میں روز رات کے کھانے کے بعد پھیرا لگانا ان کا معمول بن گیا تھا۔ گرمی ہو یا سردی، ان کے معمول میں کھبی فرق نہ آتا۔ ہفتے اور اتوار کو آفس کی چھٹی ہوتی تھی اور وہ ان دو دنوں کے لیے کوٹ ادو اپنے گھر چلے جایا کرتے تھے۔ سچ پوچھیے تو ان کا جانا ہم پر گراں گزرتا تھا کہ ہم حیررآباد سے 800 کلومیٹر دور وہاں بشیر صاحب کی ہمنشینی کے عادی ہوچلے تھے۔ ہمارے چند جملوں پر پھڑک پھڑک اٹھتے تھے۔ آپ سے کیا پردہ، ہم بھی تو اکثر مشتاق یوسفی صاحب کا ہی سہارا لیا کرتے تھے۔
" بشیر صاحب، یاد رکھیں، زبان سے نکلا ہوا تیر اور بڑھا ہوا پیٹ کبھی واپس نہیں آتے" - یہ ہم نے شام کی چہل قدمی کے دوران اس موقع پر کہا کہ جب بشیر صاحب حسب عادت کوئی بےلاگ تبصرہ کربیٹھے تھے، بس پھر کیا تھا، بشیر صاحب چلتے چلتے رک گئے اور قہقہے لگانے لگے۔ ایک روز کسی بات پر ہم نے کہا کہ "یاد رکھیے کہ بیوی سے عشقیہ گفتگو کرنا ایسا ہی ہے جیسے انسان وہاں خارش کرے جہاں نہ ہورہی ہو" وہ بے انتہا محظوظ ہوئے اور پھر ہم نے یہ جملہ ان کو موقع بے موقع دوہراتے اکثر دیکھا۔
ایک روز ہم نے ابن صفی صاحب کا جملہ چلادیا - بات ہورہی تھی ہمارے کسی عزیز کی اور بشیر صاحب کو وہ پیچیدہ رشتہ سمجھانا مشکل ہورہا تھا کہ اچانک ہم نے کہا " یار یوں سمجھ لیں کہ وہ ہمارے "دادا زاد" بھائی ہیں" ۔ بشیر صاحب کے حلق سے توپ کے گولے کی مانند ایک قہقہہ نکلا۔
تو یہ تھے ہمارے بشیر صاحب۔
بات ہورہی تھی ملتان کی۔ گفتگو ایک ایسے موڑ پر آٹھہری تھی کہ جہاں "عزت سادات" بچانا مشکل ہوچلا تھا۔ دوستوں نے استہزایہ لہجے میں یہ کہنا شروع کردیا کہ صرف باتیں ہی باتیں ہیں، اب گھر جانا تو ثبوت لانا کہ بولنے اور لکھنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ہم احباب کی لاف گزاف کے سامنے ہتھیار ڈال چکے تھے۔ دوستوں کا ٹولہ آہستگی سے قدم اٹھاتا چلا جارہا تھا کہ فرمائش ہوئی کہ چائے پی جائے۔ ایک چھوٹے سے ہوٹل کی جانب قدم اٹھ گئے۔ اند داخل ہونے سے پہلے بشیر صاحب نے باہر کھڑے پرانی کتابوں کے ایک ٹھیلے کو ٹٹولنا شروع کردیا، ہمارے لیے تو کتابیں اوائل عمری ہی سے باعث مسرت رہی ہیں۔ ٹھیلے کے ایک کونے میں پرانے ڈائجسٹ نظر آئے اور ہم نے یونہی ان کو یکے بعد دیگرے دیکھنا شروع کردیا۔ ارے یہ کیا، یہ تو کوئی جانا پہجانا سرورق جان پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگست سن 1995 کا نئے افق ۔۔۔۔۔۔۔ آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا ----- یا اللہ، یہ تو نے کیسی لاج رکھی۔ جی ہاں، مذکورہ شمارہ وہی تو تھا جس میں سات برس قبل ابن صفی صاحب پر ہمارا طویل مضمون "قلم کا قرض" شائع ہوا تھا جسے مشتاق احمد قریشی صاحب نے مذکورہ شمارے کے اولین مضمون کے طور پر شائع کیا تھا۔ "قلم کا قرض" کا مسودہ ہم بغل میں دابے، انتہائی نامساعد حالات کے اور گھر والوں کی مخالفت کے باوجود حیدرآباد سے کراچی، نئے افق کے دفتر میں دے کے آئے تھے۔ یہ مضمون جناب محمد حنیف کی ابن صفی صاحب پر بنائی آفیشل ویب سائٹ ابن صفی ڈاٹ انفو پر موجود ہے۔
بس پھر کیا تھا- ہم نے ایک فاتحانہ انداز میں رسالہ اٹھایا، ٹھیلے والے کے ہاتھ پر مُنہ مانگے پیسے رکھے اور بشیر صاحب کی طرف نظر دوڑائی۔ وہ کتابیں دیکھنے میں مصروف تھے۔
"ہاں تو جناب والا، آپ کو ثبوت چاہیے تھا، اب ذرا ملاحظہ فرمائیے" یہ کہہ کر ہم نے ان کی آنکھوں کے سامنے رسالہ لہرایا۔
ارے کیا ملتان کی گرمی میں دیوانے ہوگئے ہیں آپ" وہ بولے
"دیوانہ ہونے کی باری اب آپ کی ہے ---- حضور، ہم رہنے والے حیدرآباد کے اور یہاں شہر ملتان کے اس ٹھیلے پر بھی ہم موجود ہیں، اب اس سے بڑا کیا ثبوت دیں، یہ دیکھیے ہمارا ابن صفی پر مضمون، مصنف یہ ناچیز یعنی راشد اشرف
بشیر صاحب کو گویا سانپ سونگھ گیا
اتنے میں دیگر احباب بھی ہوٹل سے آدھمکے - ایک جھمگٹا سا لگ گیا۔ ہمارے محبوب مصنف پر لکھی تحریر کو باری باری سب دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔ ایسا لگا جیسے ابن صفی صاحب نے خود اس نازک موقع پر ہماری مدد کی ہو۔
بشیر صاحب نے پھر کبھی جاسوسی ادب اور ہماری ابن صفی سے عقیدت کو چیلنج نہیں کیا۔
مارچ سن 2010
کہنے والے نے کہا تھا کہ اس بزم ہستی سے کچھ ایسی ہستیاں بھی اٹھ جائیں گی کہ جب زمانہ ان کی تلاش میں نکلے گا تو ڈھونڈتا رہ جائے گا۔ یہ ہستیاں جنہیں شاعر حاصل زیست قرار دیتا ہے، جب زمین سے اٹھ جاتے ہیں تو حساس دل رکھنے والے غم و الم کی اتھاہ گہرایوں میں یوں ڈوب جاتے ہیں کہ پھر تمام عمر قدم قدم پر انہیں بے طرح سے یاد کیا جاتا ہے۔ اکثر یہ اخباری ترکیب پڑھتے و سنتے ہیں کہ فلاں کے چلے جانے سے ایک خلا پیدا ہوگیا ہے جو اب کبھی پر نہیں ہوگا ۔ یہ جملہ ہر کس و ناکس کے بارے میں سنتے سنتے کان پک گئے ہیں۔ ہر ایرے غیرے کے بارے میں اس کے بے دھڑک و بیجا استعمال نے اس کی معنویت کو اس بری طرح تاراج کردیا ہے کہ اب تو اسے پڑھ کر کوفت ہونے لگتی ہے۔ یاروں نے تنگ آکر کہا کہ کسی کے مرنے پر جو خلا پیدا ہوتا ہے وہ چند محض گھنٹوں پر محیط ہوتا ہے اور جو خود مرنے والے کے مردہ جسم سے پُر ہوجاتا ہے --- رہے نام اللہ کا ---- ہاں مگر یہ بھی سچ ہے کہ چند شخصیات کے بارے، اس ترکیب کا استعمال اس طرح موزوں نظر آتا ہے گویا یہ جملہ ان ہی کے لیے تخلیق کیا گیا ہو۔ ایسے لوگوں کا نعم البدل ملنا ناممکن ہوتا ہے۔ ایسی ہی نادر روزگار شخصیات میں ایک شخصیت خود ساز‘ عہد ساز‘ روایت شکن‘ روایت ساز جناب اسرار احمد المعروف ابن صفی تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج 30 برس گزر جانے کے بعد بھی مجال ہے کہ کوئی ان جیسا لکھ سکے۔ بہتوں نے بڑا زور مارا لیکن گرد کو بھی نہ چھو سکے۔ صفی صاحب کا 60 برس پہلے کا ناول اٹھا کر پڑھ لیں، اسی طرح ترتازہ معلوم ہوگا۔ لوگوں نے اس تازگی کی مختلف توجیہات پیش کیں لیکن ہماری سمجھ میں تو یہ آتا ہے کہ جرائم کی جانب حضرت انسان کا جھکاؤ ازل سے تھا اور ابد تک رہے گا۔ خیر و شر کے درمیان جنگ بھی اسی طرح جاری و ساری رہے گی، ہاں مگر ابن صفی صاحب نے اپنی کتابوں کے ذریعے قانون کا جو احترام سکھایا ہے اور جس انداز میں سکھایا ہے اس منفرد اسلوب کو اب سے 60 برس بعد بھی وہی پذیرائی ملتی نظر آئے گی کہ جس کے وہ حقدار تھے اور ہمیشہ رہیں گے۔
یوں تو ہم نے ایشیا کے سری ادب کے عظیم مصنف جناب ابن صفی پر اردو و انگریزی میں کئی مضامین تحریر کیے ہیں جن میں صفی صاحب کے فن اور ان کی شخصیت پر سیر حاصل روشنی ڈالی گئی ہے لیکن آج یہاں صفی صاحب کے چاہنے والوں کے لیے صفی صاحب کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ یاد آرہا ہے جو ہمارے احباب کے درمیان ہماری لاج رکھنے کا سبب بنا
پُرانی صحبتیں یاد آ رہی ہیں
چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے
یہ بات ہے سن 2001 کی جب ہم بسلسلہ روزگار، ضلع مظفر گڑھ، پنجاب میں مقیم تھے۔ اس روز آفس کی چھٹی تھی اور چند احباب کے ہمراہ ملتان کی سڑکوں پر آوارہ گردی کے دوران جاسوسی ادب پر بحث چل نکلی تھی، ہر شخص اپنی اپنی رائے دے رہا تھا۔ کہنے کو تو ہر کسی نے ابن صفی کو کبھی نہ کبھی پڑھا تھا لیکن ہماری صفی صاحب سے عقیدت اور ان پر لکھے گئے مضمون کے دعوے کو للکار کر ہمارے عزیز دوست بشیر صاحب (حال مقیم سعودی عرب) تشکیک کا شکار تھے اور دوسروں کو بھی اپنا ہم نوا کرچکے تھے۔ اکثر بے تکلف دوستوں کے درمیان اپنے کسی ایک ساتھی کی "ٹانگ کھینچنے" کا عمل بڑی مہارت اور یکجائی کے ساتھ سرانجام پاتا ہے اور اس دن تختہ مشق ہم تھے۔
یہاں ایک ذرا بشیر صاحب کا تعارف کراتے چلیں۔ ان کا تعلق کوٹ ادو کے علاقے سے تھا۔ پیشے کے لحاظ سے انجینیر تھے۔ اصولوں پر شمجھوتا نہ کرتے ہوئے دو نوکریاں چھوڑ چکے تھے -- دل کے کھرے، کردار کے بے داغ، انتہائی ذودرنج، جلد روٹھنے اور اتنی ہی جلدی مان جانے والے - سانولی رنگت، سر پر سیہہ کی طرح لہرے دار اور کھڑے بال، لامبا قد۔ رخساروں پر اوپر کی طرف جہاں عموما" داڑھی کے بالوں کا نام و نشان نہیں ہوتا، بال بے طرح سے اُگ آتے تھے اور اکثر ہم بشیر صاحب کے ساتھ نائی کی دکان پر جایا کرتے تھے جہاں نائی ایک دھاگہ ہاتھ میں لے کر بےدردی سے فالتو بالوں کی فصل کُھرچا کرتا تھا۔ بشیر صاحب اس تمام عمل کے دوران شرمندہ شرمندہ سے نظر آتے۔ سچ پوچھیے تو اس سے پہلے یہ منظر ہم نے نہ دیکھا تھا اور ہم اس تمام عرصے میں کچھ کچھ عبرت لیے، حیرت و دلچسپی سے نائی کی بےرحمی اور بشیر صاحب کا صبر دیکھا کرتے تھے- ایک روز جب نائی ان پر اپنی مہارت آزما رہا تھا تو یکایک وہ عبرت ناک منظر دیکھتے ہوئے، ہم جھک کر آہستہ سے بشیر صاحب کے کان میں کہا "حضور، بس یہ خیال رکھیے گا کہ کہیں انسداد بے رحمی حیوانات والوں کو اس عمل کی بھنک نہ پڑنے پائے اور پھر نائی کو بشیر صاحب کو کچھ وقت دینا پڑا کہ ہنسی کا دورہ تھم جائے تو وہ اپنا کام دوبارہ شروع کرے ۔
قہقہہ لگانے میں بشیر صاحب یدطولی رکھتے تھے۔ ایسا فلک شگاف قہقہہ کہ آسمان تھرا اٹھے اور قہقہے کے بعد پھیلا ہوا ہاتھ کہ آپ جوابا" ہاتھ پر ہاتھ نہ ماریں تو اسے سخت بداخلاقی تصور کرتے تھے۔ اپنی حد درجہ صاف گوئی کی بنا پر لوگوں میں غیر مقبول تھے اور اسی بنا پر ہمارے کمرے میں روز رات کے کھانے کے بعد پھیرا لگانا ان کا معمول بن گیا تھا۔ گرمی ہو یا سردی، ان کے معمول میں کھبی فرق نہ آتا۔ ہفتے اور اتوار کو آفس کی چھٹی ہوتی تھی اور وہ ان دو دنوں کے لیے کوٹ ادو اپنے گھر چلے جایا کرتے تھے۔ سچ پوچھیے تو ان کا جانا ہم پر گراں گزرتا تھا کہ ہم حیررآباد سے 800 کلومیٹر دور وہاں بشیر صاحب کی ہمنشینی کے عادی ہوچلے تھے۔ ہمارے چند جملوں پر پھڑک پھڑک اٹھتے تھے۔ آپ سے کیا پردہ، ہم بھی تو اکثر مشتاق یوسفی صاحب کا ہی سہارا لیا کرتے تھے۔
" بشیر صاحب، یاد رکھیں، زبان سے نکلا ہوا تیر اور بڑھا ہوا پیٹ کبھی واپس نہیں آتے" - یہ ہم نے شام کی چہل قدمی کے دوران اس موقع پر کہا کہ جب بشیر صاحب حسب عادت کوئی بےلاگ تبصرہ کربیٹھے تھے، بس پھر کیا تھا، بشیر صاحب چلتے چلتے رک گئے اور قہقہے لگانے لگے۔ ایک روز کسی بات پر ہم نے کہا کہ "یاد رکھیے کہ بیوی سے عشقیہ گفتگو کرنا ایسا ہی ہے جیسے انسان وہاں خارش کرے جہاں نہ ہورہی ہو" وہ بے انتہا محظوظ ہوئے اور پھر ہم نے یہ جملہ ان کو موقع بے موقع دوہراتے اکثر دیکھا۔
ایک روز ہم نے ابن صفی صاحب کا جملہ چلادیا - بات ہورہی تھی ہمارے کسی عزیز کی اور بشیر صاحب کو وہ پیچیدہ رشتہ سمجھانا مشکل ہورہا تھا کہ اچانک ہم نے کہا " یار یوں سمجھ لیں کہ وہ ہمارے "دادا زاد" بھائی ہیں" ۔ بشیر صاحب کے حلق سے توپ کے گولے کی مانند ایک قہقہہ نکلا۔
تو یہ تھے ہمارے بشیر صاحب۔
بات ہورہی تھی ملتان کی۔ گفتگو ایک ایسے موڑ پر آٹھہری تھی کہ جہاں "عزت سادات" بچانا مشکل ہوچلا تھا۔ دوستوں نے استہزایہ لہجے میں یہ کہنا شروع کردیا کہ صرف باتیں ہی باتیں ہیں، اب گھر جانا تو ثبوت لانا کہ بولنے اور لکھنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ہم احباب کی لاف گزاف کے سامنے ہتھیار ڈال چکے تھے۔ دوستوں کا ٹولہ آہستگی سے قدم اٹھاتا چلا جارہا تھا کہ فرمائش ہوئی کہ چائے پی جائے۔ ایک چھوٹے سے ہوٹل کی جانب قدم اٹھ گئے۔ اند داخل ہونے سے پہلے بشیر صاحب نے باہر کھڑے پرانی کتابوں کے ایک ٹھیلے کو ٹٹولنا شروع کردیا، ہمارے لیے تو کتابیں اوائل عمری ہی سے باعث مسرت رہی ہیں۔ ٹھیلے کے ایک کونے میں پرانے ڈائجسٹ نظر آئے اور ہم نے یونہی ان کو یکے بعد دیگرے دیکھنا شروع کردیا۔ ارے یہ کیا، یہ تو کوئی جانا پہجانا سرورق جان پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگست سن 1995 کا نئے افق ۔۔۔۔۔۔۔ آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا ----- یا اللہ، یہ تو نے کیسی لاج رکھی۔ جی ہاں، مذکورہ شمارہ وہی تو تھا جس میں سات برس قبل ابن صفی صاحب پر ہمارا طویل مضمون "قلم کا قرض" شائع ہوا تھا جسے مشتاق احمد قریشی صاحب نے مذکورہ شمارے کے اولین مضمون کے طور پر شائع کیا تھا۔ "قلم کا قرض" کا مسودہ ہم بغل میں دابے، انتہائی نامساعد حالات کے اور گھر والوں کی مخالفت کے باوجود حیدرآباد سے کراچی، نئے افق کے دفتر میں دے کے آئے تھے۔ یہ مضمون جناب محمد حنیف کی ابن صفی صاحب پر بنائی آفیشل ویب سائٹ ابن صفی ڈاٹ انفو پر موجود ہے۔
بس پھر کیا تھا- ہم نے ایک فاتحانہ انداز میں رسالہ اٹھایا، ٹھیلے والے کے ہاتھ پر مُنہ مانگے پیسے رکھے اور بشیر صاحب کی طرف نظر دوڑائی۔ وہ کتابیں دیکھنے میں مصروف تھے۔
"ہاں تو جناب والا، آپ کو ثبوت چاہیے تھا، اب ذرا ملاحظہ فرمائیے" یہ کہہ کر ہم نے ان کی آنکھوں کے سامنے رسالہ لہرایا۔
ارے کیا ملتان کی گرمی میں دیوانے ہوگئے ہیں آپ" وہ بولے
"دیوانہ ہونے کی باری اب آپ کی ہے ---- حضور، ہم رہنے والے حیدرآباد کے اور یہاں شہر ملتان کے اس ٹھیلے پر بھی ہم موجود ہیں، اب اس سے بڑا کیا ثبوت دیں، یہ دیکھیے ہمارا ابن صفی پر مضمون، مصنف یہ ناچیز یعنی راشد اشرف
بشیر صاحب کو گویا سانپ سونگھ گیا
اتنے میں دیگر احباب بھی ہوٹل سے آدھمکے - ایک جھمگٹا سا لگ گیا۔ ہمارے محبوب مصنف پر لکھی تحریر کو باری باری سب دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔ ایسا لگا جیسے ابن صفی صاحب نے خود اس نازک موقع پر ہماری مدد کی ہو۔
بشیر صاحب نے پھر کبھی جاسوسی ادب اور ہماری ابن صفی سے عقیدت کو چیلنج نہیں کیا۔
بوقت
4:15 PM
2010/01/20
ابن صفی کے ناولوں سے کچھ انتخاب بمعہ تبصرہ
دوستو!
صفحہ مختصر ہے اور داستان طولانی ۔۔۔۔۔۔ باذوق بھائی کی حوصلہ افزائی کی بنا پر جناب ابن صفی کے ناولوں سے ‘کچھ انتخاب بمعہ تبصرہ‘ ہم یہاں شروع کررہے ہیں، یہ سلسلہ ہمیں امید ہے، صفی صاحب کے چاہنے والوں کو اپنی جانب ضرور متوجہ کرے گا...... گہرے یا بولڈ حروف میں درج عبارت صفی صاحب کے ناول سے لی گئی ہے جبکہ ابتدا میں سادہ حروف میں لکھی گئی رائے یا تہمید ہماری تک بندی ہے جسے آپ ایک طفل مکتب کی خوشہ چینی سمجھ کر برداشت کر لیجیے گا۔۔۔۔۔۔۔ آُپ کوئی حوالہ دینا چاہیں تو بسروچشم...... یہی سرخوشی و سرفرازی تو ایسے میں بھی زندہ و توانا رکھے ہوئے ہے......صفی صاحب سے لگاؤ کو ایک جگ پیت گیا۔ دوسرے جگ میں لازم نہیں ہے کہ موسم نہ بدلے، نیت اور ارادے کا صدق بھی کوئی چیز ہے اور سب سے بڑا کرشمہ تو شمولیت ہے، اسے شمولیت کہیے یا وابستگی، مگر پہلی شرط ہے۔ اس سے سونا کندن ہوتا ہے، اور سنا ہے، دیوانوں کو بخشش کا ایک گداز ہمیشہ ملتا ہے۔
خیر اندیش
راشد اشرف - جنوری 2010
(1)
جناب ابن صفی کے پیشرس سے ایک چشم کُشا اقتباس - دور ابتلا میں مبتلا عصر حاضر کے چاک گریبانوں و حرماں نصیبوں کو مصنف کا نیک مشورہ -- وہی سادہ اور دلنشیں انداز کہ جس کے لیے ہم سب صفی صاحب کے چاہنے والے سراپا رہن عشق ہیں:
"خالق کائنات، اشرف المخلوقات کو ہر آن سرگرم عمل دیکھنا چاہتا ہے اسی لیے انہیں یکسانیت کا شکار نہیں ہونے دیتا۔۔۔خوشی اور غم کے یہی وقفے ہمیں آگے بڑھتے رہنے کا حوصلہ بخشتے ہیں، کامرانی کی نئی منزلوں کی طرف ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔۔۔
غموں کو آہ و زاری کے سپرد کرنے کے بجائے مستقبل کی سوچو کہ دوبارہ غم پلٹ کر تمہاری طرف نہ آنے پائے۔۔۔ مسرت کو قہقہوں کا نوالہ نہ بناؤ بلکہ اس انرجی کو اس تگ و دو میں صرف کردو کہ وہ مسرت اب تم سے چھننے نہ پائے۔۔۔"
(2)
صفحہ مختصر ہے اور داستان طولانی۔۔۔۔۔۔۔ آج بھی قوم مجموعی طور پر مایوسی کا شکار ہے۔۔۔۔۔ 1972 میں لکھے گئے، دور حاضر سے لگا کھاتے، ابن صفی صاحب کے یہ الفاظ، ہر آن چوکنا رہنے کا سبق دیتے ہیں۔۔۔۔۔ کہاں لغزش، ایسی کونسی چوک ہورہی ہے کہ رفتہ رفتہ ہم وہاں جارہے ہیں جہاں سے واپسی کے لیے شاید کوئی خون کا دریا عبور کرنا پڑے۔۔۔۔۔۔۔ کیا شاعر کا ایک بار یہ کہنا کافی نہ تھا:
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
"مایوسی کو پاس نہ پھٹکنے دیجیے۔ دنیا کی کئی قومیں اس وقت کڑے آزمائشی دور سے گزر رہی ہیں! ایسے حالات میں صرف ثابت قدمی اور قومی یک جہتی برقرار رکھنے کی کوشش ہی ہمیں سرخ رو کر سکتی ہے! دشمن ایک بار پھر ہماری صفوں میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرے گا! لہذا ہوشیار رہئیے! افواہوں پر کان نہ دھریے۔ قومی تعمیر نو میں پوری پوری ایمانداری سے حصہ لیجیے۔ اور اللہ سے دعا کرتے رہییے کہ وہ قوم کے معماروں کو فلاح کا راستہ دکھاتا رہے!
ایک بار پھر گذارش کروں گا کہ دشمن کے ایجنٹوں کی پیشانیوں پر ان کے آقا کی مہر نہیں ہوتی۔ وہ صرف گفتار اور کردار ہی سے پہجانے جاسکتے ہیں۔ مایوسی پھیلانے والوں پر کڑی نظر رکھیے!"
(3)
ابن صفی صاحب کو اکثر و بیشتر ایسے خطوط آتے تھے جن میں ان کے قارئین تازہ ناول پر بے لاگ تبصرہ کچھ اس طور سے کرڈالتے کہ گویا کہانی کا قاری کے سوچے ہوئے پسندیدہ انجام سے میل نہ کھانا بھی صفی صاحب ہی کا قصور ٹھہرا۔۔۔۔۔۔جاسوسی دنیا کے ایک ناول کے اس پیشرس میں ذرا دیکھیے تو سہی کہ صفی صاحب ایک موزوں و معقول جواب دینے کے بعد چٹکی لینے سے باز نہ آئے۔۔۔۔۔۔۔ٹنڈو آدمی کی نادر ترکیب پر ہم تو سر دُھنا ہی کیے، خود "ٹنڈو آدمی" صاحب بھی پھڑک اٹھے ہوں گے
“ٹنڈو آدم کے ایک ٹیلیفون آپریٹر کا خیال ہے کہ میرا پچھلا ناول آتشی بادل محض پکواس تھا! ان کی دانست میں ناول کا نام تو شاندار تھا لیکن اس کے اعتبار سے کہانی پھسپھسی ہے۔۔۔۔ ٹیلیفون آپریٹر نے سہہ رنگا شعلہ میں آتشی بادل کا اشتہار دیکھ کر اس کے بارے میں کچھ اس قسم کی کہانی خود بنائی ہوگی جہ آگ برساتا ہوا ایک بادل پورے شہر پر مسلط ہوگیا۔۔عمارتیں دھڑا دھڑ جلنے لگیں۔۔۔۔۔جب سب جل کر خاک ہوگیا تو عمران شورنالہ و بکا پر قہقہے لگاتا ہوا اپنی پناہ گاہ سے برآمد ہوا اور ہزاروں میل دعر کے پہاڑوں میں فروکش اس سائنٹسٹ کا ٹیٹوا جا دبایا جو ایک بہت بڑی مشین کے ذریعے آتشی بادل بنا بنا کر فضا کو سبلائی کررہا تھا!"
" یار ٹنڈو آدمی صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔خود ہی لکھ کر پڑھ لیا کرو"
(4)
یادش بخیر، صفی صاحب سے کسی نے 1979 میں پوچھا " اگر آپ زیرو لینڈ کے سلسلے کی آخری کتاب لکھنے سے پہلے ہی اللہ کو پیارے ہوگئے تو کیا ہوگا ?" صفی صاحب نے جواب دیا:
"بہت اچھا ہوگا، بھائی! میں زیرو لینڈ کی تلاش سے بچ جاؤں گا۔ ہرگز یہ نہیں کہہ سکتا کہ:
آئے ہے بے کسی عشق پہ رونا غالب
کس کے گھر جائے گا یہ سیلاب بلا میرے بعد
کسی کے بھی گھر جائے، میری بلا سے۔۔۔۔۔۔۔۔ میری زندگی ہی میں کتنوں نے زیرو لینڈ کو تلاش کرکے تباہ بھی کردیا۔ پھر اس سے کیا فرق پڑا کہ میرے آخری کتاب نہ لکھ بانے سے پڑ جائے گا
(5)
سن 1964 میں جاسوسی دنیا کے ایک ناول کے پیشرس میں ابن صفی صاحب نے اپنے ناولز کے انگریزی تراجم کا عندیہ دیا تھا۔ آج 46 برس بعد ان کی یہ خواہش پوری ہونے جارہی ہے۔
"ان صاحب سے ایک بار ضرور کہوں گا جنہوں نے مجھے انگریزی کے جاسوسی ناولوں کے تراجم پیش کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگر آپ ایسا کریں تو ہم تین کے بجائے تیس روپے میں وہ کتاب خریدیں گے۔
شکریہ جناب! لیکن صرف آپ ہی خرید سکیں گے، بقیہ پچاس پیسے فی سیر کے حساب سے فروخت کرنی پڑیں گی۔ تراجم کا حشر آئے دن پیش نظر رہتا ہے اور پھر میں کیوں کروں انگریزی ناولوں کا ترجمہ! کیوں نہ میرے ہی ناولوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا جائے۔ شاید جلد ہی آپ میرے ناولوں کے انگلش ایڈیشن بھی دیکھ سکیں
(6)
یوں تو ابن صفی صاحب نے اپنے نقالوں کا نذکرہ دلچسپ پیرائے میں ڈیڑھ متوالے میں کیا تھا لیکن جاسوسی دنیا کے ایک ناول کے پیشرس میں وہ ایک مرتبہ پھر اس بارے میں گویا ہوئے۔
"ابھی حال ہی میں میرے ایک معزز ہمدرد نے مجھے مشورہ دیا ہے کہ میں کبھی کبھی ایک آدھ ناول اپنے لیے بھی لکھ لیا کروں، صرف ‘پبلک کے بے حد اصرار‘ ہی کا شکار ہو کر نہ رہ جاؤں۔ میرے لیے یہ مشورہ بہت وقیع ہے..... ویسے بھی ‘طلسم ہوشربا‘ قسم کی کہانیاں لکھنے میں میرا جی نہیں لگتا۔ اور یقین کیجیے میں وہی لکھوں گا جو میرا جی چاہے گا...پہلے بھی کبھی کسی کا مشورہ قبول کیے بغیر لکھتا رہا ہوں۔ لیکن آخر آپ یہ کیوں چاہتے ہیں کہ ہیں ویسی ہی کہانیاں لکھتا رہوں جیسی پہلے لکھ چکا ہوں۔۔۔ اب بھی جو کچھ لکھ رہا ہوں اگر اس میں نیا پن نہ ہو تو مجھے گولی مار دیجیے! اور اپنے ذوق کی تسکین کے لیے دوسروں کو پڑھیے۔ اب میں اکیلا تو نہیں۔۔۔۔ میرے بےشُمار "ناتحقیق بھائی" منظر عام پر آگئے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ وہ بھی "صفی" ہی کی چھاؤں میں پناہ لیتے ہوں۔
(7)
ابن صفی صاحب نے اپنے جاسوسی ناولوں میں زندگی کے جتنے اہم پہلوؤں پر قلم اٹھایا ہے، شاید ہی کسی اور ادیب نے اٹھایا ہو۔ انھوں نے معاشرے کے رستے ہوئے ناسوروں کی طرف اشارہ کیا ہے اور سماج کے زہریلے کیڑوں کو الفاظ کا جسم دے کر لوگوں کے سامنے پیش کردیا ہے کہ دیکھو! عبرت حاصل کرو......اور ان سے بجو! کسی ادیب کا فرض اس سے زیادہ اور کیا ہوگا۔
گرچہ ان کی تحریروں نے سماج میں باوقار رجحان کے ارتقا میں اہم کردار ادا کیا لیکن ابن صفی صاحب، اردو ادب میں مقام حاصل کرنے کی مسابقت سے ہمیشہ کوسوں دور رہے تھے
"ہمیشہ زندہ رہنے والے ادب میں ایک کہانی کا مزید اضافہ ہوا۔ یہ ادب ہمیشہ اس لیے زندہ رہتا ہے کہ اس کا براہ راست تعلق تجسس کی جبلت سے ہے جو مرتے دم تک زندہ رہتی ہے۔ آدمی اس وقت بھی متجسس ریا ہے جب وہ غریب اپنی اس جبلت کو کوئی مخصوص نام دینے کا سلیقہ نہیں رکھتا تھا۔ اگر میں غلط نہیں کہہ رہا ہوں تو وہ پروفیسر صاحبان ہی اس کی تصدیق کردیں جو چھپا چھپا کر جاسوسی ناول پڑھا کرتے ہیں، لیکن اگر کسی نشست میں کسی کی زبان پر جاسوسی ناولوں کا نذکرہ بھی آجائے تو اس طرح ناک بھوں سکوڑتے ہیں جیسے اس نے خواتین کے مجمع میں مغلظات شروع کردی ہوں۔ ادب کی زندگی یا موت کا پیمانہ آدمی ہے لہذا آدمی کی مختلف قسم کی صلاحیتوں کے انحطاط کے ساتھ ہی مختلف قسم کے ادب کا بھی تیا پانجہ ہوتا رہتا ہے۔ بہتریے لوگوں کو جوانی کی بداعمالیوں کی یہ سزا ملتی ہے کہ وہ بڑھاپے میں صوفی ہو جاتے ہیں۔
تجسس کی جبلت مرتے دم تک قائم رہتی ہے، کچھ نہیں تو مرنے والا یہی سوچنے لگتا ہے کہ دیکھیں اب دم نکلنے کے بعد کیا ہوتا ہے، اس لیے اس جبلت کی تسکین فراہم کرنے والا ادب بھی ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔
(8)
ابن صفی صاحب کی ادبی حیثیت و مقام کی بات آج تک کی جاتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اردو ادب میں ان کو جو مقام ادب کے نام نہاد ٹھیکیدار نہ دے پائے وہ ابن صفی کے لاکھوں مداحوں نے صفی صاحب کو اپنے دل میں بسا کر دیا۔ درحقیقت، صفی صاحب تمام عمر ادب سے زیادہ، ‘اردو‘ کی خدمت کرتے رہے.......جاسوسی دنیا کے ناولز کے پیشرس سے یہ اقتباسات ہمارے ہردلعزیز مصنف کی درویش صفت طبیعت کا عکاس ہیں۔
part-1
اس بار ایک صاحب نے اپنی دلچسپ خواہش کا اظہار کیا ہے۔۔ فرماتے ہیں: " آپ جب اتنا اچھا لکھ سکتے ہیں تو ادبی انعام کے لیے کوشش کیوں نہیں کرتے۔ خاص طور پر ایک ناول اس کے لیے بھی لکھیے۔ میرا دعوی ہے کہ آپ کامیاب رہیں گے"
جناب عالی! میرا سب سے بڑا انعام یہی ہے کہ آپ میری کتابیں پسند کرتے ہیں۔، انہیں حرف بحرف اس طرح پڑھتے ہیں کہ بعض عبارتیں ازبر ہوجاتی ہیں اور آپ بےتکان ان کے حوالے اپنے خطوط میں دیتے ہیں۔ اور مجھے متعدد کتابیں اُلٹنی پڑتی ہیں کہ میں نے یہ چیز کب اور کہاں لکھی تھی۔ ویسے ایک بات ہے کہ آُپ کسی ‘پبلک چونی فنڈ‘ سے کوئی ایسا ادارہ قائم کیجیے جو اچھی ادبی تخلیقات پر انعام دے سکے تو میں اس کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دوں گا کیونکہ اس کی نوعیت قومی ہوگی لیکن شخصی انعام کا تصور بھی میرے لیے توہین آمیز ہے۔"
part-2
اساطیری کہانیوں سے لے کر مجھ حقیر کی کہانیوں تک آپ کو ایک بھی ایسی کہانی نہ ملے گی جس میں جرائم نہ ہوں......اور آج بھی آپ جسے بہت اونچے قسم کے ادب کا درجہ دیتے ہیں اور جس کا ترجمہ دنیا کی دوسری زبانوں میں بھی آئے دن ہوتا رہتا کیا جرائم کے تذکروں سے پاک ہوتا ہے? کیا اس کے مضرت رساں پہلوؤں پر ہمارے نقاد کی نظر پڑتی ہے ? اگر نہیں....تو کیوں ? اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے لوگ کہانیوں میں بھی (جو دراصل ذہنی فرار کا ذریعہ ہوتی ہیں) پولیس یا جاسوس کا وجود نہیں برداشت کرسکتے۔ چلیے پولیس کو اس لیے برداشت کر لیں گے کہ وہ للکار کے سامنے آتی ہے لیکن جاسوس تو بےخبری میں پتہ نہیں کب گردن دبوچ لے۔۔ لہذا اگر مجھے ادب میں کوئی مقام پانے کی خواہش ہے تو جاسوس کو چھٹی دینی پڑے گی۔۔ لیکن میں اس پر تیار نہیں کیونکہ مجھے ہر حال میں شر پر خیر کی فتح کا پرچم لہرانا ہے۔۔ میں باطل کو حق کے سامنے سربلند نہیں دکھانا چاہتا۔ میں معاشرے میں مایوسی نہیں پھیلانا چاہتا...... ایسی مایوسی جو غلط راستوں پر لے جائے۔
part-3
"اس خیال کو دل سے نکال دیجیے کہ میں اپنے ہی جیسے کسی انسان سے انعام کا خواہاں ہوں، اس کا تصور بھی مجھے احساس کمتری کے گڑھے میں دھکیل دے گا۔ میرے لیے میرے اللہ کا یہی انعام کافی ہے کہ کتاب فروش میری کتابوں کو کرنسی نوٹ کہتے ہیں۔"
part-4
جب کوئی میرا ناول بہت پسند کیا جاتا ہے تو مجھ سے ‘ادب‘ کی خدمت کی فرمائش کی جاتی ہے۔ بھائی، آپ تو صرف مجھے اردو کی خدمت کرنے دیجیے (اس کے باوجود کہ صرف ونحو کی غلطیاں مجھ سے بھی سرزد ہوتی ہوں گی)۔ آپ اس وقت میری خوشی کا اندازہ نہیں لگاسکتے جب مجھے کسی سندھی یا بنگالی بھائی کا خط بہ ایں مضمون ملتا ہے کہ محض آپ کی کتابیں پڑھنے کے شوق کی وجہ سے اردو پڑھ رہا ہوں۔ پڑھ کر سنانے والوں کا احسان کہاں تک لیا جائے۔۔۔۔ اب بتائیے میں ادب کی خدمت کروں یا میرے لیے ‘اردو ہی کی خدمت‘ مناسب رہے گی۔ ویسے اپنے نظریات کے مطابق ادب کی بھی خدمت کررہا ہوں، سوسائٹی کی بھی اور میری اس خدمت کا انداز نہ تو بدلتے ہوئے حالات سے متاثر ہوتا ہے اور وقتی مصلحتوں کے تحت کوئی دوسری شکل اختیار کرسکتا ہے۔۔ بہرحال میں قانون کا احترام کرنا سکھاتا ہوں۔"
صفحہ مختصر ہے اور داستان طولانی ۔۔۔۔۔۔ باذوق بھائی کی حوصلہ افزائی کی بنا پر جناب ابن صفی کے ناولوں سے ‘کچھ انتخاب بمعہ تبصرہ‘ ہم یہاں شروع کررہے ہیں، یہ سلسلہ ہمیں امید ہے، صفی صاحب کے چاہنے والوں کو اپنی جانب ضرور متوجہ کرے گا...... گہرے یا بولڈ حروف میں درج عبارت صفی صاحب کے ناول سے لی گئی ہے جبکہ ابتدا میں سادہ حروف میں لکھی گئی رائے یا تہمید ہماری تک بندی ہے جسے آپ ایک طفل مکتب کی خوشہ چینی سمجھ کر برداشت کر لیجیے گا۔۔۔۔۔۔۔ آُپ کوئی حوالہ دینا چاہیں تو بسروچشم...... یہی سرخوشی و سرفرازی تو ایسے میں بھی زندہ و توانا رکھے ہوئے ہے......صفی صاحب سے لگاؤ کو ایک جگ پیت گیا۔ دوسرے جگ میں لازم نہیں ہے کہ موسم نہ بدلے، نیت اور ارادے کا صدق بھی کوئی چیز ہے اور سب سے بڑا کرشمہ تو شمولیت ہے، اسے شمولیت کہیے یا وابستگی، مگر پہلی شرط ہے۔ اس سے سونا کندن ہوتا ہے، اور سنا ہے، دیوانوں کو بخشش کا ایک گداز ہمیشہ ملتا ہے۔
خیر اندیش
راشد اشرف - جنوری 2010
(1)
جناب ابن صفی کے پیشرس سے ایک چشم کُشا اقتباس - دور ابتلا میں مبتلا عصر حاضر کے چاک گریبانوں و حرماں نصیبوں کو مصنف کا نیک مشورہ -- وہی سادہ اور دلنشیں انداز کہ جس کے لیے ہم سب صفی صاحب کے چاہنے والے سراپا رہن عشق ہیں:
"خالق کائنات، اشرف المخلوقات کو ہر آن سرگرم عمل دیکھنا چاہتا ہے اسی لیے انہیں یکسانیت کا شکار نہیں ہونے دیتا۔۔۔خوشی اور غم کے یہی وقفے ہمیں آگے بڑھتے رہنے کا حوصلہ بخشتے ہیں، کامرانی کی نئی منزلوں کی طرف ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔۔۔
غموں کو آہ و زاری کے سپرد کرنے کے بجائے مستقبل کی سوچو کہ دوبارہ غم پلٹ کر تمہاری طرف نہ آنے پائے۔۔۔ مسرت کو قہقہوں کا نوالہ نہ بناؤ بلکہ اس انرجی کو اس تگ و دو میں صرف کردو کہ وہ مسرت اب تم سے چھننے نہ پائے۔۔۔"
(2)
صفحہ مختصر ہے اور داستان طولانی۔۔۔۔۔۔۔ آج بھی قوم مجموعی طور پر مایوسی کا شکار ہے۔۔۔۔۔ 1972 میں لکھے گئے، دور حاضر سے لگا کھاتے، ابن صفی صاحب کے یہ الفاظ، ہر آن چوکنا رہنے کا سبق دیتے ہیں۔۔۔۔۔ کہاں لغزش، ایسی کونسی چوک ہورہی ہے کہ رفتہ رفتہ ہم وہاں جارہے ہیں جہاں سے واپسی کے لیے شاید کوئی خون کا دریا عبور کرنا پڑے۔۔۔۔۔۔۔ کیا شاعر کا ایک بار یہ کہنا کافی نہ تھا:
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
"مایوسی کو پاس نہ پھٹکنے دیجیے۔ دنیا کی کئی قومیں اس وقت کڑے آزمائشی دور سے گزر رہی ہیں! ایسے حالات میں صرف ثابت قدمی اور قومی یک جہتی برقرار رکھنے کی کوشش ہی ہمیں سرخ رو کر سکتی ہے! دشمن ایک بار پھر ہماری صفوں میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرے گا! لہذا ہوشیار رہئیے! افواہوں پر کان نہ دھریے۔ قومی تعمیر نو میں پوری پوری ایمانداری سے حصہ لیجیے۔ اور اللہ سے دعا کرتے رہییے کہ وہ قوم کے معماروں کو فلاح کا راستہ دکھاتا رہے!
ایک بار پھر گذارش کروں گا کہ دشمن کے ایجنٹوں کی پیشانیوں پر ان کے آقا کی مہر نہیں ہوتی۔ وہ صرف گفتار اور کردار ہی سے پہجانے جاسکتے ہیں۔ مایوسی پھیلانے والوں پر کڑی نظر رکھیے!"
(3)
ابن صفی صاحب کو اکثر و بیشتر ایسے خطوط آتے تھے جن میں ان کے قارئین تازہ ناول پر بے لاگ تبصرہ کچھ اس طور سے کرڈالتے کہ گویا کہانی کا قاری کے سوچے ہوئے پسندیدہ انجام سے میل نہ کھانا بھی صفی صاحب ہی کا قصور ٹھہرا۔۔۔۔۔۔جاسوسی دنیا کے ایک ناول کے اس پیشرس میں ذرا دیکھیے تو سہی کہ صفی صاحب ایک موزوں و معقول جواب دینے کے بعد چٹکی لینے سے باز نہ آئے۔۔۔۔۔۔۔ٹنڈو آدمی کی نادر ترکیب پر ہم تو سر دُھنا ہی کیے، خود "ٹنڈو آدمی" صاحب بھی پھڑک اٹھے ہوں گے
“ٹنڈو آدم کے ایک ٹیلیفون آپریٹر کا خیال ہے کہ میرا پچھلا ناول آتشی بادل محض پکواس تھا! ان کی دانست میں ناول کا نام تو شاندار تھا لیکن اس کے اعتبار سے کہانی پھسپھسی ہے۔۔۔۔ ٹیلیفون آپریٹر نے سہہ رنگا شعلہ میں آتشی بادل کا اشتہار دیکھ کر اس کے بارے میں کچھ اس قسم کی کہانی خود بنائی ہوگی جہ آگ برساتا ہوا ایک بادل پورے شہر پر مسلط ہوگیا۔۔عمارتیں دھڑا دھڑ جلنے لگیں۔۔۔۔۔جب سب جل کر خاک ہوگیا تو عمران شورنالہ و بکا پر قہقہے لگاتا ہوا اپنی پناہ گاہ سے برآمد ہوا اور ہزاروں میل دعر کے پہاڑوں میں فروکش اس سائنٹسٹ کا ٹیٹوا جا دبایا جو ایک بہت بڑی مشین کے ذریعے آتشی بادل بنا بنا کر فضا کو سبلائی کررہا تھا!"
" یار ٹنڈو آدمی صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔خود ہی لکھ کر پڑھ لیا کرو"
(4)
یادش بخیر، صفی صاحب سے کسی نے 1979 میں پوچھا " اگر آپ زیرو لینڈ کے سلسلے کی آخری کتاب لکھنے سے پہلے ہی اللہ کو پیارے ہوگئے تو کیا ہوگا ?" صفی صاحب نے جواب دیا:
"بہت اچھا ہوگا، بھائی! میں زیرو لینڈ کی تلاش سے بچ جاؤں گا۔ ہرگز یہ نہیں کہہ سکتا کہ:
آئے ہے بے کسی عشق پہ رونا غالب
کس کے گھر جائے گا یہ سیلاب بلا میرے بعد
کسی کے بھی گھر جائے، میری بلا سے۔۔۔۔۔۔۔۔ میری زندگی ہی میں کتنوں نے زیرو لینڈ کو تلاش کرکے تباہ بھی کردیا۔ پھر اس سے کیا فرق پڑا کہ میرے آخری کتاب نہ لکھ بانے سے پڑ جائے گا
(5)
سن 1964 میں جاسوسی دنیا کے ایک ناول کے پیشرس میں ابن صفی صاحب نے اپنے ناولز کے انگریزی تراجم کا عندیہ دیا تھا۔ آج 46 برس بعد ان کی یہ خواہش پوری ہونے جارہی ہے۔
"ان صاحب سے ایک بار ضرور کہوں گا جنہوں نے مجھے انگریزی کے جاسوسی ناولوں کے تراجم پیش کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگر آپ ایسا کریں تو ہم تین کے بجائے تیس روپے میں وہ کتاب خریدیں گے۔
شکریہ جناب! لیکن صرف آپ ہی خرید سکیں گے، بقیہ پچاس پیسے فی سیر کے حساب سے فروخت کرنی پڑیں گی۔ تراجم کا حشر آئے دن پیش نظر رہتا ہے اور پھر میں کیوں کروں انگریزی ناولوں کا ترجمہ! کیوں نہ میرے ہی ناولوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا جائے۔ شاید جلد ہی آپ میرے ناولوں کے انگلش ایڈیشن بھی دیکھ سکیں
(6)
یوں تو ابن صفی صاحب نے اپنے نقالوں کا نذکرہ دلچسپ پیرائے میں ڈیڑھ متوالے میں کیا تھا لیکن جاسوسی دنیا کے ایک ناول کے پیشرس میں وہ ایک مرتبہ پھر اس بارے میں گویا ہوئے۔
"ابھی حال ہی میں میرے ایک معزز ہمدرد نے مجھے مشورہ دیا ہے کہ میں کبھی کبھی ایک آدھ ناول اپنے لیے بھی لکھ لیا کروں، صرف ‘پبلک کے بے حد اصرار‘ ہی کا شکار ہو کر نہ رہ جاؤں۔ میرے لیے یہ مشورہ بہت وقیع ہے..... ویسے بھی ‘طلسم ہوشربا‘ قسم کی کہانیاں لکھنے میں میرا جی نہیں لگتا۔ اور یقین کیجیے میں وہی لکھوں گا جو میرا جی چاہے گا...پہلے بھی کبھی کسی کا مشورہ قبول کیے بغیر لکھتا رہا ہوں۔ لیکن آخر آپ یہ کیوں چاہتے ہیں کہ ہیں ویسی ہی کہانیاں لکھتا رہوں جیسی پہلے لکھ چکا ہوں۔۔۔ اب بھی جو کچھ لکھ رہا ہوں اگر اس میں نیا پن نہ ہو تو مجھے گولی مار دیجیے! اور اپنے ذوق کی تسکین کے لیے دوسروں کو پڑھیے۔ اب میں اکیلا تو نہیں۔۔۔۔ میرے بےشُمار "ناتحقیق بھائی" منظر عام پر آگئے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ وہ بھی "صفی" ہی کی چھاؤں میں پناہ لیتے ہوں۔
(7)
ابن صفی صاحب نے اپنے جاسوسی ناولوں میں زندگی کے جتنے اہم پہلوؤں پر قلم اٹھایا ہے، شاید ہی کسی اور ادیب نے اٹھایا ہو۔ انھوں نے معاشرے کے رستے ہوئے ناسوروں کی طرف اشارہ کیا ہے اور سماج کے زہریلے کیڑوں کو الفاظ کا جسم دے کر لوگوں کے سامنے پیش کردیا ہے کہ دیکھو! عبرت حاصل کرو......اور ان سے بجو! کسی ادیب کا فرض اس سے زیادہ اور کیا ہوگا۔
گرچہ ان کی تحریروں نے سماج میں باوقار رجحان کے ارتقا میں اہم کردار ادا کیا لیکن ابن صفی صاحب، اردو ادب میں مقام حاصل کرنے کی مسابقت سے ہمیشہ کوسوں دور رہے تھے
"ہمیشہ زندہ رہنے والے ادب میں ایک کہانی کا مزید اضافہ ہوا۔ یہ ادب ہمیشہ اس لیے زندہ رہتا ہے کہ اس کا براہ راست تعلق تجسس کی جبلت سے ہے جو مرتے دم تک زندہ رہتی ہے۔ آدمی اس وقت بھی متجسس ریا ہے جب وہ غریب اپنی اس جبلت کو کوئی مخصوص نام دینے کا سلیقہ نہیں رکھتا تھا۔ اگر میں غلط نہیں کہہ رہا ہوں تو وہ پروفیسر صاحبان ہی اس کی تصدیق کردیں جو چھپا چھپا کر جاسوسی ناول پڑھا کرتے ہیں، لیکن اگر کسی نشست میں کسی کی زبان پر جاسوسی ناولوں کا نذکرہ بھی آجائے تو اس طرح ناک بھوں سکوڑتے ہیں جیسے اس نے خواتین کے مجمع میں مغلظات شروع کردی ہوں۔ ادب کی زندگی یا موت کا پیمانہ آدمی ہے لہذا آدمی کی مختلف قسم کی صلاحیتوں کے انحطاط کے ساتھ ہی مختلف قسم کے ادب کا بھی تیا پانجہ ہوتا رہتا ہے۔ بہتریے لوگوں کو جوانی کی بداعمالیوں کی یہ سزا ملتی ہے کہ وہ بڑھاپے میں صوفی ہو جاتے ہیں۔
تجسس کی جبلت مرتے دم تک قائم رہتی ہے، کچھ نہیں تو مرنے والا یہی سوچنے لگتا ہے کہ دیکھیں اب دم نکلنے کے بعد کیا ہوتا ہے، اس لیے اس جبلت کی تسکین فراہم کرنے والا ادب بھی ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔
(8)
ابن صفی صاحب کی ادبی حیثیت و مقام کی بات آج تک کی جاتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اردو ادب میں ان کو جو مقام ادب کے نام نہاد ٹھیکیدار نہ دے پائے وہ ابن صفی کے لاکھوں مداحوں نے صفی صاحب کو اپنے دل میں بسا کر دیا۔ درحقیقت، صفی صاحب تمام عمر ادب سے زیادہ، ‘اردو‘ کی خدمت کرتے رہے.......جاسوسی دنیا کے ناولز کے پیشرس سے یہ اقتباسات ہمارے ہردلعزیز مصنف کی درویش صفت طبیعت کا عکاس ہیں۔
part-1
اس بار ایک صاحب نے اپنی دلچسپ خواہش کا اظہار کیا ہے۔۔ فرماتے ہیں: " آپ جب اتنا اچھا لکھ سکتے ہیں تو ادبی انعام کے لیے کوشش کیوں نہیں کرتے۔ خاص طور پر ایک ناول اس کے لیے بھی لکھیے۔ میرا دعوی ہے کہ آپ کامیاب رہیں گے"
جناب عالی! میرا سب سے بڑا انعام یہی ہے کہ آپ میری کتابیں پسند کرتے ہیں۔، انہیں حرف بحرف اس طرح پڑھتے ہیں کہ بعض عبارتیں ازبر ہوجاتی ہیں اور آپ بےتکان ان کے حوالے اپنے خطوط میں دیتے ہیں۔ اور مجھے متعدد کتابیں اُلٹنی پڑتی ہیں کہ میں نے یہ چیز کب اور کہاں لکھی تھی۔ ویسے ایک بات ہے کہ آُپ کسی ‘پبلک چونی فنڈ‘ سے کوئی ایسا ادارہ قائم کیجیے جو اچھی ادبی تخلیقات پر انعام دے سکے تو میں اس کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دوں گا کیونکہ اس کی نوعیت قومی ہوگی لیکن شخصی انعام کا تصور بھی میرے لیے توہین آمیز ہے۔"
part-2
اساطیری کہانیوں سے لے کر مجھ حقیر کی کہانیوں تک آپ کو ایک بھی ایسی کہانی نہ ملے گی جس میں جرائم نہ ہوں......اور آج بھی آپ جسے بہت اونچے قسم کے ادب کا درجہ دیتے ہیں اور جس کا ترجمہ دنیا کی دوسری زبانوں میں بھی آئے دن ہوتا رہتا کیا جرائم کے تذکروں سے پاک ہوتا ہے? کیا اس کے مضرت رساں پہلوؤں پر ہمارے نقاد کی نظر پڑتی ہے ? اگر نہیں....تو کیوں ? اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے لوگ کہانیوں میں بھی (جو دراصل ذہنی فرار کا ذریعہ ہوتی ہیں) پولیس یا جاسوس کا وجود نہیں برداشت کرسکتے۔ چلیے پولیس کو اس لیے برداشت کر لیں گے کہ وہ للکار کے سامنے آتی ہے لیکن جاسوس تو بےخبری میں پتہ نہیں کب گردن دبوچ لے۔۔ لہذا اگر مجھے ادب میں کوئی مقام پانے کی خواہش ہے تو جاسوس کو چھٹی دینی پڑے گی۔۔ لیکن میں اس پر تیار نہیں کیونکہ مجھے ہر حال میں شر پر خیر کی فتح کا پرچم لہرانا ہے۔۔ میں باطل کو حق کے سامنے سربلند نہیں دکھانا چاہتا۔ میں معاشرے میں مایوسی نہیں پھیلانا چاہتا...... ایسی مایوسی جو غلط راستوں پر لے جائے۔
part-3
"اس خیال کو دل سے نکال دیجیے کہ میں اپنے ہی جیسے کسی انسان سے انعام کا خواہاں ہوں، اس کا تصور بھی مجھے احساس کمتری کے گڑھے میں دھکیل دے گا۔ میرے لیے میرے اللہ کا یہی انعام کافی ہے کہ کتاب فروش میری کتابوں کو کرنسی نوٹ کہتے ہیں۔"
part-4
جب کوئی میرا ناول بہت پسند کیا جاتا ہے تو مجھ سے ‘ادب‘ کی خدمت کی فرمائش کی جاتی ہے۔ بھائی، آپ تو صرف مجھے اردو کی خدمت کرنے دیجیے (اس کے باوجود کہ صرف ونحو کی غلطیاں مجھ سے بھی سرزد ہوتی ہوں گی)۔ آپ اس وقت میری خوشی کا اندازہ نہیں لگاسکتے جب مجھے کسی سندھی یا بنگالی بھائی کا خط بہ ایں مضمون ملتا ہے کہ محض آپ کی کتابیں پڑھنے کے شوق کی وجہ سے اردو پڑھ رہا ہوں۔ پڑھ کر سنانے والوں کا احسان کہاں تک لیا جائے۔۔۔۔ اب بتائیے میں ادب کی خدمت کروں یا میرے لیے ‘اردو ہی کی خدمت‘ مناسب رہے گی۔ ویسے اپنے نظریات کے مطابق ادب کی بھی خدمت کررہا ہوں، سوسائٹی کی بھی اور میری اس خدمت کا انداز نہ تو بدلتے ہوئے حالات سے متاثر ہوتا ہے اور وقتی مصلحتوں کے تحت کوئی دوسری شکل اختیار کرسکتا ہے۔۔ بہرحال میں قانون کا احترام کرنا سکھاتا ہوں۔"
بوقت
7:55 AM
سبسکرائب کریں :
ابنِ صفی بلاگ کی تحریریں (Atom)