26-جولائی-2009ء کو ابن صفی مرحوم کی 29ویں برسی تھی۔
ڈاکٹر نعمان احمد نے انگریزی میں ابن صفی پر ایک متاثر کن مضمون روزنامہ ڈان کے ای-پیپر میں شائع کروایا ہے جسے یہاں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
In memoriam
اسی طرح پاکستان کے اولین فنانشیل انگریزی روزنامہ بزنس ریکارڈر میں بھی ابن صفی پر ایک عمدہ تحریر جناب راشد اشرف کی شائع ہوئی ہے جس کا مطالعہ یہاں کیا جا سکتا ہے:
Ibne Safi - a great Urdu mystery novelist
میٹرو-1 ٹی-وی پر اتوار 26-جولائی کی رات ایک گھنٹہ طویل پروگرام ابن صفی پر پیش کیا گیا تھا۔ اس پروگرام کی تشہیر جس 2 منٹ کے پرومو کے ذریعہ کی گئی ، وہ یو ٹیوب پر یہاں دستیاب ہے :
metro one tv ..... Ibn e safi
تقریباً دس منٹ دورانیے کی ایک ٹیلی نیوز ، 26-جولائی کو ہر اہم بلیٹن میں پیش کی گئی ، یہ ٹی-وی خبر بھی یوٹیوب پر یہاں دستیاب ہے :
Anniversary Tribute to Ibn-e-Safi Biggest Detective Novel Writer Asia Produced
2009/07/28
2009/07/20
مختصر تعارف - احمد صفی (ولد ابن صفی)
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے ؟
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
مخزن کی روایت کے مطابق اپنا تعارف کرانے بیٹھا ہوں تو میرزا کا مذکورہ شعر ذہن میں گونجنے لگا ہے اور اب اس کا مطلب بھی بہتر طور پر سمجھ میں آ گیا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اردو شاعری میں صنعتِ حسنِ تعلیل (یا شاعرانہ تعلّی) کی گنجائش موجود ہے جسے نثر میں بھی کھینچا جا سکتا ہے ورنہ میں کیا لکھتا۔
مختصر مختصر یہ کہ میں نے بیسویں صدی کی ساٹھویں دہائی میں اس دنیا کو رونق بخشی۔والدین نے نام اظہار احمد رکھا کہ والد اور برادران کے ناموں، اسرار، ایثار اور ابرار کا ہم قافیہ تھا اور اس لئے بھی کہ اس زمانے میں بچّوں کے پائجامے کے کپڑے سے لے کر ناموں تک یکسانیت کا خیال رکھا جاتا تھا ۔ بزرگوں ہی سے سنا کہ جب دادا (صفی ا للہ صاحب مرحوم) اسکول میں داخل کرانے لے گئے تو ٹیچر کے پوچھنے پر میں نے اپنا نام "احمد صفی" بتایا۔ دادا نے فوراً تصدیق کی اور یہی نام لکھوا دیا کیونکہ بیٹے نے تو محض قلمی طور پر ان کے نام کو استعمال کیا، پوتے نے سرکاری طور پر انکے نام کو اپنے نام کا حصّہ بنا لیا۔
کراچی میں رہا، پلا بڑھا اور تعلیم حاصل کی۔ گورنمنٹ اسکول ناظم آباد سے ڈی جے سائینس کالج اور پھر وہاں سے این ای ڈی یونیورسٹی پہنچا۔ مکینیکل انجنیئرنگ کی ڈگری لے کر کچھ عرصہ پاکستان میں کام کیا۔ سی ایس ایس اور وزارتِ سائنس و ٹکنالوجی کے وظیفے کے امتحانات آگے پیچھے دیئے اور دونوں میں پوزیشن کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ پھر سول سروس کا خیال چھوڑ کر اعلٰی تعلیم کے لئے امریکہ کی راہ لی۔ والدہ محترمہ کا خیال بھی یہی تھا کہ میں سی ایس پی افسر نہیں بن سکتا تھا کیونکہ نہ میرے والد کا مزاج افسرانہ تھا اور نہ ہی میرا۔ لہٰذا پہلے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اروائن سے ماسٹرز کیا اور پھر مزید تعلیم کے لئے نیویارک کے رینزیلئر پولی ٹکنک انسٹیٹیوٹ چلا گیا۔ وہاں سے "جنرل الیکٹرک" والوں نے پکڑ بلوایا۔ 2003ء میں پاکستان واپس آنے تک وہیں خدمات انجام دیں۔ مختلف ایجادات پر بیس عدد پیٹنٹ حاصل کئے جن کو انٹرنیٹ پر ڈھونڈھا جا سکتا ہے۔ اِن دنوں کراچی کی ایک انجنیئرنگ کمپنی میں گھوم پھر کر وہی افسرانہ خدمات انجام دے رہا ہوں۔
یہ تو تھیں ساری بے ادبی کی باتیں۔ ادبی کاموں کا جہاں تک تعلق ہے، چونکہ آنکھیں ہی کتابوں کے درمیان کھلی تھیں لہٰذا نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کچھ تو اثر ہونا ہی تھا۔ ستّر کی دہائی کے اواخر سے اشعار و مضامین ڈائریوں کے اوراق تک آنے شروع ہو گئے تھے۔ فطری جھجھک اور شرم کی وجہ سے کلام کو چُھپایا اور اسے چھپوایا نہیں۔ عاشقانہ اشعار دکھانے میں اور حیا آتی تھی۔ تعلیمی دور میں ایک استاد نے میری کی ہوئی تشریحاتِ شعری کو دیکھ کر کہا کہ میاں ہر شاعر کا محبوب حقیقی ہی نہیں ہوا کرتا آپ محبوبِ مجازی کا خیال بھی کیجئے۔
بہر حال نثر اور نظم دونوں میں کچھ نہ کچھ ہوتا رہا۔ امریکہ ، کینیڈا اور پاکستان کے مشاعروں میں پھر شریک ہوتا رہا۔ میری پہلی نظم "مامتا کی لوری" ، 1988ء میں "جنگ لندن" میں چھپی اور پھر حافظ شیرازی کی کچھ غزلوں کے منظوم تراجم بکمالِ لطف معین الدین شاہ صاحب مرحوم نے "اردو ادب" میں شائع کئے۔
نثر میں پہلی شائع ہونے والی مختصر کہانی (افسانہ نہیں کہوں گا کہ تکنیکی طور پر شائد وہ افسانہ نہ رہا ہو) "بھاگ گئی" کے عنوان سے غالباً 1990ء میں، "راوی، بریڈفورڈ" میں چھپی۔
مجھے اس طرح منظرِ عام پر لانے میں میری خالہ محترمہ صفیہ صدیقی صاحبہ کا بہت ہاتھ ہے ورنہ بہت کچھ میری ڈائریوں میں مدفون رہ جاتا جو اب کئی امریکی، کنیڈین، برطانوی اور پاکستانی رسالوں تک پہنچ چکا ہے۔ نیویارک میں رہتے ہوئے ٹرائے کے شہر سے احباب کے ساتھ مل کر ایک ریڈیو پروگرام "آوازِ پاکستان" کے نام سے عرصہ دس سال تک کیا اور مختلف ایوارڈز بھی حاصل کئے۔ اب بھی انٹرنییٹ پر یہ پروگرام بروز ہفتہ صبح دس بجے (نیویارک کے وقت کے مطابق) www.wrpi.org پر سنا جا سکتا ہے۔
ادبی سرگرمیوں کو ہمیشہ غمہائے روزگار نے پچھلی نشست پر جگہ دی۔ پاسبانِ عقل نے دل کو اپنی نہیں کرنے دی۔ شائد بچپن میں "اظہار" کو ترک کر دینے کا نتیجہ ہے کہ اب تخلیقی قوتیں آہستہ آہستہ اپنے اظہار کے ذرائع خود پیدا کر رہی ہیں۔
ع
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
بشکریہ : مخزن (بریڈفورڈ ، یو-کے) - جلد:8 ، مدیر : مقصود الٰہی شیخ
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
مخزن کی روایت کے مطابق اپنا تعارف کرانے بیٹھا ہوں تو میرزا کا مذکورہ شعر ذہن میں گونجنے لگا ہے اور اب اس کا مطلب بھی بہتر طور پر سمجھ میں آ گیا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اردو شاعری میں صنعتِ حسنِ تعلیل (یا شاعرانہ تعلّی) کی گنجائش موجود ہے جسے نثر میں بھی کھینچا جا سکتا ہے ورنہ میں کیا لکھتا۔
مختصر مختصر یہ کہ میں نے بیسویں صدی کی ساٹھویں دہائی میں اس دنیا کو رونق بخشی۔والدین نے نام اظہار احمد رکھا کہ والد اور برادران کے ناموں، اسرار، ایثار اور ابرار کا ہم قافیہ تھا اور اس لئے بھی کہ اس زمانے میں بچّوں کے پائجامے کے کپڑے سے لے کر ناموں تک یکسانیت کا خیال رکھا جاتا تھا ۔ بزرگوں ہی سے سنا کہ جب دادا (صفی ا للہ صاحب مرحوم) اسکول میں داخل کرانے لے گئے تو ٹیچر کے پوچھنے پر میں نے اپنا نام "احمد صفی" بتایا۔ دادا نے فوراً تصدیق کی اور یہی نام لکھوا دیا کیونکہ بیٹے نے تو محض قلمی طور پر ان کے نام کو استعمال کیا، پوتے نے سرکاری طور پر انکے نام کو اپنے نام کا حصّہ بنا لیا۔
کراچی میں رہا، پلا بڑھا اور تعلیم حاصل کی۔ گورنمنٹ اسکول ناظم آباد سے ڈی جے سائینس کالج اور پھر وہاں سے این ای ڈی یونیورسٹی پہنچا۔ مکینیکل انجنیئرنگ کی ڈگری لے کر کچھ عرصہ پاکستان میں کام کیا۔ سی ایس ایس اور وزارتِ سائنس و ٹکنالوجی کے وظیفے کے امتحانات آگے پیچھے دیئے اور دونوں میں پوزیشن کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ پھر سول سروس کا خیال چھوڑ کر اعلٰی تعلیم کے لئے امریکہ کی راہ لی۔ والدہ محترمہ کا خیال بھی یہی تھا کہ میں سی ایس پی افسر نہیں بن سکتا تھا کیونکہ نہ میرے والد کا مزاج افسرانہ تھا اور نہ ہی میرا۔ لہٰذا پہلے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اروائن سے ماسٹرز کیا اور پھر مزید تعلیم کے لئے نیویارک کے رینزیلئر پولی ٹکنک انسٹیٹیوٹ چلا گیا۔ وہاں سے "جنرل الیکٹرک" والوں نے پکڑ بلوایا۔ 2003ء میں پاکستان واپس آنے تک وہیں خدمات انجام دیں۔ مختلف ایجادات پر بیس عدد پیٹنٹ حاصل کئے جن کو انٹرنیٹ پر ڈھونڈھا جا سکتا ہے۔ اِن دنوں کراچی کی ایک انجنیئرنگ کمپنی میں گھوم پھر کر وہی افسرانہ خدمات انجام دے رہا ہوں۔
یہ تو تھیں ساری بے ادبی کی باتیں۔ ادبی کاموں کا جہاں تک تعلق ہے، چونکہ آنکھیں ہی کتابوں کے درمیان کھلی تھیں لہٰذا نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کچھ تو اثر ہونا ہی تھا۔ ستّر کی دہائی کے اواخر سے اشعار و مضامین ڈائریوں کے اوراق تک آنے شروع ہو گئے تھے۔ فطری جھجھک اور شرم کی وجہ سے کلام کو چُھپایا اور اسے چھپوایا نہیں۔ عاشقانہ اشعار دکھانے میں اور حیا آتی تھی۔ تعلیمی دور میں ایک استاد نے میری کی ہوئی تشریحاتِ شعری کو دیکھ کر کہا کہ میاں ہر شاعر کا محبوب حقیقی ہی نہیں ہوا کرتا آپ محبوبِ مجازی کا خیال بھی کیجئے۔
بہر حال نثر اور نظم دونوں میں کچھ نہ کچھ ہوتا رہا۔ امریکہ ، کینیڈا اور پاکستان کے مشاعروں میں پھر شریک ہوتا رہا۔ میری پہلی نظم "مامتا کی لوری" ، 1988ء میں "جنگ لندن" میں چھپی اور پھر حافظ شیرازی کی کچھ غزلوں کے منظوم تراجم بکمالِ لطف معین الدین شاہ صاحب مرحوم نے "اردو ادب" میں شائع کئے۔
نثر میں پہلی شائع ہونے والی مختصر کہانی (افسانہ نہیں کہوں گا کہ تکنیکی طور پر شائد وہ افسانہ نہ رہا ہو) "بھاگ گئی" کے عنوان سے غالباً 1990ء میں، "راوی، بریڈفورڈ" میں چھپی۔
مجھے اس طرح منظرِ عام پر لانے میں میری خالہ محترمہ صفیہ صدیقی صاحبہ کا بہت ہاتھ ہے ورنہ بہت کچھ میری ڈائریوں میں مدفون رہ جاتا جو اب کئی امریکی، کنیڈین، برطانوی اور پاکستانی رسالوں تک پہنچ چکا ہے۔ نیویارک میں رہتے ہوئے ٹرائے کے شہر سے احباب کے ساتھ مل کر ایک ریڈیو پروگرام "آوازِ پاکستان" کے نام سے عرصہ دس سال تک کیا اور مختلف ایوارڈز بھی حاصل کئے۔ اب بھی انٹرنییٹ پر یہ پروگرام بروز ہفتہ صبح دس بجے (نیویارک کے وقت کے مطابق) www.wrpi.org پر سنا جا سکتا ہے۔
ادبی سرگرمیوں کو ہمیشہ غمہائے روزگار نے پچھلی نشست پر جگہ دی۔ پاسبانِ عقل نے دل کو اپنی نہیں کرنے دی۔ شائد بچپن میں "اظہار" کو ترک کر دینے کا نتیجہ ہے کہ اب تخلیقی قوتیں آہستہ آہستہ اپنے اظہار کے ذرائع خود پیدا کر رہی ہیں۔
ع
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
بشکریہ : مخزن (بریڈفورڈ ، یو-کے) - جلد:8 ، مدیر : مقصود الٰہی شیخ
بوقت
2:52 PM
2009/07/12
دلچسپ و عجیب
* ابن صفی نے "انور" کا کردار سب سے پہلے ناول "ہیرے کی کان" میں متعارف کروایا تھا۔
* ایکسٹو کے دست راست "بلیک زیرو" کو ناول "درندوں کی بستی" میں مار ڈالا گیا تھا لیکن اگلے ہی ناول "گمشدہ شہزادی" میں ایک نیا فرد بحیثیت "بلیک زیرو" متعارف کروایا گیا۔
* حمید کی "چوہیا" کا کردار ناول "جنگل کی آگ" میں تخلیق کیا گیا۔
* قاسم کا کردار سب سے پہلے ناول "برف کے بھوت" میں متعارف کروایا گیا تھا۔ قاسم کا مکمل نام "قاسم رضا" تھا۔ قاسم اور حمید کی سب سے پہلی ملاقات "زہریلا آدمی" میں ہوئی تھی۔
* حمید نے ناول "شیطان کی محبوبہ" میں ایک عورت کا بھیس بھی بدلا ہے۔
* حمید کے والد کا نام "وحید" تھا۔ حمید "پورٹ سعید" سے نازل ہوا تھا۔
* ناول "پتھر کا خون" میں عمران نے دعویٰ کیا تھا کہ اگر کبھی اس کی لڑائی فریدی سے ہو جائے تو فریدی کو چھ ماہ کی چھٹی پر چلا جانا پڑے گا۔
* ناول "زمین کے بادل" میں فریدی ، عمران کی ذہانت کا اعتراف حمید سے کرتے ہوئے کہتا ہے کہ : عمران بااصول آدمی نہیں ہے لیکن اگر میرے ساتھ صرف ایک سال گزار لے تو میں عمران کو سدھار دوں گا۔
* "استاد محبوب نرالے عالم" کا کردار حقیقی دنیا کا کردار تھا جن کا انتقال 2002ء میں ہوا ہے۔ استاد کو پہلی بار عمران سیریز ناول "پاگلوں کی انجمن" میں پیش کیا گیا تھا۔
* عمران نے موسیقی کے ساز بھی بجائے ہیں۔ ناول "گیت اور خون" میں طبلہ اور ناول "قاصد کی تلاش" میں ستار بجایا ہے۔
*****
حوالہ جات بشکریہ : ابن صفی آفیشیل ویب سائیٹ
* ایکسٹو کے دست راست "بلیک زیرو" کو ناول "درندوں کی بستی" میں مار ڈالا گیا تھا لیکن اگلے ہی ناول "گمشدہ شہزادی" میں ایک نیا فرد بحیثیت "بلیک زیرو" متعارف کروایا گیا۔
* حمید کی "چوہیا" کا کردار ناول "جنگل کی آگ" میں تخلیق کیا گیا۔
* قاسم کا کردار سب سے پہلے ناول "برف کے بھوت" میں متعارف کروایا گیا تھا۔ قاسم کا مکمل نام "قاسم رضا" تھا۔ قاسم اور حمید کی سب سے پہلی ملاقات "زہریلا آدمی" میں ہوئی تھی۔
* حمید نے ناول "شیطان کی محبوبہ" میں ایک عورت کا بھیس بھی بدلا ہے۔
* حمید کے والد کا نام "وحید" تھا۔ حمید "پورٹ سعید" سے نازل ہوا تھا۔
* ناول "پتھر کا خون" میں عمران نے دعویٰ کیا تھا کہ اگر کبھی اس کی لڑائی فریدی سے ہو جائے تو فریدی کو چھ ماہ کی چھٹی پر چلا جانا پڑے گا۔
* ناول "زمین کے بادل" میں فریدی ، عمران کی ذہانت کا اعتراف حمید سے کرتے ہوئے کہتا ہے کہ : عمران بااصول آدمی نہیں ہے لیکن اگر میرے ساتھ صرف ایک سال گزار لے تو میں عمران کو سدھار دوں گا۔
* "استاد محبوب نرالے عالم" کا کردار حقیقی دنیا کا کردار تھا جن کا انتقال 2002ء میں ہوا ہے۔ استاد کو پہلی بار عمران سیریز ناول "پاگلوں کی انجمن" میں پیش کیا گیا تھا۔
* عمران نے موسیقی کے ساز بھی بجائے ہیں۔ ناول "گیت اور خون" میں طبلہ اور ناول "قاصد کی تلاش" میں ستار بجایا ہے۔
*****
حوالہ جات بشکریہ : ابن صفی آفیشیل ویب سائیٹ
ابن صفی کا آٹوگراف
اسے کبھی نہ بھولو کہ تمہیں ایک سچے مسلمان کی طرح زندگی بسر کرنی ہے !
ابن صفی
5 / جنوری / 1970ء
بشکریہ : ابن صفی آفیشیل ویب سائیٹ [www.ibnesafi.info]
ابن صفی
5 / جنوری / 1970ء
بشکریہ : ابن صفی آفیشیل ویب سائیٹ [www.ibnesafi.info]
***
2009/07/05
ابن صفی کا لازوال کردار ۔۔۔ علی عمران !!
ابنِ صفی کے ' عمران سیریز ' ناولوں میں قوس قزح کی طرح دلکش اور دلفریب سات رنگوں پر مشتمل سات معروف کردار واضح طور پر نظر آتے ہیں :
صفدر ، جولیا ، سنگ ہی ، تھریسیا ، جوزف ، سلیمان اور علی عمران !
اِن سب میں گہرا اور دلآویز رنگ خود علی عمران کا ہے!
علی عمران ، جو ایم ایس سی ، پی ایچ ڈی (آکسن) ہے، جس کے پاس ڈگریوں کی فوج ہے لیکن اُس نے ڈگریوں کو سرد خانے میں محفوظ کر رکھا ہے۔
اِس کردار کے ذریعے ابن صفی سارے معاشرے پر طنز کرتے ہیں کہ اب ہم ڈگریوں کے سائے میں چلتے ہیں۔ ہمارے ہر قول و فعل پر ڈگریوں کا پر تَو نظر آتا ہے۔ اور یوں اَنا کا حصار ہمیں دوسروں کے دلوں میں اُترنے سے روکتا ہے۔
لیکن عمران اپنی ساری حماقتوں اور معصومیت کے ساتھ یوں جلوہ گر ہوتا ہے کہ سلیمان ہو یا سر سلطان سبھی اس خبطی اور ازلی بیوقوف کے گرویدہ نظر آتے ہیں۔
عمران کی ٹیڑھی شخصیت پر ابن صفی نے ناول '' گھر کا بھیدی '' میں مفصل روشنی ڈالی ہے۔ وہ رقمطراز ہیں:
کیا اِس قسم کا تضاد ہمارے گھروں میں نہیں؟ کیا آج نئی نسل ، دُہری زندگی گزارنے پر مجبور نہیں؟ اگر آپ ان کے چہروں کو پڑھیں گے تو کیا یہ نہیں کہیں گے کہ اس شہر میں ہر شخص عمران سا کیوں ہے؟
تو ماہرِ نفسیات کے نزدیک خود عمران ایک کیس ہے اور وہی مجرمانہ کیس کی گتھیاں ایسے سلجھاتا ہے کہ مجرم اور پولیس دونوں حیران رہ جاتے ہیں۔ لیکن اس کا طریقۂ کار اتنا عجیب ہے کہ مروّجہ قانونی چوکھٹے میں نہیں سماتا۔ اسی لئے پولیس اُسے مجرم اور مجرم پولیس کا انفارمر سمجھتے ہیں اور سب اُس سے متنفر ہیں۔
اگر عمران بزم میں کیپٹن حمید سے زیادہ بذلہ سنج، پُرلطف اور کھلنڈرا ہے تو رزم میں فریدی سے بڑھ کر جیالا اور بہادر ہے۔
فریدی کا کردار اتنا سپاٹ اور خشک ہو گیا ہے کہ ہمیں جلد ہی حمید کی طرح راہِ فرار اختیار کرنی پڑتی ہے۔ اپنی تمام خوبیوں اور اعلیٰ صفات کے باوجود فریدی زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا اور مجبوراً ابنِ صفی نے حمید اور قاسم کو بے ساکھیاں بنا کر اس مافوق الفطرت کردار کو آگے بڑھنے پر مجبور کیا۔
اس کے برخلاف عمران کا کردار خاصا تہ دار اور پُرپیچ ہے ۔ خود اس کے چار روپ ہیں : عمران ، ایکس ٹو ، پرنس آف ڈھمپ اور رانا تہور علی ...
مختلف سطحوں پر مختلف کرداروں کے ساتھ ذہنی تصادم ، خاصا ہنگامہ اور دلچسپی پیدا کرتے ہیں۔ اپنے والد رحمٰن صاحب سے لے کر نوکر سلیمان تک ہر سطح اور ہر کردار کے ساتھ اپنی انفرادیت اور توانائی برقرار رکھتا ہے۔
یہ ابن صفی کے شگفتہ قلم کا نتیجہ ہے کہ ہر ناول میں عمران ہمارے سامنے نت نئے روپ میں آتا ہے۔
کبھی وہ پرانی کارمیں بیٹھ کر بھیک مانگ رہا ہے... (دوسری آنکھ)
کبھی پیکسی کے ساتھ سرکس میں مسخرا بن جاتا ہے . (کالی تصویر )
کبھی ایک معمر باریش بزرگ کو سائیکل چلانے پر اس لئے ٹوک رہا ہے کہ داڑھی کے بال ہلا کر سائیکل چلاتے شرم نہیں آتی ؟ (گُمشدہ شہزادی)
تو کبھی وہ اپاہج اور بیوی سے خوفزدہ شوہر بن کر رینا ڈکسن کے گھر پناہ لیتا ہے ۔ (سبز لہو)
غرض ہر ناول میں عمران کی عجیب و غریب حرکات و افعال پر سب کو تعجب ہوتا ہے ۔ بعد میں پتا چلتا ہے کہ یہ تو ایک ڈھونگ تھا، مجرم تک رسائی پانے کے لئے ... تب ہم عمران کی ذہانت اور شجاعت کے قائل ہو جاتے ہیں۔ علامہ دہشتناک ، ظلمات کا دیوتا ، بے باکوں کی تلاش ، درندوں کی بستی ... سیریز میں عمران پورے شباب پر نظر آتا ہے ۔
ابن صفی نے علّامہ دہشت ناک کا کردار بڑی چابک دستی سے کھینچا ہے ۔ علامہ دہشتناک ، جو یونیورسٹی میں سوشیالوجی کا پروفیسر ہے اور اپنے دہشتناک خیالات کی بنا پر شاگردوں اور معتتقدوں میں مقبول ہے۔ صرف ذہین اور طاقتور انسان کو زندہ رہنے کا اہل سمجھتا ہے ۔ کمزوروں اور بُزدلوں کو کیڑے مکوڑے جانتا ہے۔ عمران اُس کی معتقد طالبہ شیلا دھنی رام کو کیسے رام کرتا ہے ؟ ملاحظہ ہو :
یہاں ابن صفی نے عمران کے ذریعے زندگی کا ایک حقیقی فلسفہ پیش کیا ہے۔ سیاسی برتری کے پردے میں دراصل ذہنی برتری کام کر رہی ہے۔ مختلف فلسفۂ حیات دراصل ذہین شخصیتوں کے ماحول سے بیزاری کا نتیجہ ہے ۔ جو جتنا ذہین ہوگا ، اُتنا ہی چالاک ہوگا اور کرۂ ارض پر فتنے کا سبب ہوگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
اقتباس از تحریر : رؤف خوشتر
صفدر ، جولیا ، سنگ ہی ، تھریسیا ، جوزف ، سلیمان اور علی عمران !
اِن سب میں گہرا اور دلآویز رنگ خود علی عمران کا ہے!
علی عمران ، جو ایم ایس سی ، پی ایچ ڈی (آکسن) ہے، جس کے پاس ڈگریوں کی فوج ہے لیکن اُس نے ڈگریوں کو سرد خانے میں محفوظ کر رکھا ہے۔
اِس کردار کے ذریعے ابن صفی سارے معاشرے پر طنز کرتے ہیں کہ اب ہم ڈگریوں کے سائے میں چلتے ہیں۔ ہمارے ہر قول و فعل پر ڈگریوں کا پر تَو نظر آتا ہے۔ اور یوں اَنا کا حصار ہمیں دوسروں کے دلوں میں اُترنے سے روکتا ہے۔
لیکن عمران اپنی ساری حماقتوں اور معصومیت کے ساتھ یوں جلوہ گر ہوتا ہے کہ سلیمان ہو یا سر سلطان سبھی اس خبطی اور ازلی بیوقوف کے گرویدہ نظر آتے ہیں۔
عمران کی ٹیڑھی شخصیت پر ابن صفی نے ناول '' گھر کا بھیدی '' میں مفصل روشنی ڈالی ہے۔ وہ رقمطراز ہیں:
"لوگ اکثر سوچتے ہیں کہ عمران کی شخصیت اتنی غیرمتوازن کیوں ہے ؟ وہ ہر معاملے کو ہنسی میں کیوں اُڑا دیتا ہے ؟ والدین کا احترام اُس طرح کیوں نہیں کرتا جیسے کرنا چاہئے؟
اس کے پیچھے بھی ایک طویل کہانی ہے۔ بچپن میں ماں اُسے نماز ، روزے سے لگانا چاہتی تھی۔ باپ نے ایک امریکی مشن اسکول میں داخل کرا دیا۔ باپ سخت گیر آدمی تھے۔ اپنے آگے کسی کی چلنے نہ دیتے۔ لہذا عمران بچپن ہی سے دُہری زندگی گذارنے کا عادی ہوتا گیا۔ باہر کچھ ہوتا تھا اور گھر میں کچھ ... مشن اسکول اور گھریلو تربیت کے تضاد نے اُسے بچپن ہی سے ذہنی کش مکش میں مبتلا کر دیا تھا۔ ہر چیز کا مضحکہ اُڑا دینے کی عادت پڑتی جا رہی تھی۔"
کیا اِس قسم کا تضاد ہمارے گھروں میں نہیں؟ کیا آج نئی نسل ، دُہری زندگی گزارنے پر مجبور نہیں؟ اگر آپ ان کے چہروں کو پڑھیں گے تو کیا یہ نہیں کہیں گے کہ اس شہر میں ہر شخص عمران سا کیوں ہے؟
تو ماہرِ نفسیات کے نزدیک خود عمران ایک کیس ہے اور وہی مجرمانہ کیس کی گتھیاں ایسے سلجھاتا ہے کہ مجرم اور پولیس دونوں حیران رہ جاتے ہیں۔ لیکن اس کا طریقۂ کار اتنا عجیب ہے کہ مروّجہ قانونی چوکھٹے میں نہیں سماتا۔ اسی لئے پولیس اُسے مجرم اور مجرم پولیس کا انفارمر سمجھتے ہیں اور سب اُس سے متنفر ہیں۔
اگر عمران بزم میں کیپٹن حمید سے زیادہ بذلہ سنج، پُرلطف اور کھلنڈرا ہے تو رزم میں فریدی سے بڑھ کر جیالا اور بہادر ہے۔
فریدی کا کردار اتنا سپاٹ اور خشک ہو گیا ہے کہ ہمیں جلد ہی حمید کی طرح راہِ فرار اختیار کرنی پڑتی ہے۔ اپنی تمام خوبیوں اور اعلیٰ صفات کے باوجود فریدی زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا اور مجبوراً ابنِ صفی نے حمید اور قاسم کو بے ساکھیاں بنا کر اس مافوق الفطرت کردار کو آگے بڑھنے پر مجبور کیا۔
اس کے برخلاف عمران کا کردار خاصا تہ دار اور پُرپیچ ہے ۔ خود اس کے چار روپ ہیں : عمران ، ایکس ٹو ، پرنس آف ڈھمپ اور رانا تہور علی ...
مختلف سطحوں پر مختلف کرداروں کے ساتھ ذہنی تصادم ، خاصا ہنگامہ اور دلچسپی پیدا کرتے ہیں۔ اپنے والد رحمٰن صاحب سے لے کر نوکر سلیمان تک ہر سطح اور ہر کردار کے ساتھ اپنی انفرادیت اور توانائی برقرار رکھتا ہے۔
یہ ابن صفی کے شگفتہ قلم کا نتیجہ ہے کہ ہر ناول میں عمران ہمارے سامنے نت نئے روپ میں آتا ہے۔
کبھی وہ پرانی کارمیں بیٹھ کر بھیک مانگ رہا ہے... (دوسری آنکھ)
کبھی پیکسی کے ساتھ سرکس میں مسخرا بن جاتا ہے . (کالی تصویر )
کبھی ایک معمر باریش بزرگ کو سائیکل چلانے پر اس لئے ٹوک رہا ہے کہ داڑھی کے بال ہلا کر سائیکل چلاتے شرم نہیں آتی ؟ (گُمشدہ شہزادی)
تو کبھی وہ اپاہج اور بیوی سے خوفزدہ شوہر بن کر رینا ڈکسن کے گھر پناہ لیتا ہے ۔ (سبز لہو)
غرض ہر ناول میں عمران کی عجیب و غریب حرکات و افعال پر سب کو تعجب ہوتا ہے ۔ بعد میں پتا چلتا ہے کہ یہ تو ایک ڈھونگ تھا، مجرم تک رسائی پانے کے لئے ... تب ہم عمران کی ذہانت اور شجاعت کے قائل ہو جاتے ہیں۔ علامہ دہشتناک ، ظلمات کا دیوتا ، بے باکوں کی تلاش ، درندوں کی بستی ... سیریز میں عمران پورے شباب پر نظر آتا ہے ۔
ابن صفی نے علّامہ دہشت ناک کا کردار بڑی چابک دستی سے کھینچا ہے ۔ علامہ دہشتناک ، جو یونیورسٹی میں سوشیالوجی کا پروفیسر ہے اور اپنے دہشتناک خیالات کی بنا پر شاگردوں اور معتتقدوں میں مقبول ہے۔ صرف ذہین اور طاقتور انسان کو زندہ رہنے کا اہل سمجھتا ہے ۔ کمزوروں اور بُزدلوں کو کیڑے مکوڑے جانتا ہے۔ عمران اُس کی معتقد طالبہ شیلا دھنی رام کو کیسے رام کرتا ہے ؟ ملاحظہ ہو :
"میں خواہ مخواہ اپنے ذہن کو تھکا دینے کا قائل نہیں ہوں ، جب جو کچھ ہوگا دیکھا جائے گا، اور میں تو اس کا عادی ہوں۔ میرے ملازم ہی مجھے صبح سے شام تک بے وقوف بناتے رہتے ہیں۔"
"اور آپ بنتے رہتے ہیں ؟"
"پھر کیا کروں ؟ عقل مندوں کی زندگی جہنم بن جاتی ہے ۔ جو کچھ بھی گزرے ، چُپ چاپ جھیلتے رہو ، مگن رہو ۔"
"آپ تو ایک بالکل ہی نئی بات سُنا رہے ہیں ..." شیلا نے اُسے گھورتے ہوئے کہا ۔ وہ سوچنے لگی کہ ذہین کہلانے کا اہل علامہ دہشت ہے یا یہ بیوقوف آدمی ؟
"جب سے آدمی کو اپنا ادراک ہوا ہے ، وہ اس کشمکش میں مبتلا ہے ۔ اُسے بیوقوف بننا چاہئے یا نہیں ۔ جو بیوقوف بننا پسند نہیں کرتے ، وہ زندگی بھر جلتے رہتے ہیں ۔"
یہاں ابن صفی نے عمران کے ذریعے زندگی کا ایک حقیقی فلسفہ پیش کیا ہے۔ سیاسی برتری کے پردے میں دراصل ذہنی برتری کام کر رہی ہے۔ مختلف فلسفۂ حیات دراصل ذہین شخصیتوں کے ماحول سے بیزاری کا نتیجہ ہے ۔ جو جتنا ذہین ہوگا ، اُتنا ہی چالاک ہوگا اور کرۂ ارض پر فتنے کا سبب ہوگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
اقتباس از تحریر : رؤف خوشتر
بوقت
9:58 AM
سبسکرائب کریں :
ابنِ صفی بلاگ کی تحریریں (Atom)