2009/12/30

عہدٍ گم گشتہ ۔۔ استاد محبوب نرالے عالم - 2009 دسمبر میں کی گئی تحقیق کے حوالے سے چند انکشافات

افسردگی سوختہ جاناں ہے قہر میر
دامن کو ٹُک ہلا کہ دلوں کی بُجھی ہے آگ
ہمارے سامنے ایک خاتون اپنی اشکبار آنکھیں لیے بیٹھی تھی، اس کی والدہ اور پڑی بہن افسردہ بیٹھے تھے، ذکر مرحوم استاد محبوب نرالے عالم کا تھا، کمرے کی فضا بوجھل ہوچلی تھی، دکھ، حیرت، رنج و غم، کتنے ایسے جذبے تھے جو ہمیں پوری طرح گرفت میں لے چکے تھے۔ یا خدا، کیا یہ اسی شہر نگاراں کا قصہ ہے کہ جہاں زیادہ تر نفع و نقصان کی بنیاد پر لوگوں سے تعلقات رکھے جاتے ہیں۔

ہم سوچتے ہیں اس مضمون کی ابتدا کیسے اور کہاں سے کریں۔ خیال آیا کہ یہی مناسب رہے گا کہ واقعات کو بلا کم و کاست بیان کرتے چلیں کہ ابن صفی صاحب کے پڑھنے والوں کی ذہنی و فکری تربیت تو صفی صاحب اپنی تحریروں کے ذریعے سے آج تک خود کرتے ہیں۔

دسمبر بیس 2009 کی صبح جب ہم محمد حنیف صاحب (ابن صفی ڈاٹ انفو) کی ارسال کی ہوئی لگ بھگ پانچ سال پرانی اخباری خبر پر درج کراچی کے علاقے اورنگی کے پتے کو اپنی والدہ کے ہمراہ (کہ جن کی برکت سے وادی اردو پر موجود ابن صفی صاحب سے تعلق رکھنے والی ان شخصیات کی کھوج ممکن ہوتی چلی گئی جن پر ماضی کی گرد پڑچکی تھی) اور ایک کرم فرما جناب امجد اسلام کی رفاقت میں ڈھونڈنے نکلے تو کامیابی کا امکان صرف ایک فیصد تھا۔ اورنگی کی گلیوں میں بھٹکتے، لوگوں سے رہنمائی کے خواستگار، بلاآخر ہم اس جگہ پہنچنے میں کامیاب ہوئے کہ جو اس خانماں برباد انسان کا عرصہ 15 سال تک آخری ٹھکانہ کہلایا جسے سری ادب کے بےتاج بادشاہ جناب ابن صفی نے دنیا کے روبرو استاد محبوب نرالے عالم کے نام سے روشناس کروایا۔ دروازے پر دھڑکتے دل کے ساتھ دستک دی تو ایک خاتون سامنے آئیں۔ یوں تو ہم منزل مراد پر پہنچ کر بھی ناکام لوٹ آتے کہ گھر کا مرد موجود نہ تھا لیکن ہماری والدہ کی موجودگی کی بنا پر گھر کے اندر رسائی ممکن ہوپائی اور یوں صفی صاحب کے حوالے سے ایک اور بند دروازہ ہم پر کھلا، برق رفتاری سے امتداد زمانہ کی نظر ہوتے ایک عہد کے مخفی گوشے آشکار ہوئے۔

بے نوا شاعر، ابن صفی صاحب کے قلم کی زبان میں "ادیف" (ادیب)، شریف النفس و درویش صفت انسان اور زمانے کی ناقدری کا شکار حرماں نصیب، استاد محبوب نرالے عالم کا پتہ ملا۔
آگے بڑھنے سے قبل ایک ذرا یہاں ابن صفی صاحب ہی کے ناولز سے اس محبوب نرالے عالم کے کردار کا جائزہ لیں جسے صفی صاحب نے عمران سیریز میں امر کردیا۔ واضح ریے کہ درج ذیل اقتباسات استاد کی ابن صفی صاحب سے دوران ملاقات کہی ہوئی وہ باتیں ہیں جنہیں صفی صاحب نے تقریبا" من و عن عمران سیریز میں استعمال کیا ہے۔ ان میں سے کئی باتوں کی تصدیق استاد کے مرتب کردہ اس ذاتی رجسٹر سے ہوئی جو استاد کے وسیع القلب اہل خانہ (جنہوں نے استاد کو 15 برس اپنے گھر میں محبت و عقیدت کے ساتھ رکھا) نے ہمیں مرحمت کیا تھا

ڈاکٹر دعاگو -1
یہ تھے استاد محبوب نرالے عالم۔ بے پناہ قسم کے شاعر۔شاعر کس پائے کے ہوں گے، یہ تو تخلص ہی سے ظاہر تھا۔ اتنا لمبا چوڑا
تخلص شاید ہی کسی مائی کے لال کو نصیب ہوا ہو۔ استاد کا کہنا تھا کہ بڑا شاعر وہی ہے جس کے یہاں انفرادیت بے تحاشا پائی جاتی ہو، لہذا ان کا کہا ہوا شعر ہمیشہ بے وزن ہوتا تھا۔ بسر اوقات کے لیے پھیری لگا کر مسالے دار سوندھے چنے بیچتے تھے۔ مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ جو بھی پکڑ پاتا بری طرح جکڑ لیتا۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا کہ سننے سنانے کے چکر میں استاد ہفتوں دھندے سے دور رہتے۔ بڑے بڑے لوگوں سے یارانہ تھا، پھر عمران کیسے محروم رہتا۔"کوئی عمدہ سا شعر استاد" - عمران انہیں کی میز پر جمتا ہوا بولااستاد نے منہ اوپر اٹھایا۔ تھوڑی دیر ناک بھوں پر زور دیتے رہے پھر جھوم کر بولے "سنیے

حسن کو آفتاب میں صنم ہوگیا ہے
عاشقی کو ضرور بے خودی کا غم ہوگیا ہے

پھر بولے۔ "پچھلی رات مچھ میں غالب کی روح حلول کرگئی تھی، سنو
تم بھلا باز آؤ گے غالب راستے میں چڑھاؤ گے غالب
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب شرم تم کو مگر نہیں آتی

"یہ تو وزن دار ہے استاد" - عمران حیرت سے بولا" میں نے بتانا نا غالب کی روح حلول کرگئی تھی، پھر وزن کیسے نہ ہوتا
ڈاکٹر دعاگو 2
اور جی یہ لوگ میری اردو شاعری کی قدر کرتے ہیں لیکن میں اسے کچھ بھی نہیں سمجھتا- میرا اصل رنگ دیکھنا ہو تو فارسا
میں سنیے
"فارسا" ۔ ڈاکٹر دعاگو نے حیرت سے کہیا"
یہ بھی مصیبت ہے" ۔ عمران نے سر ہلا کر کہا ۔ " استاد کی شاعری میں نر ۔ مادہ ہو جاتا ہے اور مادہ - نر! اس لیے ان کی گرفت میں آتے ہی فارسی بھی فارسا ہوجاتی ہے۔ ہاں تو ہوجائے استاد فارسا میں کچھ"
استاد نے حسب عادت چھت کی طرف منہ اٹھا کر ناک بھوں پر زور دینا شروع کردیا۔ پھر بولے "سُنیے

نظر خُمی خُمی، نظر گُمی گُمی، نظر سُمی سُمی
دھمک شک فزوں، فضا فسرونی، حیا لبم لبم
عشر خموشگی، خمو عشر فشاں، نمو زوم زوم
قلی و قل ونی، وقل، فنوقنی قنا قلم قلم
نظر خُمی خُمی، نظر گُمی گُمی، نظر سُمی سُمی

"بس بسں" ڈاکٹر دعاگو ہاتھ اٹھا کر ناخوشگوار لہجے میں بولا۔ " آپ سے ان کا کیا رشتہ ہے" ۔ اس نے عمران سے پوچھا۔قبل اس کے عمران کچھ کہتا، استاد نے اچھل کر ایک شعر عنایت کردیا

پوچھو ہو رشتہ ہم سے فسردہ بہار دل
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے مزار کے

"بس ۔۔ بس" ڈاکٹر دعاگو ہاتھ اٹھا کر ناخوشگوار لہجے میں بولا "مسٹر عمران، آپ میرا وقت برباد کررہے ہیں"
"اوہ ۔۔ جی ہاں ۔۔ ہپ" عمران تیزی سے اٹھا اور استاد کا ہاتھ پکڑ کر دروازے کی طرف کھینچتا چلا گیا
بہت حرامی معلوم ہوتا ہے" ۔ کمرے سے نکل کر استاد نے آہستہ سے کہا۔

ڈاکٹر دعاگو 3
اچھا استاد" عمران جیب سے پانچ کا ایک نوٹ کھینچتا ہوا بولا " یہ لیجیے اور ٹیکسی سے واپس چلے جائیے"استاد نے دانت
نکالے، تھوڑی دیر ہنستے رہے، پھر بولے "اب آپ اس زادیٰ شکر کے پاس تشریف لے جایئں گے""زادیٰ شکر" عمران حیرت سے بولا " میں نہیں سمجھا استاد""میں آپ کی محبوبہ پر بھی شاعری کروں گا""استاد" عمران ہاتھ جوڑ کر گھگھیایا۔ "ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے، اگر آپ کا عربا یا فارسا چل گیا تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہ جائے گی"۔

ڈاکٹر دعاگو 4
کارڈ پر نظر پڑتے ہی اس نے ٹھنڈی سانس لی ۔ کارڈ پر تحریر تھا " امام الجاہلین، قتیل ادب، استاد محبوب نرالے عالم"
"بلاؤ" - عمران کراہا
"تشریف رکھیے"
لیکن استاد تشریف کہاں رکھتے، وہ تو کنکھیوں سے نرس کو دیکھے چلے جارہے تھے۔"میں نے کہا استاد"
"جی۔ جی ہاں" استاد چونک کر بولے "آج میں ارتعاش سمیگاں کا مقیم مصلوب ہوں"عمران نے اس طرح سر ہلایا جیسے پوری بات سمجھ میں آگئی ہو۔
اکثر استاد پر بڑے بڑے نامانوس الفاظ بولنے کا دورہ پڑتا تھا۔ کبھی کبھی نئے الفاظ بھی ڈھالتے۔ اس قسم کے دورے عموما" اس وقت پڑتے جب آس پاس کوئی عورت بھی موجود ہو۔
نرس اٹھ کر چلی گئی اور استاد نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور پھر جھک کر آہستہ سے بولے "یہ دوسری کب آئی"
"آتی جاتی ہی رہتی ہیں" عمران لاپرواہی سے بولا " مگر آپ کیوں مغموم ہیں"
"نہیں جناب، یہ بے پردگی۔۔ یہ ٹڈے ٹڈیاں ۔۔ میں عنقریب حج کرنے چلا جاؤں گا"
" ہوا کیا ۔۔ کوئی خاص حادثہ"
"جی ہاں، کل رینو میں میٹنی شو دیکھنے چلا گیا تھا۔ دیر ہوگئی تھی۔ کھیل شروع ہو چکا تھا۔ ہائے کیا فلم ہے ڈاکٹر نو دیکھی ہے آپ نے ۔ سالے، لونڈیا کو چوڑی دار پاجامہ پہنا دیتے ہیں"
چوڑی دار پاجامہ نہیں استاد، اسے جین کہتے ہیں " عمران نے کہا

ڈاکٹر دعاگو 5

اتنے میں نرس واپس آئی اور استاد بولے " انسانی تہذیب کی مہذباتی اور مسکونی مناکحت بہت ضروری ہے۔ غالب، ذوق، داغ وغیرہ نے مشروباتی انفجاریت کی تفتیل میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی لیکن تجریدی ضابطے کی اشتراقیت مشروتی اعراب کی سند نہیں۔"
"واللہ آپ نے تو نثر ہی میں صنعت مستول الجہاز پیدا کر دی استاد" عمران نے خوش ہو کر کہا۔
"میں غالب کو بھی للکار سکتا ہوں"
"بیشک ۔۔ بیشک ۔۔ استاد ذرا چنا کڑک تو سنا دو"
استاد نے بھونپو اٹھا کر منہ سے لگایا اور شروع ہو گئے

پی۔ای۔سی۔ایچ کے حسین
میرے چنے سے نمکین
بولے بھائی خیر الدین
پاپڑ ایک آنے کے تین
چنا کڑک

ڈاکٹر دعاگو 6

استاد ابھی تک چنے بیچ رہے تھے، بمشکل سلسلہ تمام ہوا، عمران خاموش کھڑا کچھ سوچ رہا تھا۔
دفعتا" اس نے استاد سے کہا " آپ ایک عمدہ سا گرم سوٹ سلوا لیجیے"
استاد نے دانت نکال دیے پھر کچھ سوچ کر گردن اکڑائی اور بولے "پانچ سوٹ کیڑے کھا گئے، دو ابھی کھا رہے ہیں ۔۔۔ میرے دادا جج تھے نکھلؤ کے"
"یہ نکھلؤ کہاں ہے جناب" نرس نے پوچھا
"لکھنؤ والے پیار سے لکھنؤ کو کہتے ہیں" عمران بولا
"میرے والد کرنل تھے" استاد ان کی گفتگو پر توجہ دیے بغیر بولے " عتیق بھائی سب جانتے ہیں"
" میں نے کہا تھا سوٹ سلوا لیجیے"
"مجھے کتنا ادا کرنا پڑے گا" استاد نے اکڑ کر پوچھا
"فکر نہ کرو، اس رقم کے چنے چبوا دینا مجھے"
"نہیں بھئی، پوچھنا میرا فرض تھا" استاد نے کہا " ایک بار جمیل صاحب نے کہا تھا کہ تم صرف بیالیس روپے جمع کرلو، میں تمہاری شادی کروا دوں گا

زہریلی تصویر

استاد محبوب نرالے عالم جان کو آگئے تھے۔ عمران جیسا آدمی بھی ان کے مصافحوں سے بور ہو گیا تھا۔ جوزف جیسے آدمی کو بھی طوعا" و کرہا" مصافحہ کرنا پڑتا۔ سلیمان البتہ انہیں ہاتھوں ہاتھ لیتا تھا، اکثر کہتا مجھے بھی شاعر بنادو۔ اور استاد گردن اکڑا کر کہتے

" میاں یہ ساہری ہے، سکھائی نہیں جاتی، ایک چیز ہوتی ہے تخیل صرف ادیفوں (ادیبوں) کو نصیب ہوتی ہے۔ ساہری نہ سیکھی جاسکتی ہے، اور نہ ہی سکھائی جاسکتی ہے

آج بھی وہ اسی انداز سے آدھمکے تھے

عمران استاد سے مخاطب رہا ۔۔ " گلبدنی کے بعد کیا کہا تھا استاد""فُلبدنی ۔۔ فارسا میں ۔۔ جب سے جوش صاحب نے میری گلبدنی چرائی ہے، میں ایسی چیزیں فارسا میں کہنے لگا ہوں ۔۔ مالم ہے جوش صاحب کا قصہ، بڑی زوردار جھڑپ ہوئی تھی۔۔ لگے چیخنے چلانے ۔۔ میں نے کہا جوش صاحب، میں ہاتھا پائی میں آپ سے نہیں جیت سکتا، علمی بحث کیجیے"
صفدر پر ہنسی کا دورہ پڑ گیا لیکن عمران کی سنجیدگی میں ذرہ برابر بھی فرق نہ آیا۔ "ہاں ۔۔ ہاں" عمران سر ہلا کر بولا "اب شروع ہو جاؤ"
استاد نے کھنکار کر چھت کی طرف منہ اٹھایا اور ناک بھوں پر زور دینے لگے۔ پھر عمران سے بولے "ملاہجہ فرمایئے

وزرٹ زٹاخ چرخم چرغاز غازبوں
فریاد زنان مونگ پھلیم گوں گوں
گوں گوں چہ کٹار باندھم چوں چوں
فُلبدنی ۔۔۔۔۔ فُلبدنی ۔۔۔۔۔ فُلبدنی

پاگلوں کی انجمن 1

"ہاتھ دیکھ لیجیے شاہ صاحب" اس نے اپنا داہنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا"اس وقت نہیں دیکھ سکتا" استاد غرائے"کیوں جناب" "میں اپنے ہاتھ مل رہا ہوں""آخر کیوں جناب""میں اپنے ہاتھوں سے جیوتش ودیا کی لکیر مٹا رہا ہوں""اس نے کیا قصور کیا ہے جناب""بس چلے جاؤ، اس ٹیم ہم صرف عورتوں کے ہاتھ دیکھتے ہیں"گاہک نے غالبا" پشتو میں انہیں ایک گندی سی گالی دی اور چلا گیا

پاگلوں کی انجمن 2

عمران نے استاد کے شانے پر ہاتھ مار کر کہا "سنو اکثر لوگ تمہارے آئیڈیاز چرا لیا کرتے ہیں"
"جی بس کیا بتاؤں ۔ استاد ٹھنڈی سانس لے کر بولے "نہ صرف وہ لوگ جو زندہ ہیں بلکہ وہ بھی جو مرگئے"
"وہ کیسے استاد"
خواب میں آکر ۔۔ مومن، غالب اکثر اس قسم کی حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔۔ میرا شعر تھا

بے غیرت ناہید کی ہر تان ہے زمبک
شعلہ سا لپ لپ لپ جھپک

اب آپ دیکھیے، ٹیلی وژن والوں سے معلوم ہوا کہ یہ غالب صاحب کا ہے"
مومن کا ہے استاد ۔۔

اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو

"اب یہی دیکھ لیجیے، میں نے بے غیرت ناہید کہا ہے، اور وہ فرماتے ہیں اس غیرت ناہید۔۔۔ ہوئی نہ وہی خواب کی چوری والی بات"
"صبر کرو" عمران ان کا شانہ تھپک کر بھرائی ہوئی آواز میں بولا اور استاد میکانکی طور پر آبدیدہ ہوگئے۔
پاگلوں کی انجمن .. 3
استاد کی داڑھی برقرار رہی تھی لیکن زلفیں کٹوادی گئی تھیں۔۔ جس وقت وہ جاماوار کی شیروانی اور چوڑی دار پاجامہ پہن کر قد آدم آئینے کے سامنے کھڑے ہوئے تو انہیں سکتہ ہوگیا۔
"کیا میں چٹکی لوں استاد" عمران نے ان کی حالت دیکھ کر پوچھا
"جی" استاد چونک کر بولے "اس وقت ذرا دل بھر آیا تھا"
"خیریت ۔ بھلا دل کیوں بھر آیا تھا"
"یہ سالا کپڑا کیا چیز ہے ۔ میرے والد حضور ہیرے جواہرات ٹنکی ہوئی شیروانی پہنتے تھے۔۔ وقت ۔۔ وقت کی بات ہے ۔۔۔ ان کی اولاد اس طرح ٹھوکریں کھاتی پھر رہی ہے"
"خیر ۔۔ خیر ۔۔۔ دل چھوٹا نہ کرو ۔۔۔ تمہارے والد حضور کی واپسی اگر میرے بس میں ہوتی تو میں اس کے لیے بھی کوشش کرتا"
۔۔۔۔۔۔۔ X ۔۔۔۔۔۔۔
آیئے اورنگی کے اس گھر کے چھوٹے سے کمرے میں واپس چلتے ہیں جہاں وہ لوگ استاد محبوب نرالے عالم کے ذکر سے آبدیدہ
تھے۔ جی ہاں، یہ ہم جو تواتر کے ساتھ ‘وہ لوگ‘ کی اصطلاح استعمال کررہے ہیں، وجہہ اس کی یہ ٹھری کہ متذکرہ گھر کے مکینوں کا استاد محبوب نرالے عالم سے قطعی کوئی خونی رشتہ نہ تھا اس کے باوجود بھی انہوں نے استاد کو قریب 15 برس اپنے پاس، اپنے گھر میں استاد کے انتقال تک رکھا۔ امتیاز فاران کی استاد سے پہلی ملاقات 1988 میں ہوئی، امتیاز فاران سن 1990 میں استاد کو اپنے ہمراہ لے آئے تھے اور تب سے اس خانماں برباد انسان کو ان فرشتہ صفت لوگوں نے اپنے دل میں جگہ دی۔ استاد ایک بزرگ کی حیثیت سے وہاں رہتے ریے۔ یہ وہ دور تھا جب استاد کو فردوس کالونی ناظم آباد کا علاقہ چھوڑے زمانہ بیت چلا تھا۔۔ وہ فردوس کالونی جہاں استاد کی ملاقات ابن صفی صاحب سے ہوئی تھی اور یہ ملاقات کروانے والے جناب انوار صدیقی (انکا، اقابلا وغیرہ کے مصنف) تھے جنہوں نے ہمیں ایک ملاقات میں یہ تفصیل بتائی تھی۔ استاد ان دنوں پھیری لگا کر چنے بیچا کرتے تھے اور ایک روز انوار صدیقی صاحب نے رات کے وقت استاد کو اشارے سے بلایا اور صفی صاحب سے ملوایا۔ چند روز بعد جب انوار صاحب، صفی صاحب سے ملنے گئے تو نے صفی صاحب نے ان سے گلہ کیا کہ یار یہ تم نے کس کو میرے پیچھے لگا دیا ہے، میں عدیم الفرصت آدمی ہوں اور یہ (استاد محبوب نرالے عالم) اکثر میرے پاس آکر گھنٹوں بیٹھا کرتے ہیں۔ انوار صاحب نے صفی صاحب کو استاد کو اپنے ناولز کا کردار بنا کر پیش کرنے کی تجویز پیش کی جو صفی صاحب کو پسند آئی اور یوں اس کا آغاز ہوا۔
سن اسی کی دہائی کے وسط میں استاد اورنگی چلے آئے جہاں ان کو امتیاز فاران اپنے گھر لے آئے۔ 15 برس وہ امتیاز فاران کے گھر مقیم رہے۔ گزر بسر کے واسطے وہ ڈی سی آفس کے باہر بیٹھا کرتے تھے۔ امتیاز فاران کے اہل خانہ ان سے کوئی بھی رقم لینا گناہ سمجھتے تھے۔

کمرے میں آبدیدہ بیٹھی خاتون، امتیاز فاران کی ہمشیرہ تھیں جن کو استاد اپنی بیٹیوں کی طرح عزیز رکھتے تھے اور انہوں نے بھی اس حرماں نصیب شخص کی خدمت کا حق ادا کردیا تھا۔ ان کو استاد شفقت سے شہزادی کہا کرتے تھے اور ان کی زبان بھی ان کو استاد ۔۔ استاد کہتے نہ تھکتی تھی۔ جتنی دیر ہم اس گھر میں رکے، ان لوگوں کی زبان سے محبوب نرالے عالم کے لیے، استاد کے سوا کچھ نہ نکلا۔ ایسا جان پڑتا تھا کہ گویا وہ لوگ استاد کے اصل نام سے واقف ہی نہ تھے۔ خاتون قمر جہاں نے ہمیں بتایا کہ استاد کے انتقال کے بعد امتیاز فاران اور ان کی بہن شہزادی بہت بری طرح بیمار پڑگئے تھے، قریب چھ ماہ وہ دونوں علیل رہے، اس دوران ان کا کھنا پینا چھوٹ گیا اور دونوں بہن بھائی سوکھ کر کانٹا ہوگئے تھے۔

خاص ہمارے لیے استاد کا مرتب کردہ ذاتی رجسٹر لایا گیا اور یہ دیکھ کر ہم لوگ دنگ رہ گئے کہ خاتون شہزادی نے استاد کے رجسٹر میں چسپاں ان کی تصویر کو دونوں ہاتھوں سے احتراما" چھوا اور پھر وہ ہاتھ اپنی اشک آلود آنکھوں پر عقیدتا" لگا ڈالے۔
"استاد" شہزادی کی زبان سے آہستگی سے نکلا۔۔
یا اللہ ۔۔۔۔ یہ منظر تو ہم نے اکثر اللہ والوں کے مزاروں پر ہی دیکھا تھا۔

استاد کی شہزادی جب اپنی مستقل بھیگتی آنکھوں کو مزید ہم سے نہ چھپا پائی تو اٹھ کر اندر چلی گئی۔ ماحول ایک بار پھر سوگوار ہو گیا۔

استاد کے اہل خانہ (کہ بلاشبہ اب یہی لوگ ان کے اہل خانہ کہلائے جانے کے حقدار ہیں) سے یہ تمام گفتگو اس انتہائی مختصر سے کمرے میں ہوئی جس کا ایک ایک کونہ 15 برس استاد محبوب نرالے عالم کی رفاقت کا گواہ ہے۔ استاد ایک طویل القامت شخص تھے اور اس کمرے میں وہ اپنے پاؤں پھیلا کر لیٹ بھی نہ پاتے ہوں گے لیکن اہل خانہ کے دلوں کی وسعت تو دیکھیے کہ استاد کو کسی بھی صورت ان کی کم مائیگی کا احساس نہ ہونے دیا۔ اور استاد کی وضع داری بھی ملاحظہ ہو کہ بقول شہزادی کے کہ " ہم نے 15 برسوں میں استاد کی آنکھوں کی پتلی نہ دیکھی، وہ کبھی نظر اٹھا کر ہم سے بات نہ کرتے تھے"۔ خاتون شہزادی کی پردہ دار والدہ نے ہمیں بتایا کہ 15 برسوں میں انہوں (والدہ نے) کبھی استاد کا چہرہ نہیں دیکھا اور نہ ہی استاد کبھی والدہ کے چہرے سے سے آشنا ہوئے۔

گفتگو میں شریفانہ لب و لہجہ ، حفظ مراتب نکتہ آفرینی اور رکھ رکھاو یہ سب استاد محبوب نرالے عالم کا شخصیت کا خاصہ تھے۔ بقول شہزادی، استاد اپنی گفتگو کے آغاز سے قبل ہمیشہ ‘معاف کیجیے گا" ضرور کہتے تھے۔

استاد کے مرتب کردہ ذاتی رجسٹر کو امتیاز فاران کے اہل خانہ نے دے کر نہ صرف ہمیں اپنے احسان تلے زیر بار کیا بلکہ اس طرح ہمیں یہ موقع ملا کہ ہم ابن صفی صاحب کے ان تمام ان گنت پڑھنے والوں تک بذریہ انٹرنیٹ یہ نایاب ذخیرہ پہنیچا سکیں جو آج تک استاد محبوب نرالے عالم کے بارے میں جاننے کے متمنی ہیں۔ ہمیں آگاہ کیا گیا کہ ہم استاد کے انتقال کے بعد اس گھر تک پہنچنے والے پہلے فرد ہیں۔

آئیے متذکرہ رجسٹر کا جائزہ لیتے ہیں کہ جس کو اپنے ہاتھوں میں تھام کر ہم نے استاد کے ہاتھوں کے لمس کو محسوس کیا:
استاد محبوب نرالے عالم کی (بقول ابن صفی صاحب) "گجل" کا ایک شعر

نگاہ یار سے مانگ کے لائے عمر ہزار پانچ دن
دو جستجو میں کٹ گئے، دو انتظار میں

ارے صاحب یہ تو چار دن ہوئے لیکن پانچواں کہاں گیا ---- ایک انٹرویو (ابن صفی ڈاٹ انفو پر موجود) میں استاد نے اس سوال
کے جواب میں کہا کہ پانچواں دن تو میں خود ہوں جو زندہ ہوں۔
استاد مزید کہتے ہیں

محبوب نرالے عالم کی بدنصیبی پر کرو ماتم میرے دوستوں
اس سرزمین پر رہنے کے لیے دو گز زمیں نہ ملی کوچہ یار میں
ایک مقام پر استاد کی ترقی پسندانہ نظم ملاحظہ کیجیے کہ یہی وہ شاہکار ہے جس سے متاثر ہو ابن صفی صاحب نے ان کی (صفی
صاحب کے الفاظ میں) ‘ساہری‘ کو اپنے ناولز کی زینت بنایا

آج گھر سے بن من کے نکلی ہے نازنین
گُل سفنی ۔۔ گُل سفنی ۔۔ گُل سفنی
نہ گرجتے ہیں ۔ نہ برستے ہیں ۔۔ یونہی چمکتے ہیں
گُل برنی ۔۔۔ گُل برنی ۔۔۔ گُل برنی
آؤ ماتھے کی بندیا پہن کر رقص کرو
ہنس ہنس کر سربازار کہتے ہیں
گُل ڈفنی ۔۔ گُل ڈفنی ۔۔ گُل ڈفنی
آج بھی دنیا میں چور رہتے ہیں
ہم نے بڑی مشکل سے چوری پکڑی ہے محبوب نرالے عالم
گُل بخنی -- گُل بخنی -- گُل بخنی

استاد کی جوش ملیح آبادی سے نیاز مندی تھی اور ہمیں یقین ہے کہ جوش صاحب استاد کی مندرجہ بالا نظم کو سن کر اپنی "گل بدنی" بھول گئے ہوں گے۔ ویسے بھی استاد محبوب نرالے عالم، جوش صاحب کی گل بدنی کی ٹکر پر "فُل بدنی" ایجاد کرچکے تھے۔ اس مضمون میں اوپر ہم نے ابن صفی کی عمران سیریز سے چند دلچسپ اقتباسات درج کیے ہیں عمران سیریز کے ناول
زہریلی تصویر" کا ایک مختصر اقتباس دوبارہ ملاحظہ کیجیے

عمران استاد سے مخاطب رہا ۔۔ " گلبدنی کے بعد کیا کہا تھا استاد"
"فُلبدنی ۔۔ فارسا میں ۔۔ جب سے جوش صاحب نے میری گلبدنی چرائی ہے، میں ایسی چیزیں فارسا میں کہنے لگا ہوں ۔۔ مالُم ہے جوش صاحب کا قصہ، بڑی زوردار جھڑپ ہوئی تھی۔۔ لگے چیخنے چلانے ۔۔ میں نے کہا جوش صاحب، میں ہاتھا پائی میں آپ سے نہیں جیت سکتا، علمی بحث کیجیے

منظر امکانی صاحب نے اپنے کالم (سن و تاریخ نامعلوم) میں استاد کے بارے میں ایک واقعہ تحریر کیا ہے کہ جس کی رو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ابن صفی صاحب نے زہریلی تصویر کا مندرجہ بالا ٹکڑا مکمل تصدیق کے بعد لکھا تھا۔ منظر امکانی لکھتے ہیں:
"استاد کا کمال یہ ہے کہ وہ کسی جگہ اور حالات میں نروس نہیں ہوتے۔ استاد محبوب نرالے عالم جب پہلی بار جوش ملیح آبادی مرحوم سے ملنے گئے تو ان کی خاموش طبع دیکھ کر جوش صاحب یہ اندازہ نہیں لگا سکے تھے کہ وہ اس صدی کی عجیب و غریب چیز سے مخاطب ہیں۔۔ جب استاد گویا ہوئے تو جوش صاحب پر آشکار ہوا۔ اس آگاہی پر جوش صاحب شدید برہم ہوگئے اور وہ استاد کو بھگانے کھڑے ہوگئے۔۔ استاد محبوب نرالے عالم کچھ قدم دور جاکر بڑے یقین سے کہا "جوش صاحب، آپ ہاتھ پاؤں میں مجھ سے جیت سکتے ہیں مگر ادب میں مقابلہ نہیں کرسکتے ۔۔ استاد کے اس فقرے پر جوش صاحب کا غصہ ختم ہوگیا اور انہوں نے استاد کو بٹھا لیا اور پھر زندگی بھر استاد کی گفتگو برداشت کی
منظر امکانی سے چند مزید بیحد دلچسپ انکشافات سنیے کہ یہاں مقصد ان واقعات کو محفوظ کرنا ہے

"لکھتے ہیں کہ استاد نے ان پر انکشاف کیا تھا کہ ان کے (استاد کے) ایک لاکھ تیرہ ھزار شاگرد ہیں۔ مزید یہ کہ علامہ اقبال درحقیقت چار تھے اور ان میں وہ علامہ اقبال سب سے بڑے ہیں جنہوں نے شاعری کی۔ استاد نے ایک نئی صنف ادب "افسانی" بھی ایجاد کی تھی۔ استاد آج کل ایک تعمیراتی فرم میں ملازم ہیں، فرم کے دفتر میں انگریزی کا اخبار لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور اسے ہمیشہ الٹا پڑھتے ہیں ۔۔ شعر کا پیمانہ استاد نے اس طرح بنایا ہے کہ دونوں مصرعے اسکیل رکھ کر ناپتے ہیں اور اگر معمولی بھی فرق ہوجائے تو شعر ناموزوں قرار پاتا ہے۔ ہر لمحہ جدت اختیار کرنا انہیں پسند ہے اسی لیے مکان کے باہر جو بورڈ لگایا اس پر "بیت الخلا" درج تھا۔ انہیں ملک کے باہر بھی شہرت ملی، معروف جریدے ٹائم کے سرورق پر استاد کی تصویر شائع ہوچکی ہے، یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب استاد بنیادی جمہوریت کے انتخابات میں امیدوار تھے اور انہوں نے اپنے لیے ایک مخصوص لباس تیار کرایا تھا جس میں کئی فٹ لمبی ٹوپی تھی ( ابن صفی ڈاٹ انفو اور وادی اردو پر استاد کی یہ تصویر شامل ہے۔۔ راشد اشرف) اور لبادے پر جلی حروف میں تحریر تھا کہ اس حلال خور کو ووٹ دیں ۔ استاد جب باہر نکلتے تو ایک ہجوم ساتھ ہوتا، اس ہجوم اور اس عجیب و غریب شخص کو دیکھ کر ٹائم کے نمائندے نے ان کی تصویر بنائی اور ان سے متعلق ٹائم میں مضمون لکھا۔ استاد کا تذکرہ لکھنے والوں میں مجید لاہوری، شوکت تھانوی، ابن انشاء، ابن صفی، ابراہیم جلیس، سلیم احمد اور جوش ملیح آبادی شامل ہیں"
۔۔ استاد کے رجسٹر سے معلوم ہوا کہ ان پر کالم لکھنے والوں میں سجاد میر، ابو نثر اور نادم سیتا پوری بھی شامل ہیں۔ ابو نثر نے اپنے کالم (سن و تاریخ نامعلوم) میں لکھا " استاد محبوب نرالے عالم ہمارے ہی نہیں پاکستان میں جاسوسی ادب کے پہلے اور آخری تاجدار ابن صفی مرحوم کے بھی محبوب تھے۔ مرحوم کی کہانیوں میں استاد کا ذکر ایک مستقل کردار کی حیثیت سے ملتا ہے۔ استاد کی وہ حیثیت ماشااللہ ابھی تک قائم و دائم ہے

۔۔ نادم سیتا پوری نے استاد کو فخر پاکستان استاد محبوب نرالے عالم رجسٹرڈ (ان لمیٹڈ) کا خطاب دیا تھا۔

مشہور شاعر دلاور فگار نے استاد پر 3 جنوری سن انیس سو اٹھاسی کو ایک نظم لکھی، اس کے دو بند ملاحظہ ہوں

قاتل کو کیا ملے گا نرالے کو مار کے ۔۔۔ وہ خود ہی جارہا ہے ‘شب غم‘ گزار کے
سینہ ہے شاہزادہ کا خود ایک بلٹ پروف ۔۔۔ درپے ہے اسکی جان کے یہ کون بیوقوف

۔۔ کراچی میں استاد کے ٹھکانے تواتر کے ساتھ بدلتے رہے اور اس بے آسرا شخص نے کئی علاقوں کی خاک چھانی جن میں 115 خالد آباد ۔۔ فردوس کالونی، کوثر ٹاؤن ملیر اور گولیمار شامل ہیں۔

۔۔ استاد کی شاعری کی واحد کتاب ‘دیوان تاریخ زمانہ‘ ہمیں ان کے اہل خانہ نے بطور تحفہ دی جس میں درج غزلوں سے کچھ منتخب کلام ابن صفی ڈاٹ انفو اور وادی اردو پر شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ استاد کی ایک اور کتاب ‘روٹی، کپڑا اور لامکان‘ کے چند منتخب دلچسپ حصے بھی مذکورہ ویب سائٹس پر دیکھے جاسکتے ہیں۔

۔۔ تمام عمر استاد کا دعوی رہا کہ وہ مغلوں کی اولاد اور بہادر شاہ ظفر کے پڑپوتے ہیں اور استاد کے اس دعوے کی بنیاد پر ہی اخباری نامہ نگاروں اور کالم نگاروں کا لہجہ ان کے بارے میں ہمیشہ فکاہیہ رہا۔ لیکن یہ انکشاف بھی استاد کے چاہنے والوں کے لیے باعث حیرت ہوگا کہ روزنامہ نوائے وقت نے 8 جنوری سن انیس سو چوراسی کو ایک خبر شائع کی جس میں محقق اور گورنمنٹ اردو کالج کراچی کے شعبہ تاریخ اسلامی کے پروفیسر علی محمد شاہین نے اس بات کی تصدیق کی کہ استاد محبوب نرالے عالم، بہادر شاہ ظفر کے سلسلہ نسب سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ کہ شہزادے محبوب نرالے عالم ہی تخت طاؤس اور کوہ نور ہیرے کے اصل وارث ہیں۔

۔۔ 17 جنوری سن انیس سو چوراسی کو ایک اخباری بیان کے ذریعے استاد نے یہ تاریخی انکشاف کیا کہ "سن 1857 میں دہلی کی جنگ آزادی کے دوران فرنگیوں نے تمام شہزادوں اور شاہزادیوں کو یا تو قتل کردیا یا جنگلوں، پہاڑوں میں روپوشی کے دوران وہ سارے شہزادے اور شاہزادیاں لقمہ اجل بن گئے۔ شہزادہ محبوب نرالے عالم کو ان کے گھر کی ایک لونڈی اپنی بغچی میں باندھ کر فرنگیوں سے بچتی بچاتی لکھنؤ جا پہنچی لیکن جب لکھنؤ میں بھی فرنگیوں کا زور ہوا اور اس لونڈی کو دھڑکا ہوا کہ فرنگی اس نومولود شہزادے کو چھین کر مارڈالیں گے تو اس نے ایک صندوق میں بند کرکے انہیں دریائے گومتی میں بہا دیا۔ یہ شہزادہ بلاآخر وضو کرتے ہوئے ایک بزرگ کو دریا میں بہتے صندوق سے مل گیا اور انہوں نے اپنی روحانی عملیاتی کملی میں اس بچے کو لپیٹ کر سلادیا۔
۔۔ جناب رئیس امروہوی اور ان کے بھائی سید محمد تقی کا دستخط شدہ سات جولائی سن انیس سو چھیاسی کا ایک تصدیق نامہ یہاں موجود ہے کہ جس میں رئیس صاحب اور ان کے بھائی، استاد کے خانماں برباد ہونے کی تصدیق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ استاد کو پلاٹ دیا جائے۔

۔۔ وزیر اعظم پاکستان، محمد خان جونیجو کے نام استاد کی پلاٹ کے حصول کے واسطے لکھی گئی مورخہ بیس اگست سن انیس سو چھیاسی کی درخواست اور وزیر اعظم سیکریٹیریٹ میں وصول شدہ رسید موجود ہے۔

۔۔ یہ انکشاف ہوا کہ استاد مختلف اخباروں میں کالم بھی لکھا کرتے تھے۔ ان کے کالم کا مستقل عنوان "ورنہ شکایت ہوگی" تھا اور وہ شہزادہ محبوب نرالے عالم کے نام سے مختلف موضوعات پر لکھا کرتے تھے۔ استاد عموما" سماجی مسائل کو موضوع بناتے تھے مثلا" اورنگی ٹاؤن میں قلت آب، لیاقت آباد نمبر دس کی چورنگی، کراچی کا بنگلہ بازار اور مچھلی، مچھیرے اور مگر مچھ۔ اس کے علاوہ ایک مضمون "بیسویں صدی میں سائنسی علوم" بھی ایک خاص کیفیت میں لکھا گیا ہے۔

۔۔ استاد کے متفرق موضوعات پر مبنی ایک کالم کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے

چچی اماں کے مرنے پر بڑے جھگڑے بوا نکلے
بہت سے قبریں کھودیں لکین ان سب میں چچا نکلے

۔۔ ایک خاندانی مہر دیکھی جاسکتی ہے جس پر درج ہے: یادگار پاک و ہند، خاندان مغلیہ محبوب نرالے عالم، دہلی پایہ تخت اور لکھنؤ اودھ کی سرزمین، بہادر شاہ ظفر کے پڑپوتے، اٹھارہ سو ستاون۔

۔۔ استاد محبوب نرالے عالم کا شجرہ چسپاں ہے جس کے مطابق استاد کے دادا نامی محمد شاہ عالم، جج دہلی تھے (سن انیس سو ایک عیسوی میں وفات پائی)، والد کا نام کرنل نادر درانی عالم (سن انیس سو پندرہ عیسوی میں وفات پائی) اور بعد ازاں، محبوب نرالے عالم۔

یہاں ہم آپ کو ایک دلچسپ بات بتاتے چلیں کہ استاد نے اپنے والد اور دادا کا تذکرہ ابن صفی صاحب سے صد فیصد کیا ہوگا اور خاص کر ان کے والد کا نام صفی صاحب کے ذہن میں نقش تھے اسی لیے صفی صاحب نے عمران سیریز کے ناول زہریلی تصویر میں استاد کے والد کا نام استعمال کیا ہے۔ ملاحظہ ہو زہریلی تصویر کا یہ اقتباس

دفعتا" ان کی طرف آنے والوں میں سے کسی نے گرج کر کہا " ہالٹ ۔ ہو کمس دیئر"
"فرینڈز" عمران نے جواب دیا اور رک گیا۔وہ تیر کی طرح قریب آئے۔۔ اور عمران نے بارعب لہجے میں پوچھا " کیا بات ہے"
"آپ لوگ اس وقت یہاں"
"اونہہ ۔۔ عمران ہاتھ ہلا کر بولا "کیا یہ کوئی ممنوعہ علاقہ ہے ۔ ہم چہل قدمی کررہے ہیں"
"آپ کون ہیں"
"کرنل نادر درانی آف سیکنڈ بٹالین

اسی طرح صفی صاحب نے عمران سیریز کے ناول ڈاکٹر دعاگو میں استاد کے دادا کا ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ ہو ڈاکٹر دعاگو کا یہ اقتباس
استاد نے دانت نکال دیے پھر کچھ سوچ کر گردن اکڑائی اور بولے "پانچ سوٹ کیڑے کھا گئے، دو ابھی کھا رہے ہیں ۔۔۔ میرے دادا جج تھے نکھلؤ کے

۔۔ دسمبر سن انیس سو تراسی کے استاد کے ایک اخباری بیان سے معلوم ہوا کہ ان کی اہلیہ کا نام شہزادی اختر جہاں بیگم تھا جن سے استاد کے سات بچے تھے جو سب کے سب انتقال کرگئے۔ اختر جہاں بیگم برصغیر کے ایک جج کی صاحبزادی تھیں۔

۔۔ رجسٹر میں موجود اخباری تراشوں کے مطالعے سے ہمارے ممدوح کی شخصیت کا ایک دلچسپ پہلو عیاں ہوتا ہے ۔۔۔ جی ہاں، استاد بڑے تواتر کے ساتھ اخباری بیان (بلکہ شاہی فرمان کہیں تو بہتر ہو گا کہ اکثر اخبار والے اسی طرح رپورٹ کیا کرتے تھے) جاری کیا کرتے تھے۔ کہیں وہ ایرانی حکومت سے تخت طاؤس کی حوالگی کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں تو کہیں ہندوستانی حکومت کو بہادر شاہ ظفر کی جائداد میں حصے کے حصول کے لیے للکارتے ہیں ۔۔۔ کہیں آپ سلطنت برطانیہ سے کوہ نور ہیرے کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں تو کہیں فرانسیسی شہزادی کو دورہ پاکستان کی دعوت دیتے نظر آتے ہیں۔ وہ امریکی حکومت کو تنبیہہ کرتے ہیں کہ اس نے عراق پر حملہ کرکے فاش غلطی کی ہے۔

۔۔استاد کی زندگی کے آخری ماہ و سال میں رفتہ رفتہ ان اخباری بیانات پر ایک افسردگی کا رنگ غالب آتا دکھائی دیتا ہے اور ان کے پندرہ اگست سن انیس سو اٹھانوے کے اس بیان کے حزنیہ الفاظ کو پڑھ کر دل دکھ سے بھر آتا ہے جب وہ حکومت برطانیہ و پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ " آج ہم کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، حکومت ہمارے اجداد کی بے اندازہ دولت میں سے کم از کم اتنا تو دیں کہ میں اپنے زندگی بہتر انداز میں بسر کرنے کے قابل ہو سکوں

۔۔اسی طرح وہ ایک اور بیان میں ارباب اختیار سے مطالبہ کرتے ہیں کہ "ہمیں روٹی، کپڑا اور مکان دو ۔۔ ورنہ اسلام آباد بلا کر گولی مار دو

۔۔ اور پھر آخری دنوں میں (مارچ سن 2003) ایک سیاسی عہدےدار وسیم رشید کی سرکار سے یہ اخباری اپیل کہ شہزادہ استاد محبوب نرالے عالم کا، جو فالج کے حملے کے سبب علیل ہیں، سرکاری خرچ پر علاج کرایا جائے۔

ابن صفی ڈاٹ انفو پر موجود استاد کے انٹرویو "اپنا ابن صفی والا استاد محبوب نرالے عالم" سے استاد کے سن پیدائش سے آگاہی ہوتی ہے جو بقول استاد سن انیس سو چودہ عیسوی ہے۔ استاد نے متذکرہ انٹرویو میں اپنی کتابوں کا ذکر کیا ہے جن کے نام کچھ اس طرح ہیں: مسائل عشق منزل، نرالا مذاق، بندر کی اولاد، یہ دنیا مرغ دل، دیوانے تاریخ زمانہ، آنکھ دل کا مقدمہ، عرش کا مشاعرہ، بھارت کا تباہی، ایک پہاڑ کا آگ و پانی اور روٹی کپڑا اور لامکان۔

بہادر شاہ ظفر کی برسی کا دن استاد کی زندگی میں ایک خاص مقام رکھتا تھا ۔۔ اس روز تمام اہل خانہ استاد کی دلجوئی کے لیے جمع ہوتے، اسی چھوٹے سے کمرے میں شہزادی کی والدہ کے ہاتھ کا بنا ہوا "کپڑے" کا تاج استاد کو پہنا کر ان کی تاج پوشی کرتے تھے۔ شہزادی کی والدہ استاد سے پوچھتی تھیں کہ "بھائی،آج کے دن کے لیے کوئی فرمائش" اور استاد اس خاص دن، قورمے اور زردے کی فرمائش کرتے تھے۔ تاج پوشی کے دن وہ اپنے اسلاف کے پرشکوہ ماضی اور اپنے حال کے بارے میں کیا سوچا کرتے ہوں گے، اس کا اندازہ لگانا دقت طلب نہیں۔
جولائی 4 سن دو ھزار پانچ کو یہ شہزادی ہی تھیں جو استاد کو طبیعت کی خرابی کی بنا پر اورنگی کے قطر اسپتال لے گئی تھیں، استاد بے حد کمزور ہو چکے تھے اور بقول خاتون شہزادی اور ان کی بہن قمر جہاں، زیادہ تر لیٹے رہنے پر ہی اصرار کیا کرتے تھے۔ 4 جولائی کو استاد کو بلند فشار خون کی شکایت پر قطر اسپتال میں داخل کردیا گیا۔ استاد کسی سے بات نہ کرتے تھے، بس ڈاکٹروں سے یہی کہتے رہے کہ ہمیں جلدی سے ٹھیک کردیں یہ بچیاں کب تک ہمارا خیال کریں گی ۔۔۔ تین دن تک استاد اسپتال میں داخل رہے، اس دوران ان پر نقاہت کی وجہ سے زیادہ تر غنودگی کی کیفیت طاری رہی۔ انتقال سے ایک روز قبل ان کی اہل خانہ نے استاد سے کہا کہ استاد آپ ہمت نہ چھوڑیں ۔۔ استاد جو غنودگی میں تھے، بولے " خان صاحب، ہمیں مجبور نہ کرو" ۔۔۔ جولائی 6 سن دو ھزار پانچ کی صبح اسپتال سے فون آیا کہ استاد کی طبیعت خراب ہے، آپ لوگ چلے آئیے۔ خاتون شہزادی کے مطابق جب وہ لوگ اسپتال پہنچے تو وہ مجذوب صفت انسان کہ دنیا جس کو استاد محبوب نرالے عالم کے نام سے جانتی تھی، اس دار فانی کو لبیک کہہ چکا تھا۔ “انا للہ و انا الیہ راجعون

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طنیت را

اورنگی کے قبرستان میں جس طرح آپ کی تدفین ہوئی وہ بذات خود ایک حیرت انگیز واقعہ تھا۔ روزنامہ عوام میں شائع ہوئی خبر (عکس ابن صفی ڈاٹ انفو اور وادی اردو پر موجود ہے) کی تصدیق امتیاز فاران کے اہل خانہ نے بھی کی کہ مذکورہ قبرستان دس برس قبل ہر طرح کی تدفین کے لیے بند کیا جاچکا تھا لیکن استاد کو جو گوشہ ملا وہ کسی قبر کا حصہ نہیں۔ ہم نے یہ دیکھا کہ استاد کی قبر پر نیم و کیکر کے درختوں نے ایک طمانیت بخش سایہ کیا ہوا ہے (تصاویر ابن صفی ڈاٹ انفو اور وادی اردو پر دیکھی جاسکتی ہیں

محبوب نرالے عالم، دنیا کی نظروں میں آپ مفلس و تہی دامن تھے-- اپنے اسلاف کی جائز دولت میں سے صرف اپنے گزارے لائق مشاہرے کے متمنی آپ تمام عمر در در ٹھوکر کھایا کیے ۔۔۔ لوگ آپ کو سودائی خیال کرتے تھے۔۔ "آپ کے اسلاف جب زبان کھولتے تھے تو ایک عالم ان کی ہیبت سے تھرا جایا کرتا تھا" ۔۔۔۔ ضرور ایسا ہوگا ۔۔۔۔ لیکن آپ کی کہی ہوئی باتوں پر لوگ آپ کو دیوانہ قرار دیتے تھے ۔۔۔۔ "آپ کے آباواجداد تین وقت مرغ متنجن نوش کرتے اور ہیرے جواہرات ٹنکی شیروانیاں زیب تن کرتے تھے" -- یقیننا" کرتے ہوں گے ۔۔۔ لیکن آپ کو دو وقت کی روٹی بھی نصیب نہ تھی، شاید ناظم آباد کی گلیوں میں چنے بیچتے وقت آپ شکم کی آگ بجھانے کے لیے مٹھی بھر چنے ہی پھانک لیا کرتے ہوں ۔۔۔ آپ کے انتقال کے بعد آپ کے اہل خانہ نے آپ کے ملگجے کپڑے، کسی آپ سے بھی زیادہ تہی دست انسان کو دے ڈالے ۔۔۔۔۔۔ "آپ کے اسلاف محلات میں رہا کرتے تھے" ۔۔۔۔ یقیننا" رہتے ہوں گے ۔۔۔۔ لیکن آپ تمام عمر سرچھپانے کے لیے ایک ٹھکانے کو ترسا کیے ۔۔۔۔ "آپ نے ملک پاکستان کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو اور کراچی کے ڈپٹی کمشنر کو ایک پلاٹ کے حصول کے لیے درخواست دی تھی" لیکن آپ کی شنوائی نہ ہوئی ۔۔۔ "آپ کے اسلاف کی تاج پوشی کا منظر ہزاروں کی تعداد میں موجود رعایا دیکھا کرتی تھی، رنگ برنگے مختلف النوع قسم کے قیمتی پکوانوں سے ان کا دستر خوان سجا رہتا تھا" ۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں ۔۔۔ لیکن آپ کی تاج پوشی سال میں صرف ایک دن ایک غریب عورت کے بنائے ہوئے کپڑے کے معمولی تاج سے سرانجام پاتی تھی اور معاشی حالات سے نبرد آزما وہ لوگ صرف اس دن آپ کے لیے قورمے اور زردے کا اہتمام کرتے تھے۔۔۔ "آپ کے اسلاف میں کسی کے انتقال کے بعد اس کا شاندار مقبرہ تعمیر کیا جاتا تھا، رعایا اس پر حاضری دیا کرتی تھی" ۔۔۔ تاریخ شاہد ہے، ضرور ایسا ہی ہوگا ۔۔۔ لیکن آپ کی گمنام، جی ہاں ایک چھوٹے سے کتبے تک کو ترستی سادہ سی قبر کراچی کی ایک مضافاتی بستی کے قبرستان میں ہے جس سے سوائے مٹھی بھر افراد کے، اور کوئی واقف نہیں ۔۔۔۔۔ "آپ کے اسلاف میں سے کسی کے بیمار ہونے پر شاہی معالجین کا جھمگٹا مریض کو گھیر لیتا تھا اور اگر کوئی انتقال کر جاتا تو اس کے مرنے پر زبردست سوگ منایا جاتا تھا، شاہی دربار سے وابستہ شعرا اس کا نوحہ لکھتے تھے" ۔۔۔۔ یقیننا" تاریخ اس کی گواہ ہے ۔۔۔۔ لیکن جب آپ علیل ہوئے تو آپ کے اہل خانہ میں اتنی سکت نہ تھی کہ آپ کو کسی نجی اسپتال میں داخل کراتے، جب آپ کا دم نکلا تو آپ کے سرہانے کوئی موجود نہ تھا، شہر کراچی میں اس روز چلنے والی گرد آلود ہوا نے آپ کا ماتم کیا اور آپ کی قبر پر ایستادہ نیم و کیکر کے درختوں سے گرتے پتوں نے آپ کا نوحہ لکھا۔

دنیا کی نظروں میں آپ ناکام و نامراد کہلائے لیکن خان صاحب محبوب نرالے عالم، آپ ہرگز ہرگز ناکام و نامراد نہیں ہیں ۔۔۔۔ درحقیقت آپ ایک عالی نفس انسان تھے جس کی زبان و ہاتھ سے زندگی بھر کسی کو تقصان نہ پہنچا ۔۔۔ آپ تو بہت خوش قسمت تھے کہ عم عزیز کے آخری 15 برس آپ نے ایسے مخلص لوگوں کے درمیان بسر کیے کہ جنہوں نے آپ کا غم بھلانے میں آپ کی مدد کی، آپ کی خدمت میں دن رات ایک کردیے ۔۔۔۔۔۔ آپ کی سات اولادیں اللہ کو پیاری ہوئیں لیکن ذرا دیکھیے تو کہ آج آپ کی منہ بولی بیٹی شہزادی کے آنسو آپ کے لیے تھمتے ہی نہیں

خان صاحب محبوب نرالے عالم، بارے آپ کے اس مضمون کو لکھنے والا راشد اشرف ایک خوش گمان شخص ہے ۔۔ وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس کی عاجزانہ درخواست پر، اس کے اس مضمون کے قارئین بارگاہ الہی میں ہاتھ اٹھا کر آپ کی مغفرت کے لیے دعا کررہے ہیں اور اللہ تعالی اتنی بڑی تعداد میں دعاؤں کی آمد پر فرشتوں کو حکم دیتے ہیں کہ ہمارا یہ خانماں برباد بندہ نامی محبوب نرالے عالم، جو اپنی تمام زندگی میں ہمارے امتحان پر پورا اترا، اس کے درجات بلند کیے گئے اور اسے خلد بریں میں ابن صفی کے بے داغ سفید موتیوں کے بنے محل کے برابر میں ویسا ہی ایک محل عطا کیا جاتا ہے۔

راشد اشرف
دسمبر 25، سن دو ھزار نو
{ وادی اردو پر استاد محبوب نرالے عالم سے متعلق مندرجہ ذیل مواد شامل کیا جارہا ہے جس کی فراہمی کے لیے ہم امتیاز فاران اور ان کے اہل خانہ کے شکرگزار ہیں}:
۔۔ استاد کی نادر تصاوہر
۔۔ استاد کے لکھے گئے اخباری کالم کے عکس
۔۔ استاد پر لکھے گئے اخباری کالم کے عکس
۔۔ استاد کے دیے گئے اخباری بیانات کے عکس
۔۔ اورنگی کے اس مکان کی تصاویر جہاں استاد 15 برس مقیم رہے
۔۔ استاد کی بےنام قبر کی تصاویر (پہلی مرتبہ)
۔۔ استاد کی شاہی مہر کا عکس
۔۔ محترم دلاور فگار کی استاد پر لکھی گئی نظم
۔۔ پلاٹ کے حصول کے لیے استاد کی لکھی گئی درخواستوں کے عکس
۔۔ جولائی سن دو ھزار پانچ کے دن روزنامہ عوام کی مکمل کوریج
۔۔ استاد کی کتب ‘دیوان تاریخ زمانہ‘ (شاعری کی واحد کتاب) اور ‘روٹی، کپڑا اور لامکان‘ کے چند منتخب دلچسپ حصے
نیچے دیے گئے ایڈریسس پر آپ یہ تمام عجائبات دیکھ سکتے ہیں:
http://www.compast.com/ibnesafi/essay56.htm

2009/12/16

فرزند ابن صفی، ڈاکٹر احمد صفی سے ملاقات (کاپی رائٹ کے حوالے سے معاملات)، وادی اردو کا اجراء و دیگر متفرق احوال

یہ بات ہے سن 2008 کی جب ہمارے دوست منیر احسن نے ،جو ابن صفی صاحب کے انتہائی قریبی عزیز ہیں، اپنی خاموش طبع کے سبب ہم پر عرصہ دو سال کے بعد ایک دن اچانک انکشاف کیا کہ ابن صفی ان کے اپنے ہیں۔ یہ بات ہم پر گویا ایک ایٹم بم کی طرح نازل ہوئی۔ ابن صفی تو اوائل عمری ہی سے گویا ہمارا پیشن ہیں اور یوں لگا کہ جیسے منزل مل گئی۔

"ارے صاحب تو پہلے کیوں نہیں بتایا"

"آپ نے پہلے کیوں نہیں پوچھا"

"چلیے تو اب ہمیں ملوائیے"

"لیکن کس سے ملواؤں"

یوں اس گفت و شنید سے پتہ چلا کہ خانوادہ ابن صفی میں کون کون ہے اور کہاں کہاں ہے۔ معلوم ہوا کہ ہم صرف ڈاکٹر احمد صفی سے مل سکتے ہیں کہ صفی صاحب کے باقی تمام فرزند پاکستان سے باہر مقیم ہیں۔ یاد رہے کہ یہاں بات ابرار و افتخار صفی صاحبان کی ہورہی ہے کہ صفی صاحب کے بڑے بیٹے، ڈاکٹر ایثار صفی سن دو ھزار پانچ میں قضائے الہی سے اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں۔ منیر احسن صاحب کے ہم یوں بھی احسان مند ہیں کہ اس ملاقات کے بعد انہوں نے اس قبرستان تک بھی ہماری رہنمائی کی کہ جہاں صفی صاحب مدفون ہیں۔اور اس طرح ہمیں اپنے چہیتے مصنف کے لیے فاتحہ خوانی کرنے کا موقع میسر آیا

تو یوں ہم منیر احسن کے ہمراہ ایک شام احمد صفی صاحب کے گھر جادھمکے۔

یہاں احمد صاحب کا ایک مختصر سا تعارف کراتے چلیں۔ احمد صفی بنیادی طور پر ایک میکینیکل انجینئر ہیں۔ کیلیفورنیا سے ماسٹرز اور پھر مزید اعلی تعلیم نیویارک کے رینزیلئر پولی ٹیکنیک انسٹیوٹ سے۔ سن 2003 میں کراچی آمد اور تاحال کراچی ہی میں مقیم۔ ان دنوں ایک کمپنی میں مینیجنگ ڈائرکٹر کے عہدے پر ہیں۔ ملاقات سے قبل یہ بات ذہن میں تھی کہ اگر احمد صاحب کو اردو ادب سے بالکل لگاؤ نہ ہوا تو کیا ہوگا، پھر تو گفتگو کا مزہ جاتا رہے گا لیکن پھر یہ سوچ کر دل کو تسلی دی کہ ہیں تو آخر ہمارے چہیتے مصنف ابن صفی صاحب کے فرزند کہ یہ تعلق بھی کچھ ایسا کم تو نہیں۔ (یادش بخیر! ایک بار مشتاق احمد یوسفی سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ کے بچے آپ کی تحریریں پڑھتے ہیں؟ یوسفی صاحب نے جواب دیا کہ میری بیٹی سے کسی نے یہی سوال کیا تھا اور اس نے انگریزی میں جواب میں دیا کہ "ہاں میں سنا ہے کہ پاپا کچھ ہیومر وٍغیرہ لکھتے ہیں)

لیکن نہیں صاحب، وہاں ہمارے سامنے تو ایک نابغہ روزگار شخصیت براجمان تھی۔ شاعری سے شغف، نثر میں منجھا ہوا عمل دخل، اردو اور انگریزی ادب پر گہری نظر۔ اور تو اور اپنے والد گرامی کی کتابوں سے مکمل طور پر آشنا۔ کراچی کا تھکا دینے والا معمول، راستوں کی رکاوٹیں، آفس سے آئے تھے اور لباس بھی تبدیل نہیں کیا تھا لیکن کم و بیش ڈھائی گھنٹے ہمیں وقت دیا۔ ہم سوال کرتے گئے اور وہ جواب دیتے گئے، بس نہیں چل رہا تھا کہ ہر وہ بات پوچھ لیں جو صفی صاحب کے ناولز کے حوالے سے اوائل عمری ہی سے ذہن کے گوشوں میں ڈیرے ڈالے تھی۔ ابن صفی کیسے لکھتے تھے، بچوں سے رویہ کیسا تھا، ذاتی پسند نا پسند، رہائش، ناول کے پلاٹ کیسے ذہن میں آتے تھے۔ احمد صفی جواب دیتے گئے۔

ایک موقع پر سوال کیا کہ صفی صاحب عمران سیریز میں تلے ہوئے جھینگے بمعہ کافی اور سارڈینا فش کا بہت ذکر کرتے تھے کہ یہ علی عمران کی مرغوب ڈش تھی۔ احمد صاحب کے جواب سے تصدیق ہوئی کہ واقعی یہ صفی صاحب کو پسند تھیں۔


ابن صفی صاحب پر 1995 میں نئے افق میں شائع شدہ اپنا مضمون "قلم کا قرض" دیا۔ کھبی شوق و جنون میں صفی صاحب کے ڈائجسٹ میں چھپنے والے چند ناولز کو مضبوط جلد کرواکر رکھا تھا، اس پر احمد صاحب کے دستخط لیے اور یوں فاتحانہ انداز میں خوشی سے سرشار واپس لوٹے کہ سب کو اس کی روداد سنائیں گے۔

وقت گزرتا چلا گیا، قریب آٹھ ماہ بیت گئے کہ ایک دن انٹرنیٹ پر ایک ویب سائٹ دیکھی کہ جہاں لوگوں نے ابن صفی کی عمران و فریدی سیریز کے پورے پورے ناولز کی پی ڈی ایف کاپیاں بنا کر شامل کی ہوئی تھیں، ایک عجب ہی دنیا تھی کہ جہاں لوگوں کی بے تحاشا آمدورفت تھی۔ پم کیوں پیچھے رہیں، آؤ دیکھا نہ تاؤ، صفی صاحب کے کئی ناولز ایک فولڈر بنا کر شامل کرڈالے، دو چار حوصلہ افزا تبصرے آگئے تو لرادے کو اور مہمیز ملی، جوش خطابت میں اس سائٹ پر یہ اشتہار دے ڈالا کہ اگر طبیعت سیر نہ ہوئی ہو تو جن صاحب کو کوئی خاص ناول درکار ہو، نام لے کر طلب کریں۔ ہم ہیں نا۔ اتنے میں بنگلہ دیش سے درخواست آئی کہ فرہاد 59 انٹرنیٹ پر کہیں دستاب نہیں ہے، لیجیے صاحب، راشد اشرف، فرہاد 59 کی اسکیننگ پر جٹ (براہ کرم لفظ جٹ کو پیش کے ساتھ پڑھیے گا، زبر کے ساتھ نہیں -- ویسے کام تو جٹوں والا ہی تھا ) گئے۔

ان ہی دنوں میں ایک شام کمپیوٹر پر اپنے برقی پیٍغاموں کو ٹٹولا تو احمد صفی صاحب کا نام جگمگا رہا تھا، ارے واہ احمد صاحب کو ہم ابھی تک یاد ہیں۔ لیکن صاحب جب پیغام کھولا تو گویا ‘چراغوں میں روشنی نہ رہی‘ ---- آپ سے کیا چھپانا، خود ہی پڑھ لیجیے


Dear Rashid: AA I was reporting Copyright Infringement to eSnips.com and stumbled upon first on a Mr.....'s page where he had uploaded many pdfs of Ibne Safi Novels (illegally so!) and I was really hurt to see your appreciation on this "Effort" of his... Then I followed it to your profile and saw your open offer: "I have added two Jasoosi Dunya Novels. If anybody want to have any specific novel, just tell me ---- " This hurt me more...I have known and admired you for your love and respect for Ibne Safi and his novels. I just have to tell you that these works are copyright materials and copying them in any form print/electronic is illegal. M/s Asrar Publications is actively publishing these novels and all rights are reserved.
So as a first thing, I would request you to Volantarily remove the pdf versions or links to those, from your web pages and uphold the rights of your favourite author whose main aim was to propagate the Respect of Law (Qanoon ka Ehtraam.)
If you would not stand side by side with me and the Ibne Safi family which includes your dear friend Muneer, then we would be left to think that Ibne Safi Fans are fans for the sake of reading his works but not learning from it.I hope you would consider the point of view of the copyright holders and would be amongst the protectors of the rights not violators of the same. Hope to see a positive response from you.
Sincerely,
Ahmad Safi

دیکھا دوستوں، بقول شاعر ‘پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات‘ -- گھڑوں پانی پڑ گیا، سچ پوچھو تو طبیعت مضمحل ہو گئی کہ یہ کیا کر بیٹھے۔

خیر، تھوڑا سنبھالا کیا اور فورا" جواب دیا کہ معافی چاہتے ہیں، نتائج سے بےخبر ہم سے انجانے میں کوتاہی ہوئی، کل آپ مذکورہ فولڈر کو ویب سائٹ پر نہ پائیں گے۔

یوں فولڈر تو حذف ہوا لیکن احمد صفی صاحب سے جو تعلق بنا وہ دیرپا ثابت ہوا۔ یہ ضرور ہے کہ ہم نے اس کاروائی کے بعد ایک عدد پیغام میں یہ گلہ بھی کیا کہ ہم نے تو آپ کی بات مانی لیکن انٹرنیٹ پر یہ جو سینکڑوں کی تعداد میں صفی صاحب کے ناولز پر مبنی فولڈرز موجود ہیں ان کا آپ کیا کریں گے ؟ اس قدرے چبھتے ہوئے سوال کا احمد صاحب نے ٹھنڈے لہجے جو جواب دیا وہ اس مفہوم کا غماز تھا کہ

شکوہ ظلمت شب سے تو بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

لیجیے صاحب، وہ الجھن بھی دور ہوئی اور ہوں ہم بقول احمد صفی صاحب، ابن صفی کی 'ایکسٹینڈڈ فیملی' کا حصہ بن گئے۔ الحمدللہ اس تمام قضیے سے ہم نے جناب محمد حنیف (ایڈمنسٹریٹر ابن صفی ڈاٹ انفو) کو بھی آگاہ رکھا۔ حنیف صاحب 2008 کے اوائل میں ہم سے ملنے ہماری رہائش گاہ پر تشریف لائے تھے اور تب سے ان سے ایک خاص طرح کا قلبی لگاؤ بن گیا جو الحمد للہ آج تک جاری و ساری ہے۔

یہاں سے ایک دوسری داستان کا آغاز ہوتا ہے جو ہماری ابن صفی صاحب پر ویب سائٹ وادی اردو کے اجرا کا سبب بنا۔ احمد صفی صاحب سے تعلق استوار ہوتا چلا گیا کہ جس کی بنیاد کاپی رائٹ کے معاملے میں ان کی کشادہ دلی سے پڑی تھی۔ اور پھر ہمارے ذہن میں یہ خیال جڑ پکڑ گیا کہ اب کوئی ایسا کام کیا جائے کہ جس سے اس ‘عظیم حماقت‘ کا ازالہ بھی ہوسکے۔ ویب سائٹ کی شروعات ہوئی اور احمد صفی صاحب کی حوصلہ افزائی شامل حال رہی۔ ادھر محمد حنیف صاحب بھی دل بڑھا رہے تھے۔


اب کیفیت یہ ہے کہ آج ٹی وی میں ابن صفی صاحب کی برسی کے دن نشر ہونے والی خبر سے لے کر، کراچی آرٹس کونسل میں منعقدہ پروگرام ‘ابن صفی - ایک مکالمہ ہماری روزنامہ جنگ میں لکھی گئی رپورٹ تک اور پھر معاصر بزنس ریکارڈر میں ہمارے انگریزی میں لکھے گئے ابن صفی صاحب پر مضمون سے لے کر ایف ایم ریڈیو چینل 105 پر نشر ہونے والے احمد صفی صاحب کے 26 نومبر 2009 کے انٹرویو تک، کئی ایسی کامیابیاں ہیں جن میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس شرمندگی کا بڑی حد تک ازالہ ہو چلا ہے جو کاپی رائٹ کے قضیے سے شروع ہوئی تھی۔

یہاں ہم پڑھنے والوں کو بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہماری صفی صاحب کے ناولز کی کاپی رائٹ حیثیت کے حوالے سے انٹرنیٹ پر چلائی گئی مہم (حقیر سی کوشش) کا سب سے پہلے حوصلہ افزا جواب جناب باذوق صاحب نے مئی 2009 میں دیا اور عملی طور پر ایسے تمام روابط ہٹا دیے جو ان کی سائٹ پر موجود تھے۔ مزید یہ کہ ماشاء اللہ ابن صفی بلاگ پوسٹ بھی ایسے تمام روابط سے پاک ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی کئی ایسے دوست سامنے آئے جنہوں نے اپنے "ای اسنپس" نامی سائٹ پر موجود اپنے فولڈر محض ہماری درخواست پر ہٹا ڈالے۔ ان میں سب سے پہلے تو عزیر عبداللہ صاحب ہیں جو صفی صاحب کے پرستار ہیں اور ڈھاکا میں رہائش پذیر ہیں، ان کے علاوہ ایک صاحب ‘ایکسٹو‘ نامی (یہ ان کی آئی ڈی) اور ‘صفی فین‘ بھی ان میں شامل ہیں۔

یہ بھی بتاتے چلیں کہ احمد صفی صاحب نے ابن صفی پر اولین ویب سائٹ ابن صفی ڈاٹ کام کا آغاز سن 1997 میں کیا تھا، مذکورہ سائٹ چند سال بعد ہی "ہیک" کرلی گئی اور پھر محمد حنیف صاحب نے ابن صفی ڈاٹ انفو کا اجرا سن 2005 میں احمد صفی صاحب کی باضابطہ اجازت و رہنمائی کے ساتھ کیا، یوں "ہیک شدہ" ابن صفی ڈاٹ کام کا تمام قیمتی مواد ابن صفی ڈاٹ انفو پر منتقل ہوا اور پھر بتدریج اس میں نکھار آتا چلا گیا۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ وادی اردو کو شروع کرتے وقت یہ بات ذہن میں تھی اور ہمیشہ رہے گی کہ ابن صفی صاحب پر آفیشل ویب سائٹ بہرصورت ابن صفی ڈاٹ انفو ہی ہے, یہ ضرور ہے کہ حنیف صاحب ہمیں کسی قابل سمجھتے ہوئے ہمارا کام بڑی محبت سے ابن صفی ڈاٹ انفو پر شامل کرلیتے ہیں اور یوں یہ حقیر سی کوشش معتبر بن جاتی ہے۔


احمد صفی صاحب کی مسلسل حوصلہ افزائی کی بنا پر پھر یوں ہوا کہ ہم نے 1956 کے عمران سیریز کے اوریجنل ناول بھیانک آدمی پر درج ابن صفی صاحب کے لالو کھیت (اب لیاقت آباد) کے مکان کے پتے کی مدد سے وہ مکان ڈھونڈ نکالا جس میں صفی صاحب ھندوستان کی تقسیم کے بعد آکر 1953 سے 1957 تک رہائش پذیر رہے تھے۔ اس مکان کی تصاویر وادی اردو اور ابن صفی ڈاٹ انفو پر موجود ہیں۔ اس کے بعد باری آئی ناظم آباد کے اس گھر کی جہاں صفی صاحب 1957 سے 1980 تک اپنی رحلت کے وقت تک مقیم رہے۔ اس گھر کی تصاویر لینا ایک دشوار گزار مرحلہ تھا جو دو ہفتے کے کڑے اور صبر آزما انتظار کے بعد ہماری ہٹ دھرمی کی بنا پر تکمیل پایا۔ (ہمیں یقین ہے کہ مذکورہ گھر کے مالکان دوبارہ ایسے کسی بھی مطالبے پر خون ریزی پر آمادہ ہو جائیں گے) ۔۔۔۔ اب کیا بتائیں آپ کو، وہ بھلے لوگ گھر میں داخل ہی نہ ہونے دیتے تھے لیکن جیسے تیسے اپنا کام نکلوانا بھی ہم نے علی عمران ہی سے تو سیکھا ہے۔

لیجیے یہاں ناظم آباد کے اسی گھر کے حوالے سے ہماری ایک تک بندی ملاحظہ ہو جو گلزار سے متاثر ہو کر کہی گئی ہے

ناظم آباد دو نمبر کے محلے کی وہ گلیاں

کچھ فاصلے پر مچھو پان والے کے نکڑ پر دنیا بھر کے قصیدے ۔۔

اور گڑگڑاتی ہوئی پان کی پیکوں میں وہ واہ واہ کی صدائیں

آنگن کی دیوار پر جھولتی بوگن ویلیا کی بیل ۔۔۔۔

ایک بکری کے ممیانے کی آواز

گھر کے آنگن میں کھیلتے سات ننھے بہن بھائی ۔۔۔۔۔

اور دھندلائی ہوئی شام کے اندھیرےایسے دیواروں سے سر جوڑ کے چلتے ہیں یہاں ۔۔۔۔

گھر میں موجود ْاماںْ جیسےاپنے ضعیف ہاتھوں سے پوتوں کے لیے دروازہ کھولے

اسی بظاہر عام سی نظر آنے والی ناظم آباد کی گلی سے ۔۔۔۔

ایک ترتیب چراغوں کی نمودار ہوتی ہے

سری ادب کا لازوال سفر آگے بڑھتا ہے

لیکن یہاں سمپورن سنگھ کے مرزانوشہ کا نہیں بلکہ اسرار احمد المعروف ابن صفی کا پتہ ملتا ہے


سلسلہ آگے بڑھا اور ایک رات قریب گیارہ بجے ایک صاحب (محمد صادق پرستار ابن صفی) کا فون آیا کہنے لگے کہ میں اس وقت کراچی کے ایک مضافاتی علاقے میں موجود ہوں، یہاں ایک بینر لگا ہوا ہے جس پر درج یے ‘ابن صفی آئی کلینک کا عنقریب افتتاح" اور میں حیران ہو کر آپ کو مطلع کر رہا ہوں۔ ہم نے کہا کہ حضور، آپ نے ہمیں بھی حیران کر دیا۔ خیر اگلے روز ہم ویاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ ایک ایسے ڈاکٹر صاحب کا عزم ہے جو کراچی کے ایک اسپتال میں ابن صفی کے مرحوم صاحبزادے ڈاکٹر ایثار صفی کے ہمراہ قریب سات برس تک نوکری کرتے ریے تھے اور ڈاکٹر ایثار صفی کی دیرینہ خواہش کی تکمیل میں انہوں نے مذکورہ کلینک کی شروعات کا ارادہ کیا ہے۔ تادم تحریر، یہ کلینک شروع ہوچکا ہے اور اچھا چل رہا یے۔ وادی اردو پر اس کی تفصیلات بمعہ تصاویر کے دیکھی جاسکتی ہیں۔

کاپی رائٹ کے معاملے میں احمد صفی صاحب کی بات ہمیشہ پیش نظر رہی اور
وادی اردو کے سلسلے میں جناب ایج اقبال صاحب سے ملاقات ہوئی اور ان سے ان کے 1972 میں نکالے گئے الف لیلہ ڈائجسٹ کے ابن صفی نمبر کو اسکین کرکے شامل ویب سائٹ کرنے کی اجازت طلب کی گئی جو انہوں نے بخوشی دے دی۔

اسی طرح مشتاق احمد قریشی صاحب سے بھی ویب سائٹ پر موجود نئے افق کے ابن صفی نمبرز کو اسکین کرکے شامل کرنے کی اجازت طلب کی گئی

دریں اثنا، احمد صفی صاحب نے 2009 میں معروف ویب سائٹ "فیس بک" پر ابن صفی کے خاص صفحے کا اجرا کیا جسے راتوں رات مقبولیت حاصل ہوئی اور اب اس کے پرستاروں کی تعداد پانچ سو کے قریب پہنچنے والی ہے۔

یونہی ایک روز خیال آیا کہ جلد یا بدیر، ایک دن کراچی یونیورسٹی میں ابن صفی صاحب پر پی ایچ ڈی ضرور کی جائے گی۔ یہ خیال دل میں جڑ پکڑتا گیا اور ایک روز ہم نے ابن صفی پر سوالنامہ/گائیڈ لائنز برائے پی ایچ ڈی (Questionnaire / Guidelines for Ph.D on Ibne Safi) پر کام شروع کرڈالا۔ حسب معمول احمد صفی صاحب کا عملی تعاون اس میں شامل رہا۔ مذکورہ سوالنامے کو ہم نے ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹرہیلڈ (جرمنی میں اردو کی پرفییسر اور نئی دہلی میں ابن صفی پر مقالہ پڑھنے والی محقق) اور پرفییسر شمس الرحمان فاروقی (مشہور ادیب و شاعر، مقیم ھندوستان) کو نظر ثانی کی غرض سے ارسال کیا تھا اور ان تمام اہل علم حضرات نے ہمیں اپنے مشوروں نے نوازا۔ مزید یہ کہ نارویجیئن پروفیسر فن تھیسین (ابن صفی پر کام کے حوالے سے معروف) کو بھی حال ہی میں بھیجا ہے۔

ایک اہم بات جس کا ذکر کرتے چلیں کہ ابن صفی صاحب کے حوالے سے ہمارا رابطہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب سے ہوا جنہیں دنیا محسن پاکستان کے حوالے سے جانتی ہے، ڈاکٹر صاحب نے ہمیں یہ بتا کر حیران کر دیا کہ وہ بھی ابن صفی صاحب کو پڑھا کرتے تھے، ڈاکٹر صاحب نے ہم سے وعدہ کیا کہ وہ اپنی مصروفیت سے وقت نکال کر ابن صفی صاحب پر مضمون لکھیں گے۔ ایسا ہی ایک وعدہ ہم سے کالم نگار جناب یاسر پیرزادہ نے، جو جناب عطاالحق قاسمی صاحب کے صاحبزادے ہیں، حال ہی میں کیا ہے کہ یاسر بھی ابن صفی صاحب کے پرستاروں میں سے ہیں۔


ابن صفی صاحب کی اوریجنل کتب کا حصول ہمیشہ سے ایک سلگتی ہوئی آرزو رہی تھی۔ پچھلے دنوں شام ڈھلے کراچی کی زمستانی ھواوں کے بیچ لالٹین کی روشنی میں یہ آرزو پوری ہوئی۔ گلشن اقبال میں واقع ممتاز منزل کے پرانی کتابوں کے ٹھکانے پر ایک کتب شناس ٹھیلے والا دو روز قبل ہمیں اطلاع دے چکا تھا کہ صفی صاحب کی 140 کتب آیا چاہتی ہیں۔ لگ بھگ 25 عمران اور 10 جاسوسی دنیا ہاتھ لگیں اور تمام کی تمام اوریجنل سرورق کے ساتھ۔ چالیس برس پرانی کتب اور تمام اس حالت میں کہ ایک بار بھی نہ پڑھی گئی تھیں۔ نا معلوم کیسے زمانے کی دستبرد سے محفوظ رہ گئی تھیں۔ چار کتب کو کتابی کیڑے نے کچھ ایسے چاٹا تھا کہ گویا کسی نے برف توڑنے والے سوئے سے برابر برابر چھید ڈالا ھو لیکن ایک احتیاط اس میں بھی لازم ٹھہری کہ پڑھنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی۔ (کتب شناس کیڑے ۔ خوش رھو)۔ جاسوسی دنیا کے " اونچا شکار" سے کاتب کا پتہ ملتا یے۔ احمد الہ خان سندیلوی ہیں (ان کا ذکر احمد صفی صاحب نے اپنے مخزن کے مضمون میں کیا ہے)۔ صفی صاحب کے دستخط چھبیس دسمبر انیس سو اٹھاون کے ہیں، سالانہ مع رجسٹری ساڑھے تیرہ روپے اور غیر ممالک کے لیے اکیس شلنگ۔ ابن صفی صاحب کی 1960 کی بیماری کے دوران کا اور ڈیڑھ متوالے کی اشاعت سےقبل ان کا (صفی صاحب کا) لکھا ہوا کسی آفتاب ناصری کی کتاب رات کا جادوگر کا پیشرس نظر سے گزرا۔ رات کا جادوگر نکہت پبلیکیشنز کا ناول ایڈیشن ہے جو کراچی سے اسرار پبلیکیشنز نے اپنے امتیازی نشان کے ساتھ شائع کیا تھا۔ پیشرس میں ابن صفی اپنی بیماری کا ذکر کرتے ہیں اور ڈیڑھ متوالے کی آمد کی نوید سناتے ہیں اور پڑھنے والوں سے دعا کی درخواست کرتے ہیں۔

کتابوں کا ذکر چلا ہے تو یہ خوش کن خبر بھی قاریئن کو سناتے چلیں کہ حال ہی میں مشتاق احمد قریشی صاحب نے ابن صفی و ابوالخیر کشفی صاحبان پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام "دو بڑے" ہے۔ مذکورہ کتاب ابھی مارکیٹ میں نہیں آئی ہے لیکن عنقریب دستیاب ہوگی۔ کتاب "دو بڑے" میں قریشی صاحب نے ابوالخیر کشفی کے ان قلمی تبصروں کو یکجا کردیا ہے جو کشفی صاحب نے صفی صاحب کے مختلف ناولز کے مطالعے کے دوران ان پر لکھے تھے۔


ابن صفی صاحب کے ناولز کے سرورق بنانے والے آرٹسٹ جناب ولائیت احمد سے ملاقات بھی احمد صفی صاحب کے توسط سے ہی ہوئی اور پھر ان ہی دنوں ولائیت صاحب کے قریبی عزیز اور کرسچین کالج الہ آباد میں ابن صفی صاحب کے استاد پروفیسر انوار الحق صاحب کے صاحبزادے جناب انوار صدیقی (انکا، اقابلا اور سونا گھاٹ کا پجاری جیسے مشہور سلسلوں کے مصنف) سے ملاقات بھی اس بات کی دلیل ٹھہری کہ ابن صفی صاحب سے تعلق رکھنے والے حضرات کی کھوج لگاکر انہیں منظر عام پر لانا گویا ایک خواب کی تکمیل ہے۔ ایک ایسا خواب کہ جس کی خواہش ہم نے برسوں پہلے 1995 میں اپنے مضمون ‘قلم کا قرض‘ کے آختتامیے میں کچھ اس طرح سے کی تھی

میں ان لوگوں کے انتظار میں ہوں جو ابن صفی کو پڑھیں گے، اس کی باتیں مجھ سے کریں گے، اس کے پیغام کو سمجھیں گے۔

میں ان کی راہ دیکھتا ہوں کہ جو ابھی ابن صفی سے ناواقف ہیں، اور جنہیں کسی نہ کسی موڑ پر اس سے متعارف ہونا ہے۔

میں ان لوگوں کو دیکھ کر سکون محسوس کرنا چاہتا ہوں۔

وہ آرہے ہیں، وہ آگئے ہیں، تم آگئے۔ تم نے بہت انتظار کرایا۔ میں راشد ہوں۔ اچھا اب میں چلتا ہوں۔


راشد اشرف
دسمبر 16، سن دو ھزار نو

2009/12/10

قانون - 2

 بشکریہ : راشد اشرف صاحب

کچھ ہماری طرف سے بھی

"میں جانتا ہوں کہ حکومتوں سے سرزد ہونے والے جرائم، جرائم نہیں حمکت عملی کہلاتے ہیں۔ جرم تو صرف وہ ہے جو انفرادی حیثیت سے کیا جائے۔"
(جونک کی واپسی)

"آدمی کس قدر بے چین ہے مستقبل میں جھانکنے کے لیے۔ شاید آدمی اور جانور میں اتنا ہی فرق ہے کہ جانور مستقبل سے بے نیاز ہوتا یے اور آدمی مستقبل لیے مرا جاتا ہے۔"
(سہ رنگا شعلہ)

"میں عموما بنجر زمین پر کاشت کرتا ہوں اور کچھ نہیں تو کانٹے دار پودے ہی اگا لیتا ہوں اور وہ کانٹے میرے لیے خون کی بوندیں فراہم کردیتے ہیں۔"
(مہکتے محافظ)

"اگر میں اس سڑک پر ناچنا شروع کردوں تو مجھے دیوانہ کہو گے لیکن لاشوں پر ناچنے والے سورما کہلاتے ہیں۔ انہیں اعزاز ملتے ہیں، ان کی چھاتیاں تمغوں سے سجائی جاتی ہیں"
(خطرناک لاشیں)

"جو عبادت آدمی کو آدمی نہیں بنا سکتی، میں اس عبادت کے بارے میں اپنی رائے محفوظ رکھنے پر مجبور ہوں"
(صحرائی دیوانہ)

"دنیا کا کوئی مجرم بھی سزا سے نہیں بچ سکتا۔ قدرت خود ہی اسے اس کے مناسب انجام کی طرف دھکیلتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو تم ایک رات بھی اپنی چھت کے نیچے آرام کی نیند نہ سو سکو، زمین پر فتنوں کے علاوہ کچھ نہ اگے"
(ہیروں کا فریب)

"یہاں اس ملک میں تمہارے ناپاک ارادے کبھی شرمندہ تکمیل نہیں ہو سکیں گے۔ یہاں کی فضا میں ایسا معاشرہ زندہ نہیں رہ سکتا جو خدا کے وجود سے خالی ہو"
(جہنم کی رقاصہ)

"جب کوئی ذہین اور تعلیم یافتہ آدمی مسلسل ناکامیوں سے تنگ آجاتا ہے تو اس کی ساری شخصیت صبر کی تلخیوں میں ڈوب جاتی ہے۔"
(موت کی آندھی)

"ایک پرندے کو سنہرے قفس میں بند کر کے دنیا کی نعمتیں اس کے لیے مہیا کر دو لیکن کیا وہ پرندہ تمہیں دعائیں دے گا ؟"
(دشمنوں کا شہر)

2009/12/04

دلچسپ و عجیب - 2

راشد اشرف صاحب نے اس بلاگ کی تحریر دلچسپ و عجیب پر تبصرہ کرتے ہوئے ابن صفی کے شیدائیوں کا ایک دلچسپ امتحان بھی لیا ہے ، درج ذیل سوالات کی شکل میں ۔۔۔۔
ہے کوئی جواب دینے والا ؟؟

1:
جاسوسی دنیا (فریدی سیریز) کی ان ہیروئینوں کے نام بتائیں جنہیں کرنل فریدی نے اپنی سرد مزاج فطرت کے مطابق نظرانداز کر دیا تھا اور ان ہیروئینوں کو قارئین کی ہمدردی حاصل ہوئی تھی۔ ہیروئینوں کے نام کے ساتھ ناول کے نام بھی بتائیں۔

2:
عمران سیریز کی ان ہیروئینوں کے نام بتائیں جنہیں علی عمران نے اپنی لاپرواہ فطرت کے مطابق نظرانداز کر دیا تھا اور ان ہیروئینوں کو قارئین کی ہمدردی حاصل ہوئی تھی۔ ہیروئینوں کے نام کے ساتھ ناول کے نام بھی بتائیں۔

3:
کیپٹن فیاض کی بیوی کا نام بتائیں۔

4:
اُس ناول کا نام بتائیں جس میں ابن صفی نے علامہ اقبال کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ علامہ کا واحد شعر جو انہیں یاد ہے ، وہ یہ ہے :
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

5:
ابن صفی نے ایکس-ٹو کے نام کا انتخاب کیوں کر کیا تھا؟ اس انتخاب کا پس منظر کیا تھا ؟

6:
اپنے اچھے دنوں میں (غالباً سیکرٹ سروس میں شمولیت سے قبل) علی عمران ایسی کہانیاں لکھا کرتا تھا جو ایک مغربی مصنف کے طرز تحریر سے مماثلت رکھتی تھیں۔ اس مغربی مصنف کا نام کیا تھا؟

7:
جیمسن (جمن) کے والد کا نام بتائیں۔ اس ناول کا نام بھی بتائیں جس میں عمران اس راز کو آشکار کرتا ہے۔

8:
عمران سیریز کے اس ویلن کا نام بتائیں جس کے متعلق خود ابن صفی ہمدردانہ جذبات رکھتے تھے۔

9:
اُس ملک کا نام بتائیں جسے ابن صفی دیکھنا چاہتے تھے۔ اور اس ناول کا بھی نام بتائیں جس میں انہوں نے اس کا ذکر کیا ہے۔

10:
اُن دو ناولوں کے نام بتائیں جن میں ابن صفی نے علی عمران کی عمر کا ذکر کیا ہے۔

2009/07/28

ابن صفی مرحوم کی 29 ویں برسی

26-جولائی-2009ء کو ابن صفی مرحوم کی 29ویں برسی تھی۔

ڈاکٹر نعمان احمد نے انگریزی میں ابن صفی پر ایک متاثر کن مضمون روزنامہ ڈان کے ای-پیپر میں شائع کروایا ہے جسے یہاں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
In memoriam

اسی طرح پاکستان کے اولین فنانشیل انگریزی روزنامہ بزنس ریکارڈر میں بھی ابن صفی پر ایک عمدہ تحریر جناب راشد اشرف کی شائع ہوئی ہے جس کا مطالعہ یہاں کیا جا سکتا ہے:
Ibne Safi - a great Urdu mystery novelist

میٹرو-1 ٹی-وی پر اتوار 26-جولائی کی رات ایک گھنٹہ طویل پروگرام ابن صفی پر پیش کیا گیا تھا۔ اس پروگرام کی تشہیر جس 2 منٹ کے پرومو کے ذریعہ کی گئی ، وہ یو ٹیوب پر یہاں دستیاب ہے :
metro one tv ..... Ibn e safi

تقریباً دس منٹ دورانیے کی ایک ٹیلی نیوز ، 26-جولائی کو ہر اہم بلیٹن میں پیش کی گئی ، یہ ٹی-وی خبر بھی یوٹیوب پر یہاں دستیاب ہے :
Anniversary Tribute to Ibn-e-Safi Biggest Detective Novel Writer Asia Produced

2009/07/20

مختصر تعارف - احمد صفی (ولد ابن صفی)

پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے ؟
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

مخزن کی روایت کے مطابق اپنا تعارف کرانے بیٹھا ہوں تو میرزا کا مذکورہ شعر ذہن میں گونجنے لگا ہے اور اب اس کا مطلب بھی بہتر طور پر سمجھ میں آ گیا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اردو شاعری میں صنعتِ حسنِ تعلیل (یا شاعرانہ تعلّی) کی گنجائش موجود ہے جسے نثر میں بھی کھینچا جا سکتا ہے ورنہ میں کیا لکھتا۔
مختصر مختصر یہ کہ میں نے بیسویں صدی کی ساٹھویں دہائی میں اس دنیا کو رونق بخشی۔والدین نے نام اظہار احمد رکھا کہ والد اور برادران کے ناموں، اسرار، ایثار اور ابرار کا ہم قافیہ تھا اور اس لئے بھی کہ اس زمانے میں بچّوں کے پائجامے کے کپڑے سے لے کر ناموں تک یکسانیت کا خیال رکھا جاتا تھا ۔ بزرگوں ہی سے سنا کہ جب دادا (صفی ا للہ صاحب مرحوم) اسکول میں داخل کرانے لے گئے تو ٹیچر کے پوچھنے پر میں نے اپنا نام "احمد صفی" بتایا۔ دادا نے فوراً تصدیق کی اور یہی نام لکھوا دیا کیونکہ بیٹے نے تو محض قلمی طور پر ان کے نام کو استعمال کیا، پوتے نے سرکاری طور پر انکے نام کو اپنے نام کا حصّہ بنا لیا۔

کراچی میں رہا، پلا بڑھا اور تعلیم حاصل کی۔ گورنمنٹ اسکول ناظم آباد سے ڈی جے سائینس کالج اور پھر وہاں سے این ای ڈی یونیورسٹی پہنچا۔ مکینیکل انجنیئرنگ کی ڈگری لے کر کچھ عرصہ پاکستان میں کام کیا۔ سی ایس ایس اور وزارتِ سائنس و ٹکنالوجی کے وظیفے کے امتحانات آگے پیچھے دیئے اور دونوں میں پوزیشن کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ پھر سول سروس کا خیال چھوڑ کر اعلٰی تعلیم کے لئے امریکہ کی راہ لی۔ والدہ محترمہ کا خیال بھی یہی تھا کہ میں سی ایس پی افسر نہیں بن سکتا تھا کیونکہ نہ میرے والد کا مزاج افسرانہ تھا اور نہ ہی میرا۔ لہٰذا پہلے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اروائن سے ماسٹرز کیا اور پھر مزید تعلیم کے لئے نیویارک کے رینزیلئر پولی ٹکنک انسٹیٹیوٹ چلا گیا۔ وہاں سے "جنرل الیکٹرک" والوں نے پکڑ بلوایا۔ 2003ء میں پاکستان واپس آنے تک وہیں خدمات انجام دیں۔ مختلف ایجادات پر بیس عدد پیٹنٹ حاصل کئے جن کو انٹرنیٹ پر ڈھونڈھا جا سکتا ہے۔ اِن دنوں کراچی کی ایک انجنیئرنگ کمپنی میں گھوم پھر کر وہی افسرانہ خدمات انجام دے رہا ہوں۔

یہ تو تھیں ساری بے ادبی کی باتیں۔ ادبی کاموں کا جہاں تک تعلق ہے، چونکہ آنکھیں ہی کتابوں کے درمیان کھلی تھیں لہٰذا نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کچھ تو اثر ہونا ہی تھا۔ ستّر کی دہائی کے اواخر سے اشعار و مضامین ڈائریوں کے اوراق تک آنے شروع ہو گئے تھے۔ فطری جھجھک اور شرم کی وجہ سے کلام کو چُھپایا اور اسے چھپوایا نہیں۔ عاشقانہ اشعار دکھانے میں اور حیا آتی تھی۔ تعلیمی دور میں ایک استاد نے میری کی ہوئی تشریحاتِ شعری کو دیکھ کر کہا کہ میاں ہر شاعر کا محبوب حقیقی ہی نہیں ہوا کرتا آپ محبوبِ مجازی کا خیال بھی کیجئے۔
بہر حال نثر اور نظم دونوں میں کچھ نہ کچھ ہوتا رہا۔ امریکہ ، کینیڈا اور پاکستان کے مشاعروں میں پھر شریک ہوتا رہا۔ میری پہلی نظم "مامتا کی لوری" ، 1988ء میں "جنگ لندن" میں چھپی اور پھر حافظ شیرازی کی کچھ غزلوں کے منظوم تراجم بکمالِ لطف معین الدین شاہ صاحب مرحوم نے "اردو ادب" میں شائع کئے۔
نثر میں پہلی شائع ہونے والی مختصر کہانی (افسانہ نہیں کہوں گا کہ تکنیکی طور پر شائد وہ افسانہ نہ رہا ہو) "بھاگ گئی" کے عنوان سے غالباً 1990ء میں، "راوی، بریڈفورڈ" میں چھپی۔
مجھے اس طرح منظرِ عام پر لانے میں میری خالہ محترمہ صفیہ صدیقی صاحبہ کا بہت ہاتھ ہے ورنہ بہت کچھ میری ڈائریوں میں مدفون رہ جاتا جو اب کئی امریکی، کنیڈین، برطانوی اور پاکستانی رسالوں تک پہنچ چکا ہے۔ نیویارک میں رہتے ہوئے ٹرائے کے شہر سے احباب کے ساتھ مل کر ایک ریڈیو پروگرام "آوازِ پاکستان" کے نام سے عرصہ دس سال تک کیا اور مختلف ایوارڈز بھی حاصل کئے۔ اب بھی انٹرنییٹ پر یہ پروگرام بروز ہفتہ صبح دس بجے (نیویارک کے وقت کے مطابق) www.wrpi.org پر سنا جا سکتا ہے۔

ادبی سرگرمیوں کو ہمیشہ غمہائے روزگار نے پچھلی نشست پر جگہ دی۔ پاسبانِ عقل نے دل کو اپنی نہیں کرنے دی۔ شائد بچپن میں "اظہار" کو ترک کر دینے کا نتیجہ ہے کہ اب تخلیقی قوتیں آہستہ آہستہ اپنے اظہار کے ذرائع خود پیدا کر رہی ہیں۔
ع
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا

بشکریہ : مخزن (بریڈفورڈ ، یو-کے) - جلد:8 ، مدیر : مقصود الٰہی شیخ

2009/07/12

دلچسپ و عجیب

* ابن صفی نے "انور" کا کردار سب سے پہلے ناول "ہیرے کی کان" میں متعارف کروایا تھا۔

* ایکسٹو کے دست راست "بلیک زیرو" کو ناول "درندوں کی بستی" میں مار ڈالا گیا تھا لیکن اگلے ہی ناول "گمشدہ شہزادی" میں ایک نیا فرد بحیثیت "بلیک زیرو" متعارف کروایا گیا۔

* حمید کی "چوہیا" کا کردار ناول "جنگل کی آگ" میں تخلیق کیا گیا۔

* قاسم کا کردار سب سے پہلے ناول "برف کے بھوت" میں متعارف کروایا گیا تھا۔ قاسم کا مکمل نام "قاسم رضا" تھا۔ قاسم اور حمید کی سب سے پہلی ملاقات "زہریلا آدمی" میں ہوئی تھی۔

* حمید نے ناول "شیطان کی محبوبہ" میں ایک عورت کا بھیس بھی بدلا ہے۔

* حمید کے والد کا نام "وحید" تھا۔ حمید "پورٹ سعید" سے نازل ہوا تھا۔

* ناول "پتھر کا خون" میں عمران نے دعویٰ کیا تھا کہ اگر کبھی اس کی لڑائی فریدی سے ہو جائے تو فریدی کو چھ ماہ کی چھٹی پر چلا جانا پڑے گا۔

* ناول "زمین کے بادل" میں فریدی ، عمران کی ذہانت کا اعتراف حمید سے کرتے ہوئے کہتا ہے کہ : عمران بااصول آدمی نہیں ہے لیکن اگر میرے ساتھ صرف ایک سال گزار لے تو میں عمران کو سدھار دوں گا۔

* "استاد محبوب نرالے عالم" کا کردار حقیقی دنیا کا کردار تھا جن کا انتقال 2002ء میں ہوا ہے۔ استاد کو پہلی بار عمران سیریز ناول "پاگلوں کی انجمن" میں پیش کیا گیا تھا۔

* عمران نے موسیقی کے ساز بھی بجائے ہیں۔ ناول "گیت اور خون" میں طبلہ اور ناول "قاصد کی تلاش" میں ستار بجایا ہے۔


*****
حوالہ جات بشکریہ : ابن صفی آفیشیل ویب سائیٹ

ابن صفی کا آٹوگراف

اسے کبھی نہ بھولو کہ تمہیں ایک سچے مسلمان کی طرح زندگی بسر کرنی ہے !
ابن صفی
5 / جنوری / 1970ء

بشکریہ : ابن صفی آفیشیل ویب سائیٹ [www.ibnesafi.info]
***


2009/07/05

ابن صفی کا لازوال کردار ۔۔۔ علی عمران !!

ابنِ صفی کے ' عمران سیریز ' ناولوں میں قوس قزح کی طرح دلکش اور دلفریب سات رنگوں پر مشتمل سات معروف کردار واضح طور پر نظر آتے ہیں :
صفدر ، جولیا ، سنگ ہی ، تھریسیا ، جوزف ، سلیمان اور علی عمران !
اِن سب میں گہرا اور دلآویز رنگ خود علی عمران کا ہے!

علی عمران ، جو ایم ایس سی ، پی ایچ ڈی (آکسن) ہے، جس کے پاس ڈگریوں کی فوج ہے لیکن اُس نے ڈگریوں کو سرد خانے میں محفوظ کر رکھا ہے۔
اِس کردار کے ذریعے ابن صفی سارے معاشرے پر طنز کرتے ہیں کہ اب ہم ڈگریوں کے سائے میں چلتے ہیں۔ ہمارے ہر قول و فعل پر ڈگریوں کا پر تَو نظر آتا ہے۔ اور یوں اَنا کا حصار ہمیں دوسروں کے دلوں میں اُترنے سے روکتا ہے۔
لیکن عمران اپنی ساری حماقتوں اور معصومیت کے ساتھ یوں جلوہ گر ہوتا ہے کہ سلیمان ہو یا سر سلطان سبھی اس خبطی اور ازلی بیوقوف کے گرویدہ نظر آتے ہیں۔

عمران کی ٹیڑھی شخصیت پر ابن صفی نے ناول '' گھر کا بھیدی '' میں مفصل روشنی ڈالی ہے۔ وہ رقمطراز ہیں:
"لوگ اکثر سوچتے ہیں کہ عمران کی شخصیت اتنی غیرمتوازن کیوں ہے ؟ وہ ہر معاملے کو ہنسی میں کیوں اُڑا دیتا ہے ؟ والدین کا احترام اُس طرح کیوں نہیں کرتا جیسے کرنا چاہئے؟
اس کے پیچھے بھی ایک طویل کہانی ہے۔ بچپن میں ماں اُسے نماز ، روزے سے لگانا چاہتی تھی۔ باپ نے ایک امریکی مشن اسکول میں داخل کرا دیا۔ باپ سخت گیر آدمی تھے۔ اپنے آگے کسی کی چلنے نہ دیتے۔ لہذا عمران بچپن ہی سے دُہری زندگی گذارنے کا عادی ہوتا گیا۔ باہر کچھ ہوتا تھا اور گھر میں کچھ ... مشن اسکول اور گھریلو تربیت کے تضاد نے اُسے بچپن ہی سے ذہنی کش مکش میں مبتلا کر دیا تھا۔ ہر چیز کا مضحکہ اُڑا دینے کی عادت پڑتی جا رہی تھی۔"

کیا اِس قسم کا تضاد ہمارے گھروں میں نہیں؟ کیا آج نئی نسل ، دُہری زندگی گزارنے پر مجبور نہیں؟ اگر آپ ان کے چہروں کو پڑھیں گے تو کیا یہ نہیں کہیں گے کہ اس شہر میں ہر شخص عمران سا کیوں ہے؟

تو ماہرِ نفسیات کے نزدیک خود عمران ایک کیس ہے اور وہی مجرمانہ کیس کی گتھیاں ایسے سلجھاتا ہے کہ مجرم اور پولیس دونوں حیران رہ جاتے ہیں۔ لیکن اس کا طریقۂ کار اتنا عجیب ہے کہ مروّجہ قانونی چوکھٹے میں نہیں سماتا۔ اسی لئے پولیس اُسے مجرم اور مجرم پولیس کا انفارمر سمجھتے ہیں اور سب اُس سے متنفر ہیں۔
اگر عمران بزم میں کیپٹن حمید سے زیادہ بذلہ سنج، پُرلطف اور کھلنڈرا ہے تو رزم میں فریدی سے بڑھ کر جیالا اور بہادر ہے۔
فریدی کا کردار اتنا سپاٹ اور خشک ہو گیا ہے کہ ہمیں جلد ہی حمید کی طرح راہِ فرار اختیار کرنی پڑتی ہے۔ اپنی تمام خوبیوں اور اعلیٰ صفات کے باوجود فریدی زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا اور مجبوراً ابنِ صفی نے حمید اور قاسم کو بے ساکھیاں بنا کر اس مافوق الفطرت کردار کو آگے بڑھنے پر مجبور کیا۔
اس کے برخلاف عمران کا کردار خاصا تہ دار اور پُرپیچ ہے ۔ خود اس کے چار روپ ہیں : عمران ، ایکس ٹو ، پرنس آف ڈھمپ اور رانا تہور علی ...
مختلف سطحوں پر مختلف کرداروں کے ساتھ ذہنی تصادم ، خاصا ہنگامہ اور دلچسپی پیدا کرتے ہیں۔ اپنے والد رحمٰن صاحب سے لے کر نوکر سلیمان تک ہر سطح اور ہر کردار کے ساتھ اپنی انفرادیت اور توانائی برقرار رکھتا ہے۔
یہ ابن صفی کے شگفتہ قلم کا نتیجہ ہے کہ ہر ناول میں عمران ہمارے سامنے نت نئے روپ میں آتا ہے۔
کبھی وہ پرانی کارمیں بیٹھ کر بھیک مانگ رہا ہے... (دوسری آنکھ)
کبھی پیکسی کے ساتھ سرکس میں مسخرا بن جاتا ہے . (کالی تصویر )
کبھی ایک معمر باریش بزرگ کو سائیکل چلانے پر اس لئے ٹوک رہا ہے کہ داڑھی کے بال ہلا کر سائیکل چلاتے شرم نہیں آتی ؟ (گُمشدہ شہزادی)
تو کبھی وہ اپاہج اور بیوی سے خوفزدہ شوہر بن کر رینا ڈکسن کے گھر پناہ لیتا ہے ۔ (سبز لہو)

غرض ہر ناول میں عمران کی عجیب و غریب حرکات و افعال پر سب کو تعجب ہوتا ہے ۔ بعد میں پتا چلتا ہے کہ یہ تو ایک ڈھونگ تھا، مجرم تک رسائی پانے کے لئے ... تب ہم عمران کی ذہانت اور شجاعت کے قائل ہو جاتے ہیں۔ علامہ دہشتناک ، ظلمات کا دیوتا ، بے باکوں کی تلاش ، درندوں کی بستی ... سیریز میں عمران پورے شباب پر نظر آتا ہے ۔
ابن صفی نے علّامہ دہشت ناک کا کردار بڑی چابک دستی سے کھینچا ہے ۔ علامہ دہشتناک ، جو یونیورسٹی میں سوشیالوجی کا پروفیسر ہے اور اپنے دہشتناک خیالات کی بنا پر شاگردوں اور معتتقدوں میں مقبول ہے۔ صرف ذہین اور طاقتور انسان کو زندہ رہنے کا اہل سمجھتا ہے ۔ کمزوروں اور بُزدلوں کو کیڑے مکوڑے جانتا ہے۔ عمران اُس کی معتقد طالبہ شیلا دھنی رام کو کیسے رام کرتا ہے ؟ ملاحظہ ہو :
"میں خواہ مخواہ اپنے ذہن کو تھکا دینے کا قائل نہیں ہوں ، جب جو کچھ ہوگا دیکھا جائے گا، اور میں تو اس کا عادی ہوں۔ میرے ملازم ہی مجھے صبح سے شام تک بے وقوف بناتے رہتے ہیں۔"
"اور آپ بنتے رہتے ہیں ؟"
"پھر کیا کروں ؟ عقل مندوں کی زندگی جہنم بن جاتی ہے ۔ جو کچھ بھی گزرے ، چُپ چاپ جھیلتے رہو ، مگن رہو ۔"
"آپ تو ایک بالکل ہی نئی بات سُنا رہے ہیں ..." شیلا نے اُسے گھورتے ہوئے کہا ۔ وہ سوچنے لگی کہ ذہین کہلانے کا اہل علامہ دہشت ہے یا یہ بیوقوف آدمی ؟
"جب سے آدمی کو اپنا ادراک ہوا ہے ، وہ اس کشمکش میں مبتلا ہے ۔ اُسے بیوقوف بننا چاہئے یا نہیں ۔ جو بیوقوف بننا پسند نہیں کرتے ، وہ زندگی بھر جلتے رہتے ہیں ۔"

یہاں ابن صفی نے عمران کے ذریعے زندگی کا ایک حقیقی فلسفہ پیش کیا ہے۔ سیاسی برتری کے پردے میں دراصل ذہنی برتری کام کر رہی ہے۔ مختلف فلسفۂ حیات دراصل ذہین شخصیتوں کے ماحول سے بیزاری کا نتیجہ ہے ۔ جو جتنا ذہین ہوگا ، اُتنا ہی چالاک ہوگا اور کرۂ ارض پر فتنے کا سبب ہوگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔


اقتباس از تحریر : رؤف خوشتر

2009/06/28

ابن صفی : اگاتھا کرسٹی کا اظہارِ خیال

سہیل اقبال لکھتے ہیں :
غالباً 1965ء کی بات ہے۔ میں ابن صفی کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ دو اصحاب کی آمد کی اطلاع ملی۔ انہوں نے ان حضرات کو بھی وہیں بلوا لیا جہاں ہم بیٹھے ہوئے تھے۔
یہ حضرات وصی اختر شوق اور روزنامہ "حریت" کے اے۔آر۔ممتاز تھے۔ شوق صاحب ریڈیو کے جشن تمثیل کے لیے ابن صفی سے ایک ڈرامہ لکھوانا چاہتے تھے۔

بات جاسوسی لٹریچر کی چھڑ گئی اور ابن صفی کے نقالوں تک جا پہنچی۔ اس پر شوق صاحب نے بتایا کہ :
پچھلے دنوں مغرب کی نامور جاسوسی مصنفہ " اگاتھا کرسٹی - Agatha Christie " کہیں جاتی ہوئی کراچی ایرپورٹ سے گزری تھیں۔ کچھ لوگوں کو پہلے سے علم تھا کہ وہ کچھ دیر وی۔آئی۔پی لاؤنج میں قیام کریں گی۔ وہ لوگ ان سے ملنے گئے۔
کسی نے دورانِ گفتگو پاکستانی جاسوسی لٹریچر کا ذکر کیا تو اگاتھا کرسٹی مسکرائیں اور بولیں :

"مجھے اردو نہیں آتی لیکن برصغیر کے جاسوسی لٹریچر سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتی ہوں۔ صرف ایک اوریجنل رائیٹر "ابن صفی" ہے اور سب اس کے نقال ہیں۔ کسی نے بھی اس سے ہٹ کر کوئی نئی راہ نہیں نکالی۔"

پیش رس :: رات کا شہزادہ

اس بار خطوط کی تعداد بھی پہلے سے زیادہ ہے۔ مشورے ، تنقید اور تنقیص ، یکساں انداز کی باتیں۔ لہذا ان کے بارے میں کیا لکھوں۔
البتہ ایک صاحب نے کراچی سے مجھے للکارا ہے کہ میں خوابِ غفلت میں پڑا ہوا ہوں۔ قوم کو سدھارنے کی کوشش کروں۔

آپ کا فرمانا بجا کہ میرے ہاتھ میں قلم ہے۔ لیکن قوم اس قلم سے صرف کہانیوں کا نزول چاہتی ہے۔ اگر کبھی ایک آدھ جملہ کسی مثال کے طور پر بھی قلم سے رپٹ گیا تو قوم جھپٹ پڑتی ہے :
" آخر آپ کو سیاست میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ "
اور میں ہکا بکا رہ جاتا ہوں کہ قوم کو کیا جواب دوں۔ کیونکہ جواب دینے کے سلسلے میں ایک ضخیم کتاب لکھنی پڑ جائے گی۔
پہلے تو قوم کو یہ بتانا پڑے گا کہ سیاست ہے کیا چیز ، پھر عرض کرنا پڑے گا کہ میرے اس حقیر جملے کو اس کسوٹی پر پرکھئے۔ اگر اس میں ذرہ برابر بھی سیاست پائی جاتی ہو تو جو لیڈر کی سزا وہ میری سزا ۔۔۔۔

اور پھر بھائی اگر ملک میں سیاستدانوں کی کمی پائی جاتی ہو تو تھوڑا بہت کشٹ بھی اٹھا لیا جائے۔ مجھے تو بس کہانیاں لکھنے دیجئے۔ میری لیڈری آپ بھی تسلیم نہیں کریں گے۔ پھر خواہ مخواہ قوم کا وقت برباد کرنے سے کیا فائدہ۔
قوم کے لئے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتا کہ دعا کروں۔
"اے اللہ ! اس قوم کو ایک آزاد اور منفرد قوم کی حیثیت سے ہمیشہ قائم رکھیو۔"

آخر میں ان صاحب نے پوچھا ہے کہ :
"لیڈر کی صحیح تعریف کیا ہے؟"
بڑا بےڈھب سوال کیا ہے آپ نے۔ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔ البتہ اکبر الہ آبادی نے اپنے زمانے کے لیڈر کی تعریف یوں کی ہے :

یوسف کو نہ دیکھا کہ حسیں بھی ہے جواں بھی
شاید نرے لیڈر تھے زلیخا کے میاں بھی

2009/06/26

ستارہ جو غروب ہو گیا

ستارہ جو غروب ہو گیا
۔ ۔ ۔ روشنی جو باقی رہے گی
۔۔۔ پروفیسر مجاور حسین رضوی

ایک اک کر کے ستاروں کی طرح ٹوٹ گئے
ہائے کیا لوگ مرے حلقہ ء احباب میں تھے

ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ماہ وسال کی گردشیں تھم گئی ہیں ۔ ماضی نے اپنے چہرے سے نقاب الٹ دی ہے اور یادوں کا کارواں آج سے ٹھیک 33 سال پہلے اگسٹ 1947ء پر آ کر ٹھہر گیا ہے۔
الہ آباد یونیورسٹی کے بی اے سال اول کے درجہ میں ڈاکٹر حفیظ سید اردو پڑھا رہے تھے۔ میں اگلی نشستوں پر بیٹھا ہوا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ میں چھڑی تھی۔ اس پر بائیں ہاتھ کو سہارا دئیے ہوئے وہ ٹھہر ٹھہر کر بولتے تھے۔ ان کے سر پر چاروں طرف حاشیہ کی طرح بالوں کے گچھے رہتے تھے۔ درمیانی حصہ بالکل صاف تھا۔ پیچھے گردن پر بال بے ترتیبی سے پڑے رہتے تھے جوش تقریر میں کبھی کبھی چھڑی اٹھا کر ہوا میں لہراتے تھے ۔
اچانک مرے پاس بیٹھے ہوئے ایک طالب علم نے ٹھوکر دے کر کہا:
’’ذرا دیکھئے۔ ہمارے ’سر‘ کے پیچھے داڑھی ہے‘‘
جملہ اتنے زور سے کہا گیا تھا کہ میں تو چونکا ہی، کلاس میں بھی قہقہے گونجنے لگے۔

ڈاکٹر صاحب نے جب باز پرس کی تو بڑی معصومیت سے اس طالب علم نے کہا۔ ’’میں نے اپنے لئے یہ بات کہی تھی‘‘ ۔
بعد میں معلوم ہوا کہ ان صاحب کا نام اسرار احمد ہے اور میرے محلے ہی میں رہتے ہیں ۔ اس روز کے بعد سے نسبتاً بے تکلفی بڑھی۔ بہت خوش گلو تھے اس لئے اکثر احباب کی محفل میں ان سے جذبی، مجاز اور اقبال کی غزلیں ترنم سے سنی جایا کرتی تھیں ۔ جنوری 48ء میں گاندھی جی کا حادثہ ہوا۔
میں اس زمانے میں الہ آباد کے ایک سہ روزہ اخبار ’’نیا دور‘‘ میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ اس کا ’’گاندھی نمبر‘‘ نکلنا تھا۔ صبح صبح دفتر جا رہا تھا۔ اسرار صاحب نے راستے میں مل کر ایک نظم دی اور بغیر پڑھے ہوئے میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اسے شائع نہیں کرنا ہے۔ اسے ردی کی ٹوکری میں ڈالنے سے پہلے یوں ہی سرسری طور پر نظر ڈالی تو ٹھٹھک کر رہ گیا۔ نظم کتابت کے لئے دے دی۔ لیکن شام کو ان سے بڑی سنجیدگی سے کہا۔ ’’اسرار صاحب وہ نظم اشاعت کے لئے دے دی گئی۔‘‘
کہنے لگے ’’شکریہ‘‘ ۔
میں نے کہا ’’سمجھ لیجئے جس کی نظم ہوگی وہ مجھے اور آپ کو قبر تک نہ چھوڑے گا‘‘
بولے ’’کیا مطلب ۔ ؟ ‘‘ تیوریاں چڑھ گئیں ۔
میں نے کہا ’’مطلب یہ کہ کیا وہ آپ ہی کی ہے؟‘‘
بولے ’’پھر کس کی ہے؟‘‘
میں نے کہا ’’چرائی ہے‘‘
بولے ’’ ثابت کر دیجئے تو پانچ روپیے حاضر کروں گا۔‘‘
میں نے ایک شعر سناکر کہا ’’یہ تو آپ کا نہیں ہے۔ یہ تو جوش یا فراق کا معلوم ہوتا ہے‘‘۔
بولے ’’دکھا دیجئے۔ شاعری ترک کر دوں گا‘‘۔
وہ شعر یہ تھا۔
لویں اداس، چراغوں پہ سوگ طاری ہے
یہ رات آج کی انسانیت پہ بھاری ہے

مگر میں جوش یا فراق یا کسی اور کے دیوان میں یہ شعر کہاں سے دکھاتا۔ اب ان کی حیثیت ہمارے حلقے میں اک شاعر کی تھی، ایسا شاعر جو فراق، سلام مچھلی شہری اور وامق جونپوری کے سامنے بیٹھ کر نظمیں سناتا تھا اور لوگ حیرت زدہ رہ جاتے تھے۔ اس زمانے میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ سولہ برس کے تھے تو 42ء میں ایک نظم لکھی تھی ۔
للہ نہ روکو جانے دو ۔
مجھے یہ نظم زبانی یاد تھی مگر سمجھتا تھا کہ شمیم کرہانی کی ہے۔
وہ نظم بھی اشاعت کے لئے دے دی گئی۔ مگر کسی نے بھی دعویٰ نہ کیا اور اسرار صاحب ہی اس نظم کے خالق قرار پائے۔ مزے کی بات یہ تھی کہ وہ ایسے موضوعات منتخب کرتے تھے جن پر کسی نے قلم نہیں اٹھایا تھا۔
’مرگھٹ کا پیپل‘ ،
’بانسری کی آواز‘ ،
’سنگتراش نے کہا ‘،
’خوف کا میخانہ‘
وغیرہ۔
اس زمانے کے دو تین شعر یاد آ گئے۔

دکھائی دی تھی جہاں پر گناہ کی منزل
وہیں ہوئی تھی دل ناصبور کی تکمیل

بس اتنا یاد ہے اسرار وقت مئے نوشی
کسی کی یاد بھی آئی تھی دل کو سمجھانے

جو کہہ سکے وہی ٹھیرا ہمارا فن اسرار
جو کہہ نہ پائے نہ جانے وہ چیز کیا ہوتی

شاعر کی حیثیت سے تیغ الہ آبادی (مصطفےٰ زیدی ) اور راہی معصوم رضا دونوں ہی ان کے معترف تھے۔
اسی زمانے میں ماہنامہ ’نکہت‘ کا آغاز ہوا تھا۔ صبح سے شام تک بڑی دلچسپ صحبتیں رہتی تھیں ۔ جس میں حسین حیدر صاحب مرحوم کی حیثیت صدر نشین کی ہوا کرتی تھی۔ حالانکہ وہ ہم سب کے بزرگ تھے اور برادر محترم عباس حسینی صاحب کے والد۔ مگر ہم سب لوگوں کے ادبی مشاغل میں بڑے انہماک و دلچسپی سے شامل ہوتے تھے۔
اسرار صاحب نے ’ٹماٹر ازم‘ کے عنوان سے ایک طنزیہ سنایا۔ بہت پسند کیا گیا اور ’’طغرل فرغان‘‘ نام تجویز ہوا۔
پھر نکہت میں وہ ’طغرل فرغان‘ اور ’’عقرب بہارستانی‘‘ کے نام سے طنزیہ مضامین بھی لکھنے لگے۔
الہ آباد سے ایک روزنامہ ’نوائے ہند‘ نکلتا تھا۔ اس میں بھی ’’طغرل فرغان‘‘ کے نام سے مزاحیہ کالم لکھا کرتے تھے۔ طنز و مزاح لکھنے والوں میں ابراہیم جلیس کے بہت مداح تھے اور شفیق الرحمان کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔
کہتے تھے ’’لیکاک کی مسلّم فنٹیسی پر ہاتھ صاف کر دیتا ہے۔‘‘
اب شاعری پس پشت چلی گئی۔ اسرار احمد جو نارہ ضلع الہ آباد کے رہنے والے تھے اور اس لحاظ سے اپنے کو اسرار ناروی لکھا کرتے تھے، طغرل فرغان ہو گئے۔
’نکہت‘ اور ’نوائے ہند‘ کو ملا کر سو کے لگ بھگ طنزیہ مضامین لکھے 51ء تک یہی کیفیت رہی۔
ایک روز انہوں نے ایک کہانی سنائی جسے سن کر بہت غصہ آیا اس لئے کہ وہ بہت فحش تھی۔ سناتے جاتے تھے اور غصہ بڑھتا جاتا تھا۔ لیکن کہانی کے اختتام نے منھ پیٹنے پر مجبور کر دیا۔ اس لئے کہ کہانی کا مرکزی کردار جسے ہم سب عورت سمجھ رہے تھے وہ ایک پالتو بلی ثابت ہوئی۔
ذہن میں ایک خیال آیا اور سکسٹن بلیک کی طرز پر اردو میں ایک جاسوسی ماہنامے کا منصوبہ تیار ہونے لگا۔ اس منصوبہ بندی میں بھیا (عباس حسینی)، جمال صاحب (شکیل جمالی) راہی (معصوم رضا) اور حسن حیدر صاحب بھی شامل تھے۔ ان کا خیال تھا کہ راہی بہت اچھی جاسوسی کہانیاں لکھ سکتے ہیں ۔ اس لئے کہ ہم لوگوں کے مقابلے میں وہ گارڈنر، پیٹر شینے، ایڈگرویلس، اگاتھا کر سٹی وغیرہ کو بہت زیادہ پڑھا کرتے تھے۔ بڑی برق رفتاری کے ساتھ پڑھتے تھے اور لکھتے بھی تھے۔ لیکن راہی کو نظر انداز کر کے میں نے وکٹر گن کا ایک ناول منتخب کیا کہ اسی کو بنیاد بناکر ایک کہانی لکھی جائے۔
یہ کام اسرار احمد کے سپرد ہوا۔
انہوں نے ایک ہفتہ میں ناول مکمل کرکے حوالے کردیا اور اسے پڑھنے کے بعد راہی نے بھی جاسوسی ناول لکھنے کا خیال ترک کردیا۔
جنوری 53ء میں ناول نگار کا نام ابن صفی منتخب ہوا کہ اسرار صاحب کے والد کا نام صفی اللہ تھا اور اسی مہینہ میں جاسوسی دنیا کے پہلے شمارہ کی حیثیت سے یہ ناول شائع ہوا۔
اس ناول کا نام تھا۔ ’’دلیر مجرم‘‘-
جس میں پہلی بار انسپکٹر فریدی اور سرجنٹ حمید روشناس کرائے گئے تھے۔
ایک ناول اور جو ’’پہاڑوں کی ملکہ‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا، رائیڈر ہیگرڈ کے ناول ’’کنگ سالون مانےئر‘‘ سے مستعار تھا۔
اس کے علاوہ انہوں نے تقریباً ڈھائی سو ناول لکھے۔ جو ان کے طبع زاو ناول تھے۔
ان ناولوں کی مقبولیت کے بارے میں کچھ لکھنا عبث ہے۔ صرف اتنا ہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ ان کی فروخت اردو اور ہندی کے کسی ناول نگار کے ناولوں کے مقابلے میں بلاخوف تردید سب سے زیادہ تھی اور اس کا راز ان کا منفرد طرز تحریر تھا۔
تجسس اور پراسرار واقعات سے بھرپور کہانیوں میں طنز کی شگفتگی اور مزاح کی چاشنی ایک سحرکارانہ کیفیت پیدا کردیتی تھی۔ کسی بھی زبان میں لکھے گئے جاسوسی ناول پڑھئیے، یہ انداز تحریر نہیں ملے گا اور پھر ان سب پر مستزاد ایک باوزن باوقار دلکش زبان، واقعات میں نصیحت کا کہیں شائبہ نہیں ۔ نہ جانے کتنے لوگوں نے ان کے ناولوں کے ذریعہ اردو سیکھی، اردو پڑھنے کا ذوق حاصل کیا۔
ہندی میں ان کے ناولوں کا ترجمہ شائع ہوتا تھا۔ ابھی تقریباً ستر پچھتر ناول ایسے ہیں جو ہندی میں شائع نہیں ہوئے۔
وہ ہندی میں بھی اتنے ہی مقبول تھے جتنے اردو میں ،البتہ ہندی میں ان کے دو کرداروں کے صرف نام بدلے ہوئے تھے۔ یعنی فریدی کی جگہ ونود اور عمران کی جگہ راجیش۔
حمید اور قاسم اپنے اصلی ناموں کے ساتھ ہی ہندی میں بھی ملتے ہیں ۔ یوں تو طلسم ہو شربا کی طرح انہوں نے بے شمار کردار خلق کئے اور وہ سب اپنے محدود دائرے میں ذہن پر دیر پا اثرات چھوڑتے ہیں ۔
لیکن حمید ان کا ایسا شاہکار کردار ہے جو فسانہ آزاد کے خوجی اور طلسم ہوشربا کے عمر عیار کی طرح ادب میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔
یہ درست نہیں کہ ادبی حلقوں نے انہیں نظرانداز کیا۔
اردو میں آزادی کے بعد لکھے جانے والے ناولوں کے دور پر بہت کم لکھا گیا ہے پھر بھی ڈاکٹر اعجاز حسین نے ’’اردو ادب آزادی کے بعد‘‘ اور ڈاکٹر علی حیدر نے ’’اردو ناول سمت و رفتار‘‘ میں ان کا ذکر کیا ہے۔
پاکستان سے بیشتر نکلنے والے ناول نمبر یا ناولوں کے جائزے ان کے تذکرے سے خالی نہیں ہیں ۔
ان کی ادبی حیثیت اپنے منفرد اسلوب اور اپنی کردار نگاری کی بناء پر مسلم ہے ۔
اگر انگریزی ادب کانن ڈائل اور اگا تھا کرسٹی کو ادب عالیہ کی کرسی عطا کرسکتا ہے تو اردو میں یہ جگہ صرف ابن صفی کے لئے مخصوص ہے۔
یوں تو ان کا ہر ناول بہت مشہور ہوا لیکن ان میں کچھ ایسے ہیں جو ہر جہت سے اس طرز کے بہت اچھے ناولوں کی صف میں عالمی ادب میں جگہ پانے کے مستحق ہیں ۔
ان میں ۔۔۔۔۔۔
دشمنوں کا شہر، لاشوں کا آبشار، خوفناک ہنگامہ، شعلوں کا تاچ، پتھر کی چیخ، سائے کی لاش وغیرہ
بہت اہم اوراچھے موضوعاتی ناول ہیں ۔
یہ درست ہے کہ ان کے یہاں واقعات کی رفتار پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ پورے منظر، پس منظر و پیش منظر کی تصویرکشی پر نہیں ۔ لیکن ان کا شاعرانہ مزاج ان کا طنزسے بھرا ہوا نکیلا قلم کہیں کہیں عصری حسیت کو بھی اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔ ان پر بہت کچھ لکھنے کی گنجائش ہے اور اگر موقع ملا تو ادارہ جاسوسی دنیا کی طرف سے شائع ہونے والے ابن صفی نمبر میں ان پر تفصیل سے لکھنے کی کوشش کی جائے گی۔

اسرار صاحب نارہ کے رہنے والے تھے اور کائستھ نژاد مسلم تھے اور بڑے فخر سے کہا کرتے تھے کہ تم لوگ اتفاقی مسلمان ہو۔ ہم لوگ اختیاری مسلمان ہیں ۔ ہمارے آباد اجداد نے سوچ سمجھ کر اسلام قبول کیا۔ ان کی والدہ دیوبندی عقائد رکھتی تھیں اور والد بریلوی مسلک کے ماننے والے تھے اور ان کے حلقۂ احباب میں زیادہ تر اثنائے عشری۔
لیکن وہ بذات خود صرف مسلمان تھے۔
اور ان کی یہ خصوصیت ایسی تھی جس کی بناء پر ہر شخص بلالحاظ عقیدہ ان کی عزت کرنے پر مجبور تھا۔ محلے میں ان کی حیثیت ’’امین‘‘ کی تھی ۔ لوگ اپنی امانتیں رکھاتے تھے اور پھر لے جاتے تھے۔
ایک بار ایک صاحب نے ایک چھوٹا سا صندوقچہ رکھا۔ میرے سامنے ہی واپس لینے آئے۔ اس پر گرد جمی ہوئی تھی۔اسی عالم میں ان کا صندوقچہ انہیں واپس ملا۔
میں نے کہا ’’گرد تو صاف کردی ہوتی‘‘
بولے ’’غور ہی نہیں کیا۔ اور پھر ایک ذرہ بھی اگر کم ہو تو وہ امانت میں خیانت ہے‘‘۔

الہ آباد میں وہ مجیدیہ اسلامیہ کالج اور یادگار حسینی ہائر سکنڈری اسکول (جو اب کالج ہے) میں مدرس تھے اور بہت کامیاب۔ ان کے شاگردوں میں اجمل اجملی بہت مشہور ہوئے۔ الہ آباد میں پانچ سال ان کا ساتھ رہا۔ ان کے والد صاحب پاکستان ہی میں تقسیم سے قبل سے ملازم تھے۔
اسرار اگسٹ 52ء میں اپنی والدہ اور اپنی ہمشیرہ کے ہمراہ کراچی چلے گئے۔ الہ آباد کے دوران قیام ہی ایک شادی ہوئی لیکن سال بھر بعد ہی ان کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا۔ ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
52ء سے 60ء تک ہم لوگ ایک دوسرے سے دور رہے۔ صرف خط و کتابت ہی کا سہارا تھا۔ ہر ہفتہ انتہائی پابندی سے خط موصول ہوتا تھا۔ خط اتنے دلچسپ ہوا کرتے تھے کہ پڑھنے میں ناول کا مزہ آتا تھا۔
میں 60ء میں پاکستان گیا۔ میرے سامنے ہی وہ بیمار ہوئے اور یہ سلسلہ 63ء تک چلا۔ 61ء میں پھر میں پاکستان گیا اور ان سے ملا تھا۔ پچھلے 19 سال سے انہیں نہیں دیکھا۔
مگر ایک لمحہ کے لئے بھی یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ ہم دونوں کے درمیان کوئی فاصلہ ہے۔ وہ وسیع حلقہ احباب کے قائل نہ تھے اور بے تکلفی کی حد تک بھیا ،جمال صاحب، راقم الحروف اور راہی کے علاوہ کوئی بھی ان کا ’’یار‘‘ نہ تھا۔
عام لوگوں کی نظر میں وہ بہت خاموش آدمی تھے۔ بلاضرورت بات نہیں کرتے تھے اور دیکھنے والا بڑا معمولی تاثر لے کر اٹھتا تھا۔ ان کی شخصیت ملنے والے کو کشمکش میں مبتلا کردیتی تھی۔ سانولا رنگ، کشادہ پیشانی، روشن چمکتی ہوئی آنکھیں ،ابھرے ہوئے ہونٹ، بیضاوی چہرہ، لیکن وہ اپنے کردار عمران کی طرح اپنے چہرے پر حماقت طاری کرلیا کرتے تھے اور جب ملنے والا چلا جایا کرتا تھا تو یہ سوچ کر مزہ لیا کرتے تھے کہ ان کے بارے میں کیا رائے قائم کی ہو گی۔
لیکن اپنے بے تکلف احباب کے لئے وہ زندگی کا ایک ناگزیر جزو بن کر رہ گئے تھے۔
24 گھنٹوں میں بلامبالغہ 12 گھنٹے ساتھ ہی گذرتے تھے۔ میرے پاس نومبر79ء تک ان کے خطوط آتے رہے ۔
ان کی علالت کی خبر سن کر بھیا نے اپنے چھوٹے بھائی جمال صاحب کو کراچی ان کی عیادت کے لئے بھیجا تھا۔ اس لئے کہ وہ خود ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق لمبا سفر نہیں کرسکتے تھے۔ اپریل میں جمال صاحب ان کے ہاں ایک مہینہ رہ کر واپس ہوئے اور اسرار صاحب کے ساتھ گذارے ہوئے خوشگوار دنوں کی کہانی مئی جون تک میں روزآنہ ان سے سنتا رہا، تصویریں دیکھتا رہا۔ اس خبر سے بڑا اطمینان ہوا کہ وہ اب روبہ صحت ہیں ۔ میرا پورا خاندان پاکستان میں ہے۔ ان لوگوں نے جولائی میں مجھے یہ اطلاع دی کہ اسرار بھائی اب پھر ناول لکھ رہے ہیں ۔ مگر انہیں اب بھی خون چڑھایا جاتا ہے۔ میں نے بہت سخت خط لکھا ۔اس لئے کہ اتنے عرصے سے خون کا چڑھایا جانا کوئی اچھی علامت نہ تھی اور اس پر سے کام کا جاری رہنا۔ میرے خط کا جواب نہیں آیا۔
پہلی اگسٹ کو ایک شاگرد نے بتایا کہ اخبار میں ابن صفی کے انتقال کی خبر چھپی ہے۔
الہ آباد اور کراچی سے تصدیق کرائی۔
دل چاہتا تھا کہ خبر غلط ہو۔ مگر دل دھڑکتا بھی تھا۔
چھ تاریخ کو دونوں جگہ سے خبر کی تصدیق ہوگئی۔
25۔ جولائی کو انتقال ہوا۔ 26۔ کو دفن کئے گئے۔
مرنے سے دو روز پہلے مجھے خط لکھا تھا۔ کیا لکھا ہوگا۔ خدا جانے۔ مجھے آج تک وہ خط نہیں ملا۔

1960ء میں جب وہ پہلی بار بیمار پڑے تھے تو ڈاکٹروں کی دوا سے کوئی فائدہ نہ ہوا تھا۔ حکیم اقبال حسین کے علاج سے صحت یاب ہوئے۔ عارضہ جگر کی خرابی کا تھا۔ پھر 16 سال بعد بیمار ہوئے ، وہی دیرینہ بیماری اور کچھ برس پہلے ماں کی موت کا صدمہ، اپنی طرف سے لاپرواہی ، سارے زمانے کی فکر۔ حکیم اقبال حسین بھی نہیں تھے جو مرض کو سمجھ سکتے۔ اب معلوم ہوا کہ بلڈ کینسر تھا۔

کراچی پہونچ کر ایک شادی کی جن سے 4 لڑکے اور 4 لڑکیاں ہیں ۔ پھر عقدثانی بھی کیا لیکن ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ بڑی لڑکی کی شادی ہوچکی ہے۔ ایک لڑکا اٹلی میں زیرتعلیم تھا۔ یقینا اس وقت جب انہوں نے آخری بار اس دنیا پرنظر ڈالی ہوگی تو یہ سب رہے ہوں گے۔
مجھے یقین ہے کہ ان کی نگاہوں نے بھیا، ننھے، مجن کو ضرور تلاش کیا ہوگا اور آج ان تینوں کی آنکھیں ہمیشہ کے لئے نمناک ہوچکی ہیں ۔ ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرتا جب وہ قہقہہ لگاتا ہوا، سرگوشیاں کرتا ہو، نظمیں سناتا ہوا، کہانیاں لکھتا ہوا، نظروں کے سامنے بیٹھا ہوا دکھائی نہ دیتا ہو۔ میں 17۔اگسٹ سے تادم تحریر بیمار رہا لیکن بیمار نہ بھی ہوتا تو شائد اس پر کچھ لکھ نہ پاتا۔

ایسا لگتا ہے جیسے وہ اس دنیا سے نہیں گیا، ہم سب کے قلم بھی ساتھ لیتا گیا، ہونٹوں پر بکھیرنے والی مسکراہٹ بھی لیتا گیا اور پلکوں پر لرزنے والا ستارہ دے گیا۔

***
بشکریہ : سمت (جلد:13)

ایک نظم : التجا

التجا
بحضور سرورِ کائینات (صلی اللہ علیہ وسلم)

میرے آقا ! میں کس منہ سے در پر ترے حاضری دوں
میرے ماتھے پہ اب تک نشانِ عبادت نہیں
ایک بھی نیک عادت نہیں
میری جھولی گناہوں سے پُر ہے
میرے ہاتھوں کی آلودگی باعثِ شرم و غیرت بنی
میرے آقا ! میں کس منہ سے در پر ترے حاضری دوں؟
پھر بھی آقا مرے ! پھر بھی مولا مرے !
تیرے در کے سوا اور جاؤں کہاں
ہو اجازت مجھے حاضری کی عطا
میرے آقا ! میں نادم ہوں اپنی بد عادات پر

ابن صفی کا مذہبی نظریہ

سوال :
آپ کس ازم کے قائل ہیں ؟
جواب :
قریب قریب سارے ہی ماڈرن ازم میرے مطالعے میں آ چکے ہیں لیکن میں قائل کسی کا بھی نہیں۔
میں تو اللہ کی ڈکٹیٹرشپ کا قائل ہوں۔ اس میں اس کی گنجائش نہیں ہوتی کہ جب جتنے پیگ کا نشہ ہو ویسا ہی بیان داغ دیا۔
آپ بھی کسی ازم وزم کے بجائے اسلام کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ اسلام کے سوا سارے ازم محض وقتی حالات کی پیداوار ہیں۔ اور کسی ایک ازم کی کوئی دشواری کسی زمانے میں دوسرے ازم کی پیدائش کا باعث بنتی ہے۔ جبکہ اسلامی نظام آج بھی قابل عمل ہے۔

سوال :
لیکن دیکھئے نا ! اب دوبارہ نہ تو ڈاڑھیاں رکھی جا سکتی ہیں ، نہ بیل باٹم چھوڑا جا سکتا ہے۔ پھر وہ خواتین جو اپنا پردہ مَردوں کی عقل پر ڈال چکی ہیں دوبارہ اس کو کیسے اپنائیں گی؟
جواب :
صاحب ! کیا رکھا ہے ان باتوں میں۔ آپ کا ظاہر کچھ بھی ہو، لیکن دل مسلمان ہونا چاہئے۔ کچھ نیکیاں سچے دل سے اپنا کر دیکھئے۔ آہستہ آہستہ آپ خود کسی جبر و کراہ لے بغیر اپنا ظاہر بھی اللہ کے احکامات کے مطابق بنا لیں گے۔
بس جیسے ہی آپ انفرادی طور پر اللہ کے احکامات کے آگے جھکے یہ سمجھ لیجئے کہ ایک ایسا یونٹ بن گیا ، جس پر اللہ کی ڈکٹیٹرشپ قائم ہے۔ انفرادی طور پر اپنی حالت سدھارتے چلے جائیے ، پھر دیکھئے کتنی جلدی ایک ایسا معاشرہ بن جاتا ہے جس پر اللہ کی حاکمیت ہو۔
قرآن کو پڑھئے ، اس پر عمل کیجئے ، اسے علم الکلام کا اکھاڑہ نہ بنائیے۔

2009/06/21

نقلی فریدی سیریز

اگر آپ نے ایچ۔اقبال یا این صفی کی جاسوسی دنیا پڑھی ہے تو ان لوگوں کی تخلیق کردہ کرنل فریدی سیریز کا اندازِ تحریر آپ کے لیے نیا نہیں ہوگا۔ لیجئے ایسا ہی ایک نمونہ یہاں ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔

******

سرخ رنگ کی اس عمارت کے باہر بہت زیادہ رش تھا۔ کاریں پارک کرنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ باہر پولیس کی ایک لاری اور بہت سی پولیس کاریں نظر آ رہی تھیں۔ اندر کوٹھی کے ایک کمرے میں ڈی۔آئی۔جی اور آئی۔جی سر پکڑ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ کمرے کے فرش کے عین سنٹر میں دو لاشیں پڑی تھیں ، ایک کا سر غائب تھا اور دوسرے کے پاؤں۔
"میری سمجھ میں نہیں آتا ، آخر سر کہاں گیا؟" ڈی۔آئی۔جی نے کہا۔
"آپ کو سر کی پڑی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ پاؤں کاٹ کر کسی کو کیا ملا؟"
"کون سر لے گیا؟"
"خاموش رہئے۔ پاؤں کی تلاش زیادہ ضروری ہے۔"
"سر سر سر ۔۔۔۔"
"سر کے بچے ، میں تمہارا سر توڑ دوں گا"

قریب تھا کہ دونوں پولیس آفیسر ایک دوسرے پر پل پڑتے کہ باہر سے فائر کی آواز آئی اور کھڑکی کا شیشہ چھن سے ٹوٹ کر گرا۔
ایک نقاب پوش جو چھپ کر ڈی۔آئی۔جی اور آئی۔جی کی باتیں سن رہا تھا، کرسی کے پیچھے سے اچھل کر بھاگا۔ اس کے پیچھے ایک اور نقاب پوش تھا۔ اس نے پہلے نقاب پوش کو ٹانگ پکڑ کر گھسیٹ لیا۔ دونوں ایک دوسرے سے گتھے ہوئے زمین پر آ گرے ، دیکھنے والوں نے محسوس کیا کہ پہلے نقاب پوش کی گرفت ڈھیلی ہوئی جا رہی ہے ، دوسرے نے اس کا سر زمین پر مار کر اسے بےہوش کر دیا اور اس کے چہرے سے نقاب اُتر گئی۔
آئی۔جی کے حلق سے تحیر آمیز آواز نکلی : "ارے ، یہ تو پارٹی کا ایک لیڈر ہے!"
"جی ہاں۔ دوسرے نقاب پوش نے اپنے چہرے سے نقاب اُتارتے ہوئے کہا ، وہ فریدی تھا۔

"لیکن یہ سر اور پاؤں غائب ہونے میں کیا راز ہے؟" آئی۔جی نے پوچھا۔
"آپ نے وہ نظم نہیں سنی؟
ایک تھا تیتر ، ایک بٹیر
لڑنے میں تھے دونوں شیر
لڑتے لڑتے ہو گئے گم
ایک کی چونچ اور ایک کی دُم!
یہ دو لاشیں اس نظم کی تکمیل ہیں !"
"لیکن کسی کو کیا پڑی تھی یہ کرنے کی؟"
"یہ ایک بہت بڑا راز ہے ، جس پر سے ان شاءاللہ پھر کبھی پردہ اٹھاؤں گا۔"
یہ کہہ کر کرنل فریدی کمرے سے ہوا کے دوش پر اُڑتا ہوا نکل گیا۔

نقلی عمران سیریز

اردو کے مشہور ، مقبول و معروف جاسوسی ادیب ابن صفی جہاں فانی سے کوچ کر چکے ہیں۔
یوں تو ان کی زندگی میں ہی ان کی تحریروں کے بہت سے نقال پیدا ہو گئے تھے۔
لیکن اب بعد وفات چونکہ یہ خلا پُر کرنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے لہذا ظاہر ہے نقال حضرات کی کوششیں خاصا زور پکڑ گئی ہیں۔

ذیل میں ہم اس تحریر کا ایک نمونہ پیش کر رہے ہیں جو اب عمران سیریز کے نام پر پڑھنے کو ملیں گی۔
اگر مستقبل کے مصنف کو عمران کی شادی رچانے کا اچھوتا خیال سوجھ گیا عمران سیریز کا مستقبل وہ ہوگا جو ذیل میں بیان کیا جا رہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران نے اپنی منی بس چورنگی کے فٹ پاتھ کے ساتھ پارک کر دی اور ادھر ادھر دیکھ کر بڑی احتیاط سے دکان میں داخل ہو گیا۔ اس کی آنکھوں پہ تاریک شیشوں کی عینک تھی اور چہرے پر ریڈی میڈ میک اپ !
اس نے کاؤنٹر کے پاس پہنچ کر سیلزمین کو ایک خفیہ اشارہ کیا۔۔
سیلز مین نے سر ہلایا اور کاؤنٹر کے پیچھے کا دروازہ کھول کر اندر غائب ہو گیا۔ پانچ منٹ بعد واپس ہوئی تو اس کے ہاتھ میں ایک سربمہر پیکٹ تھا جو اس نے عمران کے حوالے کر دیا۔
عمران جس رازداری سے داخل ہوا تھا ویسے ہی رازداری سے باہر نکل آیا اور پھرتی سے منی بس میں بیٹھ کر بس اسٹارٹ کر دی۔
عقبی شیشے میں دیکھا تو تھوڑے فاصلہ پر کھڑے ایک موٹر سائیکل پر تعاقب کا شبہ ہوا۔ وہ یہ اندازہ لگانے کے لئے کہ تعاقب ہو رہا ہے یا نہیں بس کو چھوٹی چھوٹی سڑکوں پر بلامقصد موڑنے لگا۔ آخرکار ایک گلی میں وہ موٹرسائیکل والے کو ڈاج دینے میں کامیاب ہو گیا۔
اپنے فلیٹ میں پہنچ کر اس نے پھرتی سے دروازہ بند کر کے اندر سے کنڈی چڑھا دی اور صوفے پر گر کر گہری گہری سانسیں لینے لگا۔

اندر والے کمرے سے آواز آئی :
" لے آئے آپ منے کے لئے امپورٹیڈ مدر کئیر کے پیمپرز ؟"

پیش رس :: گیارہ نومبر

"گیارہ نومبر" حاضر ہے۔
اس نام سے متعلق مجھے کئی خطوط بھی موصول ہوئے ہیں اور لوگوں سے زبانی بحثیں بھی ہوئی ہیں۔
ایک صاحبہ نے کہا : نام سے قطعی نہیں معلوم ہوتا کہ یہ کوئی جاسوسی ناول ہے۔
میں نے کہا : ناموں سے کچھ نہیں ہوتا مثلاً آپ کے نصف بہتر "عاقل فہیم" کہلاتے ہیں ، لیکن صورت سے بلکل چغد معلوم ہوتے ہیں اور آپ سینکڑوں بار مجھ سے ہی ان کی بد عقلی کا رونا رو چکی ہیں۔
اس پر وہ بھڑک اٹھیں۔
میں نے عرض کیا : لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ جتنا وہ کماتے ہیں اس کے پچھتر فیصد کی آپ کو ہوا بھی نہیں لگنے دیتے اور احباب میں آپ کی فضول خرچیوں کا رونا روتے پھرتے ہیں۔

بہر حال آپ کہانی پڑھیں اور خود ہی فیصلہ کریں کہ یہی مناسب تھا یا نہیں۔
اب آئیے بے چارے مصنف کی طرف کہ اسے بہت دنوں کے بعد پھر وہی پرانا مرض لاحق ہو گیا ہے۔
لیکن اس بار بنگلہ بھاشا میں ہو اہے۔ یعنی مشرقی پاکستان کے دو پبلشروں نے میرے کچھ ناولوں کا بنگلہ ترجمہ چھاپا ہے اور اس پر میرے نام کی بجائے "مراد پاشا" اور "آلک باری" رسید کردیا ہے۔
یعنی اردو میں تو صرف چوریاں ہی ہوتی تھیں ،لیکن بنگلہ میں تو ڈاکہ پڑا ہے مجھ پر۔
آلک باری صاحب نے عمران سیریز کے "بھیانک آدمی" کو ذبح کیا ہے اور مراد پاشا نے شعلوں کے پورے سیٹ پر دھاوا بولا دیا ہے۔

میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر یہی غریب کیوں ایسوں کے ہتھے چڑھتا ہے (اسے صنعت تجاہل عارفانہ کہتے ہیں۔)
ان پبلشروں کے خلاف قانونی کاروائی کی جا رہی ہے اور ان شاء اللہ انھیں کراچی ہی کی عدالت میں حاضر ہونا پڑے گا۔

سنا ہے کراچی میں کوئی گجراتی اخبار عمران سیریز کا کوئی ناول نہ صرف چھاپ رہا ہے بلکہ کرداروں کی ایسی قلمی تصاویر بھی وہ اخبار میں چھاپ رہا ہے، جنھیں دیکھ کر بعض "عمران پسند" آپے سے باہر ہو گئے ہیں !
قلمی تصاویر بھی وہ اخبار چھاپ رہا ہے اور صلواتیں مجھے سننی پڑ رہی ہیں۔ یہ دوسرا مرض ہے جو مجھے ہی لاحق ہواہے۔ اب آپ مجھے مشورہ دیجئے کہ عدالتی کاروائی مناسب رہے گی یا گنڈے تعویز کروں!
خرچ دونو ں میں ہوتا ہے، لہذا آپ خرچ کی پروا نہ کریں مجھے اپنے مفید مشوروں سے مالامال فرما ئیں۔
ورنہ آپ جانتے ہیں کہ میرے کرداروں پر ناول لکھنے والوں کی تعداد اب گنڈے تعویز کی دسترس سے بھی نکل کر ٹائیفون اور ڈی۔ڈی ۔ٹی کی حدود میں داخل ہوگئی ہے۔

2009/06/20

یک سطری جواہر پارے - (1)

- بعض اوقات قیاس بھی حقیقت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

- کوئی بھی فن معصومیت اور پاکیزگی کے بغیر پروان نہیں چڑھ سکتا۔

- خدا جاہل والدین سے بچائے۔

- یہ زندگی الفاظ ہی کا تو کھیل ہے۔

- میں اُن مجرموں کو احمق سمجھتا ہوں ، جو پولیس کو مرعوب کرنے کی کوشش کریں۔

- ہر آدمی اپنے ماحول سے اکتایا ہوا ہے۔

- زندہ رہنے کے لیے سب کچھ گوارا کرنا پڑتا ہے۔

- آدمیت کی معراج صرف بانٹ‌ کر کھانے میں مضمر ہے۔

- اصل چیز محنت ہے ، دولت نہیں۔

- جو بھی اپنی حدود سے تجاوز کرے گا دشواری میں‌ ضرور پڑے گا۔

- اپنی پسند کے لوگ تلاش کیے جاتے ہیں یونہی نہیں‌ مل جایا کرتے۔

- اگر سب عقل مند ہو جائیں تو زندگی ریگستان بن کر رہ جائے گی۔

- فنکاروں‌کے یہاں‌ تکلفات کو دخل نہ ہونا چاہئے۔

- میں‌ خود کو بےبس سمجھنے کا عادی نہیں‌ ہوں۔

- عالی ظرف لوگ کبھی احسان نہیں جتاتے ، بلکہ زبان پر بھی نہیں لاتے۔

- آدمی کتنا گر سکتا ہے اس کا اندازہ کرنا بہت مشکل ہے۔

- تمہیں زیادہ سے زیادہ وقت کسی کام پر صرف کرنا چاہئے۔

- دنیا کی ہر عورت بحیثیت بیوی کریک ہوتی ہے۔

- شادی شائد اس چڑیا کو کہتے ہیں جو رات کو بولتی ہے اور دن کو کہیں نہیں دکھائی دیتی۔

- عورتوں کی ہم نشینی سے خدا ہر شریف آدمی کو محفوظ رکھے۔

- لڑکیوں کی موجودگی میں انتہائی سنجیدہ لوگ بھی شیخیاں بگھارنے لگتے ہیں۔

- اللہ ناٹے کو لمبی اور لمبے کو ناٹی عورت سے بچائے ۔۔۔۔

- ناگن ہر حال میں زہریلی ہوتی ہے ! عورت ناگن ہی کہلاتی ہے نا !

- ہر نسل اور ہر قوم کی عورت ، صرف عورت ہوتی ہے۔

- ہر لڑکی کے معاملے میں خدا سے ڈرنا چاہئے۔

- موٹی محبوبائیں لاش کے سینے پر رکھا ہوا پتھر بن جاتی ہیں۔

- بوڑھی محبوبائیں لات مارنے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔

- عورت بجائے خود ایک بہت بڑی طاقت ہے ۔اتنی بڑی کہ مرد پیدا کرتی ہے ۔

- حسن جہاں بھی نظر آئے اسے پوجنا ہی چاہیے ۔خواہ وہ کتے کے پِلّے ہی میں کیوں نہ نظر آئے ۔

- دنیا کی ساری نعمتیں صرف عورتوں ہی کے لئے ہیں ۔

- دَب کر چیونٹی بھی کاٹ لیتی ہے ۔

2009/06/17

اپنے ناولوں کے کرداروں پر ابن صفی کی رائے

ابن صفی کے مطابق "علی عمران" کا کردار قطعی طور پر ان کا تخلیقی کردار ہے۔ ان کے بقول :
اس کردار کی مثال نہ تو مقامی سری ادب میں پائی جاتی ہے اور نہ ہی بین الاقوامی سری ادب میں۔
البتہ فریدی ، حمید اور قاسم کے کردار برطانوی ہندوستان اور اس کی ریاستوں میں سراغرسانی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے معروف افراد اور ان کے کارناموں سے متاثر ہو کر تخلیق کیے گئے ہیں۔
مثلاً قاسم ہی کے کردار کو لیجئے۔
ریاست مہوبہ کے ایک پولیس انسپکٹر کے لحیم شحیم صاحبزادے جن کا نام بھی حسن اتفاق سے قاسم ہی تھا ، "قاسم" کے کردار کی وجۂ تخلیق رہے ہیں۔
یہ اصلی تے وڈّے قاسم بھی گریجویٹ ہونے کے باجود بہکی ہوئی ذہنی رو کے مالک تھے۔ اپنی اسی غائب دماغی کا مظاہرہ انہوں نے شبِ عروسی میں دلہن کو مرعوب کرنے کے لیے فرمایا تھا۔ وہ کچھ اس طرح کہ بچاری کو چھپر کھٹ سمیت سر کے اوپر اٹھا لیا۔ وہ بچاری ڈر کر جو بیہوش ہوئی تو ہوش میں آنے کے بعد پھر کبھی موصوف کو قریب نہ پھٹکنے دیا۔
اس لیے قاسم ایک ایسا کردار ہے جس کو صرف ابن صفی ہی نباہ سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ اس کردار کے پس منظر اور ذہنی کیفیات سے بخوبی واقف ہیں۔
ابن صفی کے کرداروں کے چربہ نگاروں کے قلم اسی ایک کردار پر آ کر جام ہو جاتے ہیں۔

قاسم کے بارے میں ابن صفی کے قارئین کی اکثر یہ رائے رہتی ہے کہ اسے بھی صاحبِ اولاد دکھایا جائے۔ اسی قسم کی خواہش حمید ، فریدی اور عمران کے بارے میں بھی پائی جاتی ہے کہ ان کے بھی سہرے کے پھول کھلیں۔ بعض خواہش مند تو فیاض کو بھی صاحبِ اولاد دیکھنا چاہتے ہیں۔
ابن صفی کے نزدیک ان خواہشات کا حل بڑا ہی دلچسپ ہے۔
قاسم کو تو وہ اولاد پیدا کرنے کی صلاحیتوں سے اس وقت تک کے لیے مبرّا قرار دیتے ہیں جب تک اس کے جوڑ کی کوئی خاتون پیدا نہ ہو جائے جس کی جسمانی وضع قطع اور ذہنی رو قاسم جیسی ہی ہو۔
رہے عمران ، حمید اور فریدی ۔۔۔ تو ان کی شادی اس لیے نہیں کرانا چاہتے کہ اس طرح وہ گھریلو تفکرات میں گھر جائیں گے اور ان میں وہ بےجگری نہیں رہے گی جو ان کے کردار کا خاصہ ہے ، ہو سکتا ہے شادی ہونے کے بعد انہیں انشورنس کی سوجھے۔
ابن صفی اسی ضمن میں آگے کہتے ہیں :
پھر میرا تو یہی مصرف رہ جائے گا کہ میں خالص گھریلو مسلم سوشل اصلاحی رومانی یا تاریخی ناول تحریر کرنے لگوں۔
اپنے فیاض صاحب تو ویسے ہی کیا کم بور کرتے ہیں کہ ان کی اولاد بھی منظرِ عام پر آئے۔ بفرض محال ایسا کیا بھی گیا تو پھر قارئین کے ہاتھوں میں ابن صفی کی کتابوں کے بجائے "بور بور" اور "کرداروں کا استحصال بند کرو" کے پلے کارڈ ہوں گے۔ ویسے بھی یہ عوامی دور ہے۔

ابن صفی پر ایک بڑا الزام یہ عائد کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے کرداروں کو مستقلاً تجرد کی زندگی بسر کرتے دکھا کر تجرّد کی تبلیغ کرتے ہیں۔ اس بارے میں ابن صفی کا موقف یوں ہے کہ :
انہوں نے اپنے قلم کے ذریعے نہ تو کبھی تجرد کی تبلیغ کی اور نہ ہی کبھی اپنے کرداروں (حمید ، فریدی ، عمران وغیرہ) کو بےراہ روی کی طرف مائل دکھایا۔
بقول ان کے :
وہ اپنے کرداروں میں جنس کے جذبے پر قابو پانے کی صلاحیت سے وہ قوت پیدا کرتے ہیں جس کی ضرورت مہمات کو سر کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کردار تنہائی میں صنف نازک سے گزوں پرے رہتے ہیں اور اس نظریے کو ان کے قارئین من و عن تسلیم کرتے ہیں کیونکہ انہیں ابن صفی کے کرداروں کی اخلاقی پختگی پر پورا یقین ہے۔
ابن صفی مزید کہتے ہیں کہ :
اگر ان کا قلم کرداروں کو تجرد آمیز زندگی بسر کرتے دکھاتا ہے تو یہ ایک فنی ضرورت بھی ہے۔ ویسے بھی نفسیاتی طور پر جنس کے جذبے کو بڑی آسانی سے ریاضت ، عبادت اور جفا کشی کی طرف منتقل کیا جا سکتا ہے اور یہ کوئی خلافِ فطرت عمل نہیں ہے۔ لیکن وہ اس عمل کی تبلیغ بھی نہیں کرتے ساتھ ہی ساتھ وہ بےراہ روی کو اخلاقی موت سمجھتے ہیں اس لیے اپنے قلم سے اس کی تکذیب کرتے رہتے ہیں۔