تحریر: راشد اشرف
مارچ سن 2010
کہنے والے نے کہا تھا کہ اس بزم ہستی سے کچھ ایسی ہستیاں بھی اٹھ جائیں گی کہ جب زمانہ ان کی تلاش میں نکلے گا تو ڈھونڈتا رہ جائے گا۔ یہ ہستیاں جنہیں شاعر حاصل زیست قرار دیتا ہے، جب زمین سے اٹھ جاتے ہیں تو حساس دل رکھنے والے غم و الم کی اتھاہ گہرایوں میں یوں ڈوب جاتے ہیں کہ پھر تمام عمر قدم قدم پر انہیں بے طرح سے یاد کیا جاتا ہے۔ اکثر یہ اخباری ترکیب پڑھتے و سنتے ہیں کہ فلاں کے چلے جانے سے ایک خلا پیدا ہوگیا ہے جو اب کبھی پر نہیں ہوگا ۔ یہ جملہ ہر کس و ناکس کے بارے میں سنتے سنتے کان پک گئے ہیں۔ ہر ایرے غیرے کے بارے میں اس کے بے دھڑک و بیجا استعمال نے اس کی معنویت کو اس بری طرح تاراج کردیا ہے کہ اب تو اسے پڑھ کر کوفت ہونے لگتی ہے۔ یاروں نے تنگ آکر کہا کہ کسی کے مرنے پر جو خلا پیدا ہوتا ہے وہ چند محض گھنٹوں پر محیط ہوتا ہے اور جو خود مرنے والے کے مردہ جسم سے پُر ہوجاتا ہے --- رہے نام اللہ کا ---- ہاں مگر یہ بھی سچ ہے کہ چند شخصیات کے بارے، اس ترکیب کا استعمال اس طرح موزوں نظر آتا ہے گویا یہ جملہ ان ہی کے لیے تخلیق کیا گیا ہو۔ ایسے لوگوں کا نعم البدل ملنا ناممکن ہوتا ہے۔ ایسی ہی نادر روزگار شخصیات میں ایک شخصیت خود ساز‘ عہد ساز‘ روایت شکن‘ روایت ساز جناب اسرار احمد المعروف ابن صفی تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج 30 برس گزر جانے کے بعد بھی مجال ہے کہ کوئی ان جیسا لکھ سکے۔ بہتوں نے بڑا زور مارا لیکن گرد کو بھی نہ چھو سکے۔ صفی صاحب کا 60 برس پہلے کا ناول اٹھا کر پڑھ لیں، اسی طرح ترتازہ معلوم ہوگا۔ لوگوں نے اس تازگی کی مختلف توجیہات پیش کیں لیکن ہماری سمجھ میں تو یہ آتا ہے کہ جرائم کی جانب حضرت انسان کا جھکاؤ ازل سے تھا اور ابد تک رہے گا۔ خیر و شر کے درمیان جنگ بھی اسی طرح جاری و ساری رہے گی، ہاں مگر ابن صفی صاحب نے اپنی کتابوں کے ذریعے قانون کا جو احترام سکھایا ہے اور جس انداز میں سکھایا ہے اس منفرد اسلوب کو اب سے 60 برس بعد بھی وہی پذیرائی ملتی نظر آئے گی کہ جس کے وہ حقدار تھے اور ہمیشہ رہیں گے۔
یوں تو ہم نے ایشیا کے سری ادب کے عظیم مصنف جناب ابن صفی پر اردو و انگریزی میں کئی مضامین تحریر کیے ہیں جن میں صفی صاحب کے فن اور ان کی شخصیت پر سیر حاصل روشنی ڈالی گئی ہے لیکن آج یہاں صفی صاحب کے چاہنے والوں کے لیے صفی صاحب کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ یاد آرہا ہے جو ہمارے احباب کے درمیان ہماری لاج رکھنے کا سبب بنا
پُرانی صحبتیں یاد آ رہی ہیں
چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے
یہ بات ہے سن 2001 کی جب ہم بسلسلہ روزگار، ضلع مظفر گڑھ، پنجاب میں مقیم تھے۔ اس روز آفس کی چھٹی تھی اور چند احباب کے ہمراہ ملتان کی سڑکوں پر آوارہ گردی کے دوران جاسوسی ادب پر بحث چل نکلی تھی، ہر شخص اپنی اپنی رائے دے رہا تھا۔ کہنے کو تو ہر کسی نے ابن صفی کو کبھی نہ کبھی پڑھا تھا لیکن ہماری صفی صاحب سے عقیدت اور ان پر لکھے گئے مضمون کے دعوے کو للکار کر ہمارے عزیز دوست بشیر صاحب (حال مقیم سعودی عرب) تشکیک کا شکار تھے اور دوسروں کو بھی اپنا ہم نوا کرچکے تھے۔ اکثر بے تکلف دوستوں کے درمیان اپنے کسی ایک ساتھی کی "ٹانگ کھینچنے" کا عمل بڑی مہارت اور یکجائی کے ساتھ سرانجام پاتا ہے اور اس دن تختہ مشق ہم تھے۔
یہاں ایک ذرا بشیر صاحب کا تعارف کراتے چلیں۔ ان کا تعلق کوٹ ادو کے علاقے سے تھا۔ پیشے کے لحاظ سے انجینیر تھے۔ اصولوں پر شمجھوتا نہ کرتے ہوئے دو نوکریاں چھوڑ چکے تھے -- دل کے کھرے، کردار کے بے داغ، انتہائی ذودرنج، جلد روٹھنے اور اتنی ہی جلدی مان جانے والے - سانولی رنگت، سر پر سیہہ کی طرح لہرے دار اور کھڑے بال، لامبا قد۔ رخساروں پر اوپر کی طرف جہاں عموما" داڑھی کے بالوں کا نام و نشان نہیں ہوتا، بال بے طرح سے اُگ آتے تھے اور اکثر ہم بشیر صاحب کے ساتھ نائی کی دکان پر جایا کرتے تھے جہاں نائی ایک دھاگہ ہاتھ میں لے کر بےدردی سے فالتو بالوں کی فصل کُھرچا کرتا تھا۔ بشیر صاحب اس تمام عمل کے دوران شرمندہ شرمندہ سے نظر آتے۔ سچ پوچھیے تو اس سے پہلے یہ منظر ہم نے نہ دیکھا تھا اور ہم اس تمام عرصے میں کچھ کچھ عبرت لیے، حیرت و دلچسپی سے نائی کی بےرحمی اور بشیر صاحب کا صبر دیکھا کرتے تھے- ایک روز جب نائی ان پر اپنی مہارت آزما رہا تھا تو یکایک وہ عبرت ناک منظر دیکھتے ہوئے، ہم جھک کر آہستہ سے بشیر صاحب کے کان میں کہا "حضور، بس یہ خیال رکھیے گا کہ کہیں انسداد بے رحمی حیوانات والوں کو اس عمل کی بھنک نہ پڑنے پائے اور پھر نائی کو بشیر صاحب کو کچھ وقت دینا پڑا کہ ہنسی کا دورہ تھم جائے تو وہ اپنا کام دوبارہ شروع کرے ۔
قہقہہ لگانے میں بشیر صاحب یدطولی رکھتے تھے۔ ایسا فلک شگاف قہقہہ کہ آسمان تھرا اٹھے اور قہقہے کے بعد پھیلا ہوا ہاتھ کہ آپ جوابا" ہاتھ پر ہاتھ نہ ماریں تو اسے سخت بداخلاقی تصور کرتے تھے۔ اپنی حد درجہ صاف گوئی کی بنا پر لوگوں میں غیر مقبول تھے اور اسی بنا پر ہمارے کمرے میں روز رات کے کھانے کے بعد پھیرا لگانا ان کا معمول بن گیا تھا۔ گرمی ہو یا سردی، ان کے معمول میں کھبی فرق نہ آتا۔ ہفتے اور اتوار کو آفس کی چھٹی ہوتی تھی اور وہ ان دو دنوں کے لیے کوٹ ادو اپنے گھر چلے جایا کرتے تھے۔ سچ پوچھیے تو ان کا جانا ہم پر گراں گزرتا تھا کہ ہم حیررآباد سے 800 کلومیٹر دور وہاں بشیر صاحب کی ہمنشینی کے عادی ہوچلے تھے۔ ہمارے چند جملوں پر پھڑک پھڑک اٹھتے تھے۔ آپ سے کیا پردہ، ہم بھی تو اکثر مشتاق یوسفی صاحب کا ہی سہارا لیا کرتے تھے۔
" بشیر صاحب، یاد رکھیں، زبان سے نکلا ہوا تیر اور بڑھا ہوا پیٹ کبھی واپس نہیں آتے" - یہ ہم نے شام کی چہل قدمی کے دوران اس موقع پر کہا کہ جب بشیر صاحب حسب عادت کوئی بےلاگ تبصرہ کربیٹھے تھے، بس پھر کیا تھا، بشیر صاحب چلتے چلتے رک گئے اور قہقہے لگانے لگے۔ ایک روز کسی بات پر ہم نے کہا کہ "یاد رکھیے کہ بیوی سے عشقیہ گفتگو کرنا ایسا ہی ہے جیسے انسان وہاں خارش کرے جہاں نہ ہورہی ہو" وہ بے انتہا محظوظ ہوئے اور پھر ہم نے یہ جملہ ان کو موقع بے موقع دوہراتے اکثر دیکھا۔
ایک روز ہم نے ابن صفی صاحب کا جملہ چلادیا - بات ہورہی تھی ہمارے کسی عزیز کی اور بشیر صاحب کو وہ پیچیدہ رشتہ سمجھانا مشکل ہورہا تھا کہ اچانک ہم نے کہا " یار یوں سمجھ لیں کہ وہ ہمارے "دادا زاد" بھائی ہیں" ۔ بشیر صاحب کے حلق سے توپ کے گولے کی مانند ایک قہقہہ نکلا۔
تو یہ تھے ہمارے بشیر صاحب۔
بات ہورہی تھی ملتان کی۔ گفتگو ایک ایسے موڑ پر آٹھہری تھی کہ جہاں "عزت سادات" بچانا مشکل ہوچلا تھا۔ دوستوں نے استہزایہ لہجے میں یہ کہنا شروع کردیا کہ صرف باتیں ہی باتیں ہیں، اب گھر جانا تو ثبوت لانا کہ بولنے اور لکھنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ہم احباب کی لاف گزاف کے سامنے ہتھیار ڈال چکے تھے۔ دوستوں کا ٹولہ آہستگی سے قدم اٹھاتا چلا جارہا تھا کہ فرمائش ہوئی کہ چائے پی جائے۔ ایک چھوٹے سے ہوٹل کی جانب قدم اٹھ گئے۔ اند داخل ہونے سے پہلے بشیر صاحب نے باہر کھڑے پرانی کتابوں کے ایک ٹھیلے کو ٹٹولنا شروع کردیا، ہمارے لیے تو کتابیں اوائل عمری ہی سے باعث مسرت رہی ہیں۔ ٹھیلے کے ایک کونے میں پرانے ڈائجسٹ نظر آئے اور ہم نے یونہی ان کو یکے بعد دیگرے دیکھنا شروع کردیا۔ ارے یہ کیا، یہ تو کوئی جانا پہجانا سرورق جان پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگست سن 1995 کا نئے افق ۔۔۔۔۔۔۔ آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا ----- یا اللہ، یہ تو نے کیسی لاج رکھی۔ جی ہاں، مذکورہ شمارہ وہی تو تھا جس میں سات برس قبل ابن صفی صاحب پر ہمارا طویل مضمون "قلم کا قرض" شائع ہوا تھا جسے مشتاق احمد قریشی صاحب نے مذکورہ شمارے کے اولین مضمون کے طور پر شائع کیا تھا۔ "قلم کا قرض" کا مسودہ ہم بغل میں دابے، انتہائی نامساعد حالات کے اور گھر والوں کی مخالفت کے باوجود حیدرآباد سے کراچی، نئے افق کے دفتر میں دے کے آئے تھے۔ یہ مضمون جناب محمد حنیف کی ابن صفی صاحب پر بنائی آفیشل ویب سائٹ ابن صفی ڈاٹ انفو پر موجود ہے۔
بس پھر کیا تھا- ہم نے ایک فاتحانہ انداز میں رسالہ اٹھایا، ٹھیلے والے کے ہاتھ پر مُنہ مانگے پیسے رکھے اور بشیر صاحب کی طرف نظر دوڑائی۔ وہ کتابیں دیکھنے میں مصروف تھے۔
"ہاں تو جناب والا، آپ کو ثبوت چاہیے تھا، اب ذرا ملاحظہ فرمائیے" یہ کہہ کر ہم نے ان کی آنکھوں کے سامنے رسالہ لہرایا۔
ارے کیا ملتان کی گرمی میں دیوانے ہوگئے ہیں آپ" وہ بولے
"دیوانہ ہونے کی باری اب آپ کی ہے ---- حضور، ہم رہنے والے حیدرآباد کے اور یہاں شہر ملتان کے اس ٹھیلے پر بھی ہم موجود ہیں، اب اس سے بڑا کیا ثبوت دیں، یہ دیکھیے ہمارا ابن صفی پر مضمون، مصنف یہ ناچیز یعنی راشد اشرف
بشیر صاحب کو گویا سانپ سونگھ گیا
اتنے میں دیگر احباب بھی ہوٹل سے آدھمکے - ایک جھمگٹا سا لگ گیا۔ ہمارے محبوب مصنف پر لکھی تحریر کو باری باری سب دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔ ایسا لگا جیسے ابن صفی صاحب نے خود اس نازک موقع پر ہماری مدد کی ہو۔
بشیر صاحب نے پھر کبھی جاسوسی ادب اور ہماری ابن صفی سے عقیدت کو چیلنج نہیں کیا۔
2010/04/01
سبسکرائب کریں :
ابنِ صفی بلاگ کی تحریریں (Atom)
0 تبصرے:
تبصرہ کریں ۔۔۔