2009/06/17

ابن صفی انٹرویو (پیش رس سے) - 1

{ ابن صفی مرحوم کا یہ انٹرویو ۔۔۔ اُن کے ناولوں کے دلچسپ "پیش رَس" کو سامنے رکھ کر مرتب کیا گیا ہے ۔ اور یہ کئی حصوں پر مشتمل ہے }


> ابن صفی صاحب ، یہ بتائیے کہ جاسوسی ناول لکھتے وقت آپ کے پیش نظر کیا مقصد ہوتا ہے ؟
>> جاسوسی ناول لکھنے کا مقصد صرف تفریح !

> کیا آپ معاشرے کا اخلاقی پہلو بھی مد نظر رکھتے ہیں اور کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کا طرز تفریح ذہنوں پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے ؟
>> اخلاقی پہلو کو فیشن کے طور پر پیش نظر رکھتا ہوں۔ جاسوسی ناول لکھنے سے میرا مقصد اصلاح کبھی نہیں ہوتا۔ اصلاح میرے نزدیک ثانوی حیثیت رکھتی ہے ۔ اصلاح کے لئے میں نے جاسوسی ناول کبھی نہیں لکھے ۔

> لیکن اس کے باوجود بھی آپ کی کتابوں میں عورت اور مرد اس قدر دور دور رہتے ہیں ؟
>> بات دراصل یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ارتقاء کی اس منزل میں ہے جہاں عورت اور مرد کے درمیان کم از کم ایک چپل کا فاصلہ تو ضرور ہونا چاہئے ۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اگر مردوں کے دوش بدوش ترقی کی راہ پر چلنے والی کوئی عورت کسی فٹ پاتھ پر چلتی جارہی ہے اور آپ سے سہواً بھی ٹکراؤ ہو گیا تو آپ اُسے دوش بدوش کے بجائے پاپوش بدست دیکھیں گے۔

> بعض ادیبوں کا خیال ہے کہ جاسوسی ناولوں کی وجہ سے جرائم پھیلتے ہیں ؟
>> سب سے پہلا جرم ہابیل قابیل والی ٹریجڈی ہے ۔ اور میں آج خدا کو حاضر و ناظر جان کر آپ کو اطلاع دے رہا ہوں کہ اس ٹریجڈی سے پہلے میں نے کوئی جاسوسی ناول نہیں لکھا تھا۔
لیکن کوا بیچارہ آج تک پشیمان ہے کہ اس حضرت آدم (ع) کو مٹی کھود کر دفن کر دینے کا فن کیوں کیوں سکھایا ؟ کوّے کا خیال ہے کہ اس غلطی کی بنا پر آج اولادِ آدم (ع) آدمی ہی کو زندہ دفن کر دینے کے فن میں طاق ہو گئی ہے ۔

> ادب میں آپ کا کیا مقام ہے ؟ آپ ادب کی خدمت کیوں نہیں کرتے ؟
>> آپ تو مجھے صرف اُردو کی خدمت کرنے دیجئے۔ اس کے باوجود کہ صرف و نحو کی غلطیاں مجھ سے بھی سرزد ہوتی رہتی ہیں۔ آپ اُس وقت کی میری خوشی کا اندازہ نہیں لگا سکتے جب مجھے کسی سندھی یا بنگالی کا خط اس مضمون کے ساتھ ملتا ہے کہ محض آپ کی کتابیں پڑھنے کے شوق میں اُرد و پڑھ رہا ہوں۔ اور پھر پڑھ کر سنانے والوں کا احسان کہاں تک لیا جائے ؟
اب بتائیے ، ادب کی خدمت کروں یا میرے لئے اُرد و کی خدمت مناسب ہوگی ؟ ویسے اپنے نظریات کے مطابق میں ادب کی بھی خدمت کر رہا ہوں اور سوسائٹی کی بھی ... میری اس خدمت کا انداز نہ تو بدلتے ہوئے حالات سے متاثر ہوتا ہے اور نہ وقتی مصلحتوں کے تحت کوئی دوسری شکل اختیار کر سکتا ہے ۔ بہرحال میں قانون کا احترام سکھاتا ہوں ۔
پھر کچھ لوگ ادب میں میرے مقام کی بات شروع کر دیتے ہیں ۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ آپ کی نظروں میں میرا کوئی مقام تو ضرور ہے ، ورنہ آپ کو اس کی فکر ہرگز نہ ہوتی ۔
اساطیری کہانیوں سے لے کر مجھ حقیر کی کہانیوں تک آپ کو ایک بھی ایسی کہانی نہ ملے گی جس میں جرائم نہ ہوں اور آج بھی آپ جسے بہت اونچے قسم کے ادب کا درجہ دیتے ہیں اور جس کا ترجمہ دنیا کی دوسری زبانوں میں بھی آئے دن ہوتا رہتا ہے ، کیا جرائم کے تذکروں سے پاک ہوتا ہے ؟ کیا اس کے ضرر رساں پہلوؤں پر ہمارے نقاد کی نظر نہیں پڑتی ؟ اگر نہیں تو کیوں ؟
اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے لوگ کہانیوں میں بھی (جو دراصل ذہنی فرار کا ذریعہ ہوتی ہیں ) پولیس یا جاسوس کا وجود برداشت نہیں کر سکتے ۔ چلئے ، پولیس کو اس لئے برداشت کر لیں گے کہ وہ للکار کر سامنے آتی ہے لیکن جاسوس تو بے خبری میں پتا نہیں کب گردن دبوچ لے !
لہذا اگر مجھے ادب میں کوئی مقام پانے کی خواہش ہے تو جاسوس کو چھٹی دینی پڑے گی لیکن میں اس پر تیار نہیں ہوں کیونکہ مجھے ہر حال میں "شر" پر "خیر" کی فتح کا پرچم لہرانا ہے ۔ میں باطل کو حق کے سامنے سربلند دکھانا نہیں چاہتا ۔
میں معاشرے میں مایوسی نہیں پھیلانا چاہتا ۔ ایسی مایوسی ، جو غلط راہوں پر لے چلے ۔

0 تبصرے:

تبصرہ کریں ۔۔۔