2009/06/28

پیش رس :: رات کا شہزادہ

اس بار خطوط کی تعداد بھی پہلے سے زیادہ ہے۔ مشورے ، تنقید اور تنقیص ، یکساں انداز کی باتیں۔ لہذا ان کے بارے میں کیا لکھوں۔
البتہ ایک صاحب نے کراچی سے مجھے للکارا ہے کہ میں خوابِ غفلت میں پڑا ہوا ہوں۔ قوم کو سدھارنے کی کوشش کروں۔

آپ کا فرمانا بجا کہ میرے ہاتھ میں قلم ہے۔ لیکن قوم اس قلم سے صرف کہانیوں کا نزول چاہتی ہے۔ اگر کبھی ایک آدھ جملہ کسی مثال کے طور پر بھی قلم سے رپٹ گیا تو قوم جھپٹ پڑتی ہے :
" آخر آپ کو سیاست میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ "
اور میں ہکا بکا رہ جاتا ہوں کہ قوم کو کیا جواب دوں۔ کیونکہ جواب دینے کے سلسلے میں ایک ضخیم کتاب لکھنی پڑ جائے گی۔
پہلے تو قوم کو یہ بتانا پڑے گا کہ سیاست ہے کیا چیز ، پھر عرض کرنا پڑے گا کہ میرے اس حقیر جملے کو اس کسوٹی پر پرکھئے۔ اگر اس میں ذرہ برابر بھی سیاست پائی جاتی ہو تو جو لیڈر کی سزا وہ میری سزا ۔۔۔۔

اور پھر بھائی اگر ملک میں سیاستدانوں کی کمی پائی جاتی ہو تو تھوڑا بہت کشٹ بھی اٹھا لیا جائے۔ مجھے تو بس کہانیاں لکھنے دیجئے۔ میری لیڈری آپ بھی تسلیم نہیں کریں گے۔ پھر خواہ مخواہ قوم کا وقت برباد کرنے سے کیا فائدہ۔
قوم کے لئے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتا کہ دعا کروں۔
"اے اللہ ! اس قوم کو ایک آزاد اور منفرد قوم کی حیثیت سے ہمیشہ قائم رکھیو۔"

آخر میں ان صاحب نے پوچھا ہے کہ :
"لیڈر کی صحیح تعریف کیا ہے؟"
بڑا بےڈھب سوال کیا ہے آپ نے۔ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔ البتہ اکبر الہ آبادی نے اپنے زمانے کے لیڈر کی تعریف یوں کی ہے :

یوسف کو نہ دیکھا کہ حسیں بھی ہے جواں بھی
شاید نرے لیڈر تھے زلیخا کے میاں بھی

0 تبصرے:

تبصرہ کریں ۔۔۔