2009/06/17

قانون

اِدھر اُدھر کی باتوں میں آدمی ہمیشہ ننگا ہو جاتا ہے۔ یعنی تمہاری روح اور فرشتے اِدھر اُدھر کی باتوں میں لازمی طور پر ظاہر ہو جائیں گے۔
تم اِدھر اُدھر کی باتوں میں غیرشعوری طور پر اپنے کردار کی جھلکیاں دکھاتے چلے جاؤ گے۔

ناول : رائفل کا نغمہ

***
آخر یہ سب کب تک ہوتا رہے گا۔۔؟
جب تک اس نظام کی بنیادی خامیاں‌ دور نا کردی جائینگی۔ان کی طرف کوئی بھی دھیان نہیں دیتا۔بس جمہوریت کے ڈھول پیٹے جاتے ہیں‌۔ شائد کوئی بھی نہیں‌جانتا کے جمہوریت کس چڑیا کا نام ہے یا پھر اسکی طرف سے مصلحتاً ہی آنکھیں‌ بند کرلی گئی ہیں‌۔۔۔بنیادی چیز آدمی کو اپنے مقام کا عرفان ہے۔جب تک آدمی اپنا مقام نہیں‌ پہچانیگا۔کسی نظام کو ڈھنگ سے نہیں‌ چلا سکے گا۔۔

ناول : دہشت گر

***
میں کہتا ہوں! اگر تم قانون کو ناقص سمجھتے ہو تو اجتماعی کوششوں سے اسے بدلنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔ اگر اس کی ہمت نہیں ہے تو تمہیں اسی قانون کا پابند رہنا پڑے گا!
اگر تم اجتماعی حیثیت سے اس کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اس سے متفق ہو۔ اب اگر متفق ہونے کے باوجود بھی تم اس کی حدود سے نکلنے کی کوشش کرو تو تمہاری سزا موت ہی ہونی چاہئے۔

ناول : لاش کا بلاوا

***
ایٹم بم اور ہائیڈروجن بموں‌کے تجربات ان کی سمجھ سے باہر تھے کہ ایک آدمی جب پاگل ہوجاتا ہے تو اسے پاگل خانے میں‌ کیوں‌ بند کردیتے ہیں‌' اور جب کوئی قوم پاگل ہوجاتی ہے تو " طاقتور " کیوں‌ کہلانے لگتی ہے ؟

ناول : انوکھے رقاص

***
یہاں‌ ہر آدمی اپنی راہ کا کانٹا ہٹا دیتا ہے یہ ایک فطری بات ہے ۔کبھی اس فعل کی حیثیت انفرادی ہوتی ہے اور کبھی اجتماعی' اجتماعی حیثیت کو ہم قانون کہتے ہیں‌۔
ہر وقت قہقہے لگانے والوں‌ پر حالانکہ کسی غم کا اثر دیر پا نہیں ہوتا لیکن پھر بھی وہ تھوڑا سا غم انگیز وقفہ انکے لئے اتنا جان گسل ہوتا ہے کے کچھ دیر کے لئے انکی رجائیت کی بنیادیں‌ تک ہل جاتی ہیں‌۔

ناول : کچلی ہوئی لاش

0 تبصرے:

تبصرہ کریں ۔۔۔